حضرت عیسیٰ مسیح ناصریؑ…صبر و استقامت کا شہزادہ نبی
افریقہ میں مختلف ممالک کے عیسائی ٹی وی چینلز بار بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر فلمائی گئی مختلف فلمیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک ایسی ہی فلم چل رہی تھی اور اس پر واقعہ صلیب پیش کیاجا رہا تھا۔ اپنے بچوں کو اس سے قبل حضرت عیسیٰؑ کی کہانی سنائی ہوئی تھی۔جب واقعہ صلیب کے دوران چھید لگانے اور پانی اور خون بہ نکلنے اور قبر کا واقعہ اور پھر اپنے حواریوں کو چھونا اور کھانا کھانا اور پانی پینا اور زخموںمیں انگلی ڈالنا دکھایا گیا تو بچوں نے بے اختیار کہا کہ یہ تو زندہ ہیں۔ تبھی یہ سب ہو رہا ہے۔ ورنہ روح سے یا فوت ہونے والے سے کون ایسے کر سکتا ہے۔ لیکن اس رنگ میں یہ واقعات پیش نہیں کیے جا رہے تھے پھر بھی نتیجہ اخذ کرنا ناظرین کا اپنا اختیار ہے۔
بہر حال اس فلم سے ایک مضمون ذہن میں ابھرا کہ بنی اسرائیل کے اس آخری نبی اور خدا کے پیارے وجود کو کس طورسےاستقامت کا مظاہرہ کرنا پڑا تھا۔ جسے جسمانی طورپر ایک بڑی سزا جھیلنی پڑی۔اور تین دن قبر میں بھی رہنا پڑا۔ایک صاحب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس استقامت کا تذکرہ ہوا تو یہ معلوم ہوا کہ وہ بائبل کے بیان کردہ اس فرضی یسوع کے بارے میں متعدد غیر حقیقی بیانات کی وجہ سے حضرت عیسیٰؑ سے متعلق بعض سخت خیالات کے حامل تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی استقامت سے ناواقف تھے۔ ایک احمدی کبھی کسی نبی کی ہتک یا ان کے خلاف یا ان کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ خصوصاً حضرت عیسیٰؑ کے متعلق جو حقیقی طور پر ایک نبی اور خدا کے فرستادہ ہیں، اور اس وقت دنیا میں ان کے ہی پیروکارسب سے زیادہ ہیں۔
حضرت عیسیٰ ؑپر ایمان
حضرت مسیح موعودؑ نے تو واضح فرمایا ہے کہ’’حضرت مسیح کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے نہیں نکلا یہ سب مخالفوں کا افتراہے۔ ہاں چونکہ درحقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گذرا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا ہو اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو اور حضرت موسیٰ کو ڈاکو کہا ہو اس لئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا۔ لیکن ہمارا مسیح ابن مریم جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدِّق ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔‘‘(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 305،حاشیہ )پھر حضرت مسیح ناصری ؑ کو برگزیدہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ’’یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے۔ اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے۔ ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں۔‘‘(تحفۂ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12صفحہ272)
آپؑ نےحضرت عیسیٰ ؑکو سچا نبی اور نیک اور راستباز قرار دیاہے:’’ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہماری قلم سے ان کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 119)پھر فرمایا:’’ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں۔ سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے برخلاف ہو۔ اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے۔‘‘(ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 228)’’موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا۔‘‘(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 17تا18)پھر فرمایا کہ ’’اور یہ بالکل غلط ہے کہ میں انبیاء ورسل یا صلحاءِامت کی تحقیر کرتا ہوں۔ جیسے میں ابرار و اخیار کادرجہ سمجھ سکتا ہوں اوران کے مقام وقرب کا جتنا علم مجھے ہے کسی دوسرے کو نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم سب ایک ہی گروہ سے ہیں اور الجنس مع الجنس کے موافق دوسرے اس درجہ کے سمجھنے سے عاری ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ اورامام حسینؓ کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسینؓ کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض نا واقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بناویں مگروہ ان کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہرگز تحقیر نہیں کرتے۔‘‘(ملفوظات جلد 3صفحہ 530، ایڈیشن1988ء)سو حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل ہر احمدی مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ ہم حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا کا ایک حقیقی مظلوم فرستادہ یقین کرتے ہیں۔
حضرت مسیح ؑکا تکالیف برداشت کرنا
حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ایک معجزانہ رنگ میں ہوئی۔ ایسی بن باپ پیدائش کو معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ اس لیے یہ سوچنے کی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکی والدہ حضرت مریمؑ نے اس معجزانہ پیدائش کے حامل بچے کو کس طرح زمانے کے حوادث اور اثرات سے بچایا ہو گا۔ اور کس طرح ان کی خصوصی تربیت کا خیال رکھا ہو گا۔ اسی لیے حضرت مسیح ؑکی زندگی کے ابتدائی 30-32سال پردہ ٔغیب میں ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا ہے کہ’ ان کی پیدائش ناز و نعم میں ہوئی تھی اور اس سبب جب صلیب پر چڑھایا گیا تو وہ جلد بے ہوش ہو گئے جبکہ دوسرے چور نہ ہوئے۔‘ ایسے بچے کو جسے اس کی ماں نے خاص توجہ سے پالا ہو جب اس کے سامنے اس کے بچے کو کوئی تکلیف دی جائے تو اس کی ماں کا کیا حال ہوا ہو گا جب کہ وہ کچھ کر بھی نہ سکے۔ذیل میں اس بزرگ نبی پر بیتنے والے ظلم ِعظیم کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائےکرام کی تحریرات سے پیش ہے۔ لیکن اس سے قبل واقعہ صلیب کا خلاصہ پیش ہے کہ کس طرح حضرت مسیح ؑکو جسمانی تکلیف و اذیت اٹھانی پڑی۔
حضرت عیسیٰ ؑواقعہ صلیب سے قبل رات کواپنے حواریوں کو وعظ و نصیحت میں مصروف رہے، گرفتاری کے بعد بقیہ رات اس پیالے کو ٹلنے کی دعا کرتے رہے اور پھر سارا دن عدالتی کارروائی میں مصروف رہے۔اسی کارروائی کے دوران بائبل کے مطابق:’’اُنہوں نے اُس کے منہ پر تھوکا اور اُس کے مکے مارے اور بعض نے طمانچے مار کر کہا۔ اے مسیح ہمیں نبوت سے بتا کہ تجھے کس نے مارا؟‘‘(متی باب26آیت68) انہیں کوڑے لگائے گئے، کانٹوں کا تاج پہنایا گیا۔ صلیب کا بھاری بھر کم لکڑ اٹھا کر گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ان کی عزیز ماں کے سامنے ہتھیلیوں اور پاؤں پر کیل گاڑے گئے۔ اور صلیب پر لٹکائے گئے اور جسم کے وزن کووہ کیل سنبھالتے رہےجس کی تکلیف کا سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دردناک رات اور اذیت ناک دن تھا کہ صبر کے ساتھ ایک معصوم شہزادہ نبی کو یہ ساری اذیت و بربریت برداشت کرنا پڑی۔ عہدنامہ جدید کے مطابق:’’…یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا کہ مصلوب ہو۔اس پر حاکم کے سپاہیوں نے یسوع کو قلعہ میں لے جا کر ساری پلٹن اُس کے گرد جمع کی۔اور اُس کے کپڑے اُتار کر اُسے قرمزی چوغہ پہنایا۔اور کانٹوں کا تاج بناکر اُس کے سر پر رکھّا اور ایک سرکنڈا اُس کے داہنے ہاتھ میں دیا اور اُس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اُسے ٹھٹھوں میں اُڑانے لگے کہ اے یہودیوں کے بادشاہ آداب! اور اُس پر تھوکا اور وہی سرکنڈا لے کر اُس کے سر پر مارنے لگے۔اور جب اُس کا ٹھٹھا کر چکے تو چوغہ کو اُس پر سے اُتار کر پھر اُسی کے کپڑے اُسے پہنائے اور مصلوب کرنے کو لے گئے…اور اُنہوں نے اُسے مصلوب کیا اور اُس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لئے۔‘‘(متی باب27آیت26تا35)
قطع نظر بائبل کے بیان پر عقلی و نقلی استدلال کے اورقطع نظر الزامی جوابات کےذرا سوچیں! اس نبی نے کیا کیا جسمانی تکالیف برداشت کیں۔اس لیےبے شک آپ عیسائیت اوراسلام کے موازنے میں سو الزامی دلائل پیش کریں۔ بائبل کے پیش کردہ فرضی یسوع اور بائبل کے غیر الہامی ہونے پر پُرمغز تقاریر کریں لیکن اس عظیم نبی کے صبر و استقامت کو بھی بیان کرنے کی ضرورت ہے تا کہ خدا کے اس فرستادہ کا اصل مقام و مرتبہ بھی لوگوں کو معلوم ہو۔
واقعہ صلیب سے قبل رات سو نہ سکے
حضرت مسیح موعودؑ نےفرمایا: ’’ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے ابتلاء کی رات میں جس قدر تضرّعات کئے وہ انجیل سے ظاہر ہیں تمام رات حضرت مسیح جاگتے رہے اور جیسے کسی کی جان ٹوٹتی ہے غم و اندوہ سے ایسی حالت ان پر طاری تھی وہ ساری رات رو رو کر دعا کرتے رہے کہ تاوہ بلا کا پیالہ کہ جو ان کے لئے مقدر تھا ٹل جائے پر باوجود اس قدر گریہ و زاری کے پھر بھی دعا منظور نہ ہوئی کیونکہ ابتلاء کے وقت کی دعا منظور نہیں ہوا کرتی۔‘‘(سبز اشتہار،روحانی خزائن جلد 2صفحہ 458، حاشیہ)
گالیوں اور تکفیر کو برداشت کرنا
پھر فرمایا کہ’’چنانچہ ظاہر ہے کہ ہر ایک نبی کی نسبت جو پہلے نبیوں نے پیشگوئیاں کیں اُن کے ہمیشہ دو حصے ہوتے رہے ہیں ایک بیّنات اور محکمات جن میں کوئی استعارہ نہ تھا اور کسی تاویل کی محتاج نہ تھیں۔ اور ایک متشابہات جو محتاج تاویل تھیں اور بعض استعارات اور مجازات کے پَردے میں محجوب تھیں۔ پھر ان نبیوں کے ظہور اور بعثت کے وقت جو اُن پیشگوئیوں کے مصداق تھے دو فریق ہوتے رہے ہیں۔ ایک فریق سعیدوں کا جنہوں نے بیّناتکو دیکھ کر ایمان لانے میں تاخیر نہ کی اور جو حصّہ متشابہات کا تھا اس کو استعارات اور مجازات کے رنگ میں سمجھ لیا یا آئندہ کے منتظر رہے۔ اور اس طرح پر حق کو پالیا اور ٹھوکر نہ کھائی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوا۔ پہلی کتابوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت دو طور کی پیشگوئیاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ مسکینوں اور عاجزوں کے پیرایہ میں ظاہر ہو گا اور غیر سلطنت کے زمانہ میں آئے گا اور داؤد کی نسل سے ہو گا اور حلم اور نرمی سے کام لے گا اور نشان دکھلائے گا۔ اور دوسری قسم کی یہ پیشگوئیاں تھیں کہ وہ بادشاہ ہوگا اور بادشاہوں کی طرح لڑے گا اور یہودیوں کو غیر سلطنت کی ماتحتی سے چھڑا دے گا۔ اور اس سے پہلے ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ اور جب تک ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے وہ نہیں آئے گا۔ پھر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ظہور فرمایا تو یہود دو فریق ہو گئے۔ ایک فریق جو بہت ہی کم اور قلیل التعداد تھا۔ اس نے حضرت مسیح کو داؤد کی نسل سے پا کر اور پھر اُس کی مسکینی اور عاجزی اور راستبازی دیکھ کر اور پھر آسمانی نشانوں کو ملاحظہ کرکے اور نیز زمانہ کی حالتِ موجودہ کو دیکھ کرکہ وہ ایک نبی مصلح کو چاہتی ہے اور پہلی پیشگوئیوں کے قرار داد وقتوں کا مقابلہ کرکے یقین کر لیا کہ یہ وہی نبی ہے جس کا اسرائیل کی قوم کو وعدہ دیا گیا تھا۔ سو وہ حضرت مسیح پر ایمان لائے اور اُن کے ساتھ ہو کر طرح طرح کے دُکھ اُٹھائے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک اپنا صدق ظاہر کیا۔ لیکن جو بدبختوں کا گروہ تھا اُس نے کھلی کھلی علامتوں اور نشانوں کی طرف ذرہ التفات نہ کیا یہاں تک کہ زمانہ کی حالت پر بھی ایک نظر نہ ڈالی اور شریرانہ حجّت بازی کے ارادے سے دوسرے حصے کو جو متشابہات کا حصّہ تھا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور نہایت گستاخی سے اس مقدس کو گالیاں دینی شروع کیں اور اس کا نام ملحد اور بے دین اور کافر رکھا اور یہ کہا کہ یہ شخص پاک نوشتوں کے اُلٹے معنے کرتا ہے اور اس نے ناحق ایلیا نبی کے دوبارہ آنے کی تاویل کی ہے اور نص صریح کو اس کے ظاہر سے پھیرا ہے اور ہمارے علماء کو مکّار اور ریاکارکہتا ہے اور کتبِ مقدسہ کے الٹے معنے کرتا ہے اور نہایت شرارت سے اس بات پر زور دیا کہ نبیوں کی پیشگوئیوں کا ایک حرف بھی اس پر صادق نہیں آتا۔ وہ نہ بادشاہ ہو کر آیا اور نہ غیر قوموں سے لڑا اور نہ ہم کو ان کے ہاتھ سے چھڑایا اور نہ اس سے پہلے ایلیا نبی نازل ہوا۔ پھر وہ مسیح موعود کیونکر ہو گیا۔ غرض ان بدقسمت شریروں نے سچائی کے انوار اور علامات پر نظر ڈالنا نہ چاہا اور جو حصّہ متشابہات کا پیشگوئیوں میں تھا اس کو ظاہر پر حمل کرکے بار بار پیش کیا۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 262تا263)
حضرت مسیح ؑکی متضرعانہ دعا
حضرت مسیح ناصری ؑکی چند دعائیں ایسی ہیں کہ اس کی قوم دو ہزار سال سے زائد عرصہ گزرنے پر بھی ان کی قبولیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ تو یقیناً خدا تعالیٰ نے صلیب سے قبل کی گریہ وزاری کو قبول کیا ہے۔ آپؑ کو معلوم ہونے کے باوجود کہ انہیں حضرت یونس ؑکے موافق نشان دیا جائے گا، اس نشان کے ٹلنے کی خاطر دعا کرتے رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’اور منجملہ ان شہادتوں کے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے محفوظ رہنے کے بارے میں ہمیں انجیل سے ملتی ہیں وہ شہادت ہے جو انجیل متی باب ۲۶ میں یعنی آیت ۳۶ سے آیت ۴۶ تک مرقوم ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام گرفتار کئے جانے کا الہام پاکر تمام رات جنابِ الٰہی میں رو رو کر اور سجدے کرتے ہوئے دعا کرتے رہے۔ اور ضرور تھا کہ ایسی تضرع کی دعا جس کے لئے مسیح کو بہت لمبا وقت دیا گیا تھا قبول کی جاتی کیونکہ مقبول کا سوال جو بے قراری کے وقت کا سوال ہو ہرگز ردّ نہیں ہوتا۔ پھر کیوں مسیح کی ساری رات کی دعا اور دردمند دل کی دعا اور مظلومانہ حالت کی دعا ردّ ہوگئی۔ حالانکہ مسیح دعویٰ کرتا ہے کہ باپ جو آسمان پر ہے میری سنتا ہے۔ پس کیونکر باور کیا جائے کہ خدا اس کی سنتا تھا جبکہ ایسی بے قراری کی دعا سنی نہ گئی۔ اور انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دلی یقین تھا کہ اس کی وہ دعا ضرور قبول ہوگئی اور اس دعا پر اس کو بہت بھروسہ تھا۔ اسی وجہ سے جب وہ پکڑا گیا اور صلیب پر کھینچا گیا اور ظاہری علامات کو اس نے اپنی امید کے موافق نہ پایا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ ’’ایلی ایلی لما سبقتانی‘‘اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا۔ یعنی مجھے یہ امید ہرگز نہیں تھی کہ میرا انجام یہ ہوگااور میں صلیب پر مروں گا۔ اور میں یقین رکھتا تھا کہ تو میری دعا سنے گا۔ پس ان دونوں مقامات انجیل سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح کو خود دلی یقین تھا کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی اور میرا تمام رات کا رو رو کر دعا کرنا ضائع نہیں جائے گا اور خود اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ اگر دعا کرو گے تو قبول کی جائے گی۔ بلکہ ایک مثال کے طور پر ایک قاضی کی کہانی بھی بیان کی تھی کہ جو نہ خلقت سے اور نہ خدا سے ڈرتا تھا۔ اور اس کہانی سے بھی مدعا یہ تھا کہ تا حواریوں کو یقین آجائے کہ بے شک خدائے تعالیٰ دعا سنتا ہے۔ اور اگرچہ مسیح کو اپنے پر ایک بڑی مصیبت کے آنے کا خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم تھا۔ مگر مسیح نے عارفوں کی طرح اس بنا پر دعا کی کہ خدائے تعالیٰ کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور ہر ایک محو و اثبات اس کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا یہ واقعہ کہ نعوذ باللہ مسیح کی خود دعا قبول نہ ہوئی یہ ایک ایسا امر ہے جو شاگردوں پر نہایت بداثر پیدا کرنے والا تھا۔ سو کیونکر ممکن تھا کہ ایسا نمونہ جو ایمان کو ضائع کرنے والا تھا حواریوں کو دیا جاتا جبکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ مسیح جیسے بزرگ نبی کی تمام رات کی پُرسوز دعا قبول نہ ہوسکی تو اس بد نمونہ سے ان کا ایمان ایک سخت امتحان میں پڑتا تھا۔ لہٰذا خدائے تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا یہی تھا کہ اس دعا کو قبول کرتا یقیناًسمجھو کہ وہ دعا جو گتسمینی نام مقام میں کی گئی تھی ضرور قبول ہوگئی تھی۔‘‘(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 30تا31)
حضرت مسیح ؑ کی صلیب کی تکالیف پر استقامت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب کے لیے کتنی تکلیف اٹھائی ہوگی۔ انسان ایک سوئی کے چبھنےسے تکلیف محسوس کرتا ہے جبکہ خدا کے اس معصوم نبی کی ہتھیلیوں اور پاؤں میں کیل گاڑے گئے اور پھر انہیں انہی کیلوں کے سہارے صلیب پر لٹکایا گیا۔ کششِ ثقل کے باعث جسم زمین کی جانب گرتا تھا اور ہاتھوںمیں لگے کیل اسے کیسے تکلیف دیتے ہوئے سنبھال رہے ہوں گے۔حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اس برگزیدہ نبی پر ہونے والے ظلم کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب وہ مسیح کو لے کر صلیب کے مقام پر پہنچے ہیں تو انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت چھٹا گھنٹہ آ گیا تھا۔اور چھٹے گھنٹے کے معنے اس زمانہ کے لحاظ سے تین اور چار بجے کے درمیان کے وقت کے ہیں۔ اس دن دو اور مجرم بھی پیش تھے جن کو پھانسی پر لٹکایا جانا تھا۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ ایک مجرم کے لٹکانے اور تین مجرموں کے لٹکانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایک آدمی کو تھوڑے وقت لٹکایا جاسکتا ہے مگر تین آدمیوں کو لٹکانے کےلئے لازماً زیادہ وقت لگے گا۔
صلیب کا طریقہ
پھر ایک اور بات بھی ہے جس کو عام طور پر نہ مسلمان سمجھتے ہیں اور نہ بوجہ اپنے مذہب سے ناواقف ہونے کے عیسائی سمجھتے ہیں۔ اس زمانہ میں صلیب کے لئے ایک لکڑی گاڑی جاتی تھی جس کی شکل اس قسم کی ہواکرتی تھی ✝۔جب کسی شخص کے متعلق یہ فیصلہ ہو جاتا تھا کہ اسے صلیب پر لٹکا دیا جائے تو وہ اس لکڑی کے ساتھ سیدھا کھڑا کر دیا جاتا اور اس کے بازوؤں کو پھیلا کر دو ڈنڈوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا۔ اس کے بعد مجرم کے بازوؤں اور ٹانگوں کے نرم گوشت میں کیل گاڑ دئے جاتے اور وہ اسی طرح بھوکا پیاسا صلیب پر لٹکا لٹکا مر جاتا۔بعض حالات میں علاوہ ان کیلوں کے جو بازوؤں کے گوشت اور پنڈلیوں کے گوشت میں گاڑے جاتے تھے وہ ایک ایک کیل ہتھیلیوں میں بھی گاڑ دیتے تھے لیکن جن لوگوں کو علم التشریح کی واقفیت ہے وہ جانتے ہیں کہ یہاں بھی کیلوں کاگاڑنا ہڈیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ بہرحال صلیب دیتے وقت کیل جسم کی ہڈیوں میں نہیں گاڑے جاتے تھے بلکہ بازوؤں اور پنڈلیوں کے نرم نرم گوشت میں گاڑے جاتے تھے۔
کیل لگنے کی ذہنی کوفت
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جسم کے گوشت میں کیل گاڑ دینا یہ بھی انسان کو خطرناک تکلیف پہنچاتا ہے۔ بلکہ کیل تو الگ رہے معمولی ٹیکہ سے بھی بعض لوگ چیخیں مارنے لگ جاتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس صلیب سے انسان کی موت کئی دنوں کے بعد واقع ہوتی تھی اور وہ سسک سسک کر اپنی جان دیتا تھا فوری طور پر موت واقع نہیں ہوتی تھی۔ اس میں صرف ہیبت کا پہلو ہے جو دماغی لحاظ سے سخت اذیت پہنچاتا ہے یعنی انسان یہ دیکھتا ہے کہ اب کیل آ گئے ہیں اب ہتھوڑا آ گیا ہے۔ اب کیل گاڑنے والا آ گیا ہے۔ اب کیل گاڑنے کےلئے اٹھا ہے۔ اب کیل جسم پر رکھا گیا ہے۔ اب کیل پر ہتھوڑا پڑنے والا ہے۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو اس کے دماغ کو خوف زدہ کردیتی ہیں اور وہ اس کی ہیبت سے شدید متاثر ہوتا ہے ورنہ محض گوشت کٹ جانے سے ایسی تکلیف نہیں ہوتی جسے برداشت نہ کیا جا سکتا ہو۔ لڑائیوں میں ہزاروں مرتبہ تلوار لگتی ہے اور گوشت کٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے مگر چونکہ وہ تلوار یکدم آ پڑتی ہے اس لیے اس کی ہیبت طاری نہیں ہوتی۔ لیکن کیل کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اب نہ معلوم کیا ہونے والا ہے۔ لیکن تلوار لگ کر اگر گوشت کٹ جائے تو بعض دفعہ اس کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی جتنی ڈاکٹر کی سوئی سے انسان محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ اس کا پتہ اسی وقت لگتا ہے جب گوشت کٹ چکا ہوتا ہے بلکہ بسااوقات ایسی حالت میں جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہڈی سلامت ہے تو بجائے گھبرانے کے بے اختیار الحمد للہ کہہ اٹھتا ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر ٹیکا لگانے کے لئے سرنج تیار کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ شاید ڈاکٹر مجھے ذبح کرنے لگا ہے اور اس پر ایک ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔
حضرت مسیح ؑ نازک طبیعت انسان تھے
پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیح کے ساتھ جو کچھ گزرا وہ دماغی لحاظ سے ایک نہایت ہی تکلیف دہ واقعہ تھا۔ لیکن وہ حقیقی تکلیف جس سے انسان مر جاتا ہے وہ آپ کو نہیں ہوئی۔ لیکن چونکہ آپ نازک طبیعت انسان تھے آپ نے اس تکلیف کو بھی شدت سے محسوس کیا اور بیہوش ہو گئے۔ اس کے مقابلہ میں وہ چور جو آپ کے دائیں بائیں لٹکائے گئے تھے وہ ایک دوسرے سے مذاق کرتے رہے۔ بلکہ ان میں سے ایک نے مسیح کو طعنہ دے کر کہا کہ اگر تو مسیح ہے تو اپنے آپ کو بھی اور ہم کو بھی بچا۔ اس پر دوسرے نے اسے جھڑک کر کہا کہ تو خدا سے ڈر ہم تو اپنے کیے کی سزا پا رہے ہیں اور یہ بے گناہ ہے۔ (انجیل لوقاباب ٢٣ آیت ٣٩۔٤٠) اب دیکھو وہ صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں مگر مذاق جاری ہے کیونکہ سنگدل لوگ تھے اور ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اسی قسم کی طبیعت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنے اندر سختی برداشت کرنے کا مادہ رکھتے ہیں۔کشمیر میں ہی ہمارا ایک احمدی خاندان ہے جو پہلے زمانہ میں مظفر آباد کے راجہ تھے مہاراجہ کشمیر نے حملہ کر کے انہیں شکست دی اور راجہ کو قید کر کے سری نگر لے آیا اور ان کے گزارہ کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا۔ یہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد حکومت کی بات ہے جس کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اول رضی ا للہ عنہ ریاست جموں و کشمیر میں ملازم تھے۔ وہ مسلمان راجہ بڑا خوبصورت اور قوی نوجوان تھا اور اس کی شکل مہاراجہ کو بڑی پسند تھی۔ ایک دن وہ پولو کھیلتے ہوئے گرا اوراس کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ انہوں نے علاج کرایا اور ہڈی جڑگئی۔ مگر ہڈی کچھ ٹیڑھی جڑی۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ مہاراجہ نے کہا کیوں راجہ صاحب آپ فلاں دن پولو کھیلتے ہوئے گرے تھے اور آپ کو چوٹ آئی تھی۔ بتائیے اب ہڈی کا کیا حال ہے جڑ گئی ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا جڑ گئی ہے اس نے کہا آئیے مجھے دکھائیں۔ انہوں نے دکھائی تو کہنے لگاراجہ صاحب یہ آپ نے کیا کیا۔ یہ ہڈی تو ٹیڑھی جڑی ہے اور اس سے آپ کی خوبصورتی پر دھبہ آ گیا ہے۔ آپ اتنے خوبصورت انسان تھے آپ مجھے بتاتے تو میں اپنا ڈاکٹر آپ کے لیے مقرر کر دیتا اور اس ہڈی کو بالکل صحیح جڑوا دیتا۔ وہ اس وقت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بڑے اطمینان سے اپنے بازو پر دباؤ ڈال کر اتنے زور سے اسے جھٹکا دیا کہ بازو دو ٹکڑے ہو گیا اور کہنے لگے ’’مہاراجہ اب جڑوا دیں‘‘۔یہ دیکھ کر مہاراجہ پر ایسی حالت ہو گئی کہ وہ بے ہوش ہو نے لگا۔ اور دربار سے اٹھ کر چلا گیا۔
حضرت مسیح ایک نازک مزاج انسان تھے
تو ایسے ایسے سنگدل لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی مگر حضرت مسیح ایک نازک مزاج انسان تھے۔ اردگرد کے چور تو مذاق کرتے رہے اور مسیح بے ہوش ہو گئے جب انہیں ہوش آیا تو کراہنا شروع کر دیا۔ مگر معلوم ہوتا ہے آپ کے حواس قائم تھے کیونکہ انجیل بتاتی ہے کہ اوپر سے آپ کی والد ہ آ گئیں۔
والدہ کی تکلیف کا احساس
آپ نے اپنی والدہ کو دیکھا اور آپ پر ایک عجیب قسم کی کیفیت طاری ہو گئی۔ آپ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ نہ معلوم میری والدہ کو اس وقت کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی سامنے ہی آپ کا ایک شاگرد تھو ما نا می کھڑا تھا۔ آپ نے تھوما کی طرف دیکھا اور کہا۔ اے تھوما یہ تیری ماں ہے اور اپنی والدہ سے کہا اے عورت یہ تیرا بیٹا ہے۔ بعض لوگ تھوماس سے یہ غلطی کھاتے ہیں کہ ’تھوماس‘ کے معنے ہوتے ہیں توام بھائی۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح کا باپ تھا لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے۔ ’تھوماس‘ کے معنے عبرانی میں دودھ شریک بھائی کے ہوتے ہیں۔پس اس نام سے صرف اتنا نکلتا ہے کہ حضرت مسیح کو جس عورت کا دودھ پلایا گیا تھا اسی عورت نے تھوماس کو بھی دود ھ پلایا تھا۔ یا یہ کہ خود حضرت مریم کا دودھ اس نے پیا تھا اور اس طرح وہ حضرت مسیح کا دودھ شریک بھائی ہو گیا تھا بہرحال حضرت مسیح نے اس چھوٹے سے فقرہ میں نہایت لطیف طریق پر ایک طرف تھوما کو توجہ دلائی کہ میں تو اس وقت صلیب پر لٹکا ہوا ہوں اور گو مجھے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے اس کے وعدوں کے سمجھنے میں کوئی غلطی کی ہو۔ اس لیے اب میں اپنی والدہ کو تیرے سپرد کرتا ہوں اور اپنی والدہ سے کہا کہ تھوما کو اپنا بیٹا سمجھنا۔ ساری انجیل میں اپنی ماں سے محبت کا اظہار اگر حضرت مسیح نے کیاہے تو صرف اس جگہ۔ ورنہ انجیل پڑھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہیں اپنی والدہ سے کچھ خار سی ہے۔ کیونکہ کسی جگہ پر ان کی محبت کا اظہار نہیں۔
صلیب پر بے ہوشی اور پیاس
بہرحال حضرت مسیح ؑکی یہی کیفیت رہی۔ کبھی انہیں ہوش آجاتا اور کبھی وہ بے ہوش ہو جاتے اس موقعہ پر پیلاطوس کی طرف سے جو پہریدار مقرر کیےگئے تھے وہ بھی دل میں ان کے مرید تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حضرت مسیح تکلیف برداشت نہیں کر سکتے تو وہ دوڑ کے گئے۔ اور انہوں نے اسفنج کا ایک ٹکڑہ لے کر اسے شراب اور مُر سے بھگویا اور حضرت مسیح کو چوسنے کے لیے دیا۔ انجیل میں تو صرف اتنا لکھا ہے کہ اسفنج کو سرکہ میں ڈبو کر انہوں نے حضرت مسیح کو چوسنے کے لیے دیا۔(انجیل مرقس باب ٥ آیت ٣٦) مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ کو شراب اور مرکا مرکب دیا گیا۔(جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ٤زیر لفظ صلیب) عیسائی لوگ بعض دفعہ اس بات پر بڑا زور دیا کرتے ہیں کہ یہود نے آپ پر اتنا ظلم کیا کہ جب آپ شدت تکلیف سے کراہ رہے تھے تو انہوں نے شراب اور مر کے مرکب میں اسفنج بھگویا اور چوسنے کے لیے آپ کو دیا۔ حالانکہ رومی کتب کے حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص کے ساتھ وہ رعایت کرنا چاہتے تھے اور جس کو وہ تکلیف سے بچانا چاہتے تھے اس کو وہ شراب اور مر کا مرکب دیا کرتے تھے۔ معلوم نہیں طبی طور پر یہ چیز فائدہ بخش بھی ہے یا نہیں لیکن اس زمانہ میں لوگ یہی سمجھتے تھے کہ جس کو شراب اور مر دی جائے اس کی تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ پس یہ واقعہ بھی بتا رہا ہے کہ وہ لوگ جو آپ کے پہرہ کے لیےمقرر کیےگئے تھے وہ بھی دل میں آپ کے مرید تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی تکلیف کو کم کرنے میں وہ جس قدر بھی حصہ لے سکتے ہوں لیں۔ پھر جیساکہ میں بتاچکا ہوں انہیں جمعہ کے دن پچھلے پہر صلیب پر لٹکایا گیا تھا اور مغرب سے سبت کا دن شروع ہو جاتا تھا آج کل تو رات کے بارہ بجے کے بعد سے اگلا دن شمار کیا جاتا ہے لیکن اسلامی طریق یہ ہے کہ سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اگلا دن شروع ہو گیا ہے اور یہی طریق بنی اسرائیل میں بھی رائج تھا۔ اس لحاظ سے سورج کے غروب ہوتے ہی سب کا دن شروع ہو جاتا تھا اور یہودیوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر کوئی سبت کے دن صلیب پر لٹکا رہے تو اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ دو تین گھنٹہ کے بعد ہی پیلا طوس نے انہیں توجہ دلائی کہ اگر یہ صلیب پر لٹکا رہا اور سبت کا دن شروع ہو گیا تو تم پر عذاب آ جائے گا۔ ادھر (اللہ تعالیٰ )نے یکدم ایک زور دار آندھی چلا دی جس سے چاروں طر ف تاریکی چھا گئی۔(انجیل مرقس باب ١٥ آیت ٣٣) اس کو دیکھ کر یہودی اور بھی ڈرے کہ ایسا نہ ہو یہ صلیب پر رہے اور سبت شروع ہو جائے۔چنانچہ انہوں نے پیلاطوس سے خود درخواست کی کہ اب ان کو اتار لیا جائے۔(انجیل یوحنا باب ١٩ آیت ٣١) ایسا نہ ہو کہ ہم پر عذاب نازل ہو جائے۔ اب فرض کرو انہیں سورج غروب ہونے سے آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ پہلے اتار لیا گیا تھا۔ تب بھی ان کی صلیب کا وقت کچھ نہ کچھ تو ضرور کم ہو جائے گا اگر سات بجے سورج غروب ہوا کرتا تھا اور ساڑھے تین بجے انہیں صلیب پر لٹکایا گیا تھا تو یہ کل وقت ساڑھے تین گھنٹے بنتا ہے لیکن چونکہ شدید آندھی کی وجہ سے سخت تاریکی چھا گئی تھی اور سبت شروع ہو جانے کے خوف سے انہیں جلدی اتار لیا گیا تھا۔ اس لئے اگر آدھ یا پون گھنٹہ بھی یہ وقت فرض کر لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اڑھائی سے تین گھنٹہ تک حضرت مسیح کو صلیب پر رہنا پڑا۔ حالانکہ اس صلیب پر سات سات دن تک بھی بعض لوگ زندہ رہتے تھے اور وہ صرف بھوک اور پیاس کی وجہ سے یا زخموں کا زہر جسم میں پھیل جانے کی وجہ سے ہلاک ہوتے تھے۔ پھر یہ بھی قاعدہ تھا کہ جو لوگ صلیب پر سے زندہ اتر آتے تھے ان کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں۔ مگر پہرے دار چونکہ حضرت مسیحؑ کے مرید تھے انہوں نے چوروں کی تو ہڈیاں توڑ یں مگر حضرت مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑیں دراصل صلیب دینے کے اصل معنے بھی ہڈیاں توڑ کر گودا نکال دینے کے ہیں اور یہ نام اسی لیےرکھا گیا تھا کہ اگر لوگ صلیب پر مرتے نہیں تھے بلکہ بعد میں ہڈیاں توڑ کر ان کا گودا نکالا جاتا تھا لیکن حضرت مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں۔ (انجیل یوحنا باب ١٩ آیت ٣٣)
پسلی میں نیزہ مارا گیا
پھر حضرت مسیحؑ کے صلیب پر سے زندہ اتر آنے کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ انجیل میں لکھا ہے۔ جب حضرت مسیح کو اتارا گیا تو ایک سپاہی دوڑتا ہوا گیا اور اس نے آپ کی پسلی میں آہستہ سے نیزہ مار کر دیکھا تو اس میں سے خون اور پانی بہ نکلا (انجیل یوحنا باب ١٩ آیت ٣٤) جسم میں سے خون اور پانی نکلنا یہ تو کوئی محاورہ نہیں۔ اس کے معنے یہی ہیں کہ سیال خون نکل آیا۔ ورنہ انجیل کا بیان ہی اگر درست ہو تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ پانی الگ چیز ہے اور خون الگ۔اور خون کو سیال بنانے والی سرم کے علاوہ کوئی اور بھی چیز ہے حالانکہ کوئی اور چیز ہے ہی نہیں۔ پس اس کے معنے پانی اور خون کے نہیں بلکہ بہتے ہوئے خون کے ہیں۔ مگر یہودیوں میں انہوں نے یہ مشہور کر دیا کہ وہ مر گیا ہے اور اسی لئے ہم نے اس کی ہڈیاں نہیں توڑیں۔ معلوم ہوتا ہے یہودی بھی دل میں گھبرائے ہوئے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ایک بے گناہ کو سزا دلوائی ہے پس چونکہ ان کے دل میں چور تھا اور وہ جانتے تھے کہ ہم ایک نیک اور خدارسیدہ انسان کو سزا دلوا رہے ہیں۔ اس لئے جب انہوں نے ایک شدید آندھی دیکھی توڈر گئے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا عذاب معلوم ہوتا ہے۔ اور انہوں نے زیادہ مزاحمت نہیں کی۔ بلکہ کہا کہ اچھا اگر وہ مر گیا ہے تو اسے دفن کر دو۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 109 تا 114)
کفن مسیح میں محفوظ تکلیف کے آثار
پھر حضرت مسیحؑ کو تین روز تک قبر میں رکھا گیا۔ یہ قبر ایک اندھیری کوٹھڑی کی مانند تھی۔ جہاں حضرت مسیحؑ کا علاج کیا گیا اور مرہم الحواریین اور دیگر عوامل کے تحت ان کی تصویر اور زخم کفن کے کپڑے پر اتر آئے۔2018ء میں ماہرین نے کفن کی مدد سے حضرت عیسیٰ ؑ کی ایک 3D تصویر اور مجسمہ تیار کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح حضرت مسیح ؑ پورے جسم پر موجود زخموں کی تکالیف برداشت کرتے ہوئے اس کفن اور قبر کے اندر لیٹے رہے۔ اس 3Dتصویر اور اکڑوں مجسمے پر زخم کے نشانات اور چہرے پر تکلیف کے آثار دکھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
مسیحیت کا مطلب قربانی
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مسیح محمدی کی مشابہت صرف ذاتی نہیںبلکہ جماعت احمدیہ کی بھی مسیحیت سے مشابہت ٹھہرتی ہے۔ اور اس لحاظ سے تکالیف اور ایذاکا برداشت کرنا بھی مشابہت کاملہ چاہتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’تبلیغ کے علاوہ قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ۔ دوست ماریں کھائیں، گالیاں کھائیں مگر صبر کریں۔ کوئی مسیحیت ایسی نہیں جو اس کے بغیر پھیلی ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہ وہ بھی مسیح تھے، حضرت مسیح ناصری اور مسیح محمدی اور بھی خدا جانے کتنے مسیح گزرے ہیں مگر سب جمالی رنگ میں تھے دعاؤں کے ساتھ مخالفوں کا مقابلہ کرتے تھے، تلوار سے نہیں، ماریں کھاکر جیتے اور یہی ہمارے متعلق ہو گا۔ جو اس کے لئے تیار ہے وہی اسلام کی فتح کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اتنی ماریں کھاؤ اور اتنی گالیاں سنو کہ دنیا مان جائے کہ روئے زمین پر اتنی ماریں اور گالیاں کھانے والی کوئی دوسری قوم نہیں پھر خود بخود لوگ ہدایت کی طرف آجائیں گے اور ان کے قلوب فتح ہو جائیں گے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍جنوری 1934ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد 15صفحہ9)
حواریوں کی قربانی ایک معیار
حضرت مسیح ؑکے حواریوں اور صحابہ رسولﷺ کی قربانیوں تک پہنچنے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’میں دیکھوں گا کہ آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جو اس قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ جو قربانیاں اس وقت تک ہماری جماعت کی طرف سے ہوئی ہیں وہ ان قربانیوں کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت نے کیں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانی کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہو کر ہمارے قدموں کو اس بلندی تک پہنچادے جس بلندی تک پہنچانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں مبعوث ہوئے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ19؍اکتوبر 1934ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد 15 صفحہ 278۔279)
قربانی کے میدان میں حواریوں سے بڑھنے کی ضرورت ہے
قربانی کے میدان میں حواریوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے جماعت احمد یہ میں داخل ہوئے ہو اور یہی تمہارا مقصد ہے تو تمہیں ہر قدم پر زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کرنی ہو گی۔ اس وقت کے لئے بڑی قربانی یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آئندہ کے لئے بڑی قربانی کونسی ہو گی۔مسیح ناصری علیہ السلام جس کی قوم کا تم مضحکہ اڑاتے ہو اور جس کے متعلق کہتے ہو
ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
اس مسیح ؑ کے حواریوں نے ایسی قربانیاں پیش کیں کہ دنیا نے ان کا نا م فقیر رکھ دیا۔ یہ نہیں کہ وہ ابتدا سے ہی مفلس تھے بلکہ وہ بھی صاحب جائیداد تھے لیکن انہوں نے اس طرح قربانیاں کیں کہ دنیا کی نگاہوں میں وہ فقیر ہو گئے۔لیکن ہمارا کام ان سے بڑھ کر ہے۔ اور ہما را امام بھی ان کے امام سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے قربانی کے میدان میں ان سے آگے نکلنے کی کوشش کر و۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اپریل 1947ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد28صفحہ 127)
حضرت مسیح ؑ کی کمال استقامت
حضرت مسیح ؑکو خدا تعالیٰ کی جانب سے تمام پیش آمدہ امور پر اطلاع دی گئی تھی۔ لیکن انہوں نے کمال استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور دعا کو ترجیح دی۔ اس امر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیحؑ کی طرح ہمیں یہ دعا مانگنی چاہئے کہ اے خدا ! ہمارے ساتھ وہ سلوک کر جو تیرے نزدیک اچھا ہے۔ گو یاعلم ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ہما را کام صرف دعائیں کرنا ہی ہے۔ آگے خدا تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے۔ حضرت مسیحؑ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے سب حالات سے آگاہ کر دیا تھا مگر پھر بھی وہ دعائیں مانگتے رہے۔ پس مومن کا کام صرف دعائیں کرنا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍اگست 1947ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد28 صفحہ 273)
خلاصہ کلام
اس مضمون کا مقصد کسی واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یا حضرت مسیح ناصریؑ کی ذات کے لیے افراط سے کام لینا ہرگز نہیں۔ بلکہ حقیقت کو ہی مدنظر رکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس صبر و استقامت کی مجسم تصویر کے لیے دل میں نرم جذبات نہ ابھریں۔ اور جو تفریط سے کام لیا جاتا ہے اس کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ لَانُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ۔(البقرة:286) اس ضمن میں تمام انبیائے کرام کی عزت و تکریم اور ان پر ایمان ایک مسلمان کے ارکان ایمان میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کے ایمان و ایقان میں مضبوط فرمائے۔ آمین