دلائل ہستی باری تعالیٰ (مصنفہ حضرت سید میر محمد اسحاق صا حب رضی اللہ عنہ) (قسط26)
حضرت میر محمد اسحاق رضی اللہ عنہ،حضرت سید میر ناصر نواب صاحبؓ کے بیٹے اور حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم’’اماں جان‘‘ رضی اللہ عنہا کے چھوٹے بھائی تھے جن کی پیدائش 1890ءمیں ہوئی۔ یوں آپ کی تعلیم وتربیت و علمی اٹھان بالکل آغاز سے ہی دارالمسیح میں مسیح دوراں علیہ السلام کے قدموں میں ہوئی اور آپ کی قریباً ساری زندگی ہی قادیان دارالامان میں بسر ہوئی۔دنیا وی اندازوں کے لحاظ سے تو آپ نے نسبتاً محدود عمر پائی کیونکہ آپ کی وفات 17؍مارچ 1944ء کوہوگئی تھی لیکن اس مختصر سی حیات کے باوجود آپ نے جماعت کی انتھک خدمت کرتے ہوئےبیک وقت انتظامی اور علمی میدانوں میں قابل رشک خدمات جلیلہ بجالانے کی سعادت پائی۔ جن کی تفصیل الگ مضمون کی متقاضی ہے۔
آپ کی تیس سے زیادہ چھوٹی بڑی مفید اور علمی کتب کا ذکر ملتا ہے،عنوان میں درج کتاب جس کا موجودہ زیر نظر ایڈیشن مکتبہ بشارات رحمانیہ قادیان نے بسلسلہ تبلیغ نمبر 19 کے طور پر پہلی بار ایک ہزار کی تعداد میں فیض اللہ پرنٹنگ پریس قادیان سے شائع کیاتھا۔ اس رسالہ پر سنہ اشاعت درج نہ ہے لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زیر نظر کتاب حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓکی وفات کے بعد شائع کی گئی تھی، کیونکہ اس کے سرورق پر درج ہے ’’مصنفہ: فاضل اجل حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم دہلوی‘‘
اس رسالے میں وجود باری تعالیٰ پر دہریوں کے جملہ اعتراضات کا معقولی طریق پر نہایت عمدہ ردّ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ہستی پر چودہ زبردست دلائل دیے گئے ہیں۔
ترتیب کتاب یوں ہے کہ آغاز میں ایک ضروری تمہید درج کی گئی ہے اور پھر ہستی باری تعالیٰ کے چودہ دلائل دینے سے قبل اس کتاب میں دہریوں کے درج ذیل اعتراضات کے نمبر وار تین تین یا چار چار کافی و شافی جوابات لکھ کر مسکت ردّ کیا گیا ہے:
٭…’’چونکہ خدانظر نہیں آتا۔اس لئے معلوم ہوا کہ اس کا وجود ہی وہم ہے۔ ورنہ اگر واقعہ میں کوئی وجود ہوتاتو ہمیں نظر آتا۔ ‘‘(صفحہ 5)
٭…’’اگر خدا کا کوئی وجود ہوتا اور واقعہ میں ایک ایسی ہستی ہے جو ہماری خالق و رازق ہے اوراسی نے نبیوں کو الہام سے اپنے قوانین اور شریعتوں سے اطلاع دی تو چاہیئے تھا کہ مذاہب میں اختلاف نہ ہوتا۔ بلکہ سب مذہب آپس میں متفق ہوتے۔ کیونکہ ان کا اتارنے والا ایک مانا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ مذاہب میں بجائے اتفاق کے اختلاف ہے اس لئے معلوم ہوا کہ الہام وغیرہ وہم ہے اور خدا کا واقعہ میں کوئی وجود نہیں۔‘‘(صفحہ7)
٭…’’ اگر کوئی خدا ہوتا تو دنیا میں یہ تفرقہ نہ ہوتا کہ کوئی غریب ہے اور کوئی امیر۔ کوئی مریض ہے اور کوئی تندرست۔کوئی کمزور ہے اور کوئی طاقتور۔‘‘(صفحہ8)
٭…’’جو لوگ خدا کے وجود کا اقرار کرتے ہیں۔ وہ بھی گناہ کرتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے لوگ جو خدا کے وجود کے منکر ہیں وہ نسبتاً بہت سے ایسے لوگوں سے جو خدا کی ہستی کے قائل ہیں، زیادہ نیک ہیں۔ اگر خدا ہے تو اس کے قائل کیوں گناہ سے نہیں بچتے؟ (صفحہ9)
٭…’’اگر خدا ہے تو کہاں ہے؟ اورکب سے ہے؟‘‘ (صفحہ10)
کتاب کے صفحہ 11 پر مصنف نے لکھا ہے کہ ’’اب میں وہ دلائل لکھتا ہوں جن سے ہم دہریوں پر خدا کے فضل سے ہستی باری تعالیٰ کو پایہ ثبوت تک پہنچا کر حجت پوری کرسکتے ہیں۔ وما توفیقی الا باللّٰہ العلی العظیم‘‘
’’دنیا میں جس قدر قومیں آباد ہیں….ان سب کا متفق علیہ مسئلہ اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ ایک کامل مقتدر ہستی کا ماننا ہے۔‘‘(صفحہ11)
’’بہت سی باتیں ہم صرف سن کر مانتے ہیں… تمام دنیا کی مختلف قوموں کے راستبازوں کا متفق ہوکر خدا کے وجود کا اقرار کرنا اس کے واقعہ میں موجود ہونے کا ایک بڑا بھاری ثبوت ہے۔ ‘‘(صفحہ 13)
’’خدا کی ہستی کی تیسری دلیل دعا ہے۔‘‘
’’چوتھی دلیل خدا کی ہستی کی یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعویٰ کیاکہ خدا ہے وہ ضرور کامیاب ہوئے اورجن لوگوں نے انکار کیا۔ وہ خائب و خاسر رہے۔ اگر خدا نہ ہوتا تو یہ تفرقہ کیوں ہوتا۔‘‘(صفحہ 15)
ہستی باری تعالیٰ کی پانچویں دلیل غیب کی خبروں کا اللہ کے نیک اور مقرب و منتخب بندوں کو ملنا ہے، کیونکہ غیب کا علم دنیا میں کسی انسان کو معلوم نہیں ہے اور آئندہ ہونے والے واقعات سے روئے زمین پر کوئی شخص واقف نہیں۔
اس کتاب میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو بھی اپنی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ کیونکہ یہ بظاہر ایک چھوٹا سا مکان جو مکہ مکرمہ میں ہے، ہمیشہ آباد رہے گا اور اس مقام پر کبھی ویرانی داخل نہ ہوپائے گی، یہ مکان لوگوں کے لیے امن کی جگہ ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ
پھر قرآن کریم بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی کے دلائل میں سے ایک ہے۔
کتاب کے صفحہ نمبر 19 پر آٹھویں دلیل کے ضمن میں لکھا ہے کہ ’’دنیا میں جس قدر چیزیں ہم کو نظر آتی ہیں۔ اصل میں ان کی ذات ہم نہیں دیکھ سکتے۔ بلکہ صفات کو دیکھتے ہیں…سب چیزوں کو ان کی صفات کے ذریعہ ہم پہچان سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم بھی خدا تعالیٰ کو اس کی صفات دیکھ کر تسلیم کرتے ہیں۔ ‘‘
صفحہ 20 پر نویں دلیل کے تحت لکھا ہے کہ ’’ دنیا میں جس قدرچیزیں ہم کو نظر آتی ہیں۔ سب مرکب ہیں۔ کوئی بھی مفرد نہیں… دنیا مرکبات کا مجموعہ ہے۔ ان مرکبات کا کوئی جوڑنے والا اور مُرکّب کرنے والا تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور وہی خدا ہے۔ ‘‘
دسویں دلیل کے اندر اتفاقات کے نظریہ کاعقلی طور پر رد کیا گیا ہے۔
صفحہ 22 پر گیارھویں دلیل کے طور پر بتایا گیا ہے کہ فاعل ہمیشہ اپنے فعل سے پہلے موجود ہوا کرتا ہے۔ الغرض اگلی دلیلوں میں دہریوں کی منطقی اور عقلی و نقلی باتوں کو کماحقہ رد کرتے ہوئے اپنے مقصود کے حق میں مثالیں لائی گئی ہیں۔
فاضل مصنف نے متفرق دلائل پیش کرنے کے بعد آخری صفحہ پر لکھا ہے کہ ’’غرض یہ بات صاف ظاہر ہے کہ کوئی چیز بغیر صانع کے نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ کہنا کہ دنیا خود بخود ہے اور کوئی اس کا پیدا کرنے والا نہیں ایک بالکل غلط بات ہے۔ اسی طرح ہم بھی جب دنیا اور نظام دنیا کو دیکھتے ہیں تو ہم بھی اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ایسے پُرحکمت اور مرتب نظام کا بھی کوئی پیدا کرنے والا ہے۔ اور اسی کو ہم خدا کہتے ہیں۔ ‘‘
کاتب کی لکھائی میں تیار ہونے والی 44صفحات کی اس کتاب کے آخر پر نوٹ دیا گیاہے کہ کمیونزم کے رد میں تیار ہونے والے لٹریچر کے سلسلہ میں دوسری کتاب/رسالہ ’’ضرورت مذہب ‘‘ بھی شائع ہوچکا ہے۔