تاریخ احمدیت

چودھری محمد علی صاحب(نمبر13)

(‘ابن طاہر’)

حضرت چودھری فتح محمد سیالؓ حضرت مسیح موعودؑ کے اصحاب میں سے تھے اور سب اصحاب میں ایک قدرِمشترک یہ تھی کہ وہ بہت مطمئن، ہشاش بشاش اور بے حد ذہین لوگ تھے۔حضرت فتح محمد سیال صاحبؓ صدر انجمن احمدیہ میں ایک ذمہ دار عہدے پر فائز تھے، زمیندار تھے اور انہیں زمینداروں سے میل جول کا طریقہ بھی آتا تھا۔

۱۹۴۶ء کے انتخابات میں جماعت نے مسلم لیگ کی حمایت کی تھی تاہم صوبہ پنجاب میں بعض ایسے موزوں اور قابل امیدواروں کو بھی کامیاب کرانے کی کوشش کی جنہیں اگرچہ مسلم لیگ نے ٹکٹ نہیں دیا تھا مگر جماعت کو یقین تھا کہ وہ انتخاب جیتنے کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں گے۔ چودھری فتح محمد سیالؓ ان امیدواروں میں سے ایک تھے جو حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ سے کھڑے ہوئے اور انتخاب جیتنے کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ ان کی انتخابی مہم کے سلسلے میں بٹالہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمدصاحب ؓکی نگرانی میں ایک دفتر قائم کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ مرزا صالح عزیز تھے جن کے کئی بچے ہمارے پاس بھی پڑھتے رہے ہیں۔مرزا صالح عزیز شاید سندھ میں رہتے تھے اور ہزاروں کا حساب زبانی یاد رکھ سکتے تھے۔ ان سے اگر پوچھ لیا جاتا کہ پرسوں کیا خرچ ہوا تھا یا اترسوں کیا خرچ ہوا تھا تو وہ پائی پائی کا حساب لکھوا دیتے تھے۔ حضرت چودھری نذیر احمد بھنگوانوالے بھی وہیں تھے۔ وہاں میری بھی ڈیوٹی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر عبدالرشید تبسم بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ چودھری فتح محمد سیال زبردست سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک تھے۔ امرتسر میں جلسہ تھا۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری کا مرکز بھی امرتسر میں تھا لہٰذا وہاں ہماری سخت مخالفت تھی۔ ہماری جماعت بھی چھوٹی تھی چنانچہ ایک رات ہمیں پیغام ملا کہ اگر کچھ نوجوان قادیان سے یہاں آجائیں تو ہمیں بہت تقویت مل سکتی ہے۔ تاکید یہ کی گئی کہ ساتھ کوئی لاٹھی واٹھی نہ لائی جائے کیونکہ دفعہ ۱۴۴ لگی ہوئی ہے۔ ہم فوراً تیار ہوگئے۔ جب ہم چلنے لگے تو حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ نے کہادیکھو! وہاں ایک کامریڈ محمدحسین ہے۔ وہ ’’انجمنِ نوجوانانِ اسلام‘‘ کا کرتا دھرتا ہے۔ امیر صاحب سے کہنا کہ وہ اسے پانچ سو روپے دے دیں اور صرف اتنا بتا دیں کہ فلاں وقت جلسہ ہے، وہ وہاں اپنے بندے لے کر پہنچ جائے گا اور ہماری مدد کرے گا۔ چودھری صاحب نے اصرار سے فرمایا کہ اگر امیرصاحب کو پیسے اپنی جیب سے بھی خرچ کرنا پڑیں تو کرلیں، ہم بعد میں ادا کر دیں گے۔ ہم وہاں پہنچ گئے۔ ہم طفلانہ حرکتیں تو کرتے ہی رہے ہیں ساری عمر، شاید اب بھی کر رہے ہوں۔ ہم نے اس خیال سے کہ جماعتی ہدایات کی بھی خلاف ورزی نہ ہو لاٹھیاں کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ڈنڈے بنا لیے۔ پلاننگ یہ تھی کہ ہم یہ ڈنڈے چھپا کر رکھیں گے لیکن جب سٹیشن پر پہنچے تو قاضی محمد منیر، امیرجماعت احمدیہ، امرتسر اور غالباً چودھری انور حسین موجود تھے۔ ہماری تلاشی ہوئی اور امیر صاحب نے وہ ڈنڈے نکلوا لیے۔ہم نے عرض کی کہ ہم ایک پیغام لے کر آئے ہیں لیکن ہم یہ پیغام کسی اکیلے آدمی کو نہیں دیں گے۔ یہ ہماری اپنی اختراع تھی۔ ہماری اس بات پر امیر صاحب نے تین چار آدمی بلالیے۔ ہم نے کہا پیغام یہ ہے کہ کامریڈ محمد حسین کو سلام کہنا ہے اور اسے پانچ سو روپے ادا کرنے کے بعد جلسہ کے متعلق بتانا ہے۔ اس پر کسی نے کہا کہ اب فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہماری بات ہوچکی ہے اور پولیس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہماری پوری طرح حفاظت کرے گی لہٰذا اب کسی فساد کا اندیشہ نہیں تاہم وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیاکے مصداق موقع پر ہزاروں مخالفین جمع ہوگئے۔ پولیس نے کسی طرح ہمیں سٹیج تک پہنچنے کا راستہ تو بنا دیا مگر بعد میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوسناک تھا۔ جلسہ چودھری اسداللہ خاںکی صدارت میں ہونا تھا۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ پولیس کے لاٹھی چارج کے باوجود مخالف ہمارے قریب پہنچ گئے ہیں اور بالآخر وہ شامیانے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔میرے ساتھ کالج کے لڑکے تھے۔ ان میں سے اکثر لمبے تڑنگے دیہاتی تھے۔ مجھے ان میں سے شفیق نامی ایک لڑکے کا نام اب تک یاد ہے جو بڑا گبھرُوجوان تھا۔ میں ان کو سارا راستہ یہی سمجھاتا آیا تھا کہ ہم نے کوئی غیرذمہ دارانہ حرکت نہیں کرنی اور جماعتی احکامات کے مطابق چلنا ہے لیکن جوان خون تھا بے قابو ہورہا تھا۔ ہم نے سٹیج پر جاکر چودھری اسداللہ خان سے پوچھا کہ اگر اجازت ہو تو ہم بھی ردعمل کا اظہار کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں تو صرف سٹیج کا انچارج ہوں اور کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔اتنی دیر میں مخالفین نے ہمارا لائوڈسپیکر توڑ دیا اور خطرہ پیدا ہوگیا کہ وہ لوگ شامیانے کی طنابیں کاٹ ڈالیں گے چنانچہ ہم نے لڑکوں سے کہا کہ وہ بانس پکڑکر رکھیں اور شامیانہ گرنے نہ دیں۔ خیر جب معاملہ حد سے بڑھ گیا تو لڑکے باغی ہوگئے۔ باہر گنّا بک رہا تھا۔ انہوں نے کچھ گنے خریدے، ایک ایک گنا ہاتھ میں پکڑا اور ظاہر یہ کیا کہ وہ گنے چوستے آ رہے ہیں تاہم جب وہ گیٹ پر پہنچے تو مخالفین ان کی چال سمجھ گئے اور ان سے گنے چھین لیے۔ تب میں نے کہا کہ جو کرسکتے ہوکرو۔ ہم نے قناتوں میں سے دو تین ڈنڈے نکال لیے۔ ایک مولوی تھا بہت ’’پِھٹّا‘‘ ہوا۔ اس کو ایک زوردار ڈنڈا لگا تو اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ ڈنڈا لگتے ہی بلی دی پونچھ جنّی اودھی تہار نکلی اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کی دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی آہستہ آہستہ منتشر ہوتے گئے لیکن ہمارا جلسہ نہ ہوسکا۔ جب ہم واپس آئے تو دونوں طرف سے لوگ ہم پر تھوک رہے تھے۔

ہم رات کے بارہ ایک بجے کے قریب قادیان پہنچے۔پہلے تو ہم سیدھا ہوسٹل جانے کا سوچ رہے تھے لیکن پھر خیال آیا کہ کیوں نہ حضورکو رپورٹ دیتے جائیں۔ مسجد مبارک کے اوپر چڑھ کر دیکھا تو حضور کے کمرے کے اندر روشنی تھی۔ ہم نے السلام علیکم کہا تو حضور نے جواباً وعلیکم السلام کہتے ہوئے خود دروازہ کھولا اور باہرآگئے۔ فرمانے لگےمیں آپ ہی کے انتظار میں تھا۔ کیا رپورٹ ہے؟تفصیل بتائی۔ حضور نے فرمایا انہوں نے بڑی غلطی کی۔ اب وہاں ہمارا جلسہ نہیں ہوسکتا۔

حضرت چودھری فتح محمدصاحب سیالؓ کا ذکر کرتے ہوئے ذہن ان کی پرانی فورڈکار کی طرف چلا گیا ہے۔ پتا نہیں کون سا ماڈل تھا۔ قادیان میں بارشیں بہت ہوا کرتی تھیں۔ ایک بار یہ کار بارش کے پانی میں ڈوب گئی لیکن کمال یہ ہے کہ اگلے روز اسے سٹارٹ کیا گیا تو فوراً سٹارٹ ہوگئی۔ ایک بار لاہور سے گاڑیاں آئیں اور قادیان اور بٹالہ کے درمیان پانی میں پھنس گئیں۔ اس گاڑی نے سب کو باری باری کھینچ کر باہر نکالا۔

چودھری محمد علی صاحب بطور انچارج واٹرپولو

تعلیم الاسلام کالج کے قیام پر وہ سوئمنگ پُول جو عرف ِ عام میں ’’ٹینک‘‘ کہلاتا تھا اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے پاس تھا کالج کو مل گیا اور چودھری محمد علی صاحب اس کے انچارج مقرر ہوئے۔ چودھری صاحب نے پُول کی اچھی طرح صفائی کرانے کے بعد اس میں پانی بھروایا۔ آپ کی خواہش تھی کہ اس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھوں ہولیکن چونکہ حضور دردِ نقرس کی وجہ سے بیمار تھے اور کچھ اس وجہ سے کہ آپ پہلے ہی اس کا افتتاح فرما چکے تھے، آپ نے دوبارہ تشریف لانے سے معذرت کرلی۔ چودھری محمد علی کے ایم ٹی اے انٹرویوز میں اس واقعہ کا ذکر اختصار سے ملتا ہے۔ بالفاظِ چودھری محمد علی’’تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کے بعد مجھے سوئمنگ کا بھی انچارج بنادیا گیا تھا لہٰذا میری نگرانی میں تالاب جسے اُن دنوں ’’ٹینک‘‘ کہا جاتا تھا،کی صفائی کروائی گئی اور اس کے اندر سفید پینٹ کیا گیا۔ یوں لگتا تھا گویا اسے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا ہو۔ میں نے ایک عریضہ کے ذریعے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور اس میں غسل کر کے اس کا افتتاح فرمائیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اگر خاندان کے دیگر افراد بھی آنا چاہیں تو ہمیں بے حد خوشی ہوگی۔ کئی دن گذرگئے اور میرے اس خط کا کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے پرائیویٹ سیکرٹری کو فون کیا اور کہا کہ ہم نے حضور کی خدمت میں ایک خط لکھا تھا لیکن معلوم نہیں اس کا جواب کیوں نہیں آیا۔ وہ پوچھنے لگےکون سا خط؟ میں نے کہا اچھا! آپ ہمارا خط ہی پی گئے۔ جواب آیا مجھے تو کوئی خط نہیں ملا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ یہ آواز پرائیویٹ سیکرٹری کی نہیںہے بلکہ حضور خود بول رہے ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ میرے تو ہاتھ پائوں پھول گئے اور بدحواسی میں میرے ہاتھ سے رِیسیور چھوٹ کر نیچے گرگیا۔ میں نے اسے اٹھا کر دوبارہ کان کو لگایا تو حضور ہنس رہے تھے۔ میں نے کہامجھے پتا نہیں تھا کہ حضور لائن پر ہیں۔ فرمایا مجھے نقرس کی تکلیف ہے اور میں ہِل بھی نہیں سکتا۔ بڑی مشکل سے گِھسٹ گِھسٹ کر فون تک پہنچا ہوں۔ جزاک اللہ آپ نے دعوت دی ہے لیکن کیا تالاب میں پہلی دفعہ پانی بھرا گیا ہے۔ میں نے کہا حضور جب سے یہ تالاب کالج کو ملا ہے یہ پہلا موقع ہوگا۔ حضور نے آنے سے معذرت کی لیکن بہت دعائیں دیں۔‘‘

چودھری محمد علی نے حسبِ عادت تیراکی میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ پر بہت محنت کی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کے شیریں نتائج سے بھی نوازا چنانچہ اخبار الفضل کی ایک خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم الاسلام کالج قادیان کے طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی اور صوبہ پنجاب کے تیراکی کے مقابلوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ملاحظہ ہو یہ خبر جو ’’تعلیم الاسلام کالج سوئمنگ کلب کی کامیابی‘‘ کے عنوان سے کیپٹن سوئمنگ کی طرف سے شائع ہوئی’’امسال خداتعالیٰ کے فضل سے تعلیم الاسلام کالج کے طلبہ نے یونیورسٹی اور پنجاب کے تیراکی کے مقابلوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ناصر محمود اور عبدالشکور نے پچاس اور سو میٹر کی دوڑ میں یونیورسٹی میں پوزیشن لی۔ پنجاب چیمپئن شپ میں ہماری ریلے کی ٹیم دوم آئی۔ اول رہنے والی ٹیم کا ۱۰/۱ سیکنڈ کے قریب ٹائم کم تھا۔ ہماری ٹیم نے واٹرپولو میں پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کی ٹیم کو شکست دی اور پھر فائنل میں ایچیسن کالج کی ٹیم کو تین کے مقابلے پر پانچ گول سے ہرایا۔ الحمدللہ۔سالہا سال سے واٹرپولو کی چیمپئن شپ ایچیسن کالج کے پاس تھی جو اس سال ہم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حاصل کی۔مقابلوں میں نوٹ کرنے کے قابل امر یہ تھا کہ ہر طرف کسی نہ کسی جگہ پوزیشن لینے والے احمدی طلبہ تھے جو دوسرے کالجوں میں پڑھ رہے ہیں۔ تمام احمدی احباب کی خدمت میں درخواست ہے کہ جو دوست تیراکی میں ماہر ہوں یا تیراکی کا شوق رکھتے ہوں وہ ہمارے کلب کے ممبر بنیں تاکہ اگلے سال ہم خداتعالیٰ کے فضل سے تیراکی کے تمام مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کرسکیں۔‘‘

اُس زمانہ کے سارے نامی تیراکوں کا تفصیلی ذکر کہیں نہیں ملتا البتہ شریف منصوری کے اُس بیان سے جو اس کتاب میں کسی اور جگہ نقل کیا گیا ہے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پیراکی کے شوقین تھے اور کالج میں قیام کے دوران چودھری محمد علی صاحب کے ساتھ اُن کی قربت کی ایک وجہ ان کا یہ شوق بھی تھا۔ چودھری محمد علی صاحب نے ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں واٹرپولو ٹیم کے بعض اراکین کے نام بتائے ہیں۔ ان میں میردائود احمد، عبدالشکور بٹ اور اعزازاللہ ججی شامل ہیں۔ میر دائود احمد اور اعزاز اللہ ججی وفات پاچکے ہیں اور ان کا تفصیلی تعارف اس کتاب میں پہلے آچکا ہے جب کہ ایک روایت کے مطابق عبدالشکور بٹ آج کل کینیڈا میں ہیں۔

مصلح الدین بنگالی بھی بہت اچھے پیراک تھے۔ الفضل میں چھپی ہوئی ایک خبر سے پتا چلتا ہے کہ موصوف نے زمانۂ سکول میں اس شعبہ میں نمایاں کارکردگی کی بنیاد پر لاہور میں ہونے والے مقابلوں میں کم از کم ایک انعام جیتا تھا۔ وہ کالج میں بھی پڑھتے رہے لہٰذا گمانِ غالب ہے کہ انہوں نے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے سوئمنگ جاری رکھی ہوگی اور ممکن ہے وہ پیراکی کے مقابلوں میں نمایاں مقام حاصل کرتے رہے ہوں۔ یہ سارا کچھ یقیناً تیراکوں کے اپنے ذوق و شوق کے ساتھ ساتھ چودھری محمد علی کی شبانہ روز محنت اور واٹرپولو کے ساتھ اُن کی گہری دلچسپی کا نتیجہ تھا۔

انڈین ایئرفورس ٹریننگ کور

جنگِ عظیم دوم کے اختتام پر لیکن تقسیمِ ہندوستان سے پہلے ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ملک کے منتخب کالجوں کے طلبہ کو ہوائی جہازوں کے بارہ میں ابتدائی ٹریننگ کے لیے انڈین ایئرفورس ٹریننگ کور کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ تعلیم الاسلام کالج قادیان بھی کالجوں کی اُس فہرست میں شامل تھا جہاں یہ پروگرام شروع کیا جانا مقصود تھا اور اس مقصد کے لیے چودھری محمد علی سمیت کالج کے دو پروفیسروں اور فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر کو تربیت کے لیے حیدرآباد بھجوایا گیا۔ ان انسٹرکٹرز نے واپس آکر مجوّزہ کلاسیں شروع کیں۔ تاریخِ احمدیت مؤلفہ دوست محمد شاہد جلد ۹ کے صفحہ ۹۱ پر چودھری محمد علی کا یہ بیان چھپا ہوا موجود ہے کہ ’’ہم پنجاب یونیورسٹی کے وِنگ کا حصہ تھے۔ سردار جگبیر سنگھ جو ہمارے استاد پروفیسر شوچرن سنگھ کے لڑکے تھے ہمارے وِنگ کمانڈر تھے۔ ‘‘

چودھری محمد علی نے ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں انڈین ایئرفورس ٹریننگ کور کا مختصر سا ذکر کیا ہے جو ذیل میں آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں ’’مجھے وہ دن آج بھی نہیں بھولا جب ٹی آئی کالج میںآئی اے ٹی سی یعنی انڈین ایئرفورس ٹریننگ کور کے تحت طلبہ کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔یہ کور انگریز نے جنگِ عظیم دوم کے زمانہ میں بنائی تھی۔ سکیم یہ تھی کہ ہر کالج میں سے دو دو آدمیوں کو بطور ٹرینر ٹرین کیا جائے تاکہ وہ طلبہ کو فلائنگ کے علاوہ ہوائی جہازوں سے متعلقہ ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل ٹریننگ دے سکیںتاہم ہمارا کالج پورے ہندوستان میں واحد کالج تھا جہاں عملاً یہ سکیم رائج ہوسکی اور اس کا سہرا حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد کے سر تھا کیونکہ ان کے حکومتی حلقوں میں بہت تعلقات تھے۔ان ہی دنوں لاہور سے ایئرفورس کے ایک سینئر افسر ہمارے کالج میں تشریف لائے تھے۔ وہ آفیسر کمانڈنگ والٹن تھے اور ان کا نام تھا Stedfield۔

صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحب نے ان کی دعوت کی۔ مجھے بھی اس میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے ان کے سامنے دیگر لوازمات کے علاوہ چھ سات قسم کے اچار بھی رکھے گئے تھے۔ وہ ان اچاروں کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ بعد میں میاں صاحب نے بتایا کہ موصوف سائوتھ انڈیا سے ہیں، اس علاقہ کے لوگ اچاربہت کھاتے ہیںاور یہی وجہ تھی کہ ان کے سامنے مختلف قسم کے اچار رکھے گئے تھے۔

انہیں چودھری ظفراللہ خان صاحب کی کوٹھی میں ٹھہرایاگیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس موقع کے لیے چودھری عزیز احمد باجوہ صاحب کی زیرِنگرانی وہاں نئے پردے لگوائے گئے اور صوفے ٹھیک کرائے گئے۔ کھانا تیار کرنے کی ذمہ داری حضرت بابارحم دین کی تھی جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ دنیا کے بہترین باورچی تھے۔وہ جس چیز کو ہاتھ لگا دیتے اس کا ذائقہ ہی بدل جاتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ انہیں ولایت ہمراہ لے گئے تھے۔ وہاں آپ نے بڑے بڑے رئوسا کی دعوت کی اور انہیں دیسی کھانے کھلائے۔ یہ سارے کھانے بابا رحم دین ہی نے تیار کیے تھے۔ لوگ یہ کھانے کھا کر حیران رہ گئے۔ سٹیڈفیلڈ کے لیے انہوں نے فِش کیک بھی بنایا تھا۔ مجھے اس وقت پہلی بار پتا چلا کہ فِش کیک کیا ہوتاہے۔ انہوں نے بھی اس کی بہت تعریف کی۔

رات آئی تو سٹیڈفیلڈ نے کمرے کی بجائے چھت پر کھلی ہوا میں لیٹنے کو ترجیح دی۔ اس موقع پر جو بستر بچھایا گیا میاں صاحب کے گھر سے آیا تھا اور غالباً بیگم صاحبہ کے جہیز کی ریشمی چادروں اور تکیوں پر مشتمل تھا۔ مجھے یادہے سٹیڈفیلڈ اس مہمان نوازی سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔

اگلے روز ہم نے سٹیڈ فیلڈ کے لیے چیہا(جسے بعض لوگ پانی کا تیتر بھی کہہ دیتے ہیں) کے شکار کا انتظام کر رکھا تھا۔ چیہا اس جگہ ہوتا ہے جہاں تھوڑی بہت ہریالی ہو اور پانی بھی ہو۔ انگریزی میں اسے snipeکہتے ہیں اور اس کے شکار کو ’’سنائپ شوٹنگ‘‘کہا جاتا ہے۔ خیر ہم شکار کے علاقے میں چلے گئے۔وہاں وائسرائے بھی آکر شکار کھیلا کرتا تھا۔ راستے میں ہمیں احساس ہوا کہ اس قسم کے شکار کے لیے تو مخصوص کارتوس استعمال ہوتے ہیں جب کہ ہمارے پاس موجود کارتوس مرغابی والے ہیں۔تھوڑی سی پریشانی تو ہوئی لیکن ہم نے فوری طور پر آدمی بھیجا جو مطلوبہ کارتوس لے آیا۔ سنائپ شوٹنگ ہوئی۔ سٹیڈفیلڈ بے حد خوش ہوئے اور ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہماری محنت اکارت نہیں گئی۔

اب آئی اے ٹی سی کی پاسنگ آئوٹ پریڈ ہونا تھی۔ سٹیڈفیلڈ نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ ہمیں ایک ایسا نوجوان مہیا کر دے گا جو چند دنوں میں ہمارے لڑکوں کو اس پریڈ کی بہت اچھی تیاری کرادے گا۔ انہوں نے خود سیلیوٹ لینا تھا۔ ایک نوجوان تھے، اب فوت ہوچکے ہیں۔ ان کا نام ناصر (۲) تھا۔ ہمارے بہت ہی پیارے احمدی دوست تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد پشاور میں آبادہوگئے تھے۔ ان کا ایک بیٹا ہائیکرہے، ڈاکٹر حامد نام ہے اس کا۔ سٹیڈفیلڈ نے انہیں ہمارے پاس بھجوایا اور انہوں نے لڑکوں کو پریڈ کے لیے بہت اچھی طرح تیار کردیا۔

جب پاسنگ آئوٹ پریڈ کا موقع آیا تو میاں صاحب نے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پاس بھجوایا تاکہ میں اُن کی طرف سے حضور سے یہ درخواست کروں کہ آپ بھی اس تقریب میں رونق افروز ہوں۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ میں آئی اے ٹی سی کا کمانڈر تھا۔ میں اور سید فضل احمد حیدر آباد دکن سے اس کی ٹریننگ لے کر آئے تھے۔ میںحسب الحکم حضور کے پاس چلا گیا۔ حضور نے ان سیڑھیوں سے جو بیت مبارک سے مرزا گل محمد کے دروازے کی طرف آتی تھیں اترنا تھا۔ میں وہاں جا کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے ایئرفورس کی وردی پہنی ہوئی تھی چنانچہ جب حضور نیچے اترے تو میں نے کھٹ سے سیلیُوٹ مارا۔ حضور نے دیکھا اور مسکرائے۔ میں نے کہا حضور میں پرنسپل صاحب کی طرف سے ایک گزارش لے کر آیاہوں۔ فرمانے لگےکیا بات ہے؟ میں نے کہا ہماری پاسنگ آئوٹ پریڈ ہے او ر سٹیڈ فیلڈ، بیس کمانڈر، لاہور آ رہے ہیں۔ پرنسپل صاحب کی طرف سے گذارش ہے کہ اگر اس موقع پر حضور بھی ازراہِ نوازش تشریف لاسکیں تو تقریب کو چارچاند لگ جائیں گے۔ حضور نے مسکراکرمیری طرف دیکھا۔ جس نے وہ مسکراہٹ دیکھی نہیں وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ یہ مسکراہٹ کیسی ہوگی۔ حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ کی مسکراہٹ بھی مشہور ہے مگر حضور ؓکی مسکراہٹ دیکھنے والی ہوتی تھی۔ میری طرف دیکھا کہ یہ الّو کیا کہہ رہاہے اور فرمایا دیکھو! خلیفہ وقت کسی بھی جگہ تماشائی کے طور پر نہیں بیٹھتا۔یہ کہہ کر حضور تو چلے گئے لیکن میں وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا اور سوچنے لگا کہ یا اللہ! میں نے کیسی غلطی کی۔ میں نے جاکر میاں صاحب کو یہ بات بتائی تو سب لوگ پریشان ہوگئے اور میں سمجھتا ہوں ناصر بیچارہ بھی پریشان ہوا ہوگا۔ شاید یہ اسی پریشانی کا شاخسانہ تھا کہ پاسنگ آئوٹ پریڈ میں ایک فاش غلطی ہوگئی اور وہ یہ کہ سیلیُوٹ کے وقت ’’آئیزرائٹ‘‘ کے وَرڈ آف کمانڈ پر لڑکوں نے بدحواسی میں بائیں طرف دیکھنا شروع کردیا۔ بیس کمانڈر نے اس بات کو بہت محسوس کیا۔ وہ اپنا ردعمل چھپا نہ سکا اور اس نے وہیں کھڑے کھڑے گالی دے ڈالی جو مائیکروفون کی وجہ سے سب نے سن لی۔

ریکارڈکی درستگی کے لیے یہاں شاید ایک اور بات کا ذِکر بھی ضروری ہو۔ لڑکوں کو جہازوں کے بارے میں بنیادی باتیں سمجھانے اور انہیں فن ہوابازی سے روشناس کرانے کے لیے حکومت کی طرف سے ہمیں دو جہاز فراہم کیے گئے تھے جو ابھی ڈبوں میں بند تھے کہ ملک تقسیم ہوگیا۔ نوآموز ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے تھے تاہم تقسیم کی وجہ سے ان جہازوں سے فائدہ اٹھانے کی نوبت نہ آسکی۔یہ پاسنگ آئوٹ پریڈ ترتیبِ زمانی کے اعتبار سے تعلیم الاسلام کالج قادیان کا سب سے آخری فنکشن تھا۔ یہ پریڈ مئی ۱۹۴۷ء کی کسی تاریخ کو ہوئی تھی(۳) جس کے بعد ۳۰ جون کو کالج گرمیوں کی چھٹیوں کے لیے بند ہوگیا تاہم تقسیمِ برصغیر کی وجہ سے ہمیں یہ کالج چھوڑ کر لاہور آناپڑا۔ ‘‘

انڈین ایئرفورس ٹریننگ کور کا کورس کرنے والے طلبہ کو باقاعدہ سرٹیفیکیٹ جاری ہوتا تھا جس کا نمونہ راقم اپنی کتاب ’’شہرِخوباں‘‘ سے نقل کررہا ہے۔ یہ سرٹیفیکیٹ جس پر ایئرمارشل، ایئرآفیسر کمانڈنگ اِن چیف، ایئرفورسز اِن انڈیا کی طرف سے افسرِمجاز نے دستخط کررکھے ہیں کالج کے ایک طالب علم بشیر احمد کو جاری ہوا تھا

CERTIFICATE OF PROFICIENCY

SPECIAL AIR FORCE CLASS

This is to certify that Bashir Ahmad a student of the Talim-ul-Islam College, Qadian, Punjab University has successfully completed, in the first division, the I.A.T.C. course in Aeronautics between the dates 15th November 1946 and 25th May 1947

Signed this twenty-fifth day of May 1947

Signed

شہر بِیتی نہ پوچھئے مُضطر یہ کہانی ہے دِلخراش بہت

تعلیم الاسلام کالج قادیان کے قیام پر ابھی تین سال ہی گزرے تھے کہ برصغیر پاک و ہند کو دو آزاد و خودمختار مملکتوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہندو اکثریت والے حصہ کا نام بھارت قرار پایا اور مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان کہلانے لگے۔ تقسیم کا اصولی فیصلہ کرتے وقت تو شاید کسی کے ذہن میں یہ بات نہ تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس قدر وسیع پیمانے پر تبادلۂ آبادی ہوگا جس کی مثال تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔ اس سے بڑھ کر کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ برسوں کے دوست یوں اچانک ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوجائیں گے اور خون کی وہ ہولی کھیلی جائے گی کہ دریا سرخ ہوجائیں گے اور نہریں لاشوں سے پٹ جائیں گی لیکن یہ سب کچھ ہوا۔قادیان یا وہاں کے رہنے والے احمدی اس اصول سے کسی طور پر مستثنیٰ نہ تھے۔ یہ توغنیمت ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثّانی ؓکی دُوررس نگاہوں نے وہ کچھ بھانپ لیا جو باقی نہ دیکھ سکے تھے۔ آپؓ نے قادیان سے احمدی آبادی کے انخلا کا کچھ اس طرح انتظام کیا کہ سب لوگ بغیر کسی قابلِ ذکر جانی نقصان کے پاکستان پہنچ گئے۔

ان فسادات کے دوران جو تقسیمِ برصغیر کے نتیجے میں بستی بستی رونما ہونے لگے تھے چونکہ چودھری محمد علی صاحب قادیان میں تھے اور انہوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ ان تکلیف دہ حالات کے عینی شاہد ہیں جن سے ساکنانِ قادیان اور وہاں پناہ لینے والے گردونواح کے مسلمان مہاجرین کو واسطہ پڑا تھا۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button