احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
ہرطرف سے اسلام کو ختم کرنے کے منصوبے کیے جا چکے تھے اور ان پرخطرناک ترین صورت میں عملی اقدام اٹھائے جارہے تھے اورلدھیانہ امرتسراورسیالکوٹ اس میدان جنگ کے گویا ہیڈکوارٹرتھے اورحضرت اقدسؑ کہ جنہیں محمدی افواج کا کمانڈرانچیف بننامقدرتھا آپؑ کی ٹریننگ کے لیے بھی انہی علاقوں اورمقامات کا انتخاب کیا گیا
درس وتدریس اورعلاج معالجہ
درس وتدریس کی بابت ایک روایت سلسلہ کے لٹریچرمیں محفوظ ہے جس کے مطابق لالہ بھیم سین صاحب اور ایک اَورشخص مرزانظام الدین صاحب کوقرآن کریم پڑھاتے رہے۔چنانچہ روایت ہے:’’مرزاغلام اللہ صاحب انصارساکن قادیان فرماتے ہیں میرے بھائی مرزانظام الدین صاحب نے ذکرکیاکہ جن دنوں حضرت صاحبؑ سیالکوٹ میں نوکرتھے میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔مجھے حضرت صاحب ؑپڑھایابھی کرتے تھے۔آپؑ وہاں بھیم سین وکیل کوجوہندوتھاقرآن شریف پڑھایاکرتے تھے اوراس نے تقریباً 14 پارہ تک قرآن حضرت صاحبؑ سے پڑھا تھا۔ ایک دن حضرت صاحبؑ نے صبح اٹھ کربھیم سین کومخاطب کرکے یہ خواب سنایا کہ آج رات میں نے رسول اکرم ﷺ کوخواب میں دیکھا۔آپؐ مجھ کوبارگاہ ِایزدی میں لے گئے اوروہاں سے مجھے ایک چیزملی جس کے متعلق ارشادہواکہ یہ سارے جہان کوتقسیم کردو۔‘‘( تذکرہ صفحہ 694، ایڈیشن چہارم2004ء بحوالہ سیرت احمدؑ مصنفہ مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب ؓ صفحہ-182 183)علم طب جو خاندانی ورثہ کے طورپر آپ کے حصہ میں بھی آئی آپؑ کو اس میں کافی درک تھا۔اس کے ذریعہ بھی خدمت خلق کا کام جاری تھا۔سیالکوٹ میں قیام کے دوران جب آپؑ کی رہائش اس بیٹھک میں تھی کہ جس کے ساتھ حضرت حکیم حسام الدین صاحب ؓ کا مطب تھا۔تو ان کی درخواست پر آپؑ نے انہیں طب کی مشہورکتابیں قانونچہ اور موجزکا کچھ حصہ بھی پڑھایا۔چنانچہ سیدمیرحسن صاحب جن کی تفصیلی روایت مضمون کے آخر پر درج ہے اس میں وہ بیان فرماتے ہیں :’’چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سربازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا۔‘‘( سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 150)علم طب کی درس وتدریس کے علاوہ علاج کے ذریعہ بھی بنی نوع کو فائدہ پہنچاتے اور دوا دارو بھی کرتے اور دعابھی۔چنانچہ میاں بوٹاکشمیری جن کے گھرمیں حضورؑ کی رہائش تھی بیان کرتے ہیں :’’میں تو ان کو ولی اللہ جانتاہوں۔ایک دفعہ میرے والدصاحب بیمارہوگئے تمام ڈاکٹر اورحکیم جواب دے چکے کہ اب یہ نہیں بچے گا اورعلاج کرنا فضول ہے لیکن ہم نے حضرت مرزاصاحب کو بلایا آپ نے دعا فرمائی اور کچھ علاج بھی بتایا۔اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعا سے میرے والدصاحب کوشفا دی اور بہت سی ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوئیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلداول صفحہ85-86،الفضل 8؍اکتوبر 1925ء صفحہ6جلد13نمبر41)
مذہبی مناظرے، علمی مجالس عرفان بزرگوں اور مشاہیراورپادریوں سے ملاقاتیں
حضرت اقدسؑ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ امت مسلمہ کے لیے ایک دردناک ماحول تھا۔ ایمان ثریاستارے پر گویاجاہی چکاتھا۔اور ہرطرف سے اسلام کو ختم کرنے کے منصوبے کیے جا چکے تھے اور ان پرخطرناک ترین صورت میں عملی اقدام اٹھائے جارہے تھے اورلدھیانہ امرتسراورسیالکوٹ اس میدان جنگ کے گویا ہیڈکوارٹرتھے اورحضرت اقدسؑ کہ جنہیں محمدی افواج کا کمانڈرانچیف بننامقدرتھا آپؑ کی ٹریننگ کے لیے بھی انہی علاقوں اورمقامات کا انتخاب کیا گیا۔ اوریہ محض اتفاق نہ تھا بلکہ آپؑ کی ملازمت بھی اور ملازمت کے لیے یہ مقامات بھی مصلحت خداوندی اور مشیت ایزدی کے تحت انتخاب کیے گئے۔
آپؑ اسلام پر ہونے والے ان حملوں سے بخوبی آگاہ ہوچکے تھے اور اپنی جوانی آپؑ نے اسلام کے دفاع کی خاطر انہی کی کتب کے مطالعہ کے لیے وقف کردی ،بلکہ قربان کردی۔آپؑ کی ابھی تیس سال کی عمرتھی کہ کثرت مطالعہ کی وجہ سے آپؑ کے بال سفیدہوچکے تھے۔اورسیالکوٹ میں بھی عبادات کے ساتھ ساتھ مطالعہ اور اسلام کے دفاع میں مذہبی گفتگوجوکبھی مناظرے کا رنگ بھی اختیارکرجاتی یہ سب جاری رہا۔سیالکوٹ میں قیام کے دوران انہی معمولات کی ایک جھلک ہم دیکھتے ہیں۔
پادری الائشہ/الیشع سے گفتگو
یہ صاحب ایک دیسی پادری تھےیعنی ہندوستانی باشندہ تھے اورسیالکوٹ میں حاجی پورہ کے جنوب میں رہائش پذیرتھے۔اور انہوں نے اپنا نام الیشع رکھ لیاتھا۔پورانام جو انہیں دیا گیاElisha P .Swift ،بعض جگہ ان کوالائشہ لکھاگیاہے اور بعض جگہ محض سوفٹ لکھاگیاہے۔یہ دونوں نام انہی ایک صاحب کے ہی ہیں۔اورجہاں تک الائشہ لکھے جانے کاتعلق ہے تو الیشع کے سپیلنگ ELISHA کو الائشہ پڑھنا بہت حدتک قرین قیاس ہے اس لیے معلوم ہوتاہے کہ عبداللہ آتھم کی طرح جوکہ آثم (ATHIM) تھا،لیکن آتھم پڑھااورلکھاجانے لگا اسی طرح یہ نام بھی الیشع کی بجائے الائشہ پڑھااورلکھاجانے لگا۔
یہ صاحب ریاست گوالیارکے ایک گاؤ ں Nidhara میں 1824ء میں پیداہوئےجو ہندوستان کی ریاست راجستھان میں تحصیل باری ،ضلع دھولپورکاایک گاؤں ہے۔(Village Nidhara, Tehsil Bari, District Dhaulpur, Rajasthan State, India)
ان کانام رام چند تھا ۔ اور ہندو دھرم سے یہ تعلق رکھتے تھے۔وہاں کے ریاستی ظلم وستم سے تنگ آکریہ خاندان وہاں سے نکلا۔اس وقت یہ والدین کے علاوہ پانچ بھائی تھے۔اسی کس مپرسی میں بریلی کے قریب ان کے والد کاانتقال ہوااور لدھیانہ ہسپتال میں ان کی والدہ کا۔اس ہسپتال کاانچارج ایک عیسائی Dr. Badley تھا۔ جو ایک مقامی لڑکوں کےسکول کی بھی امدادکیا کرتاتھا۔اس نے رام چنداوراس کے دوبھائیوں کواس سکول میں داخل کرادیا۔بعد میں ان تینوں بھائیوں کوڈاکٹر بیڈلے نے لدھیانہ میں یتامیٰ کے لیے کھولے گئے اپنے مشن سکول میں بھیج دیا۔جبکہ اس کے دوبڑے بھائیوں رام بخش اور ہربھجن کوسرکاری ملازمت دلوادی۔ اوران دونوں کوبعدمیں کابل کی لڑائی میں بھیج دیاگیا جہاں رام بخش تو ماراگیا اوردوسرے بھائی کے واپس لدھیانہ آنےتک اس کے یہ تینوں بھائی عیسائی مذہب اختیارکرچکے تھے۔اور رام چند نے اپنانام بھی تبدیل کرلیا جوبعدمیں Rev.Elisha P.Swift کے نام سے مشہورہوا۔
(Our India Mission 1855- 1885 A thirty Years History of The India Mission of the United Presbyterian Church of North America.)
بعدمیں یہ سکول لدھیانہ سے سہارنپورمنتقل ہوگیا تو سوفٹ نے لدھیانہ کے اسی سکول کی ایک لڑکی Salina Mariah سے شادی کرلی۔1846ء میں یہ سکول کسولی کے نزدیک Sabatu کے علاقہ میں منتقل ہوگیا … وہاں اس سکول کے ہیڈکے طورپر پندرہ ماہ کام کیا۔ا س کے بعد تین سال تک مشن سکول انبالہ کے صدرمدرس رہے۔پھر سرکاری خزانے میں ملازمت اختیارکرلی جو پندرہ ماہ تک جاری رہی۔اس کے بعد اس ملازمت سے استعفیٰ دے کروہ لاہور چلاآیا۔
اور Rev.C.W.Forman کی ماتحتی میں مشن سکول کے نائب صدرمدرس کے طور پرکام شروع کیابعدمیں وہ اس سکول کے بھی صدرمدرس بن گئے …ازاں بعد مسٹر فورمین نے ان کوگوجرانوالہ بھیجا جہاں انہوں نے لڑکوں کاسکول کھولااوراپنی بیوی کی نگرانی میں لڑکیوں کاایک سکول۔ دوسال کے بعد وہ لاہورواپس چلاآیا اور لاہورمیںCatechistمناداورمناظرکی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 1856ء میں موسم گرمامیں انہوں نے لاہور کے اس مشن سے تعلق منقطع کرتے ہوئے جولائی میں سیالکوٹ مشن سے تعلق جوڑلیااور مذہبی عیسائی مناظرکی حیثیت سے کام شروع کردیا۔یہ اس زمانے میں بڑے مشہورعیسائی مناظرتھے اور یہ سمجھاجاتاتھا کہ ان جیسا مناظر اور الٰہیات کاماہرعالم ہندوستان میں شاذ ہی ہوگا۔خودبھی انہیں اپنے علم پربہت نازتھا۔
علامہ سیدمیرحسن صاحب نے جو تفصیلی واقعات اس زمانے کے بیان فرمائے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :’’مرزا صاحب کو اس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا۔چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا۔ایک دفعہ پادری الایشہ صاحب جو دیسی عیسائی پادری تھے۔ اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے۔ مباحثہ ہوا۔پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی۔مرزا صاحب نے فرمایا۔نجات کی تعریف کیا ہے ؟ اور نجات سے آپ کیا مراد رکھتے ہیں؟مفصل بیان کیجئے۔پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے اور کہا میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا۔‘‘( حیات احمدؑ جلداول صفحہ93،سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر150)
٭…٭…٭