ہمارا مشن لوگوں کے دلوں کو محبت اور قربِ الٰہی کے طریق سکھلا کر فتح کرنا ہے (مسجد فتحِ عظیم کی افتتاحی تقریب سے حضورِ انور کا خطاب)
(مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے موقع پراستقبالیہ تقریب سے بصیرت افروز خطاب)
(صیہون،امریکہ، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل)آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسجد فتح عظیم صیہون کے افتتاح کی مناسبت سے جماعت احمدیہ امریکہ کی جانب سے ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جس میں دس ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی معززین نے شرکت کی۔
سٹیج پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دائیں جانب محترمہ ڈاکٹر Katrina Lantos Swettصاحبہ Lantos Foundation for Human Rightsکی پریزیڈنٹ تشریف فرما تھیں جبکہ ان سے اگلی نشست پر محترم نواب منصور احمد خان صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید انجمن احمدیہ براجمان تھے۔ ان کے ساتھ والی نشست پرمحترم اظہر حنیف صاحب مبلغ انچارج امریکہ تھے جبکہ ان کے بعد مکرم Tahir Soofi صاحب صدر جماعت زائن بیٹھے تھے۔
حضور انور کی بائیں جانب زائن شہر کے میئرHon. Billy McKinney موجود تھے جبکہ ان کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ امریکہ بیٹھے تھے۔ امیر صاحب کے ساتھ Hon. Joyce Mason Member, Illinois General Assembly (D-61 District) تشریف فرما تھیں جبکہ ان کے ساتھ والی کرسی پر Hon. Raja Krishnamoorthi, Congressman براجمان تھے۔اس تقریب میں ماڈریٹر کے فرائض مکرم امجد محمود خان صاحب (نیشنل سیکرٹری امورِ خارجیہ امریکہ) نےسر انجام دیے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز مکرم مبارک Kukoyi صاحب کی جانب سے کی جانے والی تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا۔ موصوف نے سورت الصف آیت 7 تا 10 کی تلاوت کی جس کے بعد مکرم نصر اللہ احمد صاحب نے ان آیات کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔
مکرم امجد محمود خان صاحب (نیشنل سیکرٹری امورِ خارجیہ) نے تمام شاملین تقریب کو خوش آمدید کہا اور جماعت احمدیہ اور اس کے عقائد کا مختصراً تعارف پیش کیا۔ اس کے ساتھ خلافت احمدیہ کا تعارف اور دنیا کے امن، اور استحکام کے لیے حضورِانور کی کاوشوں کا تذکرہ کیا اور آخر میں مسجد فتح عظیم کا مختصر تعارف پیش کیا۔
پروگرام کے مطابق اس کے بعد بعض معززین نے مختصر خطابات کیے جن کا خلاصہ ذیل میں دیا جاتا ہے۔
٭…آنریبل Billy McKinney (میئر زائن شہر)
موصوف نے السلام علیکم کہہ کر حضورِانور اور مہمانان تقریب کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ ہمارا زائن میں نعرہ ہے کہ ’’تاریخ ماضی ہے اور مستقبل روشن‘‘۔ ہمارے شہر کے قلب میں واقع یہ مسجد اس کی عملی تصویر ہے۔ میری خواہش اور امید ہے کہ یہ مسجد ہمارے ماضی اور مستقبل میں ایک پُل کا کام کرے۔ اگر ہم زائن کو بہتر دنیا کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر کام کرنا ہو گا۔ اس جماعت کا ماٹو ہے کہ ’محبت سب کے لیےنفرت کسی سے نہیں‘۔ حضورِانور کی راہنمائی میں جماعت احمدیہ ہر طبقہ تک امن اور محبت اور بھائی چارہ اور خدمتِ انسانیت کا پیغام پہنچاتی ہے۔ اس شہر کی ترقی اور یہاں کے لوگوں کی بہبود کی خاطر ہم حضورِانورکو اس شہر کی چابی پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد میئر نے حضورِانور کی خدمت میں زائن شہر کی چابی پیش کی۔
٭…آنریبل Joyce Mason (ممبر اِلینوئے جنرل اسمبلی )
موصوفہ نے اس موقع پر موجودگی کواپنے لیے باعثِ سعادت قرار دیا اور کہا کہ یہ جگہ جماعت احمدیہ کے لیے ایک تاریخی مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ سو سال قبل جان الیگزینڈر ڈووی نے اس شہر کی بنیاد ایک خاص نظریہ پر رکھی تھی جو اس کے ماننے والوں کے علاوہ سب پر بند تھا۔ لیکن ہم ایک اَور نظریہ رکھتے ہیں۔ آج زائن شہر مختلف العقائد 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہیں۔ یہاں ہر ایک کے لیے اپنے پسند کے مذہب پر عمل کی آزادی ہے ۔ جماعت احمدیہ کا طرزِ عمل ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ کے مطابق ہے۔ (انہوں نے بتایا کہ اس کا بینڈ آپ اکثر پہنتی ہیں)۔ انہوں نے حضور انور ایدہ اللہ کی امن عالم کے لیے کی گئی کاوشوں کو سراہا اور حقوقِ نسواں کا چیمپئن قرار دیا۔ اور اس مسجد کے قیام کو سراہا۔
٭…آنریبل راجہ کرشنا مورتی (یو ایس کانگریس مین)
موصوف نے اپنے مخصوص انداز میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس دن کو خاص اہمیت کا حامل قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے انتظامیہ کی اس تقریب کے لیے کی گئی کئی ماہ پر مشتمل مساعی کو سراہا۔ انہوں نے حضورِانور کے حالیہ دورہ نیز آج کے دن کو امریکہ کے تاریخ کا باقاعدہ حصہ بنانے کے لیے تیار کردہ ایک Commemoration دکھایا۔(بعد ازاں موصوف نے یہ سرٹیفیکیٹ حضورانور کی خدمت میں پیش کیا۔) موصوف نے جماعت احمدیہ کے افراد کو بہترین لوگ کہتے ہوئےجماعتِ احمدیہ کو تیز رفتار سے ترقی کرنے والی، تعلیم یافتہ اور خدماتِ انسانیت میں پیش پیش جماعت قرار دیا۔
٭…ڈاکٹر Katrina Lantos Swett (صدر لانٹوس فاؤنڈیشن برائے انسانی حقوق و انصاف)
موصوفہ نے اس تقریب میں موجودگی کو اپنے لیے باعثِ سعادت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ جماعت احمدیہ کے افراد کی موجودگی میں گزرے ہوئے وقت کے دوران اپنے اندرروحانیت میں ترقی محسوس کرتی ہیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ڈاکٹر ڈووی کے مقابل پر مباہلہ کا ذکر کیا اور کہا کہ ڈاکٹر جان ڈووی کا دعویٰ غیرانسانی اور غیر اخلاقی تھا جبکہ بانی جماعت احمدیہ کا دعویٰ انسانیت اور ہم آہنگی پر مبنی تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس مسجد فتح عظیم سے بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس مباہلہ میں جماعت احمدیہ اور انسانیت کی فتح ہوئی۔ موصوفہ نے حضرت یوسفؑ کی ان کے بھائیوں پر فتح اور ان کو معاف کرنے کا قصہ پیش کیا اور جماعت احمدیہ کا اس سے تعلق کو بھی جوڑا نیز انہوں نے اس موقع پر پاکستان کے احمدیوں کا ذکر کیا کہ کس طرح وہ مسلسل مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اس کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب (امیر جماعت امریکہ) نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خطاب کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ مقامی وقت کے مطابق 6 بجکر 51 منٹ پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ منبر پر رونق افروز ہوئے۔
خطاب حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تسمیہ پڑھنے کے بعد حضورِانور نے فرمایا:
معزز مہمانانِ کرام! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلے مَیں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگ آج زائن میں تعمیر ہونے والی اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں شامل ہوئے۔ یہ کوئی دنیاوی تقریب نہیں بلکہ خالص طور پر ایک مذہبی جماعت کی طرف سے منعقدہ تقریب ہے جس کا انعقاد ایک اسلامی جماعت کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ پس اس تقریب میں شامل ہونا آپ کی مذہبی رواداری اور وسعتِ قلبی کا ثبوت ہے۔
آج کی یہ تقریب ہماری جماعت کے لیے انتہائی خوشی کا موقع ہے ۔ بےشک تمام مذاہب کے عبادت کے مقامات بےحد قابلِ احترام ہیں۔ اسلام کے نزدیک مساجد کے قیام کی دوبنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہی کہ مسلمان وہاں عبادت کریں اور دوسرا یہ کہ مساجد کاقیام معاشرے میں اسلام کے تعارف کا بہترین ذریعہ ہیں۔
بہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ سوال بھی ہوگا کہ احمدی مسلمان باقی مسلمانوں سے کیونکر مختلف ہیں۔دراصل قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کی عطا کردہ عظیم الشان پیش گوئیوں کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہ مسیح محمدی ہیں کہ جنہوں نے انحطاط اور زوال کے دَور میں ظہور فرمانا تھا۔ پس آپؑ نے خوش خبریوں کے عین مطابق اسلام سے دُوری اور گراوٹ کے لمبے عرصے کے بعد اُن پیش گوئیوں کے مطابق ظہور فرمایا اور احیائے دینِ اسلام کے مشن کی بنیاد رکھی۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے ماننے والوں کویہی پیغام دیا کہ اسلام کی محبت اور بھائی چارے کی تعلیم کو اپنے حسنِ عمل کے ذریعے دنیا میں متعارف کرایا جائے۔ اسلام کے معنی ہی امن اور سلامتی کے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن کریم کی روشنی میں ہمیں سمجھایا کہ اسلام کے آغاز میں پیش آنے والے جنگی معرکے محض مدافعانہ کارروائیاں تھیں جن کا مقصد قیامِ امن اور تلوار کے ذریعے ہونے والے حملے کو روکنا تھا۔ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے زمانے اور آپؐ کے خلفائے راشدین کے عہد میں کوئی ایک بھی ایسا موقع نظر نہیں آتا جہاں دوسروں پر زیادتی کرتے ہوئے جنگ مسلط کی گئی ہو۔ اِس عہد میں جہاں دنیا بڑی تیزی کے ساتھ تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے حضرت مسیح موعودؑ نے یہ تعلیم دی کہ مذہبی جنگوں کا اب خاتمہ ہے۔ اسلام کا نام لےکر کسی پر جنگ مسلط نہیں کی جاسکتی۔
پس آپ سب کو مطمئن ہوجانا چاہیےکہ جماعت احمدیہ کاہرگز یہ مقصد نہیں کہ زمینوں پر قبضے اور علاقو ں پر علاقے فتح کرنے کے لیے جنگیں لڑی جائیں۔ ہمارا واحد مشن تو لوگوں کے دلوں کو محبت اور قربِ الٰہی کے طریق سکھلا کر فتح کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عابد بندوں کا شیوہ تو یہ ہے کہ وہ خدا اور ا س کی مخلوق کے حقوق ادا کریں۔
حضرت مسیح موعودؑ کو دنیاوی جاہ و حشمت سے کیسا بُعد تھا اس کا اندازہ آپؑ کے ایک شعر سے ہوتا ہے جس میں آپؑ نے واضح فرمایا کہ
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا
مجھ کوکیا تاجوں سے میراتاج ہے رضوانِ یار
پس ہماری ایک ہی خواہش اور تمنااور کوشش ہے جس کے لیےجماعت گذشتہ ایک سو تیس سالوں سے کوشاں ہے اور وہ یہ کہ ہم نے دنیا کو اسلام کی خوب صورت تعلیم سے رُوشناس کرانا ہے۔ اسی وجہ سے ہر سال ہزاروں افراد جماعت کے لوگوں کے عمل کو دیکھ کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ مذہب اور عقیدہ انسان کاذاتی معاملہ ہے اور ہم اسلام کے پیش کردہ اس اصول پر اُس کی پوری روح کے ساتھ کاربند ہیں۔
حضورِ انور نے حال ہی میں ملکہ برطانیہ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ برطانیہ کے بادشاہ کا ایک لقب Defender of the Faith بھی ہے جس سے مراد ہے کہ وہ عیسائی مذہب کا دفاع کرنے والا ہے۔ تاہم موجودہ بادشاہ چارلس (سوم) نے تاج پوشی سےقبل اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ Defender of the Faith کی بجائے Defender of all Faiths یعنی تمام مذاہب کا محافظ بننا چاہتے ہیں۔ حضورِ انور نے ان کے اس اعلان پر اظہارِ پسندیدگی فرمایا نیز فرمایا کہ اُن کی اس بات کو بہت سے عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے پسند نہیں کیا کیونکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر مذہب کا دفاع کرنا ممکن نہیں جبکہ درحقیقت دنیا میں امن کے قیام کی ضمانت اسی بات میں ہے کہ تمام مذاہب کو کس طرح قریب لایا جائے۔ حضورِ انور نے اس ضمن میں حکومتِ امریکہ کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں امریکہ میں بھی عالمی مذاہب کے متعلق سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ مختلف مذاہب کو سمجھا جائے اور ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف دفاعی جنگوں کی اجازت دی کیونکہ اگر ظلم کو نہ روکا جاتا تو دنیا سے انسانیت ختم ہوجاتی۔ قرآن کریم بھی واضح کرتا ہے کہ مسلمانوں سے ہونے والی ہر قسم کی ظلم و زیادتی کے خلاف اگردفاعی جنگوں کی اجازت نہ جاتی تو باقی مذاہب کی عبادت گاہوں کو بھی تباہ کردیا جاتا۔ قرآن کریم کی تعلیم تمام مذاہب کی حفاظت کی اجازت دیتی ہے۔ یہ واحد کتاب ہے جو تمام عقائد اورمذاہب کی حفاظت کرنے والی کتاب ہےاور یہی وہ تعلیم ہے جوہم دنیا میں پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
آپ شاید سوچتے ہوں گے کہ ہم نے اس شہر زائن میں ہی کیوں مسجد بنائی؟ جو لوگ اس شہر کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں اس شہرمیں ڈووی کا یہ دعوہ تھا کہ اسے خدا نےبھیجا ہے۔ وہ اسلام کے سخت خلاف تھااور اسلام اور بانی اسلامﷺ کے خلاف گندہ دہنی سے کام لیتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےاسی وجہ سے ڈووی کو متنبہ فرمایا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تو محبت کی تعلیم لے کر آئے لیکن جب ڈووی نے اسلام اور بانی اسلامﷺ کے خلاف انتہائی زہر آلود زبان استعمال کی توحضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے پہلے تو اُسے نہایت نرمی سے سمجھایا اور بتایا کہ اُس کی بدزبانی سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ لیکن ڈووی اپنی ہرزہ سرائی میں بڑھتا چلا گیا اور اُس نے ایک موقع پر کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اسلام کو جلد از جلد نیست و نابود کردے۔ اُس نے عیسائیت اور اسلام کے درمیان ایک جنگ شروع کروانے کی کوشش کی۔ اُس نے کہا جو لوگ عیسائیت قبول نہیں کریں گے وہ تباہ ہوجائیں گے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُسے مباہلہ کی دعوت دی اورفرمایا کہ جو جھوٹا ہوگا وہ سچے کی زندگی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانب سے مباہلہ کی دعوت درحقیقت اسلام اور عیسائیت کے درمیان جنگ کو انتہائی دانشمندانہ اور عدل و انصاف نیز افہام و تفہیم کے ساتھ روکنے کی کوشش تھی۔ لیکن ڈووی اپنی بدزبانی پر قائم رہا۔ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بڑی بے باکی سے کہا کہ میں چاہوں تو ایسے شخص کو مکھی اور مچھر کی طرح مسل کر رکھ دوں۔ امریکہ کے اخباروں میں بھی اس مباہلہ کا ذکر آیاتھا۔ ڈوئی عمر کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے چھوٹا تھا، زیادہ صحت مند تھا اور مالی لحاظ سے بھی ایک امیر کبیرشخص تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بہت جلد اس مباہلہ کا فیصلہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حق میں ظاہر فرما دیا۔ امریکی میڈیا تعریف کے لائق ہے کہ اس نے ایمانداری کے ساتھ اس مباہلہ کو رپورٹ کیا اور لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنےعقائد کسی پر زبردستی نہیں ٹھونسےاور ڈووی کی بدزبانی کےجواب میں ہتھیار نہیں اٹھائے۔
حضور انور نے فرمایا کہ یہاں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جو لوگ اس مباہلہ کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں وہ اس نمائشں کو ضروردیکھیں۔ آج ہم یہاں ایک عظیم مسجد کا افتتاح کررہے ہیں۔ اس مسجد کے دروازے تمام مذاہب اور تمام رنگ و نسل کے افراد کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ ہم آپ کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوں گے۔ تمام مذاہب اور رنگ و نسل کے لوگ اس شہر میں امن و آشتی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ میری دعا کے کہ یہ مسجد ہمیشہ امن کا ایک روشن مینار بن کر تمام انسانوں کے لیے محبت و آشتی کے راستے پیدا کرنے والی بن جائےاوریہاں ایسے لوگ اکٹھے ہوں جو خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہوں اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ ان الفاظ کے ساتھ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس تقریب میں شامل ہوئے۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
اس بصیرت افروز خطاب کے بعد حضور انور نے سٹیج پر تشریف رکھنے والے معزز مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد حضورِ انور اپنی نشست پر رونق افروز ہوئے اور دعا کروائی جس کے ساتھ یہ تقریب اختتام کو پہنچی۔
احبابِ جماعت احمدیہ عالمگیر کو مسجد فتحِ عظیم کا افتتاح بہت مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کی عمر اور فیض میں برکات عطا فرمائے اور ہر آنے والا دن احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی عظیم الشان فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ آمین
٭…٭…٭