ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے
ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ (کشتیٔ نوح،روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 21)
عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے اس سے دل لگاؤ۔ پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے۔ اور دوسری سب چیزوں کو اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھا جائے۔ اور جو شخص اولاد کو یا والدین کو یا کسی اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت انہیں کا فکر رہے تو وہ بھی ایک بت پرستی ہے۔ بت پرستی کے یہی تو معنےنہیں کہ ہندوؤں کی طرح بت لے کر بیٹھ جائے اور اس کے آگے سجدہ کرے۔ حد سے زیادہ پیار و محبت بھی عبادت ہی ہوتی ہے۔(ملفوظات جلد10صفحہ 331ایڈیشن1984ء)
جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے تو وہ معبود ہو جاتا ہے اور یہ صرف خداتعالیٰ ہی کا وجود ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ کسی انسان یا اور مخلوق کے لئے ایسا نہیں کہہ سکتے۔(ملفوظات جلد 8صفحہ 165،ایڈیشن 1984ء)
اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری، کنکر پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 347 ایڈیشن1988ء)