اِنَّکُم لَفِی خَلقٍ جَدِید (ایک مرحوم احمدی، اپنی قبر کی بے حرمتی پر)
ذرا سکون پسِ مرگ جو نصیب ہوا
تو ایک واقعہ زیرِ زمیں عجیب ہوا
کہ یک بیک کسی شورش کا غلغلہ اُٹھا
وہ جس سے شہرِ خموشاں بھی تھرتھرا اُٹھا
کہ لوگ طیش میں جیسے اٹھا رہے ہوں قدم
مِرے مزار کی جانب ہی آرہے ہوں قدم
اِس ہاؤ ہو نے سکوتِ لحد کو توڑ دیا
اَزَل کے چَین کو، خوابِ اَبد کو توڑ دیا
مرے سرہانے سے کتبہ اُکھاڑ ڈالا گیا
تو میری قبر کے سینے کو پھاڑ ڈالا گیا
جو میرا مُردہ بدن لاٹھیوں سے پیٹا گیا
مرے کفن کو بھی پیروں تلے گھسیٹا گیا
میں پوچھتا رہا اُن سے قصور کیا ہے مِرا
کہ قبر توڑ کے یہ حال کر دیا ہے مِرا
کُھلا کہ جرم مِرا ہے کہ احمدی تھا میں
خدا کے سلسلۂ پاک کی کڑی تھا میں
سو مَر کے بھی ہے جو بیعت کا امتحاں درپیش
تو اپنا عہدِ تعلق، وفا کروں گا ہمیش
کھُلی لحد تو کُھلا مجھ پہ رازِ بَل اَحیَآء
رہِ اَجَل سے مِلا ہے ہمیں مقامِ بقا
شدید عشق پہ جب ظلم بھی شدید ہوا
تو ہم حُسینؓ، ہمارا عدو یزید ہوا
صلیب دو ہمیں، قبریں اُکھاڑ کر رکھ دو
کفن کی چادریں لاشوں سے پھاڑ کر رکھ دو
اَب ہم جئیں یا مریں، ہم شہید ٹھہرے ہیں
ہم اِس جہان میں خَلقِ جدید ٹھہرے ہیں