Chat GPT
نسلِ انسانی کے لیے مصنوعی ذہانت کتنی مفید ہےاور کیا یہ انسانی عقل و شعور کے برابر ہے یا اس سے بہتر اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ مگر ایک بات اٹل ہے وہ یہ کہ ’’باقی رہے نام اللہ کا‘‘
تاریخ انسانی میں جب بھی کوئی نئی ایجاد متعارف ہوئی عموماً اس کی مخالفت ہوئی کہ یہ نسلِ انسانی کے لیے خطرناک ہے اور بہت سے مخالفین اس کو روکنے کے لیے سر توڑ محنت کرتے نظر آئے۔ ٹیلی ویژن، پرنٹنگ پریس، کمپیوٹراورر موبائل فونزوغیرہ ایسی ایجادات ہیں جنہیں شروعات میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگرا ٓج قریباً ہر گھر میں یہ ایجادات موجود ہیں۔ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے والے اور سائنس و ٹیکنالوجی پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ آج کل انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلاب آیا ہوا ہے جس کا نام ہے ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘۔
اس ایجاد کو بھی اپنی آبائی ایجادات کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یورپ میں اٹلی پہلا ملک ہے جس نے ملک میں اس کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔
یکم اپریل دو ہزار تئیس کو بی بی سی اردو نے اپنی ایک خبر میں لکھا کہ ’’اٹلی کی ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی نے کہا ہے کہ انہیں مائیکروسافٹ کی حمایت یافتہ یو ایس اسٹارٹ اپ اوپن اے آئی کے بنائے گئے اس ماڈل سے متعلق پرائیویسی کے شدید خدشات ہیں۔ اور وہ فوری طور پر اس پابندی کے نفاذ کے ساتھ اس کی تحقیقات شروع کرنے کے اقدامات کر رہا ہے۔‘‘
یہ چیٹ جی پی ٹی ہے کیا؟
اس کا پورا نام ’’چیٹ جنریٹوپری ٹرینڈ ٹرانسفارمر‘‘ ہے۔ یہ دراصل مصنوعی ذہانت پر مبنی سنہ دوہزار بائیس کے نومبر میں منظرِ عام پر آنے والا ایک سافٹ ویئر ہے جسے اوپن اے آئی نامی ایک کمپنی نے لانچ کیا تھا۔ اور اب تک دنیا بھر میں اس کے کروڑوں صارفین ہیں۔ یہ ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جوانسانی طریق پر گفتگو کر سکتا ہے، سوالوں کے جواب دے سکتا ہے، آپ کے لیے مضامین لکھ سکتا ہے، شاعری کر سکتا ہے، تاریخ کے حوالے دے سکتا ہے، آپ کے لیے کمپیوٹر پروگرامنگ کر سکتا ہے۔ آسان لفظوں میں چیٹ جی پی ٹی دراصل ایک مشینی مصنف ہے،صلاح کار ہے۔یہ مختلف زبانوں میں بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مثبت آراء
نیویارک ٹائمز کے لکھاری کیون روز نے اسے عام انسانوں کے لیے جاری ہونے والااب تک کا بہترین ذہانت والا چیٹ بوٹ قرار دیا ہے۔ اسی طرح اخبار دی گارڈین کی سمینتھا لاک کے مطابق اس نے تفصیلی اور قریب ترین انسانی انداز میں کامیابی سے متن بنایا۔ ایک ٹیکنالوجی پر لکھنے کے ماہر ڈان گلمور نے ایک طالب علم کی اسائنمنٹ پر چیٹ جی پی ٹی کو استعمال کیا اور وہ حیران رہ گیا کہ حاصل کردہ نتیجہ ایک اچھے طالب علم کی اسائنمنٹ کے جوابات کے عین مطابق تھا۔
منفی آرا
اس سافٹ ویئر کو دنیا بھر سے منفی جذبات کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جیسے کہ اکانومسٹ میگزین کے ٹیلرکو وین کو لگتا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔ کیونکہ یہ خودکار تجزیے لکھ سکتا ہے جو کہ نئے قوانین پر منفی طورپراثر انداز ہوں گے۔
آسٹریلین ایم پی جولین ہل نے اپنی پارلیمنٹ میں کہا کہ مصنوعی ذہانت کی بڑھوتری ایک بڑے پیمانے پر تباہی پیدا کر سکتی ہے۔ جس تقریر میں اس نے یہ کہا وہ تقریر بھی اسی مصنوعی ذہانت کے ذریعے لکھی گئی تھی۔ اس نے خبردار کیا کہ اس سے بیروزگاری میں اضافہ ہوگا، دھوکے بازی، تفرقہ بازی، غلط معلومات کا طوفان آسکتا ہے۔
ایلون مسک نے لکھا کہ ’’چیٹ جی پی ٹی خوفناک طور پر بہترین ہے اور ہم خطرناک مصنوعی ذہانت سے زیادہ دور نہیں‘‘ اسی لیے اس نے اپنے فورم ٹوئٹر پر اس کے استعمال پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
بہت سی ایسی کتابیں بھی سامنے آرہی ہیں جو کہ اس مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر نے لکھی ہیں مگر ان کے مصنف کی جگہ عام لوگوں کے نام درج ہیں۔
فروری دوہزار تئیس میں یونیورسٹی آف ہانگ کانگ نے اپنے تمام طلبہ و طالبات کو مراسلہ بھیجا جس میں چیٹ جی پی ٹی اور دیگر تمام مصنوعی ذہانت والی ایپلیکیشنز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے اور اس کے استعمال کو ادبی چوری تصور کیا جائے گا اور اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔
چیٹ جی پی ٹی بنانے والے ادارے اوپن اے آئی کے سربراہ سام ایلٹمن نے لکھا کہ یہ سافٹ ویئر آگے چل کر سائبر سیکیورٹی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
دیگر حلیف
چیٹ جی پی ٹی کی لانچ نے ایک مقابلے کی فضا پیدا کر دی ہے۔ بہت سی کمپنیاں اس میدان میں اپنی قسمت آزمائی شروع کر چکی ہیں۔
فروری ۲۰۲۳ء میں گوگل نے تجرباتی طور پر اپنے سافٹ ویئر ’’بارڈ‘‘ کو آزمانا شروع کر دیا ہے۔ جو کہ ایک بڑے لینگوئج ماڈل LaMDAپر مبنی ہے۔
’’بارڈ‘‘ کو امریکہ اور برطانیہ کے صارفین کے لیے ۲۱؍مارچ ۲۰۲۳ء کو بہت سی شرائط کے ساتھ جاری کیا گیا ہے۔
فیس بک کی کمپنی ’’میٹا‘‘ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ جنوری ۲۰۲۳ء میں میٹا بھی اپنے مصنوعی ذہانت والے سافٹ ویئر پر کام شروع کر چکی ہے۔
چائنیز کمپنی ’’بائڈو‘‘ نے مارچ ۲۰۲۳ء میں چیٹ جی پی ٹی سے ملتا جلتا ایک پروگرام ’’ارنی بوٹ‘‘ کے نام سے لانچ کیا ہے۔
جنوبی کوریا کے سرچ انجن ’’ناور‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ ۲۰۲۳ءکی پہلی ششماہی کے اندر چیٹ جی پی ٹی کے جیسا ایک سرچ انجن وہ جنوبی کوریا میں لانچ کررہے ہیں جس کا نام ’’سرچ جی پی ٹی‘‘ ہوگا۔
الغرض ترقی یافتہ ممالک مصنوعی ذہانت کی اس دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔مگر یاد رہے کہ مصنوعی ذہانت کا یہ پروگرام آپ کو متنازع جوابات بھی دے سکتا ہے اور غلط معلومات بھی۔ چیٹ جی پی ٹی کا بنیادی پروگرام جو کہ پروٹوٹائپ تھا اس کا استعمال بالکل مفت ہے مگر مارچ میں جو نیا ورژن آیا ہے اس کی قیمت ۲۰ ڈالر ماہانہ ہے۔ یہ پروگرام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے جس کی وجہ سے اس میں بہت سی خامیاں ابھی موجود ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید بہتری ہوگی۔
میں نے تجرباتی طور پر چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا ’’تلاوت قرآن کا درست وقت کیا ہے؟‘‘
جواب: ’’تلاوت قرآن کادرست وقت صبح کے وقت ہے، قبل از طلوع آفتاب اور رات کے وقت، بعد از مغرب ہوتا ہے۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ وہ عصر یا مغرب کے وقت تلاوت قرآن کریں۔ لیکن صوتی حیثیت کے بغیر، قرآنی مطالعہ صرف صبح کے وقت سے قبل از طلوع آفتاب اور رات کے وقت کرنا زیادہ مفید ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی آپ وقت کے ذریعے قرآن کرتے ہیں یقیناً یہ دلچسپی کا مرکز بن جاتا ہے‘‘
ہم لوگ اس وقت تیز رفتار ایجادات کے طوفان میں جی رہے ہیں۔ کسی قسم کی مصنوعی ذہانت کے پروگرام سے نہ تو ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کا اسیر ہونے کی۔ کیونکہ کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو ان ایجادات کو مثبت طریقے سے استعمال میں لائیں گے۔ نسلِ انسانی کے لیے مصنوعی ذہانت کتنی مفید ہےاور کیا یہ انسانی عقل و شعور کے برابر ہے یا اس سے بہتر، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ مگر ایک بات اٹل ہے وہ یہ کہ ’’باقی رہے نام اللہ کا‘‘
٭…٭…٭