الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعا لیٰ عنہا
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃ القیوم ناصرہ صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ حرم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے حوالے سے مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ حضرت فاطمہؓ کی مبارک حسینی نسل کی چشم وچراغ تھیں۔ آپؓ کے خاندان میں مجدّدین اور باکمال ولی اللہ پیداہوتے رہے۔ ان میں ایک جد امجد حضرت خواجہ ناصر عندلیبؒ بارھویں صدی کے باکمال ولی اللہ اور صاحب کشوف و رؤیا تھےجن کو شاہی جاہ وجلال حاصل تھا لیکن آپؒ نے اس دولت کو غربا ء میں تقسیم کرکے شاہی محلات کو چھوڑ کر دہلی سے دُور ایک ویرانے میں سکونت اختیار کرلی۔ آپؒ بکثرت روزے رکھتے دن رات عبادات الٰہی میں مصروف رہتے۔ ایک رات آپؒ نے ایک عجیب کشفی نظارہ دیکھاکہ آپؒ کا تاریک کمرہ اچانک غیر معمولی روشنی سے منور ہوگیا اور ایک خوبصورت نوجوان جس کے سر پر جواہر نگار تاج تھا سامنے آیا۔فرمایا کہ ’’مَیں حسن مجتبیٰ بن علی مرتضیٰ ہوں اور آنحضرت ﷺ کے منشا کے ما تحت تمہارے پاس آیا ہوں تا تجھے ولایت اور معرفت سے مالامال کروں۔ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ ٔنبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتدا تجھ پر ہوئی اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر ہوگا۔یہ ساعت جو ابھی کچھ دیر باقی رہے گی۔ نہایت ہی مبارک ہے۔ اس وقت تو جس شخص کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرے گا اُسے بقابا للہ کا مرتبہ حاصل ہوگا اور قیامت تک اُس کا نام آفتاب کی طرح چمکتا رہے گا۔‘‘ حضرت ناصر عندلیبؒ نے اسی وقت اپنے بیٹے حضرت سید میر دردؒ کی بیعت لی،جو تیرھویں صدی کے باکمال ولی اللہ کہلائے۔
یہ مبارک بشارت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے مبارک وجود سے اس طرح پوری ہوئی کہ یہ آسمانی روشنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نبوت کے نور سے مل کر ایک عظیم الشان شمع میں تبدیل ہوگئی اور ان نوروں سے پھر وہ آسمانی مبشر پاک نسل پیدا ہوئی جن کے ذریعہ صفحۂ ہستی پر ایک اسلامی انقلاب برپا ہونا ازل سے مقدر تھا۔ ان تمام برکات کا سر چشمہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عظیم الشان پیشگوئی تھی یَتَزَوَّجُ وَ یُوْ لَدُلَہٗ یعنی مسیح موعود شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی۔
پس حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ وہ مقدس ماں ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے مبشر اولاد عطا کی اور جن کے بطن سے حضرت مصلح موعودؓ جیسا وہ پاک، وجیہ، مبارک بیٹا پیدا ہواجس کے آنے کو خداوند کریم نے خود اپنا نازل ہونا قرار دیا۔اور وہ فیض پھر نسلوں میں بھی جاری ہوا۔
حضرت امّاں جانؓ 1865ء میں دہلی میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اور حضرت سید بیگم صاحبہؓ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کی پیدائش بہت سی برکات لے کر آئی۔آپؓ کے والد کی بےروزگاری جاتی رہی اور ان کی کھو ئی ہوئی جائیداد کا ایک حصہ خود بخود بغیر کسی سعی کے اُن کومل گیا۔حضرت اماں جانؓ کا اصلی نام نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ تھا مگر بعد میں حضرت میر صاحبؓ نے آپؓ کا نام ’عا ئشہ‘ بھی رکھا۔ ان کو یہ معلوم نہ تھاکہ یہ لڑکی ایسے شخص کی بیوی بنے گی جسے خدا تعا لیٰ نے بروز محمد ﷺ ٹھہر ایا ہے۔اللہ تعا لیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک الہام میں آپؓ کو ’’میری خدیجہ‘‘ کانام عطا فرمایا۔آپؓ کا خطاب ’’اُمّ المو منین‘‘ اور کنیت ’’اُمّ محمود‘‘ ہے۔
حضرت میر نا صر نواب صاحبؓ کے دس بچے چھو ٹی عمر میں فوت ہوئے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت اماں جانؓ کے علاوہ دو بیٹوں حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے لمبی عمر پا ئی۔ حضرت اماں جان ؓ نے اپنے والد سے قرآن کریم اور اردو نوشت وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپؓ بچپن ہی سے زیرک، فہیم اور سلیقہ شعار تھی۔
حضرت مسیح مو عودؑ کی پہلی شا دی اپنی ماموں زاد حرمت بی بی صاحبہ سے 1849ء میں ہوئی تھی۔ان سے آپؑ کے دو صاحبزادے حضرت مرزا سلطا ن احمدصاحب اور مرزا فضل احمد صاحب پیدا ہوئے تھے۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی والدہ صاحبہ کچھ دنیا داری کی طرف مائل تھیں۔ اس وجہ سے حضرت مسیح مو عودؑ کا تعلق ان سے کم ہو گیا تھا۔
حضرت اماں جانؓ سے شادی سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کو دوسری شا دی کے سلسلہ میں کئی الہام ہو ئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے: ’’میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اَور شادی کروں۔ یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہو گی۔‘‘
حضرت میر نا صرنواب صاحبؓ کے حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے تعلقات تھے۔ آپؓ نے حضرت مسیح مو عودؑ کو اپنی دختر نیک اختر حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کی شادی کے لیے دعا کی غرض سے خط لکھا۔اس کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے ان کی صاحبزادی کے لیے اپنا رشتہ پیش کیا۔ حضرت میرناصر نواب صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کی نیکی، خاندانی شرافت اور تقویٰ سے بہت متا ثر تھے۔ آپؓ نے کچھ سوچ بچار اور دعا کے بعد اپنی اہلیہ محترمہ حضرت سید بیگم صاحبہؓ سے مشورہ اور ان کی رضامندی کے بعد یہ رشتہ قبول کرلیا۔ چنانچہ آٹھ دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی پہنچ گئے۔ حافظ حامد علی صاحبؓ بطور خادم اور لالہ ملا وا مل صاحب اور ایک دو اَور آدمی ساتھ تھے۔ حضرت میر صاحبؓ کی برادری کے لوگوں کو جب معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر ایک پنجابی کو رشتہ دے دیا اور کئی لوگ اس ناراضگی کی وجہ سے شامل بھی نہ ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ساتھ کوئی زیور اور کپڑا نہ لے گئے تھے، صرف ڈھائی سو روپیہ نقد تھا۔اس پر بھی رشتہ داروں نے بہت طعن کیے۔ حضرت میر صاحبؓ اور ان کے گھر کے لوگ، لوگوں کو یہ جواب دیتے تھے کہ میرزا صاحب کی گھر کی عورتیں ان کی مخالف ہیں۔ پھر وہ جلدی میں آئے ہیں۔ اس حالت میں وہ زیور کپڑاکہاں سے بنوا لاتے۔ مگر برادری کے لوگوں کا طعن و تشنیع کم نہ ہوا۔
حضرت اُمّ المومنینؓ نے خودبھی اپنی شادی کے متعلق فرمایا: حضرت صاحب مجھے بیاہنے دلّی گئے۔ آپؑ کے ساتھ شیخ حامد علی صاحبؓ اور ملاوامل بھی تھے۔ نکاح مولوی نذیر حسین صاحب نے پڑھایا تھا۔ یہ27؍ محرم 1302 ہجری بروز پیر کی بات ہے۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔ حضرت صاحبؑ نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین صاحب کو پانچ روپیہ اور ایک مصلّٰے نذر دیا تھا۔
خواجہ میر درد ؒکی مسجد میں بین العصر و المغرب مولوی نذیر حسین صاحب محدّث دہلوی نے نکاح پڑھایا۔ وہ ڈولی میں بیٹھ کر آئے تھے کیونکہ بوجہ ضعف اور بڑھاپے کے وہ چل نہیں سکتے تھے۔ مہر گیارہ سو روپیہ مقرر ہوا۔
حضرت اماں جانؓ کے بارے میں حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ (خدا تعالیٰ نے ) خدیجہ اس لیے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے۔ (تذکرہ)
خدا تعالیٰ نے آپؑ کو الہاماً فرمایاتھا: اشکر نعمتی رأیت خدیجتیکہ تُو میری نعمت کا شکر کر کہ تُو نے میری خدیجہ کو پالیا ہے۔ اس بشارت میں خداتعالیٰ نے حضرت اماں جانؓ کو ’’میری نعمت‘‘ اور ’’میری خدیجہ‘‘ کے مبارک اعزاز سے نوازا۔
خدا تعالیٰ نے حضورعلیہ السلام کو حضرت اماں جانؓ کے بلند اقبال کے متعلق بھی بے شمار بشارتیں دیں جن میں سے ایک پُر شوکت الہام ہے کہ ’’تیرا گھر برکت سے بھرے گا۔ مَیں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ میں سے جن میں سے تُو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بڑھاؤں گااور برکت دوں گا۔‘‘ خدا تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کی ایک یہ پیشگوئی بھی حضرت اماں جانؓ کے مبارک وجود کے ذریعہ بڑی شان سے پوری فرمائی کہ ترٰی نَسۡلاً بَعِیۡدًا۔یعنی تُو ایک دُور کی نسل بھی دیکھے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کے نبی اور نبیوں کے چاند ہیں۔خدا تعالیٰ نے آپؑ کو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد ﷺ کا بروز بنایا ایسے ہی حضرت امّاںجانؓ،حضرت خدیجہ ثانیہ تھیں۔آپؓ کا حضرت اقدسؑ کے ساتھ عقیدت و محبت کا ایک گہرا رشتہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا بھی آپؓ سے اس قدر محبت کا تعلق تھا کہ بعض غیب کی خبریں جو حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوتیں آپؓ کو رؤیا کے ذریعے ان کا علم ہوجاتا۔ حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں ’’کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جو رؤیا وحی مجھے ہوتی وہی گھر والوں (یعنی حضرت اماں جانؓ)کو بھی رؤیایا خواب آجاتا۔…آج کوئی پہر ر ات باقی ہوگی کہ الہام ہوا… میں ہر ایک کی جو دار میں ہے حفاظت کروں گااور اسے لوگوں کے لیے آیت بنائوں گا اور ہماری طرف سے رحمت ہوگی اور یہ بات اٹل ہے تمام معالجات (یعنی علاج) میرے پاس ہیں۔‘‘ پھر حضرت اقدسؑ نے حضرت اماں جانؓ سے دریافت کیا کہ آج تم نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے ابھی ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک صندوق بذریعہ بلٹی آیا ہے جس کو شیخ رحمت اللہ نے بھیجا ہے اور وہ دوا ئیوں کا صندوق ہے۔ حکیم فضل دین کی بیوی اور مریم دائی پاس کھڑی ہیں۔جب اس کو کھو لا گیاتو وہ لبالب دوائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ڈبیا ہیں شیشیاں ہیں۔غرض پو ری طو ر پہ بھرا ہوا ہے۔ گھاس پھوس کی جگہ بھی دوائیاں ہیں۔حضورؑ فرماتے ہیںکہ ’’مَیں نے اس لحاظ سے کہ ان کے ایمان میں اور بھی ترقی ہو، کہا کہ آج یہ الہام ہوا ہے۔…‘‘
محترمہ امام بی بی صاحبہؓ والدہ مکرم منشی ابراہیم صاحبؒ سناتی تھیں کہ ’’میں چھو ٹی تھی جب حضرت اماں جانؓ کے گھر رہتی تھی۔ حضورؑ کو جب وحی ہو تی تو آپؑ کو پسینہ بہت آتا اور بعد میں آپؑ کو کمزوری محسوس ہو تی تو حضرت اماں جانؓ آپؑ کے لیے کدو کا حلوہ بنا کر رکھتی تھیں۔ وہ آپؑ کو کھلاتی تھیں۔ آپؓ حضورؑ کے کھانے کا خاص خیال رکھتیں۔ خود پکا تیں یا اپنے سامنے پکواتیں۔حضرت امّاں جانؓ حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کی عینی گواہ تھیں۔ آپؓ نے بارہا الہام ہوتے دیکھا۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے اپنی ڈائری میں 1893ء کا حضرت امّاںجانؓ کا ایک مبشر خواب درج کیا کہ ایک عورت ہے اس کے ساتھ بہت لڑکے اور لڑ کیاں ہیں۔ پوچھنے پر اُس نے جواب دیا کہ مَیں عیسیٰ علیہ السلام کی بیٹی ہوں اور مسلمان ہونے کے لیے مرزا جی کے پاس آئی ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت عیسائی مسلمان ہوں گے۔
حضورؑ حضرت اماں جانؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکوں کی بشارت دی وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے اس لیے میں اسے شعائر اللہ سمجھ کر اس کی خاطرداری رکھتا ہوں اور وہ جو کہے مان لیتا ہوں۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کو اپنے ساتھ دعاؤں میں بھی شامل فرماتے تھے۔1903ء میں حضرت اقدسؑ نے جب حضرت شہزادہ عبداللطیف شہیدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن شہیدؓ کے سفاکانہ قتل پر رسالہ تذکرۃ ا لشہادتین تحریر کرنا چاہا تو حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب میں نے اس کتاب کو لکھنا شروع کیا۔… توایسا اتفاق ہوا کہ مجھے درد گردہ سخت پیدا ہوا…۔ تب خدا تعالیٰ نے مجھے دعا کی طرف توجہ دلائی۔ میں نے رات کے وقت میںجبکہ تین گھنٹے کے قریب بارہ بجے کے بعد رات گزر چکی تھی اپنے گھر کے لو گوں سے کہا کہ اب میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہو۔ سو میں نے اسی دردناک حالت میں صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کے تصور سے دعا کی…تو ساتھ ہی مجھے غنودگی ہو ئی اور الہام ہوا۔ سَلَامٌ قَوْلاً مِنْ رَبِّ رَّحِیْمٍ۔ یعنی سلامتی اور عافیت ہے یہ خدائے رحیم کا کلام ہے۔ پس قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا۔ فا لحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔‘‘ (تذکرۃ الشہا دتین)
اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کو فرمایا تھا کہ یا احمد اسکن انت و زوجک الجنۃیعنی اے احمد! تُو اور تیری بیوی جنت میں رہو۔ (تریا ق القلوب )۔ واقعۃً آپؓ کاگھر جنت نظیر محسوس ہوتا۔ دارالمسیح وہ مبارک گھر ہے جہاں فرشتوں کا نزول ہوتا اور اس میں حضرت مسیح مو عودؑ نے بےشمار دعائیں مانگیں اور اَن گنت مرتبہ درودشریف پڑھا۔ حضورؑ اس کو دارالامن بھی کہتے تھے۔
اللہ تعا لیٰ نے حضرت مسیح مو عو دؑ کو آپؓ کے بطن سے دس بچے عطا کیے۔ دو صاحبزادگان اور تین صاحبزادیاں چھوٹی عمر میں وفات پا گئیں۔ پانچ بچوں نے لمبی عمر پا ئی۔ ان کے نام اور ان کے بارے میں حضرت مسیح مو عودؑ کو ملنے والی الٰہی بشارات درج ذیل ہیں۔
حضرت مرزا بشیر ا لدین محمو د احمدؓ ’’المصلح المو عود‘‘
حضرت مرزابشیر احمدؓ ’’قمر الا نبیا‘‘
حضرت نواب مبا رکہ بیگمؓ ’’نواب مبا رکہ بیگم‘‘
حضرت مرزاشریف احمدؓ ’’وہ با دشاہ آیا‘‘
حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگمؓ ’’دخت کرام‘‘
محترمہ زینب بی بی صاحبہ ؓحضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے بے پنا ہ محبت و عقیدت رکھتی تھیں اور حضورؑ کے گھر کو اپنا میکہ جانتی تھیں۔ آپؓ جب امرتسر سے قادیان آتیں تو حضرت امّاں جانؓ کے گھر کے نچلے حجرہ میں ٹھہرتیں اور خاندان مسیح موعودؑ کی خدمت کو ایک سعادت جانتیں۔ آپؓ کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ میں ملتانی اور مصری کاایک فتنہ اُٹھا جس نے بہت خطرناک صورت اختیار کرلی۔ اس وقت جماعت کی خواتین نے خاندان کے گھروں میں پہرہ دیا تھا۔ میری والدہ صاحبہ نے بھی حضرت امّاں جانؓ کے گھر پہرہ دینے کی سعادت پائی۔ امّاں جانؓ نے اپنے گھر پہرہ دینے کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ اس کو اجازت ملے گی جس کو چرخہ کاتنا آتا ہو۔ آپؓ یہ پسند نہیں فرماتی تھیںکہ خواتین کا وقت ضائع ہو۔ اس طرح آپؓ نے جماعت کی خواتین میں وقت کی قدر کرنے کی روح پیدا فرمائی۔
قادیان میں گرمیوں کی ایک صبح ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکا۔ ہماری امّاں جی نے کھولا تو دیکھا حضرت امّاں جانؓ اور آپؓ کی خادمہ کھڑے ہیں۔ میری امّاں جی کا خوشی کے مارے کوئی حال نہ تھا۔ امّاں جانؓ نے سلام دعا کے بعد فرمایا ’’زینب! تمہاری بیٹی کہاں ہے جو مجھے بے بے جی کے گھر لے جائے‘‘۔ بے بے جیؓ ہمارے محلّہ میں رہتی تھیں اور حضرت حکیم دین محمدؓ کی زوجہ اور صحابیہ تھیں۔ امّاں جیؓ نے مجھے آپؓ کے ہمراہ بھیجا۔ آپؓ نے راستہ میں میرا ہاتھ پکڑے رکھا اور مَیں آہستہ آہستہ چل کر آپؓ کے ساتھ گئی، آپؓ بھی آہستہ ہی چلیں۔ حضرت بے بے جیؓ کے گھر آپؓ پہنچیں تو اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ اس وقت اُن کے گھر میں بچے قرآن پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ امّاں جانؓ صحن میں ٹہلنے لگیں۔بے بے جیؓ محبت اور خوشی سے آپؓ کی مبارک کمر پر ہاتھ پھیرتی جاتیں ساتھ مجھے دعائیں دیتیں کہ میں امّاں جانؓ کو لے کر آئی ہوں۔ گھر میں انگوروں کی بیل پھل سے لدی ہوئی تھی، انہوں نے ایک خوشہ اتار کر دھوکر امّاں جانؓ کو پیش کیا۔ آپؓ ہاتھ میں لے کر نوش فرماتی رہیں اور ٹہلتی رہیں۔ قادیان میں ہر گھر میں پھلوں کے درخت اور انگوروں کی بیلیں، سبزیاں، موتیا، گلاب کے پھول لگے ہوئے تھے۔ یہ حضرت امّاں جانؓ کے عمدہ ذوق اورتربیت کا نتیجہ تھا۔ آپؓ کو پھول،پودوں سے خاص لگائو تھا۔ بے بے جیؓ بہت نفیس مزاج تھیں اور عمدہ لباس پہنتی تھیں۔ اُس وقت آپؓ نے خوبصورت کڑھائی والا دوپٹہ لیا ہوا تھا۔ حضرت امّاں جانؓ نے دوپٹے کی بہت تعریف فرمائی تو انہوں نے اتار کر آپؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔لیکن آپؓ نے نہیں لیا،بہت پیار سے روک دیا۔ بے بے جیؓ نے جاتے وقت ایک ٹوکری انگوروں کی آپؓ کو تحفے میں دی جو آپؓ نے خوشی سے قبول کرلی۔ بعد میں بے بے جیؓ نے ایسا ہی نیا دوپٹہ بنوا کر آپؓ کو تحفہ دیا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد رتن باغ لاہور میں ہم ٹھہرے۔ عاجزہ ہر روز سکول سے آکر حضرت امّاں جانؓ کو کتاب پڑھ کر سنانے جاتی۔ اگر کسی دن نہ جاتی تو آپؓ محترمہ اماں عائشہ صاحبہ کو بھجواتیں اور وہ آکر بڑے پیار سے کہتیں: ’’بی بی! تینوں امّاں جان یاد کررہے نے‘‘۔ اس وقت مجھے آپؓ کے عالی مرتبہ اور بلند شان کا کچھ علم نہ تھا۔ ہاں آپؓ سے ایک عجیب گہری دلی محبت اور کشش محسوس ہوتی جس کوالفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ دل بے اختیار آپؓ پر قربان ہوتا تھا۔ بڑھاپے میں بھی آپؓ بے حد پیاری لگتیں۔میں آپؓ کے پلنگ پر بیٹھ کر آپؓ کی ٹانگیں اپنی گود میں رکھ کر ان پر ہاتھ پھیرتی اور کتاب سناتی تھی۔ آپؓ اس قدر فراخ دل تھیں کہ آپؓ نے کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیشہ مجھے بڑی محبت سے ’ارے بیٹی‘ کہہ کر پکارتیں۔ آپؓ غیر شادی شدہ کو ’بیٹی‘ اور شادی شدہ کو ’بہو‘ کہہ کر بلاتیں یا پھر بےتکلفی سے ’ارے بوا‘ کہتیں۔
(باقی آئندہ سوموار ان شاءاللہ)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کی سیرت کے حوالے سے حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکمل صاحبؓ کا کلام شامل اشاعت ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے:
اے اُمّ المومنین ! تیری شان ہے بلند
پہلو میں تیرے اتارا گیا ہے پیام حق
کیا وصف لکھ سکے یہ حقیر و فقیر قوم
تو خَلق و خُلق میں ہے نشان دوام حق
روز ازل سے تا بہ ابد کائنات میں
مخصوص ہے ترے لیے دارالسلام حق
قوموں کی ماں ہے ، ان کی ترقی کی جاں ہے تُو
جاری رہے گا تجھ سے یہ فیضان عام حق
آئندہ آنے والی خواتین مبارکہ
اور ہونے والے سارے ائمہ عظام حق
تیرے ہی دم قدم سے ہیں وابستہ سب کے سب
بھیجا کریں گے تجھ پہ درود و سلام حق
دامن تمہارا پاک ہے ہر نقص و عیب سے
وہ مشک ہو کہ جس سے معنبرّ مشام حق
٭…٭…٭