حضرت مصلح موعودؑ کے بچپن کے واقعات :آپؓ کی اپنی زبانی
پیارے بچو! حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبشر اولاد (یعنی وہ اولاد جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارات عطا فرمائیں) میں سب سے بڑے تھے۔ آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے خلیفہ یا جانشین بھی ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بعض مواقع پر اپنے پاکیزہ بچپن کے واقعات بیان فرمائے۔ ہم یومِ مصلح موعودؓ کی مناسبت سے ان میں سے چند باتیں حضرت مصلح موعودؓ کی ہی زبانی پیش کر رہے ہیں۔ ان واقعات میں بڑی سبق آموز باتیں ہیں۔ سب بچے انہیں غور سے پڑھیں اور اگر ابھی اردو پڑھ نہیں سکتے تو ہمارے یوٹیوب چینل پر ان کی آڈیو ضرور سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
پیارے بچو! حضرت مصلح موعودؓ اپنے بچپن میں دوسرے بچوں کی طرح اپنا وقت ضائع نہیں کرتے تھے، گلیوں میں بے کار نہیں پھرتے تھے بلکہ بزرگوں کی مجلس میں وقت گزارنا پسند فرماتے تھےاور اگر کھیلتے تو صحت مندانہ کھیلیں آپ کو پسند تھیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’میری تعلیم تو کچھ بھی نہ تھی لیکن یہ بات تھی کہ حضرت مسیح موعود کی مجلس میں جا بیٹھتا تھا۔ حضرت خلیفہ اول کی مجلس میں چلا جاتا تھا۔ کھیلا بھی کرتا تھا۔مجھے شکار کا شوق تھا۔فٹ بال بھی کھیل لیتا تھا۔لیکن گلیوں میں بیکار نہیں پھرتا تھا بلکہ اس وقت مجلسوں میں بیٹھتا تھا اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑی بڑی کتابیں پڑھنے والوں سے میرا علم خدا تعالیٰ کے فضل سے زیادہ تھا‘‘۔ (مشعل راہ جلد اول صفحہ ١٠٣ تا ١٠٥ )
جی جناب! آپ کو تو پتا ہے ناں کہ حضرت مصلحِ موعودؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹے تھے۔ حضورؑ اپنے بچوں سے بے انتہا پیار کرنے کے باوجود ان کی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازے پر آیا۔ میں وہاں کھڑا تھا،اندر کمرے میں صرف حضرت صاحب علیہ السلام تھے۔ میں نے اس کتے کو اشار ہ کیا اور کہا ٹیپو۔ ٹیپو۔ٹیپو۔ حضرت صاحب بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم ان کی نقل کر کے کتے کو ٹیپو کہتے ہو۔ خبردار آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔‘‘(سوانح فضل عمرجلد اول صفحہ ۷۸)
پھر اسی قسم کا ایک اَور واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں بچپن میں ایک دفعہ ایک طوطا شکار کر کے لایا۔ حضرت مسیح موعود عليه الصلوٰة والسلام نے اسے دیکھ کر کہا: محمود اس کا گوشت حرام تو نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کیا۔ بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں۔ بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سُن کر کان لذت حاصل کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر حِس کے لئے نعمتیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب چھین کر زبان ہی کو نہ دے دینی چاہئیں۔ دیکھو یہ طوطا کیسا خوبصورت جانور ہے۔ درخت پر بیٹھا ہوا دیکھنے والوں کو کیسا بھلا معلوم ہوتا ہو گا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۲۶۳)
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تربیت کا ایک انداز بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ باقاعدہ اخبار پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن ١٩٠٧ء میں اخبار پڑھتے ہوئے مجھے آواز دی ’’محمود‘‘یہ آواز اس طرح دی کہ جیسے کوئی جلدی کا کام ہوتاہے۔ جب میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے خبر سنائی۔ ایک شخص (جس کا مجھ کو اس وقت نام یاد نہیں ) مر گیا ہے۔ اس پر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے کہا مجھے اس سے کیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا اس کے گھر میں تو ماتم پڑا ہو گا اور تم کہتے ہو مجھے کیا؟‘‘(خطبات محمود جلد۳صفحہ۱۶۲)
پھر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضورؓ فرماتے ہیں کہ ’’آج سے ٣٨ سال قبل ایک واقعہ یہاں ہوا تھا۔ ہمارا ایک چھوٹا بھائی جس کانام مبارک احمد تھا اس کی قبر بہشتی مقبرہ میں ہے حضرت مسیح موعود کو وہ بہت ہی پیارا تھا۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق پیداہوا۔ کچھ مرغیاں مَیں نے رکھیں، کچھ میر محمد اسحاق صاحب مرحوم نے رکھیں اور کچھ میاں بشیر احمد صاحب نے رکھیں اور بچپن کے شوق کے مطابق صبح ہی صبح ہم جاتے، مرغیوں کے ڈربے کھولتے، انڈے گنتے اور پھر فخر کے طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے کہ میری مرغی نے اتنے انڈے دئیے ہیں اور میری نے اتنے۔ ہمارے اس شوق میں مبارک احمد مرحوم بھی جا کر شامل ہو جاتا۔ اتفاقاً ایک دفعہ وہ بیمار ہو گیا۔ اس کی خبر گیری سیالکوٹ کی ایک خاتون کرتی تھیں جن کا عرف دادی پڑا ہوا تھا۔ ہم بھی اسے دادی ہی کہتے تھے اور دوسرے سب لوگ بھی۔ حضرت خلیفہ اول اسے دادی کہنے پر بہت چڑا کرتے تھے مگر اس لفظ کے سواشناخت کا کوئی اَور ذریعہ بھی نہ تھا اس لئے آپ بجائے دادی کے انہیں جگ دادی کہا کرتے تھے۔ جب مبارک احمد مرحوم بیمار ہوا تو دادی نے کہہ دیا کہ یہ بیمار اس لئے ہوا ہے کہ مرغیوں کے پیچھے جاتا ہے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بات سنی تو فوراً حضرت (اماں جان )سے فرمایا کہ مرغیاں گنوا کر ان بچوں کو قیمت دے دی جائے اور مرغیاں ذبح کر کے کھا لی جائیں۔ تو حضرت مسیح موعود کو مبارک احمد بہت پیارا تھا ‘‘۔ (خطبات محمود جلد۳ صفحہ ۵۸۱-۵۸۲)
ایک اہم واقعہ جسے ہم سب کو غور سے سننا چاہیے کچھ یوں ہے۔ جب آپؓ گیارہ سال کے تھے تو آپ نے اللہ کے وجود سے متعلق خود سوال پیدا ہوا۔ پھر رات دیر تک آپ اس کے متعلق سوچتے رہےکہ اللہ پر ایمان کیوں لایا جاتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے۔ وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچے کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا… میں نے اسی وقت اﷲتعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو… آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا تیری ذات کے متعلق مجھے کبھی شک پیدا نہ ہو۔ ہاں اس وقت میں بچہ تھا۔ اب مجھے زائد تجربہ ہے۔ اب میں اس قدر زیادتی کر تا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو… ایک دن ضحٰی کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور متبرک ہے…پہن لیا تب میں نے اس کوٹھڑی کا جس میں میں رہتا تھا دروازہ بند کرلیا اور کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اس میں خوب رویا خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا! اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے ابھی باقی تھے میرا وہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے‘‘۔(سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ ۹۶-۹۷ )
تو بچو! ان واقعات سے ہم نے کیا سیکھا:
•حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے وقت کی باتوں کو غور سے سننا چاہیے۔
•کسی جانور کا نام کسی انسان کے نام پر نہیں رکھنا چاہیے۔
•ہر جانور یا پرندہ کھانے کے لیےنہیں بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ چرند پرند خوبصورتی کے لیے بنائے ہیں۔
•کسی کے مرنے پر خوش نہیں ہونا چاہیے بے شک وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
•بچپن سے ہی ہمیں نماز کی عادت ڈالنی چاہیے۔
امید ہے کہ آپ نے ان کے علاوہ اور باتیں بھی سیکھی ہوں گی۔ تو ہمیں اپنے خط میں بتائیں کہ آپ نے ان واقعات سے کون کون سی باتیں سیکھیں!