اسلام کی ترقی اور اشاعت کے لیے وقفِ جدید کی تحریک خاص اہمیت رکھتی ہے (قسط نمبر1)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۱؍فروری۱۹۵۸ء)
تشہد، تعوّذ اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اِس دفعہ 1957ء کے آخر میں میری طبیعت خراب ہونی شروع ہوئی تھی مگر پھر جلسہ کے وقت خداتعالیٰ کے فضل سے اچھی ہو گئی۔ اس کے بعد پھر خراب ہونی شروع ہو گئی۔ میں تو اسے گاؤٹ(Gout) کا اثر ہی سمجھتا رہا مگر ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ یہ تکلیف گاؤٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ تبدیلیٔ موسم کی وجہ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ جلدی جلدی موسم تبدیل ہوا ہے اور سردی زیادہ شدید پڑی ہے اس لیے آپ کو یہ تکلیف ہوئی ہے۔ اب یہاں کے ڈاکٹروں کا مشورہ لینے کے لیے ہم اس جگہ آئے ہیں۔مجھے پچھلے دنوں یہ بھی وہم ہونا شروع ہو گیا کہ مجھ پر فالج کا حملہ بڑھ رہا ہے یا دوبارہ فالج ہو گیا ہے مگر ڈاکٹروں سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری طب میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ فالج کا حملہ زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور دوبارہ حملہ کے لیے بیہوشی ہونی ضروری ہوتی ہے جیسے پہلے یکدم کچھ بیہوشی ہوئی اور پھر فالج کا حملہ ہو گیا۔ پس انہوں نے کہا کہ آپ کو فالج کا دوبارہ دَورہ نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ کو بیہوشی نہیں ہوئی اور فالج کے حملہ میں زیادتی طبّی اصول کے خلاف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کو ضُعف ہو گیا ہو یا اعصابی کمزوری کی وجہ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو مگر یہ کہ فالج کا حملہ آپ ہی آپ بڑھتا چلا جائے یہ طبّی اصول کے خلاف ہے اور دوبارہ حملہ کے لیے پہلے بیہوشی ضروری ہوتی ہے۔ بہرحال اگر ان کی یہ رائے درست ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ ایک غیرمعمولی سال گزرا ہے جس میں بڑی سخت سردی آئی۔ پچھلے سال جب ہم جابہ سے چلے ہیں تو وہاں بہت سردی تھی۔ ربوہ میں آئے تو وہاں بھی سردی تھی جلسہ کے قریب کچھ سردی کم ہوئی تو بدن میں طاقت آنی شروع ہو گئی۔ خداتعالیٰ کی قدرت ہے قادیان میں بھی 22، 23؍ دسمبر کو شاید لوگوں کے اژدہام کی وجہ سے گرمی سی آجاتی تھی اور ربوہ تو یوں بھی گرم مقام ہے۔بہرحال اس گرمی کا فائدہ ہوا اور مجھے تقریروں کی توفیق مل گئی۔
آج میں جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں مختلف انبیاء گزرے ہیں جن کو خداتعالیٰ نے اپنے اپنے وقت میں ہدایتیں بخشیں اور انہوں نے خداتعالیٰ کا نام پھیلانے اور اس تاکے دین کی خدمت کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی۔(الانعام:84تا90)اس کے بعد اﷲ تعالیٰ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰٮہُمُ اقۡتَدِہْ(الانعام:91)یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کو خداتعالیٰ نے ہدایت دی۔ پس اے محمد رسول اﷲ! جس طرز پر یہ لوگ چلے ہیں اُسی طرز پر تجھے اور تیرے ساتھیوں کو بھی چلنا چاہیے۔ اب یہ صاف بات ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے جو نبی گزرے ہیں یا جن کا یہاں ذکر آتا ہے جن میں حضرت ابراہیمؑ کا نام بھی آیا ہے، حضرت اسحٰقؑ کا نام بھی آیا ہے، حضرت یعقوبؑ کا بھی نام آیا ہے، حضرت داؤدؑ کا بھی نام آیا ہے، حضرت سلیمانؑ کا بھی نام آیا ہے، حضرت ایوبؑ کا بھی نام آیا ہے، حضرت یوسفؑ کا بھی نام آیا ہے، حضرت موسٰیؑ کا بھی نام آیا ہے، حضرت ہارونؑ کا بھی نام آیا ہے، اِسی طرح زکریاؑ، یحییٰؑ، عیسٰیؑ، الیاسؑ، اسماعیلؑ، یسعیاہؑ، یونسؑ اور لوطؑ کا بھی نام آیا ہے۔ ان تمام کی زندگیوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی خداتعالیٰ کے دین کی خدمت میں لگا دی تھی اور پھر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی یہی حکم دیا گیا کہ فَبِھُدٰ ھُمُ اقْتَدِہْ تُو بھی ان نبیوں کے طریق پر چل۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شروع دعویٔ نبوت سے لے کر تئیس سال تک محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی ذاتی کام نہیں کیا۔ صرف دین کی خدمت کرتے رہے اور اسلام کے پھیلانے میں دن رات لگے رہے اور اسی حالت میں فوت ہو گئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں دین کی خدمت اور اس کی اشاعت کا اِس قدر شوق تھا کہ مرضُ الموت میں آپ نے ایک دن فرمایا کہ میرے اور مسجد کے درمیان جو پردہ حائل ہے اُسے ہٹا دو۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے۔ جب پردہ ہٹایا گیا اور صحابہؓ جو نماز کے لیے جمع تھے انہوں نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ شوق کے مارے دیوانے ہو گئے اور انہوں نے بے تحاشا اپنی خوشی کا اظہار کرنا شروع کر دیا مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طبیعت چونکہ زیادہ ناساز تھی اس لیے آپ نے فرمایا اب پردے گرا دو اور باہر کہلا بھیجا کہ میرا دل تو چاہتا تھا کہ آؤں مگر میں کمزوری کی وجہ سے نہیں آ سکتا۔ میری جگہ ابوبکر نماز پڑھا دیں۔(بخاری کتاب الاذان باب اَھْلِ الْعِلْمِ و الْفَضْلِ اَحَقُّ بالْاِمامۃ)
غرض یہ ایک قرآنی ہدایت ہے جس کو ہمیشہ مدنظر رکھنا ضروری ہے اور ہمارا بھی فرض ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء گزرے ہیں جن میں خصوصیت سے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم شامل ہیں اُن کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہم اسلام کی خدمت بجا لائیں کیونکہ اِس وقت سوائے اسلام کے اَور کوئی سچا دین نہیں۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ (آل عمران:20) یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت صرف اسلام ہی حقیقی دین ہے۔ پس قرآن کے نزول کے بعد اب سوائے اسلام کے اَور کوئی دین نہیں رہا۔ اگر عیسٰیؑ کے پیرو عیسٰیؑ کے پیچھے چلتے ہیں اور موسٰیؑ کے پیرو موسٰیؑ کے پیچھے چلتے ہیں تو ہمارے لیے یہ حکم نہیں کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کریں یا یہودیت کو پھیلانے کی کوشش کریں بلکہ ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ ہم محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیچھے چلیں اور آپ کے لائے ہوئے دین کی اشاعت کے لیے اپنی جانیں تک لڑا دیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت اسلام کی ویسی ہی نازک حالت ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک فارسی قصیدہ میں فرمایا کہ
ہر طرف کفرست جوشاں ہمچو افواجِ یزید
دینِ حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین
(درثمین فارسی صفحہ 96)
جیسے کربلا کے وقت ہوا تھا کہ یزید کی فوجیں غالب آ رہی تھیں اور امام حسین کا لڑکا زین العابدین بیمار پڑا ہوا تھا اور دین کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے چاہا بھی کہ اپنی بیماری میں اُٹھ کر کربلا کے میدان میں حضرت امام حسینؓ کی مدد کریں مگر امام حسینؓ نے کہا میرے بیٹے کو سنبھالو۔ اس کو اُٹھنے نہ دو۔ چنانچہ ان کی پھوپھی زینبؓ آئیں اور انہوں نے کہا کہ صبر سے کام لے۔ تیرے باپ کا یہی حکم ہے کہ تجھے لِٹایا جائے اُٹھنے نہ دیا جائے۔ اِسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
ہر طرف کفرست جوشاں ہمچو افواجِ یزید
دینِ حق بیمار و بیکس ہمچو زین العابدین
یعنی جس طرح کربلا کے میدان میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاندان کے صرف ستّر آدمی تھے اور باقی سینکڑوں ہزاروں سپاہیوں کی رجمنٹیں (REGIMENTS) ایک مشہور جرنیل کے ماتحت یزید کی طرف سے اُن کو گھیرے ہوئے تھیں اُسی طرح آجکل اسلام کی حالت ہے کہ چاروں طرف سے یزیدی فوجوں کی طرح لوگ اِس پر چڑھے آ رہے ہیں اور اسلام کی حالت ایسی ہی ہے جیسے زین العابدین بیماری میں تڑپ رہے تھے اور اپنے باپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے۔ ہمارے روحانی باپ چونکہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اس لیے اس کے معنے یہ ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں اگر ایمان ہوتا ہے تو وہ تڑپتے ہیں کہ اپنے حقیقی روحانی باپ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدد کریں لیکن وہ بیماروبیکس ہیں یعنی ان میں طاقت نہیں کہ مقابلہ کر سکیں۔ نہ پیسہ ان کے پاس ہے، نہ پریس ان کے پاس ہے، نہ فوجیں ان کے پاس ہیں، نہ حکومتیں ان کے پاس ہیں عیسائی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر گند اُچھالتے ہیں مگر ان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ جواب دے سکیں۔
اب ہماری جماعت کو خداتعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ اس کے افراد یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور انڈونیشیا وغیرہ میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں مگر کام کی وسعت کے مقابلہ میں ہماری جدوجہد ایسی ہی ہے جیسے کوئی چڑیا سمندر میں سے چونچ بھر کر پانی پیے۔ عیسائیوں کی طاقت کے مقابلہ میں نہ ہمارے پاس کوئی طاقت ہے اور نہ اُن کے مبلّغوں کے مقابلے میں ہمارے مبلغوں کی تعداد کوئی حقیقت رکھتی ہے۔ رومن کیتھولک پادریوں کی تعداد ہی اَٹھاون ہزار ہے اور ہمارے مبلّغتین سَو بھی نہیں۔
(باقی آئندہ)