فارسی منظوم کلام حضرت مسیح موعودؑ
ہرچہ آید بفہم و عقل و قیاس
ذاتِ او برترست زاں وسواس
جو کچھ فہم، عقل اور قیاس میں آسکتا ہے اُس کی ذات ہراس خیال سے بالا تر ہے
ذاتِ بے چون و چند افتادست
واز حدود و قیود آزاد ست
اُس کی ذات بے مثل اور یکتا ہے اور حدود و قیود سے آزاد ہے
نہ وجودے بذاتِ او انباز
نہ کسے در صفات او انباز
کوئی وجود اس کا ہمسر نہیں نہ کوئی اُس کی صفات میں اُس کے برابر ہے
ہمہ پیدا ز دستِ قدرتِ او
کثرتِ شان گواہ وحدت او
سب کچھ اس کی قدرت سے پیدا ہوا ہے۔ اُن کی کثرت اُس کی وحدت پر گواہ ہے
گر شریکش بُدی ز خلق دگر
گشتی ایں جملہ خلق زیر و زبر
اگر مخلوق میں سے کوئی اس کا شریک ہوتا تو یہ تمام دنیا زیر و زبر ہو جاتی
ہرچہ از وصفِ خاکی و خاک ست
ذاتِ بیچونِ او ازاں پاک ست
خاک اور خاکی مخلوق کی جوصفات ہیںاس کی بے مثل ذات اُن سے پاک ہے
بند بر پائے ہر وجود نہاد
خود زہر قید و بند ہست آزاد
ہر وجود کے لئے اُس نے کچھ پابندیاں لگا دی ہیں مگر خود ہر قید اور پابندی سے آزاد ہے
آدمی بندہ ہست و نفسش بند
در دو صد حرص و آز و سر بکمند
آدمی غلام ہے اور اس کا نفس مقید ہے صد ہا خواہشوں اور لالچوں میں پھنسا ہوا ہے
ہمچنیں بندہ آفتاب و قمر
بند در سیرگاہِ خویش و مقر
اسی طرح سورج اور چاند بھی حکم کےپابند ہیں وہ اپنےاپنے راستوں کےمکلّف اوراسیرہیں
ماہ را نیست طاقتِ ایں کار
کہ بتابد بروز چوں احرار
چاند کو اس امر کی قدرت حاصل نہیں کہ وہ دن کو آزادانہ چمک سکے
نیز خورشید را نہ یارائے
کہ نہد بر سریرِ شب پائے
اسی طرح سورج کو بھی یہ قوت نہیں کہ وہ رات کے تخت پر قدم رکھ سکے
آب ہم بندہ ہست زیں کہ مدام
بند در سروے است نے خود کام
پانی بھی پابند ہے کیونکہ وہ ہمیشہ برودت کا پابند ہے اپنی مرضی کا مالک نہیں
آتشے تیز نیز بندئہ او
در چنیں سوزشے فگندئہ او
تیز آگ بھی اس کی تابعدار ہےاور ایسی جلن میں اُسی کی ڈالی ہوئی ہے
گر برآری بہ پیش او فریاد
گرمیش کم نہ گردد اے استاد
اگر تو اس آگ سے التجا کرے تب بھی اے شخص! اُس کی گرمی کم نہ ہوگی
پائے اشجار در زمیں بندست
سخت درپا سلاسل افگندست
درختوں کے تنے بھی زمین میں پیوست ہیں۔ اُن کے پاؤں میں اُس نے مضبوط زنجیریں ڈال دی ہیں
ایں ہمہ بستگان آں یک ذات
بروجودش دلائل و آیات
یہ سب چیز یں اُسی ہستی سے وابستہ ہیں اور اس کے وجود پر دلائل اور نشان ہیں
(براہینِ احمدیہ حصہ اول ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۴و ۱۵ بحوالہ درثمین فارسی صفحہ ۲۔۳)