حضرت سر چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کا ویڈیو پر ریکارڈ شدہ واحد انٹرویو
(حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب کا ایک نادر انٹرویو محترم ایئر مارشل (ریٹائرڈ) ظفر چودھری صاحب کے پاس تھا۔ یہ انٹرویو محترم ظفر چودھری صاحب نے فروری ۱۹۸۲ء کو لیا تھا۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سارا انٹرویو ویڈیو کیسٹ پر ریکارڈ شدہ تھا۔ پہلی بار یہ انٹرویو ماہنامہ رسالہ انصار اللہ ربوہ کے ’’حضرت چودھری محمدظفر اللہ خان نمبر ‘‘ نومبر۔ دسمبر ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔ اس شمارہ میں یہ دوسرا غیر مطبوعہ انٹرویو ہے۔ پہلے انٹرویو کے لیے ملاحظہ ہو سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍دسمبر ۲۰۲۰ء یا درج ذیل لنک پر کلک کریں: https://www.alfazl.com/2022/12/15/59872/)
سوال: محترم چودھری صاحب آپ کی پبلک لائف کا آغاز کب ہوا ؟
جواب: پبلک لائف سے نجانے آپ کی کیا مراد ہے۔ میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز وکالت کی پریکٹس سے کیا۔ پھر ۱۹۲۶ء میں مَیں صوبائی کونسل کا رکن منتخب ہوا اور اس طرح سے پنجاب کی سیاست میں میرا عمل دخل شروع ہوا اور ایک لحاظ سے پہلا پبلک عہدہ ۱۹۳۲ء کے موسم سرما میں حاصل کیا جبکہ میں میاں سر فضل حسین کی جگہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں عارضی طور پر رکن مقرر ہوا۔ اس کے بعد ۱۹۳۵ء میں ایگزیکٹو کونسل کا مستقل ممبر بنا۔ میرے اس عہدہ کی میعاد مئی ۱۹۴۰ء میں ختم ہوئی تھی لیکن میرے عہدہ کی میعاد ختم ہونے سے پہلے سپیشل وارنٹ آف کنگ کے ذریعہ مجھے پانچ سال کے ایک اور عرصہ کے لیے وائسرائے کی کونسل کا رکن مقرر کر دیا گیا۔ اس عہدہ پر کام کرتے ہوئے مجھے ایک سال پانچ ماہ ہوئے تھے جبکہ جج کی ایک اسامی فیڈرل کورٹ آف انڈیا میں، جو بعد میں سپریم کورٹ آف انڈیا ہوئی۔سرشاہ سلیمان کی وفات سے خالی ہوئی اس عہدے پر مجھے فیڈرل کورٹ کا جج مقرر کیا گیا چنانچہ میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کے عہدے سے مستعفی ہو گیا۔
سوال: آپ نے فیڈرل کورٹ کے جج کے عہدہ سے کب اور کیوں استعفیٰ دیا ؟
جواب: برطانوی وزیر اعظم مسٹرایٹلی نے ۳؍جون ۱۹۴۷ء کو ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کیا۔ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ تقسیم کے بعد میں پاکستان چلا جاؤں گا چنانچہ میں نے ایک ہفتہ کا نوٹس دے کر فیڈرل کورٹ کے جج کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔
سوال: قائد اعظم محمدعلی جناح سے آپ پہلی بار کب ملے؟
جواب: میں قائد اعظم سے سب سے پہلے پہلی گول میز کا نفرنس کے موقع پر۱۹۳۰ء میں ملا۔ اس سے پہلے بھی کبھی کبھار ملاقات ہوتی رہتی تھی لیکن ان ملاقاتوں کی کوئی خاص بات یاد نہیں تاہم اس کے بعد میری قائد اعظم سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ان کی وفات تک جاری رہا۔ یہ عرصہ قریباً ۱۸ سال پر محیط ہے۔ آہستہ آہستہ ہماری دوستی گہری ہوتی گئی اور مَیں سمجھتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ ہی قائد اعظم کا مکمل اور بھر پور اعتماد حاصل رہا۔
سوال: باؤنڈری کمیشن میں آپ نے مسلم لیگ کا کیس کس طرح پیش کیا ؟
جواب: میں نے ۳؍جون ۱۹۴۷ء کو ایک ہفتہ کے نوٹس پر فیڈرل کورٹ کے جج کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس دوران میں مَیں ریاست بھوپال کے نواب سر حمید اللہ خان جو چیمبر آف پرنسس کے چانسلر بھی تھے، کی تجویز پران کے آئینی مشیر کے طور پر کام کرنے کے لئے ریاست بھوپال چلا گیا۔ میں بھوپال میں ہی تھا جب جون کے آخر میںمجھے قائداعظم نے طلب کیا اور ہدایت فرمائی کہ میں پنجاب باؤنڈری کمیشن کے روبرو مسلم لیگ کا کیس پیش کروں۔ اس کی سماعت در اصل جولائی کے نصف میں شروع ہوئی۔
سوال: اقوامِ متحدہ میں پاکستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے آپ کب گئے ؟
جواب: قائد اعظم کی ہدایت پر جب میں نے باؤنڈری کمیشن میں کیس کا کام ختم کر لیا تو ستمبر ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے وفد کی قیادت کرنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس سے فارغ ہو کر جب میں نیویارک سے کراچی پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ قائد اعظم مجھے اپنی حکومت میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ مجھے ۲۵؍ دسمبر کو وزیر خارجہ بنا دیا گیا اور میں وزیر اعظم کے بعد کا بینہ کا سینئر ترین وزیر قرار پایا۔
سوال: جب کابینہ کے اکثر عہدے پہلے ہی پر ہو چکے تھے تو آپ سینئر ترین وزیر کیسے قرار پائے ؟
جواب: مَیں نہیں جانتا کہ میں کِس طرح سینئر ترین وزیر بنا۔ جب میں نے حلف اُٹھایا تو میری سیٹ وزیر اعظم کے بعد پہلے نمبر پرتھی اس طرح سے مجھے میرے دیگرساتھیوں پر فوقیت دی گئی۔
سوال: کیا آپ کا مطلب ہے کہ قائد اعظم نے خود آپ کو سینئر ترین وزیر قرار دیا ؟
جواب: یقیناً یہی بات ہے کہ یہ قائد اعظم کی ہدایت پر ہوا۔ سیٹوں کی یہ ترتیب قائد اعظم ہی کے حکم پر مقرر کی جاتی تھی۔ حسب معمول اس اجلاس کی صدارت بھی قائد اعظم خود فرما رہے تھے۔
سوال: جناب لیاقت علی خاں سے آپ کے تعلقات کس قسم کے تھے ؟
جواب: نوابزادہ لیاقت علی خان سے سب سے پہلے میں ۱۹۳۷ء میں ملا۔ وہ میرے ساتھ اُس پینل آف ایڈوائزرز کے رکن تھے جب میں آٹو واٹریڈ ایگریمنٹ کی جگہ پر برطانیہ کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ کرنے کے لیے برطانیہ گیا۔ میں اس وقت حکومت ہند کے وزیر تجارت کے طور پر اس وفد کا سربراہ تھا۔ اس معاہدے پر بحث ۳۷ – ۱۹۳۸ء تک جاری رہی۔ اس کے بعد وہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور قائد اعظم کے دست راست شمار ہونے لگے۔ قائد اعظم اس وقت ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ کے لیڈر تھے۔
سوال: آپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کب منتخب ہوئے؟
جواب :ستمبر ۱۹۶۲ء میں۔
سوال: یہ انتخاب کس طرح ہوا ؟
جواب: اگست ۱۹۶۱ء میں مجھے اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب مقرر کیا گیا۔ یہ جنرل اسمبلی کا سولہواں اجلاس تھا جو ستمبر ۱۹۶۱ء میں شروع ہوا۔ اس سیشن میں جنرل اسمبلی کے صدر تیونس کے سفیر متعینہ اقوام متحدہ السید منجی سلیم صاحب تھے۔ اگلے سال ۱۹۶۲ء کے موسم خزاں میں انڈونیشیا کے نمائندے نے جنرل اسمبلی کا صدر ہونا تھا لیکن ان کے بارے میں پتا چلا کہ وہ دستیاب نہ ہو سکیں گے۔ اب سوال ہوا کہ کوئی ایشیائی جنرل اسمبلی کا صد رہو یا صدارت کسی اور گروپ کو ملے۔ میرا ذاتی خیال یہ تھا کہ فوری طور پر کوئی ایشیائی جنرل اسمبلی کا صدر نہیں ہونا چاہیے۔ جنرل اسمبلی میں افرو ایشیائی ممالک کی اکثریت تھی اور بعض حلقوں کی طرف سے یہ خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ افریقی ایشیائی ممالک اپنی عددی برتری کے بل پر اسمبلی میں من مانے فیصلے کروائیں گے۔ میں چاہتا تھا کہ اس تاثر کو تقویت نہ ملے بلکہ ایسا انتظام کیا جا سکے کہ مختلف گروہوں کے افراد باری باری صدر بنا کریں لیکن میری یہ رائے قابل قبول نہ ہو سکی۔ دوسرے گروپ نے جو فیصلہ کیا اس کے نتیجے میں ارجنٹائن کے سفیر نے صدر کے عہدہ کا امیدوار بننے کا اعلان کیا۔ اب صدر کے عہدہ کے انتخاب کا مسئلہ دوبارہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے نتیجہ میں مجھے صدارت کا امید وار بنایا گیا۔ چنانچہ ۱۹۶۲ – ۱۹۶۳ء کے سال کے لیے میں جنرل اسمبلی کا صدر منتخب ہو گیا۔
سوال: آپ نے روس کا بھی دورہ کیا۔کیا اس بارے میںوزیر اعظم خروشچیف کی طرف سےدعوت ملی تھی؟
جواب: مجھے اس دورے کی دعوت روس کے وزیر خارجہ مسٹر گرو میکو نے دی تھی۔ میں ۱۹۶۳ء کے موسم گرما میں ماسکو گیا تھا۔ مسٹر خرو شچیف سے بھی ملاقات ہوئی۔
سوال: کیا مسٹر خرو شچیف سے پاک روس تعلقات کے مسئلے پر بھی بات ہوئی تھی ؟
جواب: مَیں روس جنرل اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے گیا تھا پاکستان کے نمائندہ کے طور پر نہیں۔ لیکن اس کے باوجود پاک روس تعلقات زیر بحث آئے۔ مسٹر خر و شچیف کا کہنا تھا کہ آپ کے ملک کا ایک وزیر ( ذوالفقار علی بھٹو۔ ناقل) روس آیا تھا۔ ہم نے اس کا استقبال کیا۔ ہر طرح سے تعاون کی پیشکش کی لیکن جب وہ منسٹر واپس گیا تو سب کچھ یخ بستہ ہو کر رہ گیا۔ مسٹر خروشچیف نے اس امر پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ شاید یہ سلسلہ امریکن دباؤ کے تحت ختم کر دیا گیا ہو۔ مجھے اس بارے میں یقین نہیں تھا تا ہم میں نے کہا کہ میں اس سلسلے میں کوئی کوشش کروں گا۔ مسٹر خرو شچیف نے کہا کہ ہاں تم کر سکتے ہو مجھے تمہاری بات کا اعتبار ہے۔ انہوں نے ’’تم‘‘ اور ’’تمہارے ‘‘ کے لفظوں پر خاص زور دیا۔
سوال: کیا آپ امریکہ کے صدر کینیڈی سے بھی کبھی ملے؟
جواب: میں نیویارک میں ان سے اس وقت ملا جب وہ جنرل اسمبلی کو خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے۔ اس کے بعد جب میں بطور صدرجنرل اسمبلی واشنگٹن گیا۔ تو پھر بھی ملاقات ہوئی۔ پروٹوکول یہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کا صد ر امریکہ کے صدر سے ملنے آئے تو صدر ِ امریکہ اس کا وائٹ ہاؤس میں استقبال کرتا ہے جہاں پر سر بر اہان مملکت کا استقبال کیا جاتاہے۔
سوال: آپ چرچل سے بھی ملے ہوں گئے ؟
جواب: کئی بار۔ سابق وزیر اعظم برطانیہ مسٹر چر چل گول میز کانفرنس کے تو رکن نہیں تھے لیکن جو جوائنٹ سلیکٹ کمیٹی، گول میز کانفرنسوں کے بارے میں حکومت برطانیہ کے قرطاس ابیض پر غور کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اس کے روبرو شہادت دینے کے لیے مسٹر چرچل بھی آتے تھے۔ یہ ۱۹۳۳ء کے موسم سرما کی بات ہے۔ مسٹر چرچل پر چار دن جرح ہوتی رہیں۔ وہ تمام ایام ہندوستان کو نو آبادیاتی درجہ دینے کی مخالفت کرتے رہے جس کا منطقی نتیجہ ہندوستان کی آزادی ہونا تھا۔
سوال: آپ عالمی عدالت انصاف کے جج کب مقرر ہوئے ؟
جواب: پہلی بار اکتوبر ۱۹۵۳ء میں سربی این راؤ کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پر اس عہدے کی بقیہ مدت کے لیے جج منتخب ہوا۔ جب میرے عہدے کی میعاد ختم ہوئی تو میری عمر ۶۸ سال تھی اور میرا خیال تھا کہ میری پبلک لائف کا اختتام ہو گا لیکن پھر فیلڈ مارشل ایوب خان نے کہا کہ میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کے طور پر کام کروں۔ یہاں کام کرنے کے بعد میں اکتوبر ۱۹۶۳ ء میں دوبارہ عالمی عدالت کا جج منتخب ہوا۔ اس دفعہ میرے عہدے کی مدت پورے عرصہ کے لیے یعنی نو سال کے لیے تھی۔ اس عدالت میں جج کے عہدے کی میعاد نوسال اور صدرعدالت کے عہدے کی میعاد تین سال ہوتی تھی۔ چنانچہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ عدالت کے بنچ میں ایک یا دو سابق صدرِ عدالت عام جج کے طور پر کام کرتے تھے۔ میں اپنے عرصہ کے آخری تین سال عدالت کا صدر منتخب ہوا چونکہ میں آخری تین سال کے لیے صد ربنا اس لیے مجھے بطور سابق صدرعام جج کے طور پر کام کرنے کا اتفاق نہ ہوا۔ یہ میری پبلک لائف کا اخیر تھا۔
سوال: آپ نے ۱۹۴۰ء میں لارڈ لنلتھگو کو ایک نوٹ لکھا تھا براہ کرم مختصر طور پر اس کی وضاحت فرمائیں کہ آپ نے اس میں کیا تجاویز پیش کی تھیں؟
جواب: وہ نوٹ شائع ہو چکا ہے میں نے اس میں جو کہا تھا وہ مختصر طور پر یہ ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے سوال کا واحد قابل قبول حل یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔ اس کو علیحدگی کی سکیم کہا گیا۔ اس کے تحت شمال مشرقی اور شمال مغربی صوبوں جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ان کو باقی ماندہ ملک سے علیحدہ کر دیا جائے۔ یہ نوٹ میں نے مسلمانوں کے بارے میں برطانیہ کی رائے عامہ کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے لکھا تھا۔ میں نے اس میں یہ بتایا تھا کہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہندوستان کے مسلمان محض ایک عام اقلیت نہیں ہیں بلکہ ایک علیحدہ قوم ہیں اور یہ وہی بات ہے جس کو ’’ٹو نیشن تھیوری‘‘ یعنی دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے مسلمان قوم کو الگ کر دیا جائے۔ یہ سکیم صرف مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی دیگر کمیونیٹیز کی طرف سے نہیں۔ اس کے متبادل کے طور پر کہا جاتا تھا کہ ۱۹۳۵ء کے قانون میں ترمیم کر کے اس میں مسلمانوں کے مطالبات کو شامل کرنے کی غرض سے بعض تحفظات طے کر دیے جائیں۔ میں نے اس پر بھی اصرار کیا تھا کہ تحفظات قابل قبول نہیں ہوں گے۔
سوال: یہ کہا جاتا ہے کہ آپ نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں ؟
جواب: در اصل اُلجھاؤ ہے لفظ ’’ پاکستان‘‘ کے مطلب کے بارے میں۔ اس وقت تک یعنی۳۱.- ۱۹۳۰ء میں اس لفظ سے مراد چودھری رحمت علی کا نظریہ تھا اور اس نظریہ کا انحصار ملک میں بہت وسیع پیمانے پر آبادی کے تبادلہ پر تھا۔ اس سکیم کے تحت یہ کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں میں ہندوستان کی تمام مسلمان آبادی کو مجتمع کر دیا جائے اور باقی ہند وستان میں ساری غیر مسلم آبادی کو جمع کر دیا جائے۔ اس سکیم کے بارے میں میرا نظریہ اور گول میز کانفرنس میں شامل مسلمان و فد کا نظریہ یہی تھا کہ یہ مکمل طور پر ناقابل عمل سکیم ہے جو بے بنیاد خیالات پر استوار کی گئی ہے اور اس پر کسی سنجیدہ فکر کی ضرورت نہیں۔ میں نے جس سکیم کی مخالفت کی تھی وہ یہی سکیم تھی۔ اور گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کا جو وفد شامل تھا جس میں قائد اعظم بھی شامل تھے۔ ان سب نے متفقہ طور پر اس سکیم کو مسترد کر دیا تھا اور خود چودھری رحمت علی نے بعد میں اپنی تجویز کی کمزوری کو بھانپ کر ’’پاکستان‘‘ کے ساتھ اور علاقوں کے نام بھی تجویز کیے مثلاً بنگستان بنگال کے لیے، عثمانستان حیدر آباد کے لیے وغیرہ۔ یہ رحمت علی سکیم وہ سکیم نہیں تھی جو بعد میں پاکستان کہلائی۔
سوال: کیبنٹ مشن پلان کے بارے میں کچھ فرمائیے؟
جواب: یہ پلان مسلم لیگ نے قائد اعظم کی ہدایت پر تسلیم کر لیا تھا۔ یہ اس خیال سے تسلیم کیا گیا تھا کہ اس میں مسلمانوں کے مطالبات مان لیے گئے تھے۔ اگر چہ عملاً صرف چند سال کے لیے۔ میں اپنے نوٹ کا کوئی کریڈٹ نہیں لینا چاہتا۔ بعض اور لوگ بھی اور قائد اعظم بھی ان دنوں انہی خطوط پر سوچ رہے تھے۔ ہاں یہ بات ہے کہ میں نے واضح طور پر بات کھول کر سامنے رکھ دی تھی۔ میں نے یہی کہا تھا کہ مسلمانوں کے لیے واحد قابل قبول حل یہی ہے کہ تقسیم کر دی جائے بجائے اس کے کہ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں بعض تبدیلیاں کر کے اسے قابل قبول بنانے کی کوشش کی جائے۔
سوال: علامہ اقبال سے آپ کے تعلقات کیسے تھے؟
جواب: میں اقبال کو دیر سے جانتا تھا۔ وہ سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے تاہم میرا ان سے پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب میں تھر ڈایئر میں گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا۔ وہ عارضی طور پر پر و فیسر آف فلاسفی مقرر ہوئے لیکن پروفیسر آف فلاسفی کے مستقل طور پر ٹورانٹو چلے جانے کی وجہ سے انہیں اس عہدہ پر مستقل کر دیا گیا۔ اقبال ان دنوں نئے نئے یورپ سے آئے تھے۔ وہ بارایٹ لاء بھی تھے اور لاہور میں قانون کی پریکٹس بھی کرتے تھے۔ انہیں انڈین ایجوکیشن سروس میں شمولیت کی دعوت دی گئی لیکن انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ میں قانون کی پریکٹس نہیں چھوڑوں گا۔ چنانچہ ان کی پریکٹس اور پروفیسری ساتھ ساتھ جاری رہی۔ وہ اپنے مضمون فلاسفی کے علاوہ انگریزی بھی پڑھاتے تھے چنانچہ میں انگریزی کی کلاس میں دو سال تک ان سے پڑھتا رہا۔ پھر جب میں نے بار ایٹ لاء کیا تو پھر عدالتوں میں کبھی ان کے جو نیئر کے طور پر اور کبھی ان کے مخالف کے طور پر پیش ہونے کا موقع ملتا رہا۔ اُن سے میرے ذاتی تعلقات ہمیشہ بہت خوشگوار رہے۔ گول میز کانفرنس میں بھی وہ ہمارے ساتھی رہے۔
سوال: پاکستان اپنے قیام کے بعد ہی سے ایک بحران کے بعد دوسرے بحران میں مبتلا ہوتا رہا ہے۔ آپ کا خیال اس بارے میں کیا ہے کہ وہ کیا بات غلط ہوئی کہ ہمارے ملک سے بحران ہی ختم ہونے میں نہیں آتے؟
جواب: یہ بہت مشکل سوال ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ خود کو اتنا عقلمند سمجھنے کی ذمہ داری اٹھاؤں کہ اس بارے میں کوئی رائے دے سکوں۔
سوال: کیا آپ بالکل کوئی رائے نہ دیں گے؟
جواب: بالکل نہیں۔
سوال: آپ کے خیال میں قائد اعظم مذہبی عقیدہ کےبارے میں کسی قسم کا آئین چاہتے تھے۔ یعنی اس بارے میں کہ کیا حکومت کو کسی کے عقیدہ کے بارے میں کوئی پالیسی طے کرنی چاہیے ؟
جواب: قائد اعظم اس معاملہ میں بہت واضح تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مذہبی عقائد کے بارے میں کسی سے کوئی تفریق روا نہیں رکھنی چاہیے۔ ان کے نزدیک عقیدہ کسی بھی شخص کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور اس میں پاکستان کے شہری ہونے کے طور پر کسی حکومت کو کوئی دخل نہیں دنیاچاہیے۔
سوال: حکومت اور کاروبار مملکت چلانے کے بارے میں قائد اعظم کے نظریات پر کیا بعد میں عمل ہوا؟
جواب : اس بارے میں قائد اعظم کے خیالات پر ان کی وفات کے بعد نہ صرف یہ کہ کوئی عمل نہیں ہوا بلکہ مکمل طور پر انحراف کیا گیا۔
سوال: آپ کی پبلک لائف میں غیر معمولی کامیابی کا راز کیا ہے؟
جواب: صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا رحم۔
سوال: آپ نے قرآن کریم کا انگریزی زبان میںترجمہ کیا ہے جبکہ قرآن کے بار ہ میں ایک خیال ہے کہ اس کا حقیقی ترجمہ ممکن نہیں ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟
جواب: میں نے یہ بات ترجمہ قرآن کے دیباچے میں بھی لکھی ہے کہ بنیادی اور اصولی طور پر یہ بات بالکل صحیح ہے کہ قرآن کریم کا حقیقی ترجمہ ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے کئی پہلو اور بطون ہیں جبکہ مترجم ایک ہی طرزفکر سے ترجمہ کرتا ہے۔ قرآن کریم کے مطالب اتنے وسیع اور متنوع ہیں اور اس میں عالمی صداقتیں اتنی کثیر مقدار میں درج ہیں کہ ان کا صحیح طور پر ترجمہ کر نا بڑا مشکل کام ہے لیکن میں نے اس خیال سے ترجمہ نہیں کیا کہ میں پورا اور مکمل ترجمہ کر رہا ہوں بلکہ اس خیال سے ترجمہ کیا ہے کہ ایک مبتدی کے لیے قرآن کریم کے وسیع مطالب اور اس کے علوم و معارف کے عظیم الشان خزانے کی ایک جھلک دکھا کر اسے قرآن کے مزید مطالب جاننے کی طرف راغب کیا جا سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں بھی اور دیگر مترجم بھی اسی خیال کو سامنے رکھ کر ترا جم کرتے ہیں۔
سوال: حضرت بانیٔ سلسلہ سے آپ کی پہلی ملاقات کب اور کیسے ہوئی ؟
جواب: حضرت بانی سلسلہ کی زیارت پہلی بار میں نے ۳؍ ستمبر ۱۹۰۴ء کو لاہور میں کی جب حضور ایک لیکچر دینے کے لیے لاہور تشریف لائے تھے حضور کا لیکچر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھا تھا حضور بھی تشریف فرما تھے۔ اس تقریب میں شامل ہونے کے لیے میرے والد محترم مجھے ساتھ لے گئے تھے۔ میں اس کو ملاقات نہیں کہتا کیونکہ اس میں کوئی گفتگو شامل نہیں تھی۔ پھر میں نے اپنی والدہ کے ہمراہ حضورؑ کی زیارت کی۔ میری والدہ اپنی خوابوں کی تصدیق چاہتی تھیں کہ جس بزرگ کو انہوں نے خواب میں دیکھا ہے وہ حقیقی طور پر حضرت بانی سلسلہ ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد سیالکوٹ میں حضور کی تشریف آوری کے موقع پر مَیں نے کئی بار حضور کو دیکھنے کی سعادت حاصل کی۔
سوال: آپ نے حضرت بانی سلسلہؑ کی بیعت کب کی؟
جواب : میں نے حضرت بانی سلسلہ کی بیعت ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو کی۔ اگرچہ میں ۳؍ستمبر ۱۹۰۴ء کو حضور کو دیکھنے کے بعد ہی آپ پر ایمان لا چکا تھا تاہم بیعت کرنے کا خیال حضرت مولوی نور الدین کے خط سے آیا جو آپ نے میرے والد صاحب کے نام لکھا تھا۔ اس میں آپ نے لکھا تھا ’’اب آپ اپنے بچے کی بیعت کرا دیں‘‘۔ چنانچہ ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کے دن ظہر کی نماز کے بعد جب حضور خانہ ٔخدا میں تشریف فرما تھے میں نے بیعت کے لیے عرض کیا حضور نے بیعت قبول فرمائی۔
سوال : حضرت بانی سلسلہ علیہ السلام کو دیکھنے کے بعد پہلا تاثر آپ کا کیا تھا ؟
جواب : اس وقت میری عمر ساڑھے گیارہ سال تھی۔ میں آپ کو دیکھ کر اتنا متاثر ہوا کہ اس تقریب کا سا را وقت ٹکٹکی باندھ کر حضور کے چہرے کو دیکھتا رہا۔مَیں اُسی وقت سے بغیر کسی قسم کے دلائل کے پوری طرح حضور کے دعاوی کے بارے میں مطمئن تھا۔ اگر چہ جو لیکچر پڑھا جا رہا تھا اس کو بھی میں نے توجہ سے سُنا اور اس میں حضور کے جو الہامات درج تھے وہ بھی مجھے یادر ہے لیکن میری ساری توجہ در اصل حضورؑ کے چہرہ مبارک کی طرف تھی۔
سوال: حضرت مولوی نورالدین صاحب کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا ہیں ؟
جواب: کیپٹن ڈگلس جنہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ علیہ السلام پر دائر شدہ مقدمہ سازش قتل کی سماعت کی تھی اور حضورؑ کو باعزت بری کر دیا تھا اُن سے میں انگلینڈ میں ملتا رہا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب میں نے حضرت مرزا صاحب کو کمرۂ عدالت میں داخل ہوتے دیکھا تو اُن کو دیکھتے ہی میں ان کی صداقت کا قائل ہو گیا تھا۔ وہ زمین کے آدمی نہیں تھے بلکہ وہ کوئی آسمانی ہستی تھے۔ اگرچہ وہ حضور پرقتل کی سازش کا بڑا سخت الزام تھا لیکن اس کے باوجود کیپٹن ڈگلس نے آپ کو کرسی پیش کی اور اپنے ساتھ سٹیج پر آپ کو بٹھایا۔ وہ پوری طرح قائل تھا کہ حضرت مرزا صاحب اپنے دعاوی میں سچے تھے اور وہ حضرت مرزا صاحب کی وساطت سے حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سچا خیال کرتا تھا۔
کیپٹن ڈگلس حضرت مولوی نور الدین کی شخصیت سے بھی بڑا متاثر تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر مولوی نور الدین صاحب بھی دعویٰ کرتے کہ میں مسیح و مہدی ہوں تو میں مان جاتا کہ وہ سچے ہیں۔ حضرت مولوی نورالدین بہت عظیم اور بہت متاثرکن شخصیت تھے۔
جب میں بی اے کے امتحان میں کامیاب ہوا تو آپ نے میرے بارے میں فرمایا: یہ پہلے سے جانتے تھے کہ یہ کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے والد صاحب نے فرمایا تھا کہ بی اے میں کامیابی کے بعد تم اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے جانا اور اس کی اجازت حضرت مولوی نورالدینؓ سے حاصل کر لینا۔ چنانچہ میں نے برطانیہ جانے کے بارے میں حضورؓ سے پہلے ہی ذکر کر دیا تھا شاید اس وجہ سے ان کو خیال پیدا ہوا ہو۔
ایک دن آپ کے پاس اور کوئی نہ تھا اکیلا مَیں تھا۔ ڈاکٹر جو آپ کی دائیں کنپٹی کے زخم کی ڈریسنگ کرنے آتا تھا وہ بھی ڈریسنگ کر کے جاچکا تھا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد مَیں نے آپ کا جسم دبانا شروع کیا مجھے دبانا تو آتا نہیں تھا جیسے بھی سمجھ میں آیا دباتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ آپ شاید سو گئے ہیں۔ اس لیے میں نے دبانا بند کر دیا اور آہستہ سے چارپائی سے اٹھنے لگا۔ آپؓ دائیں کنپٹی کے زخم کی وجہ سے بائیں کروٹ لیٹے ہوئے تھے۔ میں اٹھنے لگا تو آپ سوئے نہیں تھے بلکہ جاگ رہے تھے۔ آپؓ نے اپنا دایاں بازو میرے سر کے گرد لپیٹ کر مجھے اپنے چہرے کے بالکل قریب کر لیا اور اسی حالت میں ایک دو منٹ تک رکھا۔ پھر فرمایا: میاں ہم نے تمہارے لیے بہت بہت دعائیں کی ہیں۔
سوال: آپ کے برطانیہ جانے کے سلسلہ میں کیا حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے کوئی نصیحت بھی فرمائی ؟
جواب: کئی نصیحتیں فرمائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انگلینڈ کا موسم اتنا سرد ہے کہ وہاں پر موسم سے بچاؤ کے لیے شراب پینا لازمی ہے اس کے بغیر چارہ نہیں۔ آپؓ نے فرمایا یہ بات بالکل غلط ہے۔ ہم حکیم ہیں اور انسانی جسم کو جانتے ہیں۔ اگر سردی کے اثر کا مقابلہ کرنا ہو تو کو کو(Cocoa) استعمال کرنا چاہیے۔شراب پینا ہرگز ضروری نہیں۔
(ماہنامہ رسالہ انصار اللہ ربوہ کے ’’حضرت چودھری محمدظفر اللہ خان نمبر ‘‘ نومبر۔ دسمبر ۱۹۸۵ء صفحہ ۲۶ تا ۳۲)
(مرسلہ: ابو الفارس۔ سیرالیون)