متفرق مضامین

وفات کے بعد رد عمل

(م۔ ا۔ شہزاد)

کسی کے وفات پاجانےپرایک مومن کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟

اگر تم ثواب کی نیت رکھتے ہو تو صبر کرو اور واویلا کر کے اپنا اجر ضائع نہ کر بیٹھو کہ بعد میں تمہیں ندامت ہو

امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پاکیزہ کلام میں اس فانی دنیا کے متعلق فرماتے ہیں کہ

’’دنیا بھی اک سرا ہےبچھڑے گا جو ملا ہے

گر سو برس رہا ہےآخر کو پھر جدا ہے‘‘

یہ دنیافانی ہے جو پیدا ہواہے اسے فنا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے کوئی ردنہیں کر سکتا۔اسی سنت الٰہی کی وجہ سے آئے دن ہم میں سے کوئی نہ کوئی اس دار فانی سے کوچ کر جاتاہے۔اور پیچھے رہ جانے والوں کو اداس کر جاتا ہے۔ایسے میں ایک مومن کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے اس بارے میں چند ایک گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

ارشاد باری تعالیٰ

وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَالۡجُوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ (البقرہ:157،156)ترجمہ:اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے۔اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقیناً اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقیناً اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

جنت میں گھرتعمیر کرو

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے بچہ کو وفات دیتا ہے تو اپنے ملائکہ سے کہتا ہے کہ کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی رُوح قبض کی؟اس پر فرشتے جواب دیتے ہیں ہاںہمارے اللہ !پھر وہ فرماتا ہے کہ تم نے اُس کے دل کی کلی توڑ لی ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ہاںہمارے اللہ!پھر وہ پوچھتاہے کہ اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں کہ اُس نے تیری حمد کی اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم میرے اس صابر وشاکر بندے کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کرو اور اُس کا نام ’’بیت الحمد‘‘رکھو۔(ترمذی کتاب الجنائزباب فضل المصیبة)

نو لڑکے حافظ قرآن

رسول کریم ﷺ نے حضرت ام سلیم ؓ کے شوہر حضرت ابو طلحؓہ کو کسی اسلامی خدمت کے سلسلہ میں باہر بھیجا۔ان کا ایک بچہ بیمار تھا۔اوران کو اپنے بچے کی بیماری کی قدرتی طور پرفکر تھی۔حضرت ابو طلحہ ؓ جب واپس آئے تو ان کی غیر حاضری میں ان کا بچہ فوت ہو چکا تھا۔اس موقع پر ان کی والدہ ام سلیم نے جنہیں اپنے بیٹے سے بہت محبت تھی۔کمال صبر کا نمونہ دکھایا۔وہ نہ تو خود پریشان ہوئیں نہ سفر سے آتے ہی اپنے شوہر کو پریشان کیا۔بلکہ بچے کواللہ کی امانت جان کر صبر کر لیا۔اپنے مردہ بچے پر کپڑا ڈال دیا۔ اور بڑے حوصلے کے ساتھ اپنے خاوند کا استقبال کیا۔جب حضرت ابو طلحہؓ رات گئے واپس گھرلوٹے تو انہوں نے آتے ہی سوال کیا کہ بچے کا کیا حال ہے؟ توحضرت ام سیلم ؓ نےبڑے صبر اور عقلمندی سے کام لیتے ہوئے جواب دیا کہ بچہ بہت سکون میں ہے۔ان کا مطلب تھا کہ وہ بیماری کی تکلیف سے آزاد ہو کر خدا کے حضور حاضر ہو چکا ہے۔ابو طلحہؓ سمجھے کہ شاید بچہ صحت یاب ہو گیا ہے۔حضرت ام سلیم ؓنے حضرت ابو طلحہ ؓ کو کھانا پیش کیا۔دونوں نے کھانا کھایااور آرام سے لیٹ گئے۔اگلی صبح جب حضرت ابو طلحہ ؓ نماز کے لیے مسجد نبوی جانے لگے تو حضرت ام سلیم ؓ نے انہیں روک کر کہا! میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتی ہوں۔حضرت ابو طلحہؓ نے پوچھا کیا؟حضرت ام سلیم ؓ نے کہا اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھ جائے اور کچھ عرصہ کے بعد وہ چیز واپس لینا چاہے تو کیا وہ چیز اسے واپس کی جائے یا نہ کی جائے؟ حضرت ابو طلحہ ؓ نے کہا کون بیوقوف ہو گا جو کسی کی امانت کو واپس نہیں کرے گا۔حضرت ام سلیم ؓ نے کہا آخر افسوس تو ہوگا کہ میں امانت واپس کر رہا ہوں۔حضرت ابو طلحہ ؓ نے جواب دیا افسوس کس بات کا ؟ وہ چیز اس کی اپنی نہیں تھی۔اگر وہ اسے واپس کر دے تو اسے کیا افسوس ہو سکتا ہے۔اس پرحضرت ام سلیم ؓ نے کہا اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر آپ اپنے بیٹے کی وفات پر صبر کریں کیونکہ وہ بھی ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت تھا اور اب اس نے ہم سے اپنی امانت واپس لے لی ہے۔حضرت ابوطلحہؓ مسجد نبوی میں جاکر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو سارا واقعہ کہہ سنایا۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تم دونوں کی آج کی رات میں برکت ڈالے اور اس بچے کا نعم البدل عطاکرے۔چنانچہ حضورﷺ کی یہ دعا ان کے حق میں قبول ہوئی اور پھران کے اس بے مثال صبر پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اتنا نوازا کہ انصار میں سے ایک شخص نے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابو طلحہ ؓکے نو بچے دیکھے اور وہ سب نو لڑکے حافظ قرآن تھے۔(صحیح مسلم کتاب الادب حدیث نمبر2144،صحیح بخاری کتاب الجنائز حدیث نمبر1301،ماخوذازانوارالعلوم جلد 21صفحہ53-54)

شیطانی فعل

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ فوت ہوئیں تو عورتیں رونے لگیں حضرت عمرؓکوڑے سے انہیں مارنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیچھے ہٹایا،اور فرمایا اے عمرؓ! رہنے دو۔پھر آپﷺ نے عورتوں کو نصیحت فرمائی کہ تم شیطانی آوازوں (یعنی چیخ و پکار) سے اجتناب کرو۔ بےشک ایسے صدمے میں آنکھ کا اشکبار ہوجانا اور دل کا غمگین ہونا تو اللہ کی طرف سے ہے،جودل کی نرمی اور طبعی محبت کا نتیجہ ہے۔ہاتھ اور زبان سے ماتم شیطانی فعل ہے۔(مسند احمد جلد1صفحہ335)

اپنے مولا کی رضا پرراضی

حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہمارے ایک بھائی عزیزم حمید اللہ خان تھے۔ وہ آٹھ نو سال کی عمر میں چند دن بیمار رہ کرفوت ہوگئے۔ ان کی وفات فجرکے وقت ہوئی۔والد حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحب صاحب تمام رات ان کی تیمارداری میں مصروف رہے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تجہیزو تکفین، جنازہ اور دفن سے فارغ ہوکر عدالت کھلنے پر حسب دستور عدالت میں اپنے کام پرحاضر ہوگئے۔ نہ مؤکلوں میں سے کسی کو احساس ہوا، اور نہ افسران عدالت یا آپ کے ہم پیشہ اصحاب میں سے کسی کو اطلاع ہوئی کہ آپ اپنے ایک لخت جگرکو سپردخاک کرکے اپنے مولا کی رضا پرراضی اور شاکر اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے حسب معمول کمر بستہ حاضر ہوگئے ہیں۔‘‘(اصحاب احمد جلد 11 صفحہ165-166)

اللہ تعالیٰ تجھے زندہ رہنے والا بچہ دےگا

حضرت خلیفةالمسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:’’آپ کا خادم بننے کا پہلا حق یا خادم بننے کےلئے پہلا گر یہ ہے کہ آپ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہنی چاہئے۔ اگر کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلاءآئے تب بھی بشاشت آنی چاہئے۔…میری بڑی لڑکی کا پہلا لڑکا نہایت خوبصورت تھا مگر پیدائش کے بعد اُس نے سانس نہیں لیا۔ ہسپتا ل میں تھے، جب گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ڈاکٹر فارغ ہوا اور اُس نے اجازت دی کہ آپ بچی سے مل لیں تو میں نے دل میں سوچا اِس کا پہلا بچہ ہے چھوٹی عمر ہے شاید نو عمری میں بہک گئی ہو چہرے پر گھبراہٹ ہو۔ چنانچہ جب میں اپنی طرف سے اُسے تسلی دینے کےلئے گیا تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اِس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی اور میں نے اُسی وقت اُس سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھے زندہ رہنے والا بچہ دےگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُسے دوسرا بچہ عطا کیا۔ خدا کی چیز تھی اُس نے لے لی غم کی کیا بات ہے۔‘‘( مشعل راہ جلد2 صفحہ 245۔246)

محبت کے آنسو

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی ایک کم سن بیٹی آخری دموں پرتھی۔ رسول کریم ﷺنے اسے اپنے سینے سے چمٹایا پھر اس پر اپنا ہاتھ رکھا اس کی روح پرواز کرگئی۔بچی کی میّت رسول اللہ ﷺکے سامنے تھی۔ رسول اللہ ﷺکی رضاعی والد ہ اُم ایمن رو پڑیں۔ رسول کریم ﷺنے اسے فرمایا اے ام ایمن ! رسول اللہﷺ کی موجودگی میں تم روتی ہو وہ بولیں جب خدا کا رسول بھی رورہا ہے تو میں کیوں نہ روؤں۔ رسول کریم ﷺنے فرمایامیں روتا نہیں ہوں۔ یہ تو محبت کے آنسو ہیں پھرآپ ﷺنے فرمایا مومن کا ہر حال ہی خیر اور بھلا ہوتاہے۔ اس کے جسم سے جان قبض کی جاتی ہے اور وہ اللہ کی حمد کررہا ہوتا ہے۔(نسائی کتاب الجنائز باب فی البکاءعلی البیت)

صبرورضاکا شاہکار تعزیتی خط

نوجوان صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ کا بیٹا فوت ہوگیا۔نبی کریم ﷺنے ان کے ساتھ اظہار افسوس کرتے ہوئے جوتعزیتی خط تحریر فرمایاوہ آپ ﷺکے صبرورضاکا ایک شاہکار ہے۔آپ ﷺنے تحریرفرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔یہ خط محمد رسول اللہ ﷺکی طرف سے معاذ بن جبلؓ کی طرف ہے۔آپ پر سلام ہومیں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں ،جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس کے بعد تحریر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عظیم اجر عطا کرے اور تمہیں صبر الہام کرے۔اور ہمیں اور تمہیں شکر کی توفیق دے۔یاد رکھو ہماری جانیں اور ہمارے مال اور ہمارے اہل و عیال سب اللہ کی عطا ہیں۔یہ امانتیں ہیں جو اس نے ہمارے سپرد فرمائی ہیں۔اللہ تعالیٰ تمہیں اس بچے کے عوض سچی خوشی نصیب کرے اور اس کی موت کے بدلے تمہیں بہت سا اجر برکتوں اور رحمتوں اور ہدایت کا عطا کرے۔اگر تم ثواب کی نیت رکھتے ہو تو صبر کرو اور واویلا کر کے اپنا اجر ضائع نہ کر بیٹھو کہ بعد میں تمہیں ندامت ہو اور جان لو کہ واویلا کرنے سے مردہ واپس نہیں آجاتا۔نہ ہی جزع فزع اور بے صبری غم کو دور کرتی ہے اور جو مصیبت انسان کے مقدر میں ہے وہ تو آنی ہی ہوتی ہے۔والسلام (مجمع الزوائد للہیثمی جلد 3صفحہ3بیروت)

اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ہر دکھ تکلیف مصیبت ابتلااور اپنوں کی اس فانی دنیا سے جدائی کے وقت کامل صبر کرنے کی توفیق عطافرماتا رہے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button