خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍اپریل۲۰۲۳ء
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میںلا الٰہ الا اللہ کی پُر معارف تشریح
٭…اللہ تعالیٰ نے اُس شخص کو آگ پر حرام کردیا جس نے رضا ئے الٰہی کےحصول کے لیے لا الٰہ الا اللہ پڑھا (الحدیث)
٭… لا الٰہ الا اللہ کا حق ادا نہیں ہوتا جب تک کہنے والا اپنے اقرار میں عملی طور پر ثابت نہ کردے(حضرت مسیح موعودؑ)
٭… رمضان المبارک کےآخری عشرے سے بھرپور فائدہ اُٹھانے اور حقیقی لیلۃ القدر حاصل کرنے کے لیے لا الٰہ الا اللہ کو اپنےدل و دماغ کی آواز بنانا ہوگا
٭… دنیا کے عمومی امن و استحکام کے لیے دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍اپریل۲۰۲۳ء بمطابق۱۴؍شہادت ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۴؍اپریل ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
لا الٰہ الا اللہ وہ کلمہ ہے جو توحید کی بنیاد ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اُس شخص کو آگ پر حرام کردیا جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کے لیے لا الٰہ الا اللہ پڑھا۔ پس
جب اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کے لیے اُس کی طرف جھکتے ہوئے اپنی توجہ کو خالص اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے انسان لا الٰہ الا اللہ پڑھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے۔
جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ اُس پر حرام کردے گا اور یہی تعلیم تھی جو تمام انبیاءلےکرآئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے افضل کلمہ جو میں نے اور پہلے نبیوں نے کہا وہ لَا اِلٰہَ الَّا اللّٰہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ہے۔ پس یہ تعلیم تمام انبیاء کی ہے لیکن بدقسمتی سے انہی انبیا ءکی قوموں نے اس تعلیم کو براہ راست یا بالواسطہ بھول کرشرک کا ذریعہ بنالیا۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں شامل کرکے وہ کامل تعلیم دی جس نے شرک کا بکلی خاتمہ کردیا اور آپؐ نے توحید کا حقیقی سبق دے کر ہماری دنیاو عاقبت سنواردی۔ پس
اب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیم پرعمل کرے گا اور خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرارکرے گا وہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنے گااورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سےبھی حصہ پائے گا۔
آپؐ کی شفاعت کے لیے خالص دل کے ساتھ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار ہے جس میں دنیا کی ملونی نہ ہو۔آپؐ وہ آخری اور کامل نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا اختیار دیا ہے اور آپؐ کی شفاعت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آپؐ پر ایمان بھی ضروری ہے۔
ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے اسلامی احکام کو کھول کر اُن کی گہرائی اور حکمت کے ساتھ ہمیں بتایا۔جہاں آپؑ نےلا الٰہ الا اللہ کی گہرائی کے بارے میں ہمیں بتایا وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں بھی ہمیں بتایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمودہ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ کی تشریح آپ ہی فرمادی۔اس میں تین نشانیوں کا ہونا ازبس ضروری ہے۔پہلااَصْلُھَا ثَابِتٌ جس کی جڑیں مضبوطی سے قائم ہیں۔دوسری نشانی فَرْعُھَافِی السَّمَآءِِ ہےکہ اُس کی شاخیں آسمان کی بلندی تک پہنچی ہوئی ہیں۔تیسری نشانی تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ کہ ہر وقت تازہ پھل دیتی ہے۔فرمایا کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو اس معیار پر پور اُترتا ہے۔مزیدفرمایاکہ پہلی نشانی اصول ایمانیہ جس سےمُراد کلمہ لا الٰہ الا اللہ ہےجس کو اس قدروصف سے قرآن کریم میں فرمایاگیا ہےجس کے تمام دلائل چند جزو میں ختم نہیں ہوسکتے۔خدا تعالیٰ کی تمام مصنوعات اور نظام عالم کا سلسلہ صاف طور پر بتلارہا ہے کہ اس عالم کا ایک موجد اور صانع ہے جس کےلیےیہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمٰن، رحیم، قادر مطلق،واحد لاشریک، ازلی ابدی اورمدبر بالارادہ بھی ہو۔ہمارا خدا ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔وہ ہر مخلوق کا خالق ہےاور تمام حاجات کے لیے اُس کے حضور ہی جھکنا ہے۔ پس جب ایمان کی یہ حالت ہوجائے تو وہ کامل ایمان ہوتا ہے جس میں شرک کی ملونی ہوہی نہیں سکتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ کامل ہستی ہے جس سے مدد مانگنے کا حق ہے اور کوئی اور اس کا حق نہیں رکھ سکتا۔ اسی پر قرآن کریم نے زور دیا چنانچہ فرمایاکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔ یعنی عبادت بھی تیری کرتے ہیں اور تیری عبادت کرنے کے لیے مدد بھی تجھ سے ہی چاہتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ استمداد کا اصل حق اللہ تعالیٰ کا ہی ہے۔دوسرے درجہ پر یہ حق اہل اللہ اور مَردان ِحق کو دیا گیا کہ اُن کی دعاؤں سے بھی مددہوتی ہے۔لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ کے پہلے حصہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ انسان کا محبوب اور مطلوب اللہ تعالیٰ ہی ہونا چاہیے اور دوسرے حصے سےرسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کا اظہار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ
لا الٰہ الا اللہ کا حق ادا نہیں ہوتا جب تک کہنے والا اپنے اقرار میں عملی طور پر ثابت نہ کردے اور یہی ایمان کی شرط ہے۔حقوق اللہ اور حقوق العبادپر عمل کرنا بھی ضروری ہے تب کہیں انسان لا الٰہ الا اللہ پر عمل کرنے والا بنتا ہے اور تب ہی ایسا انسان خدا تعالیٰ کے حضور جھوٹا نہیں ہوتا۔
اس کلمے کا دوسرا جزو نمونہ کے لیے ہے۔انبیا ءعلیہم السلام نمونوں کے لیے آتے ہیں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جامع نبی تھے جن میں تمام نبیوں کے نمونے جمع تھے۔اللہ تعالیٰ کے حکموں پر صحیح عمل اورصحیح تشریح آپؐ نے ہی فرمائی اور اس پرعمل کرکے دکھایا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے ماننے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی۔ ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہے جب تک اپنے وجود کو ترک کرکے خالص ہوکر جس کی بیعت کی ہے اُس کےساتھ نہ ہوجائے تب ہی بیعت فائدہ دے گی۔جہاں تک ممکن ہوطریقوں اور عبادات میں مُرشد کے ہم رنگ ہو اور
صبح سے شام تک اپنا حساب کرنا چاہیے کہ کس حد تک ہم نےلا الٰہ الا اللہ پر عمل کیا ہے۔
پھر فرمایا کہ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان کلمہ پڑھ لے اور سُست ہوجائے بلکہ اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں مصروف ہو لیکن خدا کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کو تجارت کے وقت بھی ملحوظ رکھے۔ ہر معاملے میں دین کو مقدم رکھے۔دنیا مقصود بالذات نہ ہو۔ اصل مقصود دین ہو پھر دنیا کے کام بھی دین ہی ہوں گے۔صحابہ کرام ؓنے بھی مشکل سے مشکل وقت میں خدا کو نہیں چھوڑااور نہ ہی خدا سے غافل ہوئےاور نہ نمازیں چھوڑیں بلکہ دعاؤں سے کام لیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کلمہ کی حقیقت اور اس کے معنی اور اس پر عمل کرنے کی بابت فرماتے ہیں کہ تمہیں اس پر ہی خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اورلا الٰہ الا اللہ کے قائل ہیں۔اللہ تعالیٰ صرف قیل و قال سے راضی نہیں ہوتا جب تک عملی حالت درست نہ ہو۔خوب یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص صرف زبان سے کہتا ہے کہ میں خدا کو وحدہ ٗلاشریک مانتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور یہ اقرار صرف زبان سے ہی ہے اور دل معترف نہیں تو اس سے نجات نہیں ملے گی۔ایمان لانا یہی ہے کہ عملی حالت میں اُن اُمور کو ظاہر کردےجو اللہ تعالیٰ کے احکام قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اورپھر در حقیقت عملی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کردے۔ پس
جس نے صدق دل سےلا الٰہ الا اللہ کو مان لیا وہ جنت میں داخل ہوگیا۔
پھر بجز خدا کے اُس کا کوئی پیارا نہیں رہ سکتا اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوتا ہے اور تکلیفوں سے وہ پریشان نہیں ہوتا کیونکہ اُسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کی مدد کے لیے فوراً پہنچتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب تک حقوق اللہ اورحقوق العباد ادا نہیں کرتے اُس وقت تک لا الٰہ الا اللہ کا حقیقی مفہوم نہیں پاسکتے۔ ایک بھائی دوسرے کاحق مارتا ہے اور اسباب پر اس حد تک بھروسہ کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو محض عضو معطل قرار دے رکھا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ہیں جنہوں نے توحید کےاصل مفہوم کوسمجھا ہے۔اگر انسان کلمے کی حقیقت سے واقف ہوجاوےاورعملی طور پر اُس پر کاربند ہوجاوےتووہ بہت بڑی ترقی کر سکتا ہے اورخداتعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کا مشاہدہ کرسکتاہے۔ سچا مواحد اُسی وقت ہی بن سکتا ہے جب تمام بدیاں دُور کردے۔پس اس رمضان میں ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ اِن بدیوں سے اپنے آپ کو پاک کریں اورلا الٰہ الا اللہ پر حقیقی طور پر ایمان لانے والے ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ رمضان کے ان بقایا دنوں میں ہم کوشش اور دعا سے اپنے اندر کی تمام بدیاں نکالنے والے بن جائیں۔
رمضان کے آخری عشرے میں ہم لیلۃ القدر کی باتیں کرتے ہیں۔
لیلۃ القدر تو حقیقت میں اس وقت ملتی ہے جب ہم اپنا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ، اس پر عمل کرنے والے ہوں اور اسے مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں۔
یہی وہ حقیقی نشانی ہے جو لیلۃ القدر کے پانے کی نشانی ہے۔اصل نشانی یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں کیا انقلاب پیدا ہوا۔
بعض جماعتوں نے رمضان میں تین دن خاص طور پر دعاؤں کے پروگرام بنائے ہیں۔
اگر تو ہم نے یہ تین دن خاص طور پر اس لیے مقرر کیے ہیں کہ تین دن دعاؤں میں لگا لو اور پھر اپنی پرانی طرز زندگی پر آجاؤ اور لا الٰہ الا اللہ کے حقیقی مقصد کو بھول جاؤ تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے حال کو جانتا ہے، ہماری نیتوں کو جانتا ہے، اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ایسی صورت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔لیکن اگر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے یہ دن گزارنا چاہتے ہیں تو پھر
اس عہد کے ساتھ گزارنے ہوں گے کہ اب یہ دن ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن جائیں گے۔ پھر یہ تکلیفیں جو مخالف ہمیں پہنچا رہا ہے ان کو دور کرنے کے لیے خدا تعالیٰ اپنی خاص تائید و نصر ت ظاہر فرمائے گا۔ انشاء اللہ
اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ آپؑ اور آپؑ کی جماعت کو فتح عطا فرمائے گا۔جلد یا کچھ عرصے بعد۔ہاں اگر ہم لا الٰہ الا اللہ کی حقیقت کو سمجھتے ہوئےاپنا معبود، مقصود اور محبوب صرف خدا تعالیٰ کی ذات کو بنا لیں اور دنیا سے زیادہ ہمیں خدا تعالیٰ سے محبت اور اس کو پانا ہمارا مقصود ہو تو انقلاب جلدی آسکتا ہے۔ہمیں اپنی حالتوںمیں مستقل تبدیلی کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔
رمضان کا آخری عشرہ جہنم سے نجات کا عشرہ ہےجس نےلا الٰہ الا اللہ دل سے پڑھا اس پر جہنم کی آگ حرام ہوگئی لیکن انسان کے مستقل عمل ضروری ہیں۔ پس اس آخری عشرے سے بھرپور فائدہ اُٹھانے اور حقیقی لیلۃ القدر حاصل کرنے کے لیے لا الٰہ الا اللہ کو اپنے دل و دماغ کی آواز بنانا ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور نےآخر میں فرمایاکہ دنیا کے عمومی امن و استحکام کے لیے بھی دعا کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ انسانیت پر رحم اور فضل فرمائے۔
٭…٭…٭