چودھری محمد علی صاحب (نمبر16)
تعلیم الاسلام کالج کی پہلی کانووکیشن ۱۹۵۰ء میں منعقد ہوئی۔ اس کانووکیشن کے مہمانِ خصوصی حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ تھے لیکن حضور کا کانووکیشن ایڈریس کسی وجہ سے بروقت طبع نہ ہوسکا تھا۔ …چودھری محمد علی نے اس ایڈریس کی طباعت کی بڑی دلچسپ داستان بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ کیسے انہوں نے پوری رات پریس میں گزار کر کانووکیشن کی صبح تک یہ کام مکمل کرایاتھا
یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کور
پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کور قائم کی گئی تو صاحبزادہ مرزا ناصر احمد نے کالج میں یہ کور منظم کرنے کی ذمہ داری بھی چودھری محمد علی کو سونپی۔ موصوف نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس کور کو کالج میں اس طرح منظم کیا کہ کالج کے دستے کا شمار کور کے بہترین دستوں میں ہونے لگا اور اس کے بہت سے جوانوں اور افسران کو ان کی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر انعامات سے نوازا جانے لگا۔
چودھری محمد علی نے ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں والٹن میں منعقد ہونے والے ایک یو او ٹی سی کیمپ جس میں اُس وقت کے پاک فوج کے کمانڈراِن چیف، جنرل گریسی نے بھی آنا تھا کی بہت دلچسپ داستان بیان کی ہے۔ اس داستان کو پڑھتے ہوئے آپ محسوس کریں گے کہ اس کیمپ کے کامیاب انعقاد میں چودھری محمد علی کا کتنا حصہ تھا اوریہ کہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کی لاہور کے دیگر کالجوں کے پرنسپل حضرات اور طلبہ میں کتنی عزت تھی۔ یہ سب جماعت کی برکت اور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا۔
چودھری محمد علی کے اپنے الفاظ میں ’’قیامِ پاکستان کے بالکل ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کور کا پہلا کیمپ تھا۔ یہ کیمپ والٹن میں ہوا تھا اور اس میں پنجاب کے سارے کالجز آئے ہوئے تھے۔ ہمارے ایڈجوٹینٹ کا نام میجر جعفر تھا اور وہی سارے انتظامی معاملات دیکھتا تھا۔ سنتے ہیں ملازمت کے دوران اس سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی تھی جس کی سزا کے طور پر اس کی تنزلی کر کے کرنل سے میجر بنا دیا گیا تھا۔ دل کا برا آدمی نہیں تھا لیکن اسے اپنی زبان پر اختیار نہ تھا اور کیڈٹس کے علاوہ اساتذہ پر گندی گالیوں کی بوچھاڑ اس کی عادت تھی۔ ایک گالی اس کا تکیہ کلام بھی تھا۔ وہ لڑکوں کوگالیاں دیتا تو وہ اسے انجوائے کرتے لیکن جب اس نے ایک بار سٹاف کو بھی گالی دے ڈالی تو لڑکے بپھر گئے اور ہڑتال ہوگئی۔ اگلے دن انگریز کمانڈر انچیف نے آنا تھا۔ یہ کیمپ لاہور گیریژن کی نگرانی میں ہورہا تھا۔ اب لڑکے بضد ہیں کہ کمانڈر انچیف آتا ہے تو آتا رہے ہم کسی صورت میں تقریب میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہم صفائی کریں گے نہ وردیاں پہنیں گے اور کمانڈر انچیف بھلے آتا رہے، ہم خیموں میں ہی بیٹھے رہیں گے۔ ہمیں بہت پریشانی ہوئی کہ اب کیا کیا جائے۔ میں نے دو لڑکوں کو باہر بھجوایا کہ ہم اپنے کالج کے بارےمیں میاں صاحب سے ہدایات لے سکیں مگر وہ لڑکے گرفتار ہوگئے۔ ہمیں تو فوری طور پر علم ہی نہ ہو سکا چنانچہ ہم ان کی واپسی کا انتظار کرتے رہے۔ جب اس طرف سے مایوسی ہوئی تو میں نے وٹرنری کالج کے پرنسپل، راجہ صدر الدین احمدجنہیں اپنے رانگڑ ہونے پر بےحد ناز تھا اور وہاں موجود تھے ان سے کہا کہ آپ کے ہوتے ہوئے ہمیں اتنی بڑی پریشانی آن پڑی ہے۔ پوچھنے لگےکیا ہوا ہے؟ میں نے بتایا کہ ہم نے اس طرح دو لڑکے بھجوائے تھے لیکن وہ واپس نہیں آئے۔ میں باقی کالجز کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ہمار اکالج کل ضرور پریڈ میں شامل ہوگا۔ بعد میں آپ یا کوئی اور ہم سے شکوہ نہ کرے کہ ہم کیوں وہاں چلے گئے تھے۔ اگر آپ کو یہ بات قابلِ قبول نہ ہو تو میری مدد کریں۔ پوچھنے لگےکیا مدد کروں؟ میں نے کہا ہم لڑکوں سے کہتے ہیں کہ وہ غصہ تھوک دیں اور رنگ میں بھنگ نہ ڈالیں۔ یہ بات ان کے دل کو لگی چنانچہ ہم لالٹین لے کر ایک ایک خیمے میں گئے۔ لڑکے گانے گا رہے تھے، قوالیاں ہو رہی تھیں اور نعرے لگ رہے تھے۔ہم نے ان سے کہا کہ میجر جعفر نے تمہارے اساتذہ کو گالی دی اور تم لوگوں نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کردیا۔ اساتذہ نے پاکستان اور اس کی عزت کی خاطر اسے معاف کردیا ہے لہٰذا تم بھی اسے معاف کردو۔ کمانڈرانچیف انگریز ہے۔ وہ کیا کہے گا کہ ہم کیسے لوگ ہیں۔ خدا کا شکر ہے لڑکوں نے ہماری عزت رکھ لی اور ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ ہوگئے چنانچہ رات بھر صفائیاں ہوتی رہیں، استریاں ہوتی رہیں اور ہر چیز بالکل ٹِشن ہوگئی۔
صبح تک سب لوگ ضروری کارروائی کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ وزیرتعلیم، وائس چانسلر، ایک دو جرنیل، چار پانچ بریگیڈیئر اور بہت سے جونیئر فوجی افسر اور سوِیلین آفیسرز کھڑے تھے۔ ان میں ایک مرزا رفیق عنایت بھی تھے جو میرے کلاس فیلو رہے تھے اور گجرات کے کسی کالج کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ وہ بعد میں سِول سروس آف پاکستان میں چلے گئے اور سرگودھا میں کمشنر رہے۔ احمدی نہیں تھے لیکن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کے دوستوں میں سے تھے اور ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ پتا نہیں کیا ہوا کہ میجر جعفر نے لڑکوں کے سامنے ہی انہیں مخاطب کر کے کہا You bastard, walking like a pregnant woman!n!۔!.لڑکے اس کی یہ بات سن کر بگڑ گئے اور قریب تھا کہ ہنگامہ ہو جاتا مگر اسی اثنا میں میاں صاحب وہاں پہنچ گئے۔ میں نے آگے بڑھ کر آپ کا استقبال کیا اور عرض کی کہ میں نے دو لڑکے بھیجے تھے لیکن وہ شاید آپ تک پہنچ نہیں پائے۔ یہاں تو بڑا ہنگامہ ہو چلا تھا۔ بڑی مشکل سے ٹھیک ہوا لیکن اب پھر گڑبڑ ہوگئی ہے۔ کہنے لگےکیا ہوا ہے؟میں نے کہامیجر جعفر گالیاں بکتا تھا جس پر لڑکے بگڑ گئے۔ تب راجہ صدرالدین احمد نے ہماری مدد کی لیکن اب پھر ہنگامہ ہوگیا ہے۔ رفیق عنایت میرے ساتھ کھڑے تھے۔ میجر جعفر آگے آیا اور اس نے میاں صاحب کو سلام کیا۔ انہوں نے پوچھا کیا ہواتھا؟ چند فقروں کے بعد کہنے لگا What do I care about these bloody bastards.s.جب اس نے دو تین د فعہ یہی فقرہ دہرایا تو میاں صاحب نے مجھے کہا
Chaudhary Sahib, please pack up. Tell your boys to pack up. You are not going to stay here and Mr. Adjutant, you may not care about these bloody bastards but we love them. We don‘t bring them here to be insulted and taught these manners. We will pack up. Don‘t wait.
گیریژن کماندڑ جو غالباً کوئی جرنیل تھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا آیا۔اس نے میجر جعفر سے کہا کہ مرزا صاحب سے معافی مانگو۔ اس نے معافی مانگی۔ رفیق عنایت بدستور میرے پاس کھڑے تھے۔ انہوں نے مولوی عبدالرحمٰن جٹ کی طرح میرا ہاتھ بہت مضبوطی سے پکڑلیا اور بآوازبلند کہنے لگے
What does Mirza Sahib care about him!
انہوں نے اونچی آواز میں یہی فقرہ دہرایا۔ اس کے بعد سب سے پہلے تو وزیرتعلیم، سردار عبدالحمید دستی آئے اور کہنے لگےمرزا صاحب! آج آپ نے ہماری عزت رکھ لی۔ پھر وائس چانسلر آئے۔ پھر زرعی کالج کے پرنسپل آئے۔ وہ بیک زبان کہہ رہے تھے کہ آج تو آپ نے کمال کردیا۔
جب کیمپ ختم ہوا تو لڑکے ٹرکوں میں بیٹھ کر اپنے اپنے کالجوں کو واپس جانے لگے۔ آرمی نے واپسی کا رُوٹ کچھ اس طرح رکھا تھا کہ ٹرک زیادہ آبادی والے علاقے میں سے نہ گذریں۔ ٹرک روانہ ہوئے تو ہم بڑی دیر تک ’’میجر جعفر مردہ باد‘‘ ’’مرزا ناصر احمد زندہ باد‘‘اور ’’پرنسپل ٹی آئی کالج زندہ باد‘‘ کے نعرے سنتے رہے۔ ‘‘
یہ تو تھیں چودھری محمد علی کی یادداشتیں پنجاب یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کور کے ایک کیمپ کے حوالہ سے۔ تاریخ احمدیت مؤلفہ دوست محمد شاہد کی جلد ۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم الاسلام کالج کے طلبہ، چودھری محمد علی اور کالج کے پرنسپل کی کاوشوں کو خوب سراہا گیا۔ ملاحظہ ہو اس کتاب کا یہ اقتباس’’کالج کے دستہ نے فروری ۱۹۴۸ء میں سالانہ کیمپ کے موقع پر ضبط اور اطاعت کا بہترین نمونہ دکھا کر اعلیٰ افسروں سے خراجِ تحسین وصول کیا اور دستہ کے سارجنٹ بشارت احمد کی ہزایکسیلنسی کمانڈر اِن چِیف پاکستان نے بھی بہت تعریف کی اور اس فن میں مہارت پر انہیں مبارک باد دی۔
۱۹۴۹ء میں سالانہ کیمپ کے موقع پر یو او ٹی سی کے ہر افسر نے کالج کے اس دستہ کے جوانوں کے ضبط، اطاعت، جوشِ عمل اور حسنِ کارکردگی پر اظہارِ مسرت کیا اور یہ دستہ عسکری فنون میں تمام دستوں میں اول رہا اور یو او ٹی سی کے کرنل نے گورنر پنجاب سردار عبدالرب صاحب نشتر کے سامنے اس امر کا اظہار بھی کیا۔ تعلیم الاسلام کالج کا یہ دستہ ہر لحاظ سے معیاری اور بہترین شمارکیا جاتا تھا چنانچہ مختلف گارڈز آف آنر میں نسبتی اعتبار سے بھی اور محض تعداد کے اعتبار سے بھی تعلیم الاسلام کالج کی تعداد سب سے زیادہ رہی مثلاً اُن دنوں شہنشاہ ایران کی آمد پر جو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اس میں تقریباً اسّی فیصد نوجوان اسی کالج کے طالب علم تھے۔‘‘
تعلیم الاسلام کالج کی سالانہ رپورٹ برائے ۵۱۔۱۹۵۰ء میں بھی ان کامیابیوں کا بایں الفاظ ذکر کیا گیا ہے:’’ہماری یو او ٹی سی یونٹ نے سالانہ کیمپ میں کامیابی کے ساتھ شمولیت کی اور اپنے ضبط اور نظم کا مظاہرہ کیا۔ اس سال بعض مجبوریوں کی بنا پر افسر انچارج کیمپ پر ساتھ نہیں جاسکا لیکن طلبہ نے اپنے افسر کی غیرموجودگی میں یہ مثال قائم کی کہ ضبط و نظم بیرونی اسباب کے بغیر بھی قائم رہ سکتا ہے۔ کیڈٹ رضاعلی کو کیمپ کے بہترین چیمپئن سکواڈ کا ممبر شمار کیا گیا اور اس کا سرٹیفیکیٹ بھی میجر جنرل محمد اعظم کی طرف سے اُسے دیا گیا۔
سی کیو ایم ایس ناصر احمد، لانس کارپورل حلیم اور امان اللہ نے کیڈر کورس میں شمولیت کی اور پاس ہوئے۔
سالانہ فائرنگ کے موقع پر جس میں رائفل، سٹین گن، برین گن اور دو انچ مارٹر کے فائر شامل تھے ہمارے کالج نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس میں اول عبدالحلیم لانس کارپورل اور دوم حمیداللہ بھیروی رہے۔
اس سلسلہ میں جہاں ہم آفیسران کور ہیڈ کوارٹرز میجر شاہ،کیپٹن خان اور جمعدار نذر محمد کے مشکور ہیں وہاں کیپٹن سید کرامت حسین جعفری کا دلی شکریہ ادا کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے جنہوں نے کمال محبت، رواداری اور ہمدردی سے ہماری ذمہ داریوں کو خود برداشت کیا اور ہماری مشکلات کے حل کرنے میں دلچسپی لی۔ یونیورسٹی کی سالانہ کانووکیشن کے موقع پر ہمارے سات طلبہ گارڈآف آنر کے لیے منتخب ہوئے۔
اب تک ہم یو او ٹی سی کے حوالہ سے بہت سی باتیں کرچکے ہیں لیکن نہ جانے کیوں مجھے یقین سا ہے کہ اب تک آپ اس کور کی ماہیت کا صحیح طور سے اندازہ نہیں لگا سکے ہوں گے۔ اتفاق سے المنار میں میری نظر سے دو ایسے مضمون گزر چکے ہیں جن کی مدد سے آپ کو معلوم ہوسکے گا کہ یہ کور کیوں کر تشکیل دی گئی تھی اور اس کے تحت افسران کی تربیت کن اصولوں پر کی جاتی تھی، آفیسرز ٹریننگ کور میں تعلیم الاسلام کالج کے دستہ کا مجموعی طور پر کیا مقام تھا اور یہ دستہ کس طرح مختلف مواقع پر اپنی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ ان مضامین میں اس دستے میں شامل کالج کے نمایاں نوجوانوں اور افسران کا ذکر بھی موجود ہے۔
تعلیم الاسلام کالج کی UOTC Detachmentاخلاقی لحاظ سے بھی غیروں کو متاثر کرنے والی تھی۔ چودھری محمد علی اپنے مضمون ’’پیارے میاں صاحب‘‘ مطبوعہ ماہنامہ خالد، سیدنا ناصر نمبر میں بیان فرماتے ہیں کہ’’قندیل میں ایک مرتبہ ساملی سینے ٹوریم سے تپ دق کے ایک مریض کا خط شائع ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ایک دن سینکڑوں نوجوان طلبہ فوجی وردی میں ملبوس ہمارا ہسپتال دیکھنے آئے اور ہمارے پاس سے یوں دامن بچا کرنکل گئے جیسے ہم انہیں تپ دق میں مبتلاکردیں گے۔ ہم نے پوچھا یہ نوجوان کون ہیں؟ جواب ملا کہ یہ پنجاب یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کور کے بھوربن کیمپ سے آئے ہیں اور لاہور اور دیگر شہروں کے کالجوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر اس کے بعد کچھ اور نوجوان آئے۔ وہ بھی باوردی تھے۔ وہ ہمارے پاس رکے اور ہماری طبیعت پوچھی۔ ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ آپ کس کالج سے تعلق رکھتے ہیں؟ انہوںنے کہا کہ تعلیم الاسلام کالج، لاہور سے۔ عاجز اس کیمپ میں شامل تھا اور یہ خط حرف بحرف صحیح ہے۔‘‘
پہلی کانووکیشن
تعلیم الاسلام کالج کی پہلی کانووکیشن ۱۹۵۰ء میں منعقد ہوئی۔ اس کانووکیشن کے مہمانِ خصوصی حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ تھے لیکن حضور کا کانووکیشن ایڈریس کسی وجہ سے بروقت طبع نہ ہوسکا تھا۔ ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں چودھری محمد علی نے اس ایڈریس کی طباعت کی بڑی دلچسپ داستان بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ کیسے انہوں نے پوری رات پریس میں گزار کر کانووکیشن کی صبح تک یہ کام مکمل کرایاتھا۔ موصوف کہتے ہیں’’تعلیم الاسلام کالج کی تاریخ میں پہلی کانووکیشن اپریل ۱۹۵۰ء میں منعقد ہوئی۔ یہ کانووکیشن دوسال بعد ہو رہی تھی۔ جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے میردائود احمد پہلے سال کے واحد گریجوایٹ تھے اور دوسرے سال کے گریجوایٹس میں رانا محمد خاں، عبدالسمیع نون اور ڈاکٹر عبدالکریم شامل تھے۔
اس زمانے میں لاہور میں لائن آرٹ پریس کا بہت شہرہ تھا۔ اسی طرح ہائی کورٹ کے تقریباً سامنے مال روڈ پر مرکنٹائل پریس بھی معروف چھاپہ خانوں میں سے تھا۔ لائن پریس کے مالک شیخ عبدالوحید میاں صاحب کے ساتھ ذاتی مراسم رکھتے تھے اور کالج کا اکثر کام ان ہی سے کرایا کرتے تھے تاہم اس کانووکیشن کا صدارتی خطبہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانؓی نے ارشاد فرمانا تھا ہم نے مرکنٹائل پریس کو چھپنے کے لیے دے رکھا تھا۔ یوں تو یہ ایڈریس کانووکیشن سے بہت پہلے چھپنے کے لیے دیا گیا تھا اور میں اور پروفیسر غلام علی چودھری(جو بعد میں پنجاب یونیورسٹی میں چلے گئے تھے) یہ کام دیکھ رہے تھے لیکن پتا نہیں کیا ہوا اس کی طباعت میں غیرضروری تاخیر ہوتی گئی حتیٰ کہ آخری مرحلہ پر پریس کے مالک نے انتہائی ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے مقررہ وقت میں کام مکمل کرنے سے انکار کردیا۔
میں نے ساری صورتِ حال میاں صاحب کے گوش گذار کردی۔ عین اسی وقت لائن پریس کے مالک آگئے۔ ان کی موجودگی میں میاں صاحب نے فون پر کسی سے کوئی بات کی تو انہیں اندازہ ہوگیا کہ کوئی چیز اب تک چھپ جانی چاہیے تھی مگر چھپ نہیں سکی اور وجہِ پریشانی بنی ہوئی ہے۔ فون بند ہوا تو وہ کہنے لگے میاں صاحب! میں ایک عرض کرسکتا ہوں؟ آپ نے کہا فرمائیے۔ پوچھنے لگےکوئی چیز چھپ رہی ہے لیکن اس میں کوئی دِقّت ہے؟ میاں صاحب نے فرمایا ہاں دِقّت تو ہے۔ بات سن کر کہنے لگےیوں کریں آپ کانووکیشن ایڈریس کا پروف ہمیں لادیں، نام اسی پریس کا رہے گا لیکن کل صبح کانووکیشن شروع ہونے سے پہلے وہ آپ کو تیار مل جائے گا۔ میاں صاحب خاموش رہے لیکن میں نے کہا جی ٹھیک ہے۔ جب میں نے مرکنٹائل پریس پر جاکر اپنے کاغذات کی واپسی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا۔ میں پریشان ہوا لیکن واپس آگیا۔ یہ پریس مغرب کے قریب بند ہوتا تھا۔ میں نے مغرب تک انتظارکیا اور چھٹی سے ذرا پہلے دوبارہ وہاں چلا گیا۔ پریس کے مالکان اس وقت تک جا چکے تھے لیکن پروف رِیڈرز بیٹھے تھے۔ میں نے کسی طرح ان سے وہ سارے کاغذات لے لیے اور خوشی خوشی واپس آگیا۔ اب ہمیں شیخ عبدالوحید سے ملنا تھا لیکن اس وقت ان کا پریس پر ہونا غیریقینی تھا اور ہمیں ان کے گھر کا پتا معلوم نہیں تھا تاہم جنیدہاشمی نے یہ مسئلہ حل کردیا۔ معلوم ہوا کہ ان کی کوٹھی مغلپورہ میں ہے۔ ہم وہاں پہنچ گئے۔ بڑی دیر ہوگئی تھی۔ شیخ صاحب اوپر سے نیچے آئے اور ہمیں دیکھ کر قدرے حیرت سے کہنے لگےآپ اس وقت؟ خیریت تو ہے۔ ہم نے کہا ہم پروف لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ کہنے لگے اب تک تو میری ساری لیبر چھٹی کرچکی ہوگی لہٰذا میں اس وقت آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا اچھا پھر آپ مشورہ دیں کہ اب کیا کیا جائے؟ کہنے لگے میں کوشش کردیکھتا ہوں۔ حسنِ اتفاق سے پریس پر ان کے بعض آدمی موجود تھے۔ انہوں نے کہاآپ یوں کریں ایک اپنا آدمی پریس میں بٹھا دیں۔ اس سے جو کچھ پوچھا جائے وہ بتاتا جائے۔ اپنا فون نمبر بھی ہمیں دے دیں۔ ہم نے نورالدین امجد کو وہاں بٹھا دیا۔ وہ خان بہادر چودھری ابوالہاشم کے بیٹے اور مرزا خورشید احمد کے کلاس فیلو تھے۔ میں پروفیسر غلام علی کو ساتھ لے کر خود بھی وہاں بیٹھ گیا۔ کاغذ ترتیب دے کر پروف ریڈرز کو دیتے گئے۔ انہوں نے بھی دل لگا کر کام کیا چنانچہ صبح تک سارے کاغذ چھپ گئے۔ اب سوال یہ تھا کہ ٹائٹل کیسا ہو۔ آرٹسٹ نے پانچ چھ نمونے تیار کر کے ہمیں دکھا دیے جن میں سے ہم نے ایک پسند کرلیا۔ خدا کا شکر ہے صبح کانووکیشن سے پہلے انہوں نے ہمیں ایڈریس کی دو سو کاپیاں تیار کر کے دے دیں۔
لائن پریس کے ساتھ قائم ہونے والا ہمارا یہ تعلق بہت دیر تک قائم رہا اور انہوں نے بھی اس تعلق کا ہمیشہ احترام کیا۔ مجھے یاد ہے تختِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزاناصر احمد نے اپنے پہلے غیرملکی دورے پر جانا تھا تو مجھے بطور پرائیویٹ سیکرٹری ساتھ چلنے کا حکم ہوا۔ روانگی سے پہلے میں نے حضور سے پوچھا کہ کیا کچھ وِزِیٹنگ کارڈز چھپوا لوں تاکہ وہاں کام آ سکیں۔ حضور نے اس تجویز کو پسند کیا چنانچہ میں نے لائن پریس سے رابطہ کیا۔ اس وقت تک شیخ عبدالوحید فوت ہو چکے تھے اور ان کا ایک بیٹا یہ کاروبار دیکھ رہا تھا۔ ہم نے ایک سیمپل پسند کیا اور کہا کہ اس طرح کا کارڈ بنادیں۔ انہوں نے کارڈز تیار کر کے بھجوادیے۔ کارڈز خاصی تعداد میں چھپوائے گئے تھے تاہم جب بِل مانگا گیا تو وہ کہنے لگے جی بل کیسا؟ ہم آپ سے بل نہیں لے سکتے۔ تو یہ تھا محبت کا تعلق۔‘‘
یہ تو تھا کانووکیشن ایڈریس کی طباعت کا قصہ۔ الحمدللہ کانووکیشن سے پہلے اس ایڈریس کی خاطر خواہ تعداد میں کاپیاں کالج کو مل گئیں۔ حضور نے اس ایڈریس میں فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو جو نصائح فرمائیں وہ آج بھی اسی طرح لائقِ توجہ ہیں جس طرح وہ ۱۹۵۰ء میں تھیں۔ حضور کا مکمل خطاب ریکارڈ پر موجود ہے تاہم اس کا یہ حصہ جو زیادہ قابلِ توجہ ہے ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے:’’میں ان نوجوانوں کو جو تعلیم سے فارغ ہوکر اپنی زندگی کے دوسرے مشاغل کی طرف مائل ہونے والے ہیں، کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے قانون کے مطابق سکون کے حاصل کرنے کی بالکل کوشش نہ کرو بلکہ ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد کے لیے تیار ہوجائو اور قرآنی منشا کے مطابق اپنا قدم ہر وقت آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ وہ آپ کو صحیح کام کرنے اور صحیح وقت پر کام کرنے اور صحیح ذرائع کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر اس کام کے صحیح اور اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرے۔
یاد رکھو کہ تم پر صرف تمہارے نفس کی ہی ذمہ داری نہیں۔ تم پر تمہارے اس ادارے کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہیں تعلیم دی ہے اور اس خاندان کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہاری تعلیم پر خرچ کیا ہے خواہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اور اس ملک کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہارے لیے تعلیم کا انتظام کیا ہے اور پھر تمہارے مذہب کی بھی ذمہ داری ہے۔ تمہارے تعلیمی ادارے کی جو تم پر ذمہ داری ہے وہ چاہتی ہے کہ تم اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھے طور پر استعمال کرو۔ یونیورسٹی کی تعلیم مقصود نہیں ہے وہ منزل مقصود کو طے کرنے کے لیے پہلا قدم ہے۔ یونیورسٹی تم کو جو ڈگریاں دیتی ہے وہ اپنی ذات میں کوئی قیمت نہیں رکھتیں بلکہ ان ڈگریوں کو تم اپنے آئندہ عمل سے قیمت بخشتے ہو۔ ڈگری صرف تعلیم کا ایک تخمینی وزن ہے اور ایک تخمینی وزن ٹھیک بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی ہوسکتا ہے۔ محض کسی یونیورسٹی کے فرض کرلینے سے کہ تم کو علم کا تخمینی وزن حاصل ہوگیا تم کو علم کا وہ فرضی درجہ نصیب نہیں ہوجاتا جس کے اظہار کی یونیورسٹی ڈگری کے ساتھ کوشش ہوتی ہے۔ اگر ایک یونیورسٹی سے نکلنے والے طالب علم اپنی آئندہ زندگی میں یہ ثابت کریں کہ جو تخمینی وزن ان کی تعلیم کا یونیورسٹی نے لگایا تھا ان کے پاس اس سے بھی زیادہ وزن کا علم موجود ہے تو دنیا میں اس یونیورسٹی کی عزت اور قدر قائم ہو جائے گی لیکن اگر ڈگریاں حاصل کرنے والے طالب علم اپنی بعد کی زندگی میں یہ ثابت کردیں کہ تعلیم کا جو تخمینی وزن ان کے دماغوں میں فرض کیا گیا تھا ان میں اس سے بہت کم درجہ کی تعلیم پائی جاتی ہے تو یقیناً لوگ یہ نتیجہ نکالیں گے کہ یونیورسٹی نے علم کی پیمائش کرنے میں غلطی سے کام لیا ہے۔
پس تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یونیورسٹیاں اتنا طالب علم کو نہیں بناتیں جتنا کہ طالب علم یونیورسٹیوں کو بناتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لو کہ ڈگری سے طالب علم کی عزت نہیں ہوتی ہے۔ پس تمہیں اپنے پیمانہ علم کو درست رکھنے بلکہ اس کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور اپنے کالج کے زمانہ کی تعلیم کو اپنی عمر کا پھل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اپنے علم کی کھیتی کا بیج تصور کرنا چاہیے اور تمام ذرائع سے کام لے کر اس بیج کو زیادہ سے زیادہ بارآورکرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ اس کوشش کے نتیجہ میں ان ڈگریوں کی عزت بڑھے جو آج تم حاصل کررہے ہو اور اس یونیورسٹی کی عزت بڑھے جو تمہیں یہ ڈگریاں دے رہی ہے اور تمہاری قوم تم پر فخر کرنے کے قابل ہو اور تمہارا ملک تم پر اعلیٰ سے اعلیٰ امیدیں رکھنے کے قابل ہو اور ان امیدوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھے۔
تم ایک نئے ملک کے شہری ہو۔ دنیا کی بڑی مملکتوں میں سے بظاہر ایک چھوٹی سی مملکت کے شہری ہو۔ تمہارا ملک مالدار ملک نہیں ہے۔ ایک غریب ملک ہے۔ دیر تک ایک غیرحکومت کی حفاظت میں امن اور سکون سے رہنے کے عادی ہوچکے ہو۔ سو تمہیں اپنے اخلاق اور کردار بدلنے ہوں گے۔ تمہیں اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرنی ہوگی۔ تمہیں اپنے ملک کو دنیا سے روشناس کرانا ہوگا۔ ملکوں کی عزت کو قائم رکھنا بھی ایک بڑا دشوار کام ہے لیکن ان کی عزت کو بنانا اس سے بھی زیادہ دشوار کام ہے اور یہی دشوار کام تمہارے ذمہ ڈالا گیا ہے۔ تم ایک نئے ملک کی نئی پود ہو۔ تمہاری ذمہ داریاں پرانے ملکوں کی نئی نسلوں سے بہت زیادہ ہیں۔ انہیں ایک بنی ہوئی چیز ملتی ہے۔ انہیں آباء و اجداد کی سنتیں یا روایتیں وراثت میں ملتی ہیں۔ مگر تمہارا یہ حال نہیں ہے۔ تم نے ملک بھی بنانا ہے اور تم نے نئی روایتیں بھی قائم کرنی ہیں، ایسی روایتیں جن پر عزت اور کامیابی کے ساتھ آنے والی بہت سی نسلیں کام کرتی چلی جائیں اور ان روایتوں کی رہنمائی میں اپنے مستقبل کو شاندار بناتی چلی جائیں۔…‘‘(باقی آئندہ)
٭…٭…٭