خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 10؍مارچ 2023ء

یہ معجزہ صرف قرآنِ شریف ہی کا ہےکہ فصاحت و بلاغت بھی ہے، سچائی بھی ہے، حکمت کی باتیں بھی ہیں

جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں وہ تمام سچائیاں مستقل طو ر پر اور نہایت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں

’’حدیث قاضی نہیں بلکہ قرآن اس پر قاضی ہے‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

’’قرآن شریف میں جو احکام الٰہی نازل ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عملی رنگ میں کر کے اور کرا کے دکھا دیا اور ایک نمونہ قائم کر دیا۔اگر یہ نمونہ نہ ہوتا تو اسلام سمجھ میں نہ آ سکتا لیکن اصل قرآن ہے‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

’’یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے کہ اس میں سارے الفاظ ایسے موتی کی طرح پروئے گئے ہیں اور اپنے اپنے مقام پر رکھے گئے ہیں کہ کوئی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ نہیں رکھا جا سکتا اور کسی کو دوسرے لفظ سے بدلا نہیں جا سکتا لیکن اس کے باوجود اس کے قافیہ بندی اور فصاحت وبلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

’’اس وقت کوئی اَور مذہب ایسا نہیں ہے جس کا پیرو اور متبع یہ دعویٰ کر سکتا ہو کہ وہ پیشگوئیاں کر سکتا ہے یا اس سے خوارق کا ظہور ہوتا ہے اس لئے اس پہلو سے قرآن شریف کا معجزہ تمام کتابوں کے اعجاز سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘

’’یہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رد کرتا ہے اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے۔‘‘(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

بڑا سادہ طریقہ ہے، جو احکامات کرنے کے ہیں، جو ظاہری احکام تمہیں نظر آ رہے ہیں ان پر عمل کرو، جن سے روکا گیا ہے ان سے رک جاؤ اسی سے خدا خوش ہو جائے گا

قرآن ایک آسان فہم کتاب ہے

جلسہ سالانہ بنگلہ دیش پر بلوائیوں کے حملے میں جامِ شہادت نوش کرنے والے مکرم زاہد حسین صاحب کے علاوہ مکرم کمال بداح صاحب آف الجزائر، ڈاکٹر شمیم احمد ملک صاحبہ آف کینیڈا ، مکرم فرہاد احمد امینی صاحب آف جرمنی اورمکرم چودھری جاوید احمد بسمل صاحب آف کینیڈا کا ذکرِ خیراورنمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 10؍مارچ 2023ءبمطابق 10؍امان؍تبلیغ 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج کل خطبات میں

قرآن کریم کے محاسن کا ذکر

کر رہا ہوں، خوبیوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ اس کے محاسن اور خوبیاں بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ

قرآن کریم کامل کتاب ہے۔

اس سلسلہ میں آپؑ وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف ایسی کامل اور جامع کتاب ہے کہ کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‘‘ آپؑ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’کیا وید میں کوئی ایسی شرتی ہے جو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَکا مقابلہ کرے۔ اگر زبانی اقرار کوئی چیز ہے یعنی اس کے ثمرات اور نتائج کی حاجت نہیں تو پھر ساری دنیا کسی نہ کسی رنگ میں خد اتعالیٰ کا اقرار کرتی ہے۔ اور بھگتی، عبادت، صدقہ خیرات کو بھی اچھا سمجھتی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں ان باتوں پر عمل بھی کرتی ہے۔ پھر ویدوں نے آکر دنیا کو کیا بخشا؟‘‘ یہاں تک ہندوؤں کو یہ جواب دے رہے تھے۔ ’’یا تو یہ ثابت کرو کہ جو قومیں وید کو نہیں مانتی ہیں ان میں نیکیاں بالکل مفقود ہیں اور یا کوئی اور امتیازی نشان بتاؤ۔‘‘فرماتے ہیں: ’’قرآنِ شریف کو جہاں سے شروع کیا ہے ان ترقیوں کا وعدہ کر لیا ہے جو بالطبع روح تقاضا کرتی ہے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(الفاتحہ:6) کی تعلیم کی اور فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ اے اللہ! ہم کو صراطِ مستقیم کی ہدایت فرما۔‘‘ یہ دعا بھی دی اور ہدایت فرمانے کی جب دعا دی تو اس کا مطلب، وعدہ بھی کیا کہ میں صراط مستقیم پہ چلاؤں گا۔ پھر فرمایا کہ ’’وہ صراط مستقیم جو اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرے انعام و اکرام ہوئے۔ اس دعا کے ساتھ ہی سورہ البقرہ کی پہلی ہی آیت میں یہ بشارت دے دی ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(البقرۃ:3)‘‘ اگر ہدایت کی دعا سکھائی تو اِس کے حصول کے لیے ایک لائحہ عمل بھی بتا دیا کہ اس پر عمل کرو۔ یہ کتاب ہے جس پر عمل کرنے سے تمہیں،متقیوں کو ہدایت ملے گی ۔ ’’گویا روحیں دعا کرتی ہیں اور ساتھ ہی قبولیت اپنا اثر دکھاتی ہے اور وہ وعدہ دعا کی قبولیت کا قرآن مجید کے نزول کی صورت میں پورا ہوتا ہے۔ ایک طرف دعا ہے اور دوسری طرف اس کا نتیجہ موجود ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے جو اس نے فرمایا مگر افسوس دنیا اس سے بے خبر اور غافل ہے اور اس سے دور رہ کر ہلاک ہو رہی ہے۔‘‘

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو ابتدائے قرآن مجید میں متقیوں کے صفات بیان فرمائے ہیں ان کو معمولی صفات میں رکھا ہے لیکن

جب انسان قرآنِ مجید پر ایمان لا کر اسے اپنی ہدایت کے لیے دستور العمل بناتا ہے تو وہ ہدایت کے اُن اعلیٰ مدارج اور مراتب کو پالیتا ہے جو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ:3)میں مقصود رکھے ہیں۔

قرآنِ شریف کی اس علت غائی کے تصور سے ایسی لذت اور سرور آتا ہے کہ الفاظ میں ہم اس کو بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور قرآن مجید کے کمال کا پتہ لگتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد8صفحہ 317-318 ایڈیشن 1984ء)

پھر اس بات کو کھولتے ہوئے کہ

قرآن کریم کی تعلیم ایک کامل تعلیم ہے

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اَور دلیل ہے اور انجام اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ میں فرما دیا۔‘‘ یعنی زمانہ جو تھا، اس وقت حالات جو تھے دنیا کے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دلیل ہے کیونکہ ضرورت تھی اُس وقت اور پھر اس کا انجام کیا ہوا اس بعثت کا، تعلیم کیسی ہوئی مکمل وہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ میں فرما دیا۔ فرمایا کہ ’’گویا یہ بابِ نبوت کی دوسری فصل ہے۔ اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اتار دیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی۔‘‘ قرآن کریم اتار دیا، تعلیم دے دی ،کتاب اتار دی۔ یہی کمال نہیں ہے بلکہ کمال یہ ہے کہ انسان کے نفس کی حالت کو بھی مکمل کر دیا۔ جو عمل کرنے والے ہیں ان کو مکمل انسان بنا دیا۔ تطہیرِ قلب کی۔ اُن کے دلوں کو پاک کر دیا۔ فرمایا کہ ’’وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقلمند اور بااخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنا دیا اور تطہیر نفس، تکمیل اور تہذیبِ نفس کے مدارج طے کرا دیئے۔‘‘ انسان کو تہذیب کے بھی اعلیٰ مدارج سکھا دیے،نفس کے پاک کرنے کے بھی اعلیٰ مدارج سکھا دیے اور ان کی انتہا بھی کر دی۔ ’’اور اسی طرح پر کتاب اللہ کو بھی پورا اور کامل کر دیا۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہان تک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہو۔ میں نے اگنی ہوتری کو بارہا کہا‘‘ یہ ہندوؤں کی مذہبی تنظیم کے ایک بانی تھے۔ پہلے ایک فرقے میں تھے پھر انہوں نے اپنا فرقہ شروع کیا یا تنظیم شروع کی۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کی کافی بحث چلتی رہی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو بارہا کہا ’’کہ کوئی ایسی سچائی بتاؤ جو قرآن شریف میں نہ ہو مگر وہ نہ بتا سکا۔ ایساہی ایک زمانہ مجھ پر گذرا ہے کہ

میں نے بائبل کو سامنے رکھ کر دیکھا۔ جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں وہ تمام سچائیاں مستقل طو ر پر اور نہایت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہیں۔ وہ قرآن شریف پر تدبر ہی نہیں کرتے اور نہ ان کے دل میں کچھ عظمت ہے ورنہ یہ تو ایسا فخر کا مقام ہے کہ اس کی نظیر دوسروں میں ہے ہی نہیں۔‘‘

فرمایا:’’غرض اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (المائدۃ:4) کی آیت دو پہلو رکھتی ہے۔ ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا۔‘‘ پاک کر دیا تمہیں۔ ’’دوم کتاب مکمل کر چکا۔‘‘ مکمل شریعت تمہارے پہ اتار دی۔ فرماتے ہیں ’’کہتے ہیں جب یہ آیت اتری وہ جمعہ کا دن تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی یہودی نے کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کر لیتے۔‘‘ ایسی کامل اور پُراثر آیت ہے کہ اس دن تو خوشی میں عید ہونی چاہیے تھی۔ یہودی نے حضرت عمرؓ کو یہ کہا۔ ’’حضرت عمرؓ نے کہا کہ جمعہ عید ہی ہے۔‘‘ جمعہ والے دن یہ آیت اتری تو ’’جمعہ عید ہی ہے مگر بہت سے لوگ اس عید سے بے خبر ہیں۔ دوسری عیدوں کو کپڑے بدلتے ہیں لیکن اس عید کی پروا نہیں کرتے اور میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ آتے ہیں۔‘‘ جمعے کی اہمیت بھی آپؑ واضح فرما رہے ہیں کہ جمعہ پڑھنا کتنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ ’’میرے نزدیک یہ عید دوسری عیدوں سے افضل ہے۔‘‘ یعنی جمعہ پہ بھی خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ جمعہ پہ شامل ہونے کا انتظام ہونا چاہیے۔ صرف سال کے بعد عید پڑھنا نہیں۔ فرمایا کہ ’’اسی عید کے لیے سورۂ جمعہ ہے اور اسی کے لیے قصر نماز ہے اور جمعہ وہ ہے جس میں عصر کے وقت آدم پیدا ہوئے۔ اور یہ عید اس زمانہ پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پہلا انسان اس عید کو پیدا ہوا۔ قرآن شریف کا خاتمہ اسی پر ہوا۔‘‘

(ملفوظات جلد8صفحہ399 ایڈیشن 1984ء)

پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ

قرآنِ کریم حدیث پر قاضی ہے

آپؑ فرماتے ہیں:’’ایک اَور غلطی اکثر مسلمانوں کے درمیان ہے کہ وہ حدیث کو قرآن شریف پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ یہ غلط بات ہے۔ قرآن شریف ایک یقینی مرتبہ رکھتا ہے اور حدیث کا مرتبہ ظنی ہے۔‘‘ قرآن کریم کی تعلیم تو ایک یقینی تعلیم ہے لیکن حدیث کو ہم یقینی نہیں کہہ سکتے۔ وہ بہت ساری روایتیں تو بعد میں اکٹھی ہوئیں۔ فرمایا کہ

’’حدیث قاضی نہیں بلکہ قرآن اس پر قاضی ہے۔‘‘

فیصلہ کرنا قرآن کا کام ہے۔ ’’ہاں حدیث قرآن شریف کی تشریح ہے۔‘‘ بہت ساری حدیثیں ہیں جن سے آیت کی تشریح مل جاتی ہے۔ ’’اس کو اپنے مرتبہ پر رکھنا چاہئے۔ حدیث کو اس حدتک ماننا ضروری ہے کہ قرآن شریف کے مخالف نہ پڑے اور اس کے مطابق ہو لیکن اگر اس کے مخالف پڑے تو وہ حدیث نہیں بلکہ مردود قول ہے۔ لیکن

قرآنِ شریف کے سمجھنے کے واسطے حدیث ضروری ہے۔‘‘

لیکن ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ حدیث میں بہت ساری حدیثیں ایسی ہیں جس سے بعض آیات کی وضاحت ہوتی ہے۔ بعض بزرگ صحابہ کی روایتیں ہیں اس لیے اس کو سمجھنا بھی چاہیے لیکن یہ خیال رکھو کہ حدیث قرآن کریم کے مخالف نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ

’’قرآن شریف میں جو احکام الٰہی نازل ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عملی رنگ میں کر کے اور کرا کے دکھا دیا اور ایک نمونہ قائم کر دیا۔ اگر یہ نمونہ نہ ہوتا تو اسلام سمجھ میں نہ آ سکتا لیکن اصل قرآن ہے۔

بعض اہلِ کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست ایسی احادیث سنتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوئیں یا موجودہ احادیث کی تصدیق کرلیتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد8صفحہ363۔364 ایڈیشن 1984ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بارے میں بھی لکھا ہوا ہے کہ میں نے بھی بعض احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنیں۔

(ماخوذ از سیرت المہدی جلد 1 حصہ سوم صفحہ 550 روایت نمبر 572)

پھر

فصاحت قرآن کے بارے میں

بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف … عبارت میں اس قدر فصاحت اور موزونیت اور لطافت اور نرمی اور آب و تاب رکھتا ہے کہ اگر کسی سرگرم نکتہ چین اور سخت مخالفِ اسلام کو کہ جو عربی کی املاء انشاء میں کامل دستگاہ رکھتا ہو حاکم باختیار کی طرف سے یہ پُرتہدید حکم سنایا جائے کہ اگر تم مثلاً بیس برس کے عرصے میں کہ گویا ایک عمر کی میعاد ہے۔ اس طور پر قرآن کی نظیر پیش کر کے نہ دکھلاؤ کہ قرآن کے کسی مقام میں سے صرف دو چار سطر کا کوئی مضمون لے کر اسی کے برابر یا اس سے بہتر کوئی نئی عبارت بنا لاؤ۔ جس میں وہ سب مضمون معہ اپنے تمام دقائق حقائق کے آ جائے اور عبارت بھی ایسی بلیغ اور فصیح ہو جیسی قرآن کی تو تم کو اس عجز کی وجہ سے سزائے موت دی جاوے گی تو پھر بھی باوجود سخت عناد اور اندیشہ رسوائی اور خوف موت کی نظیر بنانے پر ہرگز قادر نہیں ہو سکتا اگرچہ دنیا کے صدہا زبان دانوں اور انشا پردازوں کو اپنے مددگار بنا لے۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 286تا297)

اب ایک طرف خوف بھی ہے۔ فرمایا کہ حاکم کی طرف سے اس کو بیس سال کا عرصہ بھی دے دیا جائے کہ قرآن شریف جیسی کوئی نظیر بنا کر لاؤ، چند آیتیں ہی بنا کے لے آؤ، سطریں ہی بنا کے لے آؤ لیکن وہ اس کے باوجود نہیں لا سکتا۔ یہ ہے کمال قرآن کریم کا اور اس کی فصاحت کا۔

آپؑ نے فرمایا یہ کوئی خیالی یا فرضی بات نہیں ہے بلکہ جب سے کہ قرآن شریف نازل ہوا ہے یہ چیلنج دنیا کے سامنے ہے کہ تم لے کے آؤ۔ آج بھی بعض اسلام مخالف اس کی نظیر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیتا ہے اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مثال پیش کرتے ہیں لیکن قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ صرف دعوے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’فصاحت، بلاغت میں (اس کا مقابلہ ناممکن ہے) مثلاً سورۂ فاتحہ کی موجودہ ترتیب چھوڑ کر کوئی اور ترتیب استعمال کرو تو وہ مطالبِ عالیہ اور مقاصدِ عظمیٰ جو اس تر تیب میں موجود ہیں ممکن نہیں کہ کسی دوسری ترتیب میں بیان ہو سکیں۔ کوئی سی سورت لے لو۔ خواہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ (الاخلاص:2)ہی کیوں نہ ہو۔ جس قدر نرمی اور ملاطفت کی رعایت کو ملحوظ رکھ کر اس میں معارف اور حقائق ہیں وہ کوئی دوسرا بیان نہ کر سکے گا۔ یہ بھی فقط اعجازِ قرآن ہی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب بعض نادان مقاماتِ حریری یا سبع معلقہ‘‘ یہ دو کتابیں ہیں’’کو بے نظیر اور بے مثل کہتے ہیں۔‘‘ کہ بہت اعلیٰ کتابیں ہیں۔ ان کی تو مثال ہی کوئی نہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’اوراس طرح پرقرآن کریم کی بے مانندیت پرحملہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اوّل تو حریری کے مصنف نے کہیں اس کے بے نظیر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اوردوم یہ کہ مصنف حریری خود قرآن کریم کی اعجازی فصاحت کاقائل تھا۔ علاوہ ازیں معترضین راستی اورصداقت کو ذہن میں نہیں رکھتے بلکہ ان کو چھوڑ کر محض الفاظ کی طرف جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا کتابیں حق اورحکمت سے خالی ہیں۔ اعجاز کی خوبی اور وجہ تو یہی ہے کہ ہر ایک قسم کی رعایت کو زیرِ نظر رکھے۔ فصاحت اور بلاغت بھی ہاتھ سے جانے نہ دے۔ صداقت اور حکمت کو بھی نہ چھوڑے۔

یہ معجزہ صرف قرآنِ شریف ہی کا ہے‘‘
کہ فصاحت و بلاغت بھی ہے، سچائی بھی ہے، حکمت کی باتیں بھی ہیں۔

’’جو آفتاب کی طرح روشن ہے ا ور ہر پہلو سے اپنے اندر ا عجازی طاقت رکھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 84-85 ایڈیشن 1984ء)

پھر فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف کے معجزہ فصاحت و بلاغت کے جواب میں ایک دفعہ پادری فَنڈَر نے حریری اور ابوالفضل اور بعض انگریزی کتابوں کو پیش کیاتھا۔ مدت کی بات ہے۔ ہم نے اس وقت بھی یہی سوچا تھا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ اول تو ان مصنفین کو کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ ان کا کلام بے مثل ہے بلکہ وہ خود اپنی کم مائیگی کا ہمیشہ اقرار کرتے رہے ہیں اور قرآنِ شریف کی تعریف کرتے ہیں۔ دوسرا ان لوگوں کی کتابوں میں معنی الفاظ کے تابع ہو کر چلتا ہے۔ صرف الفاظ جوڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ قافیہ کے واسطے ایک لفظ کے مقابل دوسرا لفظ تلاش کیا جاتا ہے اور کلام میں حکمت اور معارف کا لحاظ نہیں ہوتا اور قرآن شریف میں التزام ہے حق اور حکمت کا۔‘‘ سچائی بھی ہے۔ حکمت بھی ہے۔ صرف الفاظ کا جوڑنا نہیں ہے۔ اس میں خوبصورتی پیدا نہیں کی گئی۔ فرمایا کہ ’’اصل میں اس بات کا نباہنا کہ حق اور حکمت کے کلمات کے ساتھ قافیہ بھی درست ہو یہ بات تائیدِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ یہ اصل چیز ہے کہ حق اور حکمت بھی ہو اور قافیہ بھی درست ہو تب پتہ لگتا ہے تائیدِ الٰہی ہے۔ ’’ورنہ انسانوں کے کلام ایسے ہوتے ہیں جیساکہ حریری وغیرہ۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 205 ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ ایک مجلس میں اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ تفسیر اعجاز المسیح کے متعلق یہ ذکر تھا کہ مخالفین میں سے کسی کو خدا نے یہ طاقت نہیں دی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔ یہ تفسیر کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک مجلس میں یہ ذکر ہو رہا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’قرآن شریف کے ایک معجزہ ہونے کے متعلق دو مذہب ہیں۔ ایک تو یہ کہ خداتعالیٰ نے مخالفین سے صَرفِ ہمت کر دیا۔ یعنی ان لوگوں کو توفیق نہ ہوئی کہ اس وقت مقابلہ میں کچھ کرکے دکھلاتے اور دوسرا مذہب جو کہ صحیح اور سچا اور پکا مذہب ہے اور ہمارا بھی وہی مذہب ہے۔ وہ یہ ہے کہ مخالف خود اس بات میں عاجز تھے کہ مقابلہ کر سکتے۔ اصل میں ان کے علم اور عقل چھینے گئے تھے۔ قرآن شریف کا معجزہ ہماری تفسیر القرآن کے معاملہ سے خوب سمجھ میں آسکتا ہے۔ ہزاروں مخالف موجود ہیں جو عالم فاضل کہلاتے ہیں۔ کئی غیرت دلانے والے الفاظ بھی اشتہار میں لکھے گئے ہیں مگر کوئی ایسانہ کرسکا کہ اس نشان کا مقابلہ کرتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 217-218 ایڈیشن 1984ء)

پس آپؑ کی کتب کو اس نظریے سے بھی ہمیں پڑھنا چاہیے کہ قرآن شریف کی سمجھ آئے۔

پھر ایک موقع پر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو جو معجزہ عطا فرمایا ہے وہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم اور اصول تمدن کا ہے اور اس کی بلاغت اور فصاحت کا ہے جس کا مقابلہ کوئی انسان کر نہیں سکتا اور ایسا ہی

معجزہ غیب کی خبروں اور پیشگوئیوں کا

ہے۔ اس زمانے کا کوئی شعبدہ بازی میں استاد ہرگز ایسا کرنے کا دعویٰ نہیں کرتا۔‘‘ فصاحت و بلاغت بھی ہے اور غیب کی خبریں، پیشگوئیاں بھی موجود ہیں۔ یہ کوئی جادوگر تو نہیں دکھا سکتا۔ شعبدہ باز تو ایسی باتیں نہیں دکھا سکتا، نہ دعویٰ کر سکتا۔ فرمایا ’’اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے نشانات کو ایک تمیز صاف عطا فرمائی ہے تا کہ کسی شخص کو حیلہ حجت بازی کا نہ رہے اور اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے نشانات کھول کھول کر دکھائے ہیں جن میں کوئی شک وشبہ اپنا دخل نہیں پیدا کر سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ 172 ایڈیشن 1984ء)

پھر قرآن کریم کی فصاحت کے بارے میں آپؑ نے فرمایا:’’لوگوں کی فصاحت اور بلا غت الفاظ کے ماتحت ہوتی ہے اور اس میں سوائے قافیہ بندی کے اَور کچھ نہیں ہوتا۔ جیسے ایک عرب نے لکھا ہے سَافَرْتُ اِلٰی رُوْم وَ اَنَا عَلٰی جَمَلٍ مَاْلُوْمٍ۔ میں روم کو روانہ ہوا اور میں ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوا جس کا پیشاب بند تھا۔ یہ الفاظ صرف قافیہ بندی کے واسطے لائے گئے ہیں۔

یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے کہ اس میں سارے الفاظ ایسے موتی کی طرح پروئے گئے ہیں اور اپنے اپنے مقام پر رکھے گئے ہیں کہ کوئی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ نہیں رکھا جا سکتا اور کسی کو دوسرے لفظ سے بدلا نہیں جا سکتا لیکن اس کے باوجود اس کے قافیہ بندی اور فصاحت وبلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ 172-173 ایڈیشن 1984ء)

پھر

قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا حسن

بیان فرماتے ہیں۔ ایک مجلس میں آپؑ نے فرمایا کہ ’’جس قدر یہ نشانات اور آیات یہاں ظاہر ہو رہی ہیں یہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے خوارق اور معجزات اور یہ پیشگوئیاں قرآن شریف ہی کی پیش گوئیاں ہیں کیونکہ آپؐ ہی کے اتباع اورقرآن شریف ہی کی تعلیم کے ثمرات ہیں۔ اور

اس وقت کوئی اَور مذہب ایسا نہیں ہے جس کا پیرو اور متبع یہ دعویٰ کر سکتا ہو کہ وہ پیشگوئیاں کر سکتا ہے یا اس سے خوارق کا ظہور ہوتا ہے۔ اس لئے اس پہلو سے قرآن شریف کا معجزہ تمام کتابوں کے اعجاز سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘

آپ کے اپنے معجزات جو ہیں وہ بھی قرآن شریف کی وجہ سے ہی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی وجہ سے ہیں۔

پھر فرمایا کہ ’’پھر

ایک اَور پہلو فصاحت بلاغت ایسی اعلیٰ درجہ کی اور مُسلَّم ہے کہ انصاف پسند دشمنوں کو بھی اسے ماننا پڑا ہے۔

قرآنِ شریف نے فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (البقرۃ :24) کا دعویٰ کیا لیکن آج تک کسی سے ممکن نہیں ہوا کہ اس کی مثل لا سکے۔‘‘ یہ دعویٰ قرآن شریف کا ہے کہ اس جیسی سورت لے کے آؤ۔ ’’عرب جو بڑے فصیح و بلیغ بولنے والے تھے اور خاص موقعوں پر بڑے بڑے مجمع کرتے اور ان میں اپنے قصائد سناتے تھے وہ بھی اس کے مقابلہ میں عاجز ہو گئے۔ اور پھر قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت ایسی نہیں ہے کہ اس میں صرف الفاظ کا تتبع کیا جاوے‘‘ ان کی پیروی کرو، یعنی ان کو followکرو ’’اور معانی اور مطالب کی پرواہ نہ کی جاوے بلکہ جیسا اعلیٰ درجہ کے الفاظ ایک عجیب ترتیب کے ساتھ رکھے گئے ہیں اسی طرح پر حقائق اور معارف کو ان میں بیان کیا گیا ہے اور یہ رعایت انسان کا کام نہیں کہ وہ حقائق اور معارف کو بیان کرے اور فصاحت و بلاغت کے مراتب کو بھی ملحوظ رکھے۔‘‘

فرمایا کہ ’’ایک جگہ فرماتا ہے یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً۔ فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنہ:3-4) یعنی ان پر ایسے صحائف پڑھتا ہے کہ جن میں حقائق و معارف ہیں۔ انشاء والے جانتے ہیں کہ انشاء پردازی میں پاکیزہ تعلیم اور اخلاقِ فاضلہ کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے اور پھر ایسی مؤثر اور جاذب تعلیم دینا جو صفاتِ رذیلہ کو دور کرکے بھی دکھاوے اور ان کی جگہ اعلیٰ درجہ کی خوبیاں پیدا کر دے۔ عربوں کی جو حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ سارے عیبوں اور برائیوں کامجموعہ بنے ہوئے تھے اور صدیوں سے اُن کی یہ حالت بگڑی ہوئی تھی مگر کس قدر آپؐ کے فیوضات اور برکات میں قوت تھی کہ تیئس برس کے اندر کُل ملک کی کایا پلٹ دی۔یہ تعلیم ہی کا اثر تھا۔‘‘ فرمایا کہ ’’ایک چھوٹی سے چھوٹی سورۃ بھی اگر قرآن شریف کی لے کر دیکھی جاوے تو معلوم ہو گا کہ اس میں فصاحت و بلاغت کے مراتب کے علاوہ تعلیم کی ذاتی خوبیوں اور کمالات کوا س میں بھر دیا ہے۔ سورۂ اخلاص ہی کو دیکھو کہ توحید کے کُل مراتب کو بیان فرمایا ہے۔‘‘ چھوٹی سی سورت ہے لیکن توحید کا پورا مضمون اس میں بیان کر دیا ہے ’’اور ہر قسم کے شرکوں کا رد کر دیا ہے۔ اسی طرح سورۃ فاتحہ کو دیکھو کس قدر اعجاز ہے۔ چھوٹی سی سورۃ جس کی سات آیتیں ہیں لیکن دراصل سارے قرآن شریف کا فن اور خلاصہ اور فہرست ہے اور پھر اس میں خدا تعالیٰ کی ہستی، اس کے صفات، دعا کی ضرورت، اس کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع، مفید اور سود مند دعاؤں کا طریق، نقصان رساں راہوں سے بچنے کی ہدایت سکھلائی ہے وہاں دنیا کے کل مذاہب باطلہ کا رد اس میں موجود ہے۔‘‘اس سورة فاتحہ میں چھوٹی سی سورت میں ساری باتیں آ گئیں۔ ’’اکثر کتابوں اور اہل مذہب کو دیکھو گے کہ وہ دوسرے مذہب کی برائیاں اور نقص بیان کرتے ہیں اور دوسری تعلیموں پر نکتہ چینی کرتے ہیں مگر ان نکتہ چینیوں کو پیش کرتے ہوئے یہ کوئی اہل مذہب نہیں کرتا کہ اس کے بالمقابل کوئی عمدہ تعلیم بھی پیش کرے اور دکھائے کہ اگر میں فلاں بری بات سے بچانا چاہتا ہوں تو اس کی بجائے یہ اچھی تعلیم دیتا ہوں یہ کسی مذہب میں نہیں،

یہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رد کرتا ہے اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ46تا48 ایڈیشن 1984ء)

یہ خوبصورتی ایسی ہے جسے آج کے نام نہاد پڑھے لکھے بھی ردّ نہیں کر سکتے۔ بہت سے مواقع پر میں نے دیکھا ہے کہ جب غیروں کے سامنے قرآن شریف کی تعلیم کے مطابق کسی مسئلہ کا حل رکھا جائے تو وہ اسے تسلیم کرتے ہیں۔

قرآن کریم کی خوبیاں

بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

قرآن ایک آسان فہم کتاب ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ’’بعض نادان لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم قرآن شریف کو نہیں سمجھ سکتے اس واسطے اس کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے کہ یہ بہت مشکل ہے۔ یہ ان کی غلطی ہے۔‘‘ بہانہ بنا دیا کہ بڑا مشکل ہے جی قرآن شریف کو سمجھنا۔ اس کو ہم سمجھ نہیں سکتے اس لیے زیادہ توجہ کی ضرورت نہیں۔ بس پڑھ لیا تو کافی ہے۔ فرمایا کہ ’’قرآن شریف نے اعتقادی مسائل کو ایسی فصاحت کے ساتھ سمجھایا ہے جو بے مثل اور بے مانند ہے اور اس کے دلائل دلوں پر اثر ڈالتے ہیں۔‘‘ جہاں تک اعتقادی مسائل کا تعلق ہے بڑا کھل کے بتایا ہے۔ فرمایا کہ ’’یہ قرآن ایسا بلیغ اور فصیح ہے کہ عرب کے بادیہ نشینوں کو جو بالکل اَن پڑھ تھے سمجھا دیا تھا تو پھر اب کیونکر اس کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘

(ملفوظات جلد9صفحہ228 ایڈیشن 1984ء)

وہ اَن پڑھ لوگ جو تھے، گاؤں میں رہنے والے تھے بالکل جاہل تھے بلکہ انسانوں سے بھی نیچے گرے ہوئے تھے جن کو باخدا انسان بنایا۔ ان کو اگر سمجھ آ گئی تو اب کیوں نہیں تم لوگوں کو سمجھ آ سکتی جن میں اکثریت کچھ نہ کچھ پڑھے لکھوں کی ہے۔ فرمایا کہ

’’سیدھی اور سچی اور سادہ عام فہم منطق وہ ہے جو قرآن شریف میں ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ ایک سیدھی راہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ہم کو سکھلا دی ہے۔ چاہئے کہ آدمی قرآن شریف کو غور سے پڑھے۔ اس کے امر اور نہی کو جداجدا دیکھ رکھے۔‘‘ جو باتیں کہنے والی، عمل کرنے والی ہیں ان کو دیکھے۔ جن سے منع کیا گیا ہے ان کو دیکھے، علیحدہ رکھے ’’اور ان پر عمل کرے اور اسی سے وہ اپنے خدا کو خوش کر لے گا۔‘‘

بڑا سادہ طریقہ ہے، جو احکامات کرنے کے ہیں، جو ظاہری احکام تمہیں نظر آ رہے ہیں ان پر عمل کرو، جن سے روکا گیا ہے ان سے رک جاؤ اسی سے خدا خوش ہو جائے گا۔

’’باقی منطقیوں اور صوفیوں نے جو اصطلاحیں بنائیں ہیں وہ اکثر لوگوں کے واسطے ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہیں کیونکہ ان میں پیچیدگیاں اور مشکلات ہیں۔‘‘منطقیوں اور صوفیوں کے پیچھے نہ چلو۔ انہوں نے تو ایسی ایسی اصطلاحیں بنا دی ہیں، ایسے ایسے مشکل رنگ میں قرآن شریف کو پیش کیا ہے کہ اس سے ٹھوکر ہی لگتی ہے اور کچھ نہیں سمجھ آتی۔ پس اگر دنیا میں لوگوں کو مشکل پیش آتی ہے تو منطقیوں اور صوفیوں کی وجہ سے یا نام نہاد علماء کی وجہ سے۔ فرمایا: ’’ایک بزرگ نے جس پر ہم حسن ظن رکھتے ہیں کہ اس نے کسی نیک نیتی سے لکھا ہو گا۔ گو اس کا قول صحیح نہیں ہے۔ یہ لکھا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی کامل نہ تھے کیونکہ ان کا پورے طور پر نزول نہ تھا صرف صعود تھا۔‘‘ اوپر جانا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کوئی الہامات اس طرح نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی دعائیں قبول ہو جاتی تھیں۔ ’’اسی وجہ سے ان سے بہت سی کرامتیں صادر ہوئیں۔ اگر نزول پورا ہوتا تو کوئی کرامت صادر نہ ہوتی۔‘‘ یہ کہنے والے نے کہا۔ فرمایا کہ ’’اس قول میں جس قدر تخالفِ قرآنی ہے وہ ظاہر ہے۔ یہ ایسا قول ہے کہ قرآن اور حدیث سے سراسر مخالف ہے۔ درحقیقت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ خدا تعالیٰ کے کامل بندوں میں سے تھے۔ اگر ان پر معجزات کے متعلق اعتراض کیا جاوے تو پھر یہ اعتراض تمام انبیاء پر وارد ہوتا ہے۔‘‘ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے بارے میں بعض لوگوں نے، ان کے ماننے والوں نے کرامتوں کے بارے میں مبالغے سے بھی کام لیا ہے اور اس پر حاشیہ آرائی کر دی۔ یہ چیزیں جو ہیں وہ ان کے بارے میں غلط ہیں۔ ہاں معجزات ہوتے ہیں۔ وہ معجزات جو قانونِ قدرت اور شریعت کے تحت ممکن ہیں وہ ہوتے ہیں، انبیاء سے بھی ہوتے ہیں وہی ان سے بھی ہوئے۔ فرمایا کہ ’’یہ ان صوفیوں کی غلط اصطلاحوں کی پیروی کا نتیجہ ہے جن کی تصدیق قرآن وحدیث سے نہیں ملتی۔‘‘

(ملفوظات جلد10صفحہ 5-6 ایڈیشن 1984ء)

یہ یا تو ایک فریق ہے جو بالکل مانتا ہی نہیں یا دوسرا جو مانتا ہے وہ اتنا زیادہ مبالغے سے کام لیتا ہے کہ اس نے حد ہی کر دی ہے۔ تو جو نہ ماننے والے ہیں وہ صوفیوں کی وجہ سے ہیں اور جو ماننے والے ہیں وہ بھی غلط قسم کے لوگوں کی تشریحات کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے اس بات پر ہمیشہ غور کرتے رہنا چاہیے کہ اس کو قانونِ شریعت اور قانون قدرت کے تحت اور انبیاء کے معجزات کے تحت پرکھو۔ انبیاء سے بڑھ کر کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔

قرآن کریم حقیقی خدا کو پیش کرتا ہے

اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خد ا تعالیٰ کا شکر ہے کہ قرآن شریف نے ایسا خدا پیش نہیں کیا جو ایسی نا قص صفات والا ہو کہ نہ وہ روحوں کا مالک ہے نہ ذرات کا مالک ہے نہ ان کو نجات دے سکتا ہے نہ کسی کی توبہ قبول کر سکتا ہے بلکہ ہم قرآن شریف کی رو سے اس خدا کے بندے ہیں جو ہمارا خالق ہے ہمارا مالک ہے۔ ہمارا رازق ہے۔ رحمان ہے۔ رحیم ہے۔ مالک یوم الدین ہے۔ مومنوں کے واسطے یہ شکر کا مقام ہے کہ اس نے ہم کو ایسی کتاب عطا کی جو اس کی صحیح صفات کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 10صفحہ 98 ایڈیشن 1984ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم و معرفت اور قرآن کریم کی خصوصیات اور مقام و مرتبہ کی باتیں انشاء اللہ آئندہ بھی بیان ہوں گی۔ اس وقت مَیں یہاں ختم کرتا ہوں کیونکہ اب مَیں نے بعض مرحومین کا بھی ذکر کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور عمل کرنے کی اور قرآن شریف کو پڑھنے کی اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اب میں وہ ذکر کرتا ہوں

خاص طور پر بنگلہ دیش کے شہید کا ذکر

کرنا ہے۔ اس کے بعد میں نمازِ جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔

بنگلہ دیش میں جیسا کہ ہمیں پتہ ہے گذشتہ جمعہ کو جلسہ ہو رہا تھا اور جلسےکے دوران بلوائیوں نے اور دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ پولیس نے اور انتظامیہ نے پہلے یہی تسلی دلائی تھی کہ وہ کنٹرول کر لیں گے اور کچھ نہیں ہو گا اس لیے تم جلسہ کرو۔ جلسہ جاری رہا لیکن جب لوگ آ گئے تو پولیس وہاں تماشائی بنی کھڑی رہی یہاں تک کہ چند گھنٹے گزرنے کے بعد پھر اوپر سے جب ان کو حکم ملا تو تب انہوں نے ایکشن لیا لیکن اس وقت تک بہت کچھ ہو چکا تھا۔ بہرحال

اس فساد میں ہمارے ایک بھائی، بچہ زاہد حسن صاحب بھی شہید ہوئے

جو ابوبکر صدیق صاحب بنگلہ دیش کے بیٹے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

نیشنل امیر عبدالاوّل صاحب لکھتے ہیں کہ زاہد حسن صاحب 3؍مارچ کو احمدنگر پنجو گڑھ ضلع میں منعقد ہونے والے جلسہ کے موقع پر گیٹ اور احاطے کا پہرہ دیتے وقت مخالفین کے حملوں کے نتیجے میں پچیس سال کی عمر میں شہادت پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔مرحوم نے 2019ء میں بیعت کی تھی۔ تین ماہ بعد ہی وصیت کی درخواست جمع کروا دی تھی۔ ان کا خاندان اہلِ حدیث فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد شہید مرحوم نے اپنے والدین کو تبلیغ کرنی شروع کر دی جس کے نتیجے میں 2020ء میں ان کے والدین نے بھی بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ بیعت کے بعد شہید مرحوم باقاعدہ مجھے خط بھی لکھا کرتے تھے۔

ان کی بیعت اور احمدی ہونے کا واقعہ

جو ہے یوں ہے کہ ان کے ایک کلاس فیلو محمد رفعت حسین تھے جو بوگرہ شہر میں پندرہ (Pundra) یونیورسٹی آف سائنس میں پڑھتے تھے یہ دونوں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں بی ایس سی کر رہے تھے۔ اس احمدی دوست نے، بچے نے ان کو تبلیغ کی اور دو سال کی تبلیغ کے بعد جب ان پر احمدیت کی سچائی عیاں ہوئی تو انہوں نے بیعت کر لی۔ اوّل صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے آغاز سے جلسہ گاہ کی چاروں اطراف سے ملاں لوگ اپنے ٹولوں کے ساتھ جلسہ گاہ کی دیوار اور مغربی حصے میں واقع گیٹ پر حملہ کرنے لگے۔ پتھراؤ کے علاوہ دیسی اسلحہ سے،کلہاڑوں سے، سریا وغیرہ سے یہ لوگ حملہ کر رہے تھےاور جہاں بھی موقع ملا وہ آگ لگاتے رہے۔ خدام بڑی دلیری سے اپنی ڈیوٹیاں بجا لاتے رہے۔ عمومی طور پر تو باہر جانے کا موقع نہیں تھا سوائے ان کو جن کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ سب لوگ، خدام اندر ہی تھے، اندر سے ہی حفاظت کر رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ شروع ہونے کے پونے دو گھنٹے کے بعد جب حملہ آور لوگ دیوار کا ایک حصہ توڑنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر خدام کو ہر قیمت پر دیوار اور جلسہ گاہ کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے کہا گیا۔ اس وقت گیٹ نمبر ایک پر متعین زاہد حسن شہید اپنے ساتھیوں کے ساتھ گیٹ سے نکل کر جلسہ گاہ کی دیوار پر حملہ کرنے والوں کو ہٹانے کے لیے نہایت سرعت اور بہادری سے جا پہنچے۔ اسی اثنا میں ایک موقع ایسا آیا کہ مقابلہ کرتے کرتے یہ ساتھیوں سے بچھڑ گئے۔ سو موقع پا کر اس اکیلے کو حملہ آوروں نے جا لیا۔ اس کے سر کے پیچھے کلہاڑی یا کوئی اَور تیز اسلحہ سے حملہ کر دیا اور موصوف کو گھسیٹتے ہوئے کچھ فاصلے پر لے گئے۔ ان کے چہرے اور جسم کے دیگر حصوں پر نہایت بے دردی اور سفاکی سے وار کرتے ہوئے درندہ ہونے کا ثبوت دیا۔

شہید مرحوم زاہد حسن کو اتنی بے دردی سے قتل کیا گیا کہ اسے شناخت کرنے میں دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ یہ ہے ان مسلمانوں کا حال۔ اللہ اور رسول کے نام پر ظلم و بربریت کی انتہا کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کافروں سے جنگوں میں بھی دشمنوں کا مُثلہ کرنے سے منع فرمایا لیکن یہ لوگ اللہ اور رسول کا نام لینے والوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔

اللہ ہی ہے جو اُن کو پکڑے اور پھر اُن کی خاک اڑائے۔

یہ کہتے ہیں کہ ان کا ڈیوٹی identity card بھی قاتلوں نے الگ کر دیا، ان کے سینے سے اتار دیا لیکن کیونکہ خدام کی ڈیوٹی کے کپڑوں میں ملبوس تھے اس لیے کچھ نہ کچھ پہچان ہو گئی۔ پھر بہرحال جب ان کی لاش حاصل کر لی گئی تو پھر نماز تہجد اور فجر کے بعد موصوف کا جنازہ ادا کیا گیا۔ جلسےمیں شامل ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر سے آئے ہوئے احمدی اس میں شامل ہوئے۔ نمازِ جنازہ کے وقت سب حاضرین پر ایسی حالت طاری ہوئی جس کی کوئی مثال نہیں۔ بڑی رقت طاری تھی وہاں۔ سب کے سب خدا کے حضور بلبلا رہے تھے۔ اس کے بعد قانونی مجبوری کے تحت لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور بعد دوپہر قافلے کے ساتھ شہید مرحوم کا جسد خاکی ان کے آبائی گاؤں کے لیے بذریعہ ایمبولینس روانہ کر دیا گیا جہاں رات دس بجے انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔

شہید مرحوم کے قریب ترین دوست عزیزم رفعت حسین صاحب کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران ان سے بڑی دوستی ہوئی۔ موصوف فطری طور پر بہت شریف النفس تھے لیکن عبادات میں دلچسپی بہت کم تھی لیکن

قبولیت احمدیت کے بعد ان کی کایا پلٹ گئی

اور نماز باجماعت کے عادی ہو گئے۔ موصوف انتہائی عاجز، نرم خو اور منکسر المزاج نوجوان تھے۔ پانچ سال کے عرصےمیں کہتے ہیں میں نے انہیں کبھی کسی سے اونچی آواز میں باتیں کرتے ہوئے نہیں سنا۔ موصوف کی سعادت کا پتا اس بات سے بھی لگتا ہے کہ بیعت کرنے کے چند ماہ بعد ہی موصوف نے وصیت کرنے کی سعادت حاصل کر لی۔ پھر کہتے ہیں کہ عزیزم زاہد حسن شہید خدام الاحمدیہ کے فعال رکن تھے۔ بوقت شہادت موصوف ڈھاکہ اور بریسال کے علاقائی معتمد خدام الاحمدیہ کے طور پر خدمت بجا لا رہے تھے نیز ڈھاکے کے موتی جھیل حلقہ کے زعیم بھی تھے۔

اسی مجلس کے قائد اور مہتمم مقامی جناب ظہور الاسلام صاحب کہتے ہیں کہ موصوف مجلسی کاموں میں نہایت باقاعدہ اور اپنے سینئرز کے بہت مطیع تھے۔ مفوضہ ڈیوٹی اور خدمت پوری طرح بشاشت کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ سلام میں ہمیشہ پہل کرتے تھے۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ سال یا سوا سال قبل موصوف نے بی ایس سی پاس کرنے کے بعد ایک کمپنی میں سروس کا آغاز کیا اور سروس کے سلسلےمیں اگر کبھی ڈھاکے سے دوردراز کسی جگہ جانا ہوتا تو حسبِ موقع قریب ترین مجالس کا دورہ بھی کرتے۔ ان کے فیس بک اکاؤنٹ میں ذاتی پروفائل کے طور پر آیت وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق: 4) کا ترجمہ لکھا ہوا ہے۔

مربی شریف احمد صاحب کہتے ہیں میں اس وقت تےباڑیہ جماعت میں متعین تھا جبکہ شہید موصوف اپنے دوست رفعت حسین صاحب کے ساتھ بطورزیرِ تبلیغ دوست تشریف لائے۔ موصوف نے بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ مزید وقت لے لیں، اچھی طرح چھان بین کر لیں۔ موصوف نے کہا کہ اگرچہ میں جماعت کی سچائی کا قائل ہو چکا ہوں پھر بھی میں آپ کے کہنے پر بعد میں آ کر بیعت کروں گا۔ چنانچہ اگلی دفعہ یا اس کے بعد کی دفعہ موصوف نے بیعت کر لی تھی۔ بیعت کرنے کے بعد یہ مربی صاحب کہتے ہیں کہ موصوف نے احمدیت کو اور نظامِ خلافت کو سمجھنے کے لیے پوری کوشش شروع کر دی۔ بڑی گہرائی سے علم حاصل کیا۔ مجھے بھی خط لکھتے رہتے تھے جیسا کہ میں نے ذکر کیا۔ آخری خط جو انہوں نے لکھا ہے وہ بھی انہوں نے جلسے پر جاتے ہوئے لکھا کہ ہم ٹرین پر جلسےپر جا رہے ہیں اور دشمن کے منصوبے بڑے خطرناک ہیں۔ بعض جگہ انہوں نے آگیں بھی لگائی ہیں لیکن ہم ان شاء اللہ تعالیٰ جلسہ کریں گے اور اپنا اظہار ایمان کا کیا۔ پھر یہ بھی اظہار کیا کہ میرے رشتہ دار اور گاؤں والے سب احمدی ہو جائیں۔ وہ سارا گاؤں احمدی ہو جائے۔ یہ ان کا آخری خط ہے جو انہوں نے لکھا۔

ایک خادم بیان کرتے ہیں کہ شہید اتنے عاجز کارکن تھے کہ جب بھی انہیں کسی نے کوئی کام دیا، انہوں نے نہ نہیں کیا۔ کہتے ہیں کبھی کبھی میں ان سے مذاق میں کہتا تھا کہ زاہد بھائی اگرہم اتنا کام کرتے رہے تو ختم ہو جائیں گے۔ یہ سن کر بھی ہمیشہ ہنس دیا کرتے تھے۔ شہید موصی بھی تھے۔ کہتے ہیں میں نے ان سے جاننا چاہا کہ آپ کی اتنی جلدی وصیت کرنے کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے کہا کہ امام مہدی سچے تھے۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ سچ ہے۔ مسیح موعود نے وصیت کرنے کا ارشاد فرمایا اس لیے میں نے وصیت کر لی ہے۔ کہتے ہیں میں ان کی بات سن کر حیران رہ گیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اتنا گہرا ایمان رکھتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ جب ایک دفعہ شہید مرحوم سے ان کی قبولِ احمدیت کی ایک بنیادی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ آج تک امام مہدی یا مسیح اور نبی کا دعویٰ کرنے والا نہ تو کوئی شخص کامیاب ہوا اور نہ ہی کوئی جماعت۔ صرف حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہی ہیں۔ اگر آپ علیہ السلام سچے نہ ہوتے تو آپ کا حال بھی جھوٹے مدعیوں جیسا ہوتا۔

شہید کے والدین زندہ ہیں۔ دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہیں جیسا کہ پہلے ذکر کیا۔ شہید مرحوم اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اور ابھی غیر شادی شدہ تھے۔ دو بہنیں ہیں ان کی۔ دونوں شادی شدہ ہیں لیکن غیر احمدی ہیں۔ زیرِ تبلیغ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے والدین کو بھی صبر عطا کرے، حوصلہ عطا فرمائے۔ جیسا کہ میں نے کہا اکلوتا بیٹا تھا بہت بڑا صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی صدمہ برداشت کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ شہید کے بھی درجات بلند فرمائے۔ بہرحال

یہ شہید تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہمیشہ کی زندگی پا گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان سے خاص سلوک فرماتا رہے اور ان ظالموں کی پکڑ کے بھی جلد سامان فرمائے۔

دشمن سمجھتا ہے کہ وہ جماعت کے افراد کو اس طرح آزما کر اور سختیاں وارد کر کے ان کے حوصلے پست کر دیں گے مگر یہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ وہاں سے بھی

بعض خط مجھے آئے ہیں۔ بعض نوجوانوں نے بھی لکھا ہے کہ اگر مزید شہادتوں کی ضرورت ہے تو یہ دعا کریں کہ ہم بھی ان میں شامل ہو جائیں۔پس ایسے لوگوں کا یہ کمینہ دشمن کیا بگاڑ سکتا ہے!

بہرحال ہمیں دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہمیں بچائے اور ہم پر رحم اور فضل فرمائے۔ آج کل دعاؤں پر بہت زیادہ زور دیں۔

دوسرا جو جنازہ ہے جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ

کمال بداح صاحب الجزائر

کا ہے۔ 2؍فروری کو ستاون سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ صدر جماعت عبدالحلیم صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم ایک سچے مومن اور مخلص احمدی تھے۔ انہوں نے اپنا گھر جماعت کے اجلاسات اور نمازوں اور تبلیغی سرگرمیوں کے لیے ہمیشہ کھلا رکھا۔ تمام احمدی ان کی قوتِ ایمانی، مہمان نوازی اور فراخ دلی کی گواہی دیتے ہیں۔ مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بچے یادگار چھوڑے ہیں جن میں دو بیٹے غیر احمدی ہیں اور ایک بیٹی احمدی ہے۔ ان کی اہلیہ مکرمہ کریمہ صاحبہ صدر لجنہ کے طور پر خدمت کی توفیق پا چکی ہیں۔

الجزائر سے حسان زمولی صاحب کہتے ہیں کہ کمال بداح صاحب بہت مخلص اور بڑی خدمت کرنے والے احمدی تھے۔ ہمسایوں کی طرف سے مختلف مشکلات کے باوجود آخری دم تک اپنا گھر نماز کے لیے کھلا رکھا۔ نماز جمعہ کے لیے آنے والے مہمانوں کے لیے کھانا بسا اوقات خود ہی پکاتے تھے۔ خدمتِ خلق کے مختلف کاموں اور خون کے عطیات دینے کے کاموں میں شریک ہوتے تھے۔ مرحوم کے گھر پر مختلف اجلاسات بھی ہوتے اور نماز عید بھی۔ حکومت کے پاس جانے والے جماعتی وفد میں بھی مرحوم شامل تھے۔

مرحوم کہا کرتے تھے کہ کیونکہ جو سختیاں آج کل جماعت الجزائر میں ہو رہی ہیں اس کی وجہ سے ہم جماعت کی تاریخ لکھ رہے ہیں اور اب مرحوم خود بھی اس تاریخ کا حصہ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ ہے،

ڈاکٹر شمیم ملک صاحبہ کا ذکر

ہے جو مکرم مقصود احمد ملک صاحب شہید لاہور کی اہلیہ ہیں جو2010ء میں دارالذکر میں شہید ہوئے تھے۔ اپنے خاوند کی شہادت کے کچھ عرصے بعد یہ کینیڈا چلی گئی تھیں اور وہاں ان کی وفات ہوئی ہے۔ مرحومہ نے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی۔ کالج میں پڑھاتی تھیں۔ پروفیسر ہوئیں۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے عہدے تک ترقی پائی لیکن اس کے ساتھ گھر، کام اور بچوں کی ذمہ داریاں ساروں کو بڑے احسن طریق سے نبھایا۔ بغیر تفریق ہر طبقے کے لوگوں کی فراخ دلی سے مہمان نوازی کرتیں۔ ضرورتمندوں کا خیال رکھنے والی ایک صائب الرائے خاتون تھیں۔ غیر از جماعت احباب اور غیر احمدی رشتہ داروں کو ہمیشہ دعوت الی اللہ کرتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب زیرِ مطالعہ رکھتی تھیں۔ زندگی میں ہی پنجاب یونیورسٹی میں ان پر ایک thesisبھی لکھا گیا۔ thesis بعد میں لکھے جاتے ہیںلیکن ان پر ان کی زندگی میں لکھا گیا۔ تعلیم کا ان کو بےحد شوق تھا۔ بہت سے لوگوں کو قرآنِ کریم پڑھایا۔ صوم و صلوٰة اور تلاوت قرآن کریم کی پابند تھیں۔ تہجد باقاعدہ ادا کرنے والی تھیں۔ شعائرِ اسلام کی پابندی کرنے والی باپردہ خاتون تھیں۔ مخلص تھیں۔ باوفا تھیں۔ خلافت سے خاص عقیدت کا تعلق تھا۔ مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ ملک طاہر احمد صاحب امیر جماعت لاہور کی یہ ہمشیرہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی، نسل کو بھی خلافت اور جماعت سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔

اگلا ذکر ہے

عزیزم فرہاد احمد

جو ارشاد احمد امینی صاحب جرمنی کے بیٹے تھے۔ یہ چھبیس سال کی عمر میں گذشتہ دنوں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ عزیزم فرینکفرٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل تھے۔ وفات سے قبل مجلس خدام الاحمدیہ میں لوکل اور ریجنل سطح پر خدمت کی توفیق پائی۔ مرحوم انتہائی نیک، خوش مزاج، فرمانبردار اور ملنسار نوجوان تھے۔ جماعتی اور تنظیمی کاموں کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ وفات سے ایک دن قبل ایک جماعتی پروگرام میں سارا دن اور پھر رات کو بھی دیر تک خدمت بجا لاتے رہے۔ اگلے دن پھر صبح مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد خدام الاحمدیہ کی ایک میٹنگ میں شامل ہوئے اور میٹنگ کے اختتام پر اپنے گھر جانے لگے اور اپنی کار کے قریب پہنچے تو وہاں ان کی طبیعت خراب ہونی شروع ہوئی۔ مربی صاحب نے ان کو اپنے مشن ہاؤس کی کھڑکی سے دیکھا ۔ وہ ان کی مدد کے لیے آئے۔ اس عرصے میں یہ اپنی گاڑی میں بیٹھ تو گئے تھے لیکن طبیعت لگتا تھا بہت زیادہ خراب ہوئی ۔ ڈاکٹروں نے یہی بتایا کہ اس وقت شدید ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ تین چارمنٹ کے اندر ایمبولینس بھی آ گئی تھی۔ انہوں نے طبی امداد بھی شروع کر دی تھی۔ تقریباً پینتالیس منٹ انہوں نے کوشش بھی کی لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

عزیزم فرہاد اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔

اگلا ذکر ہے

چودھری جاوید احمد بسمل صاحب

کا جو آج کل کینیڈا میں تھے۔گذشتہ دنوں 72سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ۔ کافی لمبا عرصہ بیمار رہے۔ تحریکِ جدید کی زمینوں پہ بڑا لمبا عرصہ ان کو مینیجر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ چوبیس پچیس سال۔ پھر خدام الاحمدیہ اور دوسری جماعتی خدمات کی بھی ان کو توفیق ملتی رہی۔ امیر ضلع عمر کوٹ کے طور پر بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ اہلیہ اور چار بیٹے اور دو بیٹیاں ان کے پسماندگان میں شامل ہیں۔

ان کے بیٹے طاہر احمد صاحب کہتے ہیں کہ میرے والد بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ خادم ِدین تھے۔ نافع الناس تھے۔ خلافت سے گہری محبت تھی اور ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ خلافت کے ساتھ ان کاایک خاص تعلق قائم رہے۔ غرباء کا بڑا خیال رکھنے والے تھے۔ زمیندار تھے۔ زمینیں بھی تھیں ان کی سندھ میں۔ تو جب بھی یہاں سے جاتے اپنے غریب ہاریوں کے لیے تحفے اور کپڑے وغیرہ لے کر جاتے تھے کہ ان کی شادیوں پہ کام آئیں گے۔ کہتے ہیں مہمان نوازی بہت زیادہ تھی۔ روزانہ ہمارے گھر مہمان آئے رہتے تھے اور بڑی سادگی سے ان کی تواضع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہادر بھی بہت بنایا تھا۔جب بھی مخالفین کے ساتھ سامنا ہوا تو ہمیشہ جماعتی غیرت کو سامنے رکھا۔ بہت سے عدالتی معاملات میں بڑی بہادری سے جماعت کی پیروی کی۔ اس وجہ سے مخالفین نے دو مرتبہ آپ پہ حملہ بھی کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وقت وہاں سے بچا لیا۔بہت انتھک محنت کی اور ہمیشہ جماعت کے پیسے کی بہت قدر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ پر بہت توکل کرتے تھے۔ سادہ طبیعت کے مالک تھے اور سب سے بڑی خوبی ان کی یہ تھی کہ آخری بیماری جو بڑا لمبا عرصہ چلی ہے، اس کو انہوں نے بڑے صبر سے برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پہ راضی رہے۔ وفات سے ایک دن قبل کہتے ہیں ان کے معالج نے کہا کہ میں نے ایسا صابر انسان اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ جب ان کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر نے لاعلاج کہہ دیا ہے تو اس وقت کچھ تھوڑے بہت ہوش و ہواس میں تھے۔ بولتے نہیں تھے، سنتے تھے تو نہایت اطمینان سے اس بات کو سنا اور قبول کیا۔ بیٹا کہتا ہے کہ تہجد پڑھنے اور تسبیح کا بڑا شوق تھا اور ہمیشہ خلیفۂ وقت کے لیے سب سے پہلے دعا کیا کرتے تھے۔ ہمیں بھی دعاؤں کی تلقین کرتے تھے۔ معاملہ فہم تھے۔ فراست تھی۔ بے انتہا شکر کرنے والے تھے۔ تنگی اور سختی کو بھی مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کرتے تھے۔ بڑے صاف دل کے مالک تھے۔ پھر بیٹے نے لکھا ہے کہ ہمارے بہترین استاد بھی تھے۔ شفیق باپ بھی تھے اور تمام خواہشوں کو پورا کرنے والے، بہترین مشورہ دینے والے تھے۔ بڑی مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ کے فضل سے ان کی اولاد بھی جماعت سے اچھی طرح منسلک ہے اور

میرا بھی اِن سے پرانا تعلق تھا جو خوبیاں ان کے بیٹے نے بیان کی ہیں، اَور لوگوں نے بھی لکھی ہیں جنہوں نے ان کے بارے میں لکھا لیکن میں نے بھی دیکھا ہے کہ یہ واقع میں ان خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button