وراثت میں لڑکیوں کا حصہ (قسط دوم۔آخری)
(تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل 19؍ جولائی 2022ءصفحہ11)
احادیث کے مطالعے سے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ آنحضور ؐ کا ہر قول، ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق تھا ۔ آنحضورؐ نے طبقہ نسواں کے حقوق کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ ہر پہلو کے مطابق عملی نمونہ بھی پیش کر کے دکھایا جس پر عمل کر کے انسان ہر معاملہ کا حل تلاش کر سکتا ہے اور اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول کےحکم کے مطابق گزار سکتا ہے۔ چنانچہ آیت ِ میراث کے نزول کے وقت کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓروایت کرتے ہیں کہ سعد بن ربیعؓ کی بیوی سعد بن ربیعؓ کی دو بیٹیوں کے ہمراہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ؐ! یہ دونوں لڑکیاں سعد بن ربیع کی ہیں جو اُحد کی لڑائی میں آپؐ کے ساتھ (کافروں سے جنگ کرتے ہوئے ) شہید ہو گیا ہے، اب ان کے چچا نے ان کا مال لے لیا ہے اور ان ( لڑکیوں) کے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ مال نہ ہونے کی صورت میں ان سے کوئی نکاح بھی نہیں کرتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس معاملہ کا فیصلہ خدا تعالیٰ کرے گا ( صبر کرو) چنانچہ میراث کی آیت نازل ہوئی ( یعنی یُوْصِیکُمْ اللّٰہُ فِیْ اَوْلٰا دِ کُم…الخ) آپؐ نے فوراً لڑکیوں کے چچا کو بلایا اور فرمایا سعد کی بیٹیوں کو دو تہائی مال دے دو اور 8/1لڑکیوں کی والدہ کو اور باقی جس قدر بچے وہ تیرا ہے۔ ( ترمذی ابواب الفرائض باب 3)
اس حدیث سے یہ بات صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب وراثت میں ہر فرد کا حصہ مقرر کر دیا ہے تو کسی شخص کو اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورۃ النساء میں والدین کی وراثت کی تقسیم کے بارے میں بڑی تفصیل سے ہر بات بتائی ہے اور ہر ایک فرد بیٹے، بیٹی، بیوی، پوتے پوتی، دادا دادی حتٰی کہ عزیز رشتہ داروں کی نسبت جتنا حصہ بنتا ہے سب کے بارے میں راہنمائی فرمائی ہے۔ پھر اگر کوئی شخص لڑکیوں کی جائیداد کا حصہ نہ دے تو وہ اپنے اس فعل کے نتیجہ میں روز محشر جواب دہ ہو گا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ﴿۸﴾(النساء:8)
ترجمہ: مَردوں کےلئے اس ترکہ میں سے ایک حصّہ ہے جو والدین اور اقرباءنے چھوڑا۔ اور عورتوں کےلئے بھی اس ترکہ میں ایک حصّہ ہے جو والدین اور اقرباءنے چھوڑا۔ خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ (یہ ایک) فرض کیا گیا حصّہ (ہے)۔(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ )
اللہ تعالیٰ نےلڑکے اور لڑکی کے حصے بھی قرآن کریم میں بیان فرما دیے ہیں خواہ اولاد اگر لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں تو ان کا بھی جائیداد میں حصہ مقرر فرمایا ہے جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر12میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَاِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ
ترجمہ: اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے۔ مرد کے لئے دو عورتوں کے حصّہ کے برابر (حصہ) ہے۔ اور اگر وہ دو سے زیادہ عورتیں ہوں تو ان کے لئے دو تہائی ہے اُس میں سے جو اُس (مرنے والے) نے چھوڑا۔ اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے نصف ہے۔(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ )
اب اتنی وضاحت کے بعد اللہ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرنا سراسر ظلم و زیادتی ہے اور اس بحث میں پڑنا کہ لڑکے کے دو حصے ہیں اور لڑکی کا ایک کیوں ہے ؟ ظاہر سی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے پیچھے ایک حکمت ہوتی ہے۔ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اس پر بیوی، بچے اور اس کے والدین سبھی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورتوں اور مردوں دونوں کے یکساں حقوق بیان فرمائے ہیں کسی اور مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت مسیح موعودؑ لڑکی کو نصف حصہ دینے کی حکمت بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’یہ اس لئے ہے کہ لڑکی سسرال میں جا کر ایک حصہ لیتی ہے پس اس طرح سے ایک حصہ ماں باپ کے گھر سے پاکر اور ایک حصہ سسرال سے پاکر اس کا حصہ لڑکے کے برابر ہوجاتا ہے۔‘‘ (چشمۂ معرفت،روحانی خزائن جلد23صفحہ 212)
حضورؑ کے اس بیان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ حاکم العدل ہے۔ گویا وہ لڑکے اور لڑکی کو وراثت میں ملنے والے حصے میں فرق کو اس طرح ختم کر دیتا ہے کہ جب لڑکی رخصت ہو کر اپنے شوہر کے گھر گئی تو ایک حصہ اس کو وہاں سے مل گیا۔ لہٰذا ہروالدین کو وراثت میں سے لڑکی اور لڑکے کا جتنا شرعی حصہ ہے اتنا ہی دینا چاہیے۔ بعض والدین اپنی بیٹی کا حصہ بھی اپنے بیٹے کو دے دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ بیٹی تو اپنے سسرال چلی جائے گی اور بیٹے کو ہمارے ساتھ رہنا ہے۔ اس لیے اس کو زیادہ حصہ دے دیتے ہیں۔جبکہ قرآن،حدیث میں کسی شرعی وارث کے حق سے زیادہ کی وصیت کرنے کی مناہی ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا :
اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَعْطیٰ کُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّہُ فَلَا وَ صِیَّۃً لِوَا رِثٍ (ترمذی ابواب الوصایا باب 4)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کا حق مقرر کر دیا ہے۔
اس لیے کسی ایسے وارث کے لیے جس کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے وصیت نہیں ہو سکتی۔ (بحوالہ اسلام کا وراثتی نظام صفحہ37-38)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں :
’’{اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْم}: فرماتا ہے کہ ہم علیم خدا ہیں۔ سمجھ بوجھ کر حصص مقرر کئے ہیں اور وصیتوں کے بدلانے کو بھی سنتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے {وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا (النساء:۱۵)۔ {فَمَنْ بَدَّلَہٗ}: اب سن لو کہ کیا کچھ تبدیل کیا گیا ہے۔ سب سے اوّل تو یہ کہ لڑکیوں کو ورثہ نہیں دیا جاتا۔ خدا تعالیٰ نے عورت کو بھی حرث فرمایا ہے اور زمین کو بھی۔ ایسا ہی زمین کو بھی ارضؔ فرماتا ہے اور عورتوں کو بھی۔{فَاِنَّمَا اِثْمُہٗ}:چنانچہ اس کا نتیجہ دیکھ لو کہ جب سے ان لوگوں نے لڑکیوں کا ورثہ دینا چھوڑا ہے، ان کی زمینیں ہندوؤں کی ہوگئی ہیں۔ جو ایک وقت سو گھماؤں زمین کے مالک تھے اب دو بیگھہ کے بھی نہیں رہے۔ یہ اس لئے کہ صریحاً النساء آیت ۱۵ میں فرمایا ولہ عذابٌ مھینٌ اس سے زیادہ اور کیا ذلت ہوگی۔ عورتوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، وہ بہت بڑھ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: {وَلَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا}(البقرۃ:۲۳۲)۔ دوسرا {وَعَاشِرُوْا ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ} (النساء:۲۰)۔ تیسرا{وَلَا تُضَارُّوْھُنَّ} (الطلاق:۷) چوتھا {فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ}(النساء:۲۰)۔ پنجم {وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ} (البقرۃ:۲۲۹)۔ باوجود اس کے وراثت (یعنی ورثہ نہ دینے کا) کا ظلم بہت بڑھ رہا ہے۔ پھر دوسرا یہ کہ بعض ظالم عورت کو نہ رکھتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں۔ ‘‘ (حقائق الفرقان جلد ۱ صفحہ ۳۰۰)
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، وراثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعی حصہ نہیں دیتے اب بھی یہ بات سامنے آتی ہے برصغیر میں اور جگہوں پر بھی ہوگی کہ عورتوں کو ان کا شرعی حصہ نہیں دیا جاتا۔ وراثت میں ان کو جو ان کا حق بنتاہے نہیں ملتا۔ اور یہ بات نظام کے سامنے تب آتی ہے جب بعض عورتیں وصیت کرتی ہیں تو لکھ دیتی ہیں مجھے وراثت میں اتنی جائیداد تو ملی تھی لیکن مَیں نے اپنے بھائی کو یا بھائیوں کو دے دی اور ا س وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اب اگر آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں،جب بھی جائزہ لیا گیا تو پتہ یہی لگتاہے کہ بھائی نے یا بھائیوں نے حصہ نہیں دیا اور اپنی عزت کی خاطر یہ بیان دے د یا کہ ہم نے دے دی ہے۔یا کبھی ایسا بھی ہو جاتاہے کہ بھائی یادوسرے ورثاء بالکل معمولی سی رقم اس کے بدلہ میں دے دیتے ہیں حالانکہ اصل جائیداد کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تو ایک تو یہ ہے کہ وصیت کرنے والے،نظام وصیت میں شامل ہونے والے،ان سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کی امید رکھی ہے اس لئے ان کو ہمیشہ قول سدید سے کام لینا چاہئے اور حقیقت بیان کرنی چاہئے کیونکہ جو نظام وصیت میں شامل ہیں تقویٰ کے اعلیٰ معیار اور شریعت کے احکام کوقائم کرنے کی ذمہ داری ان پر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس لئے جو بھی حقیقت ہے، قطع نظر اس کے کہ آپ کے بھائی پر کوئی حرف آتاہے یا ناراضگی ہو یا نہ ہو، حقیقت حال جو ہے وہ بہرحال واضح کرنی چاہئے۔تا کہ ایک تو یہ کہ کسی کا حق مارا گیا ہے تو نظام حرکت میں آئے اور ان کو حق دلوایاجائے۔ دوسرے ایک چیز جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے شریعت کی رو سے اس سے وہ اپنے آپ کو کیوں محروم کررہی ہیں۔اور صرف یہی نہیں کہ اپنے آپ کو محروم کررہی ہیں بلکہ وصیت کے نظام میں شامل ہو کے جو ان کا ایک حصہ ہے اس سے خداتعالیٰ کے لئے جو دینا چاہتی ہیں اس سے بھی غلط بیانی سے کام لے کے وہاں بھی صحیح طرح ادائیگی نہیں کر رہیں۔تو اس لئے یہ بہت احتیاط سے چلنے والی بات ہے۔وصیت کرتے وقت سوچ سمجھ کر یہ سار ی باتیں واضح طورپر لکھ کے دینی چاہئیں۔(خطبہ جمعہ 13؍ جون 2003ء)
حضرت مصلح موعود ؓ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
’’چنانچہ ورثہ کا حکم شریعت میں اسی غرض کے ما تحت رکھا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جائداد کسی ایک شخص کو نہ دے جائے بلکہ وہ اس کے ورثاء میں تقسیم ہو جائے۔ شریعت نے اس تقسیم میں اولاد کا بھی حق رکھا ہے، ماں باپ کا بھی حق رکھا ہے، بیوی کا بھی حق رکھا ہے،خاوند کا حق بھی رکھا ہے اور بعض حالتوں میں بھائیوں اور بہنوں کا بھی حق رکھا ہے۔قرآن کریم نے صاف طور پر حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اس تقسیم کو بدل سکے۔ یا کسی ایک رشتہ دار کو اپنی تمام جائیداد سپرد کر جائے۔ اس کی جس قدر جائیداد ہو گی شریعت جبراً اس کے تمام رشتہ داروں میں تقسیم کر دے گی اور ہر ایک وہ حصہ دے گی جو قرآن کریم میں اس کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔‘‘ ( اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 61)
حضرت مسیح موعود ؑ اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’پس جو حصے خدا نے قرار دے دیئے ہیں اُن پر کاربند ہو جاؤ۔ کیونکہ وہ صرف خدا ہی ہے جس کا علم غلطی اور خطا سے پاک ہے اور جو حکمت سے کام کرتا اور ہرایک مصلحت سے واقف ہے…یہ خدا کاحکم ہے وہ خدا جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں اوروہ حلیم ہے اس لئے وہ باوجود علم کے نافرمان کو جلدی سزانہیں دیتا یعنی وہ سزا دینے میں دھیما ہے۔ پس اگر کسی ظلم اور خیانت کے وقت کوئی شخص اپنے کیفر کردار کو نہ پہنچے تو اُس کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ خدا کو اس کی اس مجرمانہ حرکت کی خبر نہیں بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ بباعث خدا کے حکم کے یہ تاخیر واقع ہوئی ہے اور آخر شریر آدمی کو وہ سزا دیتاہے جس کے وہ لائق ہوتا ہے
ہاں مشو مغرور برحلم خدا
دیر گیرد سخت گیرد مرترا
(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد23صفحہ 213-214ایڈیشن 2008ء )
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حقوق و فرائض کو احسن رنگ میں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری جماعت میں کوئی بھی والدین ایسے نہ ہوں جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی کریں اور بچوں کو برابر حصہ وراثت سے محروم رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭…٭…٭