سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۲؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ)
٭… بڑے مقاصد کے حصول کے لیے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں (جلسہ سالانہ جرمنی پرحضور انور کا مستورات سے بصیرت افروز خطاب)
٭… اسلامی تعلیمات محبت، رواداری، امن اور سلامتی کی ضامن ہیں (زیر تبلیغ جرمن مہمانوں سے حضور انور کا خطاب)
٭…’’خلیفہ کو دیکھنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ وہ ایک عام آدمی ہے لیکن جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ پیار اور شفقت جو میں نے محسوس کی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ جلسہ کے دوسرے ہی دن احمدیت کی صداقت میرے دل میں گھر کر گئی۔ اور میں نے بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا۔ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی۔ ‘‘
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بج کر چالیس منٹ پرمردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔
آج پروگرام کے مطابق لجنہ جلسہ گاہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا لجنہ سے خطاب تھا۔دوپہر بارہ بج کر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ کی جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ناظمہ اعلیٰ وصدر لجنہ اماءاللہ، جرمنی نے اپنی نائب ناظمات اعلیٰ کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا۔ اور خواتین نے نعرے بلند کرتے ہوئے بڑے والہانہ انداز میں اپنے آقا کو خوش آمدید کہا۔
اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ نوشین اسلام صاحبہ نے کی۔بعد ازاں اس کا اردو ترجمہ عزیزہ ہما نور الہدیٰ شاہ صاحبہ نے پیش کیا۔اس کے بعد عزیزہ انیقہ شاکر صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کا درج ذیل منظوم کلام
بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے
حاصل ہو تم کو دید کی لذت خد ا کرے
کے منتخب اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر سنائے۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق نیشنل سیکرٹری امور طالبات نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی اُن طالبات کے نام پڑھ کر سنائے جنہوں نے سال ۲۰۱۹ء سے لے کر سال ۲۰۲۳ء تک تعلیمی میدان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ ان طالبات کو لجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجتماعات کے موقع پر حسب ہدایت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ میڈل اور سندات دی جا چکی ہیں اور کچھ کو امسال د ے دی جائیں گی۔ ان شاء اللہ العزیز۔
ان خوش نصیب طالبات کے نام رپورٹ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔
بعد ازاں بارہ بج کر چالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔
حضور انور کا مستورات سے خطاب
تشہد، تعوذ،تسمیہ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔
برطانیہ کے جلسہ سالانہ میں خواتین کے جلسہ میں میں نے قرون اولیٰ کی خواتین کے واقعات بیان کیے تھے۔ آج بھی اسی تسلسل میں یہاں بھی کچھ واقعات بیان کروں گا۔ یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض پایا اور زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کی تعلیم کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی۔ چاہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے یا عبادتوں کے معیار ہیں یا بنیادی گھریلو معاشرتی ذمہ داریاں ہیں بچوں کی تربیت ہے جان مال کی قربانی کے پہلو ہوں اسلام کی خاطر جرأت و بہادری دکھانے کے مواقع ہوں۔ غرض کہ ہر موقع اور ہر پہلو پر ان خواتین نے ہمارے لیے ایک اسوہ قائم کیا ہے۔ نہ صرف عورتوں کے لیے بلکہ مردوں کے لیے بھی۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کرنے کا ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن گھر سے نکلے اور دو رکعت نماز ادا کی۔ ان سے پہلے اور بعد میں آپ نے کوئی نوافل ادا نہیں کیے تھے۔ ایک یہ مسئلہ بھی یہاں حل کر دیا کہ عید کے دن عید کی نماز سے پہلے کوئی نفل نہیں پڑھاجاتا۔ پھر آپ عورتوں کی طرف گئے۔ آپ کے ساتھ حضرت بلالؓ بھی تھے۔ پھر آپ نے عورتوں کو نصائح فرمائیں اور انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ عورتوں نے اپنی بالیاں اور کنگن اتار اتار کر دینے شروع کیے۔ اپنے زیور اتار دیے۔ مالی قربانی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج احمدی مسلمان خواتین بھی اپنی مثالیں قائم کرنے والی ہیں اور یہی مثالیں ہیں جو ان کے گھروں کو بابرکت کریں گی اور کرتی ہیں اور ان کے اموال و نفوس میں برکت پڑتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو فضائل سے آراستہ ہونے کی نصیحت فرماتے تھے اور ان کاموں سے بچنے کی تاکید فرماتے تھے جو کسی کام نہ آئیں۔ فضول کام کا کوئی فائدہ نہیں۔ لوگ لکھتے ہیں کہ فلاں کر لوں فلاں کر لوں میوزک میں سپیشلائز کر لوں لڑکیاں بعض لکھتی ہیں یا فلاں چیز کر لوں۔ اس کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی چیز کرنی چاہیے جو کام آنے والی ہو۔
حضرت ام سنان بیان کرتی ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کی اسلام پر بیعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک میرے ہاتھ پر پڑی تو فرمایا تم میں سے کسی عورت پر کوئی حرج نہیں اگر وہ اپنے ناخنوں پر بناؤ سنگھار کے لیے تبدیلی کرے اور اپنی کلائی میں ریشم یا چمڑے کی کوئی ڈوری باندھ لے۔ اگر اسے کوئی چیز پہننے کے لیے نہ ملے تو حضرت ام سنان نے اس ارشاد کی تعمیل کی۔ یہاں جہاں یہ فرمایا وہاں عورتوں کو یہ اجازت دے دی کہ وہ سنگھار کر سکتی ہیں زیور پہن سکتی ہیں یہ بھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ناخنوں پر بعض بہت سی سوال کرتی ہیں لڑکیاں عورتیں کہ ہمیں غیروں نے کہا کہ نیل پالش لگانا منع ہے۔ نیل پالش بھی لگائی جا سکتی ہے اس سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے اور یہ چیز کوئی منع نہیں کوئی بری چیز نہیں ہے۔
نیکیوں کے حصول کی بھی صحابیات کوشش کرتی رہتی تھیں کہ اگر کسی کی والدہ نے کسی نیکی کا ارادہ کیا ہے اورزندگی نے ماں کا ساتھ نہیں دیا تو کوشش کر کے وہ نیکی فوت شدہ کی طرف سے کی جائے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جہینہ قبیلہ کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا میری ماں نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کرے گی مگر اس نے حج نہیں کیا اور فوت ہو گئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ بتاؤ تو سہی اگر تمہاری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرنے والی ہوتی۔ اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کے ساتھ وفا کی جائے اور سب سے زیادہ وفا خدا تعالیٰ سے کرنی چاہیے۔ اسلام میں ابتدا میں ہی جن کو شہادت کا مقام حاصل ہوا تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک خاتون بھی ان میں شامل تھی چنانچہ اس کی تفصیل میں لکھا ہے۔ حضرت سمیہ بنت مسلم نے اسلام قبول کیا تو ان کو کفار نے طرح طرح کی اذیتیں دینی شروع کر دیں۔ سب سے سخت اذیت یہ تھی کہ ان کو مکہ کی تپتی ریت میں لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیتے تھے لیکن بایں ہمہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہتی تھیں۔ ایک دن کفار نے حسب معمول ان کو لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں زمین پر لٹا دیا تھا۔ اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تو فرمایا صبر کرو تمہارا ٹھکانہ جنت میں ہے لیکن کفار کی اس پر بھی تسکین نہیں ہوئی اور ابوجہل نے ان کی ران میں برچھا مارکر ان کو شہید کر دیا چنانچہ یہ تاریخ میں بعض جگہ لکھا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے شرف شہادت انہی کو نصیب ہوا۔
بچوں کو بھی ایک حوصلے سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے والی خواتین کا نمونہ بے مثال ہے۔ اس بارے میں تاریخ میں ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر جب حجاج سے معرکہ ہوا تو ان کی والدہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیمار تھی وہ ان کے پاس آئے اور مزاج پرسی کے بعد بولے کہ مرنے میں آرام ہے۔ جب ماں کی ایسی حالت دیکھی توانہوں نے تسلی دی۔ تو انہوں نے آگے سے کہا کہ شاید تم کو میرے مرنے کی آرزو ہے لیکن جب تک دو باتوں میں سے ایک نہ ہو جائے میں مرنا پسند نہ کروں گی۔ وہ باتیں دو کیا ہیں۔ یا تو تم شہید ہو جاؤ اور میں صبر کر لوں یا فتح و ظفر حاصل کرو کہ میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ چنانچہ جب وہ شہید ہو چکے تو حجاج نے ان کو سولی پر لٹکا دیا حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا باوجود پیرانہ سالی کے یہ عبرتناک منظر دیکھنے کے لیے آئیں اور بجائے اس کے کہ روتی پیٹتی حجاج کی طر ف مخاطب ہو کر کہا کہ اس سوار کے لیے ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ اپنے گھوڑے سے نیچے اترے یعنی بڑی جرأت سے اس کی تعریف کی۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی خاطر ظلم سہنے کا ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے۔ ابن اسحق یوں کہتے ہیں کہ مجھے اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے روایت پہنچی کہ انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بغرض ہجرت روانہ ہو گئے تو میرے پاس قریش کی ایک ٹولی آئی جس میں ابوجہل بھی تھا اور آ کر ابوبکر کے دروازے پر کھڑے ہو گئے تو میں ان کی طرف چلی تو انہوں نے کہا۔ اے ابوبکر کی بیٹی تیرا باپ کہاں ہے۔ میں نے کہا واللہ میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہے تو ابو جہل نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اس نے میرے رخسار پر ایسے زور سے طمانچہ مارا کہ جس سے میری بالی گر گئی۔ بڑا زور دار تھا کان بھی زخمی ہو گیا۔ ایک خاتون کو اس کے بیٹے اور خاوند سے علیحدہ کرنے کے ظلم کے واقعہ کا تاریخ میں یوں ذکر ملتا ہے۔
حضرت ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ جب ابو سلمہ نے ہجرت مدینہ کی تیاری کی تو اپنے لیے ایک اونٹ کا بندوبست کیا اور مجھے اور میرے بیٹے سلمہ کو اس پر سوار کر کے مہار پکڑ لی اور مدینہ کو نکل کھڑے ہوئے۔ جب اسے میرے قبیلے کے لوگوں نے دیکھا تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے روکا کہ یہ تیری خواہش ہے جس نے تجھے ہجرت پر مجبور کیا ہے۔ رہا معاملہ تیری زوجہ کا تو وہ کیوں گھر کو چھوڑے اور کیوں تو اسے شہروں میں لیے پھرے۔ اس پر عورت کے رشتہ داروں نے اونٹ کی مہار اس کے ہاتھ سے چھین لی اور کہتی ہیں کہ مجھے پکڑ لیا اور اس صورتحال سے بنو عبد اسد بپھر گئے اور سلمہٰ کا رخ کیا اور کہنے لگے کہ ہم اپنے بیٹے کو اس کی ماں کے پاس نہیں رہنے دیں گے جبکہ تم نے اس کی بیوی کو شوہر سے چھین لیا ہے۔ چنانچہ ابوسلمہ کے اہل قبیلہ نے میرے بیٹے سلمہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ بیوی کو عورت کو اس کے میکے والے لے گئے اور اس عورت کے پاس جو بچہ تھا اس کو اس کا ددھیال لے گیا۔ کہتی ہیں مجھے میرے قبیلے والے نے قابو کر لیا اور میرا شوہر ابوسلمہ مجھے چھوڑ کر مدینہ چلا گیا اور اس طرح ہم تینوں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ کہتی ہیں میری یہ حالت تھی کہ میں روزانہ صبح اٹھ کر ابطح کے مقام پر آ جاتی اور شام تک وہاں بیٹھی روتی رہتی۔ کم و بیش ایک سال اسی حال میں گزر گیا تاآنکہ ایک دن ایک شخص جس کا تعلق بنی مغیرہ سے تھا وہاں سے گزرا اور اسے میری حالت پر رحم آ گیا۔ اس نے میرے قبیلے سے کہا۔ کیا تم اس بے بس عورت کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہو۔ تم نے اسے خاوند اور بیٹے ہر دو سے جدا کر دیا چنانچہ میرے اہل قبیلہ نے اجازت دے دی اور کہا کہ اگر تم چاہتی ہو تو اپنے شوہر کے پاس جا سکتی ہو۔ اسی دوران میں بنوعبدالاسد نے میرا بیٹا بھی مجھے لوٹا دیا۔ میں نے اونٹ کا بندوبست کیا بیٹے کو گود میں لیا اور اپنے شوہر کے تعاقب میں چل دی۔ میں بالکل اکیلی تھی اور کوئی رفیق سفر نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا اللہ کرے کہ مجھے کوئی رفیق سفر مل جائے تا کہ میں اپنے شوہر تک پہنچ جاؤں۔جب میں تنعیم میں پہنچی تو اتفاق سے میری ملاقات عثمان بن طلحہ بن ابو طلحہ سے ہو گئی جو بنو عبدالدار کا بھائی تھا۔انہوں نے کہا ابو امیہ کی بیٹی کہاں جا رہی ہو۔ میں نے کہا اپنے شوہر کے پاس مدینہ جا رہی ہوں۔ پوچھا کیا کوئی تمہارا رفیق سفر کوئی ہے تمہارے ساتھ۔ میں نے کہا سوائے اللہ اور اس بچے کے اور کوئی بھی نہیں۔ اس نے کہا پھر تمہاری کوئی منزل نہیں۔ اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور مجھے لے کر روانہ ہو پڑا۔ اللہ کی قسم میں نے عرب بھر میں ایسا شریف النفس کوئی انسان نہیں دیکھا۔ خاموشی سے اونٹ کی مہار پکڑ کے چلنے لگ گیا سفر میں۔ جب منزل پر پہنچتا تو اونٹ کو بٹھاتا اور خود ایک طرف ہو کر درخت کے نیچے جا کر لیٹ جاتا۔ پھر جب کوچ کا وقت آتا تو اونٹ کے پاس آ کر کجاوہ رکھتا اور ہٹ کر ایک طرف کو کھڑا ہو جاتا اور مجھے کہتا کہ سوار ہو جاؤ۔ جب میں سوار ہو چکتی اور اونٹ پر جم کر بیٹھ جاتی تو عثمان بن طلحہ آتا اور اونٹ کی مہار پکڑ کر چل پڑتا اور جب منزل آتی پھر ٹھہر جاتا۔ وہ اسی طریقے سے چلتا آیا یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔ جب اس نے عمرو بن عوف کی بستی قبا دیکھی تو کہنے لگا کہ تیرا خاوند یہیں ٹھہرا ہوگا اور فی الواقعہ ابوسلمہ وہیں ٹھہرے ہوئے تھے چنانچہ اللہ کا نام لے کر میں اس بستی میں اتر پڑی اور عثمان بن طلحہ وہاں سے مکہ لوٹ گیا۔ وہ اکثر کہا کرتا کہ میں نے کوئی ایسا خاندان نہیں دیکھا جسے قبول اسلام کے بعد اتنی تکالیف پیش آئی ہوں جتنی کہ ابو سلمہ کے خاندان کو پیش آئیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
کیا یہاں آپ میں سے بہت ساری عورتیں دین کی خاطر یہاں آئی ہیں۔ کیا آپ کو کبھی ایسی مشکلات پیش آئی ہیں۔ یہ سفر انہوں نے دین کی خاطر کیا تھا اور آپ نے بھی یہاں آنے کا سفر دین کی خاطر کیا ہے۔ باوجود عہد دہرانے کے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا اس عہد کی ہم پابندی کر رہی ہیں۔ اسی طرح مرد کا نمونہ بھی ہے۔ بڑا اعلیٰ معیار قائم کیا اس نے اپنی شرافت کا حالانکہ مسلمان نہیں تھا اور اسی طرح ہر مرد کو عورت کی عزت اور تقدس کا خیال رکھنا چاہیے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
خاوند کی قربانی پر صبر دکھانے کے ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے۔ ام اسحاق غنویہ بیان کرتی ہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئیں۔ ابھی تھوڑا سا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ان کے بھائی نے کہا کہ وہ اپنا زاد راہ مکہ میں ہی بھول آیا ہے۔ بہن سے کہا کہ وہ یہاں بیٹھ کر انتظار کریں تا کہ وہ اپنا زاد سفر لے آئے۔ بہن نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میرا فاسق خاوند تجھے آنے نہیں دے گا۔ بھائی نے تسلی دی اور زاد سفر لینے چلا گیا۔ مجھے وہاں بیٹھے کہتی ہیں کئی دن گزر گئے لیکن بھائی نہیں آیا۔ اتفاقاً ایک دن وہاں سے ایک آدمی جسے میں جانتی تھی گزرا اس نے وہاں بیٹھنے کی وجہ پوچھی اور میں نے بتائی تو اس نے مجھے بتایا کہ تیرے بھائی کو تیرے خاوند نے قتل کر دیا ہے۔ ام اسحاق غنویہ فرماتی ہیں کہ میں انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتی ہوئی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور آگے سفر شروع کر دیا۔ بھائی کی لاش پر جس نے اسلام کی خاطر قربانی کی تھی صبر دکھانے کے ایک واقعہ کا یوں ذکر ملتا ہے حضرت صفیہ نے حضرت زبیر کے ساتھ ہجرت کی۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں نے شکست کھائی تو وہ مدینہ سے نکلیں۔ صحابہ سے عتاب آمیز لہجہ میں کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چل دیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آتے ہوئے دیکھا تو حضرت زبیر کو بلا کر ارشاد کیا کہ حمزہ کی لاش نہ دیکھنے پائیں۔ کافروں نے ان کی لاش کا۔ بہت برا حال کیا ہوا ہے۔ صدمہ ہو گا بہت زیادہ۔ حضرت زبیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی کا سارا ماجرہ سن چکی ہوں۔ کافروں نے جو کچھ کیا ہےسب کچھ مجھے پتہ ہے لیکن خدا کی راہ میں یہ کوئی بڑی قربانی نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لاش دیکھنے کی اجازت دے دی۔وہ لاش پر گئیں خون کا جوش تھا اور عزیز بھائی کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہوئے تھے لیکن انا للہ وانا الیہ راجعون۔کہہ کر چپ ہو گئیں اور مغفرت کی دعا مانگی۔
ایک نوجوان لڑکی کی ایمانداری اور اللہ تعالیٰ کے خوف کا ایک اعلیٰ معیار تھا اس بارے میں ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت اسلم سے مروی ہے جو حضرت فاروق کے آزاد کردہ تھے کہ بعض راتوں میں سے ایک رات میں امیر المومنین کے ساتھ مدینہ کے اطراف میں پھر رہا تھا۔ آپ نے ایک گھڑی کے لیے استراحت کی غرض سے ایک دیوار کی جانب سہارا لیا۔ آپ نے سنا کہ ایک بڑھیا اپنی بیٹی سے کہہ رہی ہیں کہ اٹھ دودھ میں پانی ملا دے۔ لڑکی نے کہا آپ جانتی نہیں کہ امیر المومنین کے منادی نے یہ اعلان کیا ہے کہ زیادہ کرنے کے لیے دودھ میں پانی نہ ملایا جائے۔ ماں نے کہا کہ نہ اس وقت امیر المومنین موجود ہیں اور نہ اس کا منادی۔ بندوں میں سے کوئی دیکھ نہیں رہا۔ لڑکی نے کہا کہ خدا کی قسم یہ بات تو ہمارے لیے مناسب نہیں ہے۔ سامنے تو ہم ان کی اطاعت کریں اور خلوت میں نافرمانی کریں۔ یہ تھے لڑکیوں کے معیار کہ صرف سامنے اطاعت نہیں کرنی۔ اگر حکم ہے اگر دین کو قبول کیا ہے تو پھر خلیفہ وقت کی باتوں کی ہمیشہ اطاعت کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا اے اسلم اس مکان پر نشان لگا دے۔ آپ دیوار کے کنارے بیٹھے سن رہے تھے۔ دوسرے دن آپ نے کسی کو بھیجا اور اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم سے کر دیا کہ ایسی نیک لڑکی جو اتنا خیال رکھتی ہے ایمانداری کا کہ خدا دیکھ رہا ہے ہمیں اس لیے ہم نے کوئی برائی نہیں کرنی۔ اس کی عاصم سے شادی کر دی اور پھر ان کی اولاد بھی ہوئی اور یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنی زینت چھپانے اور پردے کا حکم دیا ہے اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ابھی تلاوت میں بھی آپ نے سنا ہے۔ اسی طرح اپنا حسن چھپانے کے لیے غیر مردوں کے سامنے نہ آنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ یہ تفصیل سورت نور کی آیت بتیس میں ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ عورت کو قید کر کے ہر نعمت سے محروم کر دیا جائے۔ جس طرح آجکل کے طالبان میں یہ مثال ہمیں نظر آتی ہے۔ اس آیت کی تفسیر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے جو کی ہے لکھا ہے کہ
اسلام ہر گز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں اور نہ ابتدائے اسلام میں مسلمان عورتیں ایسا کرتی تھیں بلکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ سننے آتی تھیں۔ جنگوں میں شامل ہوتی تھیں زخمیوں کی مرہم پٹیاں کرتی تھیںسواری کرتی تھیں مردوں سے علوم سیکھتی اور سکھاتی تھیں۔ مردوں سے علم سیکھتی بھی تھیں اور ان کو سکھاتی بھی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپ مردوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں بلکہ خود ایک دفعہ آپ نے کمان کی۔ لڑائی بھی کی۔ غرض ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی صرف اس امر کا ان کو حکم تھا کہ اپنا سر، گردن اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں ان کو ڈھانپے رکھیں تاکہ وہ راستے جو گناہ کرتے ہیں بند رہیں اور اگر اس سے زیادہ احتیاط کر سکیںتو نقاب اوڑھ لیں لیکن یہ کہ گھروں میں بند رہیں اور تمام علمی اور تربیتی کاموں سے الگ رہیں یہ نہ اسلام کی تعلیم ہے اور نہ اس پر پہلے کبھی عمل ہو اہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ آپ امن کے زمانہ میں صحابہ کرام سے ہمیشہ دوستانہ مقابلہ کروایا کرتے تھے جن میں تیر انداز ی اور دوسرے فنون حرب اور قوت و طاقت کے مظاہر ے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ اسی قسم کے کھیل آپ نے مسجد میں بھی کروائے اور حضرت عائشہ سے فرمایا کہ اگر دیکھنا چاہو تو میرے پیچھے کھڑے ہو کر کندھوں کے اوپر سے دیکھ لو۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے تمام جنگی کرتب دیکھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو فنونِ حرب سے واقف رکھنا بھی ضروری قرار دیتا ہے۔ جنگی حربے استعمال کرنا سکھانا یہ بھی عورت کے لیے جائز ہے تاکہ وقت پر وہ اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کر سکے۔ اگر اس کا دل تلوار کی چمک سے کانپ جاتا ہے یا بندوق اور توپ کی آواز سن کر خشک ہو جاتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو خوشی سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ دلیری سے خود ملک کے دفاع میں حصہ لے سکتی ہے۔ ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی تباہی صرف عورت کی بزدلی اور مرد کی بے جا محبت کی وجہ سے ہوئی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہاں اس ضمن میں یہ بھی وضاحت کر دوں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے کہا تھا کہ برقع پہننا اور نقاب لینا تو اسلام کا حکم نہیں ہے لیکن اسلام کا حکم چادر لینا ہے۔ یہ نہیں کہ صرف سر پر ہلکا سا سکارف لے لیا اور عام کپڑے پہن کے باہر نکل گئے۔ نہیں بلکہ حکم یہ ہے کپڑوں کے اوپر تم نے چادر اوڑھنی ہے جس سے سر بھی ڈھکا ہو اور چہرے کا بھی کچھ حصہ ڈھکا ہو اور سینہ بھی ڈھکا ہو۔ یہ حکم ہے اور اس کے ساتھ پھر آزادی ہے کہ ٹھیک ہے تم باہر نکل کے سارے کام کرو۔ یہ نہیں کہ پردہ چھوڑ دو اور کہہ دو کہ میں نے کہہ دیا تھا کہ جی برقع لینا ضروری نہیں ہے اس لیے ہلکا سا سکارف سر پہ لیا اور جائز ہو گیا۔ اس بات کی بھی وضاحت ہونی چاہیے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ساس بہو کی مثالیں بہت دی جاتی ہیں۔ عموماً ساس بہو کے تعلقات مکمل طور پر پیار اور محبت کے نہ ہونے کی باتیں سامنے آتی ہیں تاہم ایسی مثالیں بھی ہیں اور آج بھی ایسی مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں جو آپس کے بڑے اچھے تعلقات ہیں لیکن اس کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں تاریخ اسلام میں حضرت فاطمہ کی ملتی ہے۔ حضرت فاطمہ بنت اسد جو حضرت علی کی والدہ تھیں حضرت علی کی والدہ کا نام بھی فاطمہ تھا اور حضرت فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ساس تھیں یہ۔ حضرت فاطمہ اپنی ساس کو حقیقی ماں تصور کرتی تھیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں۔ حضرت فاطمہ جب گھریلو امور سے فراغت پاتیں تو ان کی ضروریات کی تکمیل کرتیں۔ انہیں زیادہ کام نہ کرنے دیتیں ان کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتیں۔ انکے کپڑے دھوتیں۔ انہیں کھانا کھلاتیں۔ ان کا بستر صاف کرتی اور بچھاتیں اور اگر کوئی کام ان کے ذمہ ہوتا تو اس میں بھی ان کی مدد کرتیں۔ حضرت علی کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کا خود بیان یہ ہے کہ جس قدر میری خدمت فاطمہ نے کی شاید ہی کسی بہو نے اپنی ساس کی اتنی خدمت کی ہو گی۔ انہوں نے مزید بیان کیا کہ میری بہو جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہے بہت زیادہ خدمت گزار ہے اور مجھے حقیقی ماں تصور کرتی ہے۔ اب یہ تو ساس بہو کی خدمت کا واقعہ ہے۔
مردوں کا کام یہ ہے کہ باہر جائیں اور کمائی کریں اور باہر کے معاملات سنبھالیں۔ یہاں بعض دفعہ یہ سوال اٹھ جاتے ہیں کہ ہم نے دو گھنٹے کام کیا تو چار گھنٹے مرد بھی کام کرے، دو گھنٹے عورت بھی کام کرے۔ یہ چیزیں غلط ہیں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور جب ذمہ داریوں کا احساس ہو گا تو تبھی گھریلو امن قائم ہو گا اور آپس کے تعلقات بہتر ہوں گے اور بچوں کی صحیح تربیت ہو گی۔ مسلمان عورتوں کی جرأت و بہادری کے بھی بہت سے واقعات تاریخ میں ملتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خولہ بنت ازور،حضرت ہند بنت عمرو اور حضرت ام عمارہ کی جرأت و شجاعت کےواقعات کا ذکر فرمایا۔
آخر پر حضور نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود نے ان عورتوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں ذکر کیا کہ
ایک عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ کیا مرد ہم سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیںکہ وہ جہاد میں شامل ہوں اور ہم شامل نہ ہوں۔ ہم بھی جہاد میں شامل ہوا کریں گی۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ عورت ایک جنگ میں شریک ہوئی اور جب مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو اس کو بھی باقاعدہ طور پر حصہ دیا گیا۔ بعض صحا بہ نے کہا کہ اِس کو حصہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اِس کو بھی حصہ دیا جائے گا۔ چنانچہ اس عورت کو حصہ دیا گیا پھر آپ کی یہ سنت ہو گئی کہ جب مرد جہاد پر جاتے تھے تو مرہم پٹی کے لیے عورتیں بھی ساتھ چلی جاتی تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدکی جنگوں میں بھی عورتیں شامل ہوتی رہیں اور بعض جنگوں میں عورتوں نے کمان بھی کی۔ آپ نے حضرت عائشہ کی مثال دی ہے کہ وہ کمان کر رہی تھیں قطع نظر اس کے کہ اس وقت کون صحیح تھا اور کون غلط لیکن بہرحال حضرت عائشہ کو فنون حرب سے واقفیت تھی تبھی کمان کی اور بعد میں پھر بہرحال آپ کو یہ احساس بھی ہو گیا تھا کہ یہ جنگ غلط ہو رہی ہے اس لیے آپ نے صلح کے لیے بھی جھنڈا بلند کر دیا تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تو بہرحال اس زمانے میں عورتیں فنون جنگ سے بھی واقف تھیں۔ ہر کام سیکھا کرتی تھیں اور بہادری تھی ان لوگوں میں۔ گھر میں نہیں بیٹھی رہا کرتی تھیں۔ اس زمانے کی جنگ قلم کا جہاد ہے لٹریچر کی تقسیم کا جہاد ہے تبلیغ کا جہاد ہے۔ پس عورتوں کا کام ہے کہ تبلیغ میں بھرپور حصہ لیں اور اس روحانی ہتھیار سے لیس ہوں جو تبلیغ کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کریم کا علم حاصل کریں۔ دینی علم حاصل کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے علم حاصل کریں حدیث سے علم حاصل کریں اور اپنے اعلیٰ نمونے دکھا کر اپنی حالتوں کو اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں تبھی اسلام کی خدمت کر سکیں گی۔ پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ صرف دنیا کے پیچھے چلنا ہے ہم نے یا ہم نے اپنے عہد کو بھی پورا کرنا ہے اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں کجا یہ کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپ کہیں کہ ہم یہ کیوں کریں اور وہ کیوں کریں۔ قربانیاں کریں۔ اپنی حیا کا خیال رکھیں اپنے لباس کا خیال رکھیں۔ دین کی تعلیم کا خیال رکھیں اور اپنے عہدوں کو نبھانے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں اور اس میں کسی کمپلیکس میں کسی احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے ہمیں یہ دنیادار کیا کہیں گے۔ ہم نے ان دنیاداروں کو اپنے پیچھے چلانا ہے اور اپنی مثالوں سے ان شاء اللہ تعالیٰ اس ملک میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔
حضور انور کا یہ خطاب ایک بج کر چالیس منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔
حضور انور کے خطاب کا مکمل متن حسب طریق علیحدہ شائع ہوگا۔
بعد ازاں لجنہ کے مختلف گروپس نے جرمن، اردو، ترکی، اور میسیڈونیا کی زبان میں ترانے اور دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ غانا سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اپنی زبان میں ترانے پیش کیے اور کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اپنی مخصوص طرز پر ورد کیا۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لیے خواتین کے اُس ہال میں تشریف لے گئے جو چھوٹے بچوں والی خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو اپنے درمیان میں پاکر بچوں اور ان کی مائوں کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ خواتین نے اپنے پیارے آقا کا دیدار کیا۔
بعد ازاں دو بج کر پندرہ منٹ پر حضور انور نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق چار بج کر پینتالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے۔ اور درج ذیل چھ مہمانوں نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔
MARKUS GRÜBEL (ممبر قومی اسمبلی)
(موصوف قومی اسمبلی میں احمدیہ گروپ کے کوآرڈینیٹر ہیں)
THOMAS BAREIB۔ممبر قومی اسمبلی
MICHAEL DONTH۔ممبر قومی اسمبلی
SANDRA BOSER اسٹیٹ سیکرٹری وزارت تعلیم، سپورٹس، نوجوانان
MARTINA HAUSLER۔ممبر صوبائی اسمبلی
THOMAS PORESKI۔ممبر صوبائی اسمبلی
حضور انور نے فرمایا۔ امید ہے پاکستان کے حالات کے بارہ میں آپ کو پتا ہوگا۔ وہاں ہم SURVIVE کر رہے ہیں۔ لیکن مشکلات ہیں۔ اس لیے ہمارے بہت سے لوگ یہاں جرمنی آئے ہیں۔ ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ان آنے والوں کو جگہ دی ہے۔
انٹیگریشن کے حوالہ سے بات ہوئی تو حضور انور نے فرمایا کہ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ اچھے انداز میں معاشرے میں انٹیگریٹ کریں۔ یہاں کی انتظامیہ کہتی ہے کہ زبان آنی چاہیے۔ زبان سیکھنے میں وقت لگتا ہے اور ہمارے احمدی احباب سیکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
ایک مہمان نے مخالفت کے بارہ میں پوچھا تو اس پر حضور انور نے فرمایا جب تک ہمارے مخالف قانون موجود ہے اور مولوی کا فری ہینڈ ہے اُس وقت تک حالات بہتر ہونا مشکل ہیں۔
اس سوال پر کہ یوکے حکومت سے کیسے تعلقات ہیں حضور انور نے فرمایا ہمارے ہرکسی سے اچھے تعلقات ہیں۔ یہ نہیں کہ ہم کسی پارٹی کے ساتھ شامل ہیں۔ یوکے میں لبرل ڈیموکریٹ کا لیڈر میرا ذاتی دوست ہے لیکن ہر پارٹی کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا جرمنی کے علاوہ مختلف ملکوں میں احمدی ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ہم آرگنائزڈ اور منظم ہیں اور ہر احمدی ایک ہاتھ کے تحت ہے۔ میرا خطبہ MTAپر ہرہفتہ مختلف زبانوں میں نشر ہوتا ہے۔ ہر احمدی خواہ وہ افریقہ میں ہو، یورپ میں ہو، ایشیا میں ہو، یا امریکہ میں ہو کسی جگہ ہو اس کو ایک ہی پیغام پہنچتا ہے۔
کسی سیاسی پارٹی سے تعلق کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا یہ ہر احمدی کا ذاتی فیصلہ ہے کہ وہ کس پارٹی کو پسند کرتا ہے۔ یہاں جرمنی میں کچھ احمدیSDU، کچھ SPD اور کچھ گرین پارٹی کو پسند کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے بالکل آزاد ہیں۔
پروگرام کے مطابق پانچ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزجرمن اور دوسری مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کے لیے کانفرنس ہال میں تشریف لائے۔
اس پروگرام میں شامل ہونے والے مہمانوں کی تعداد ۸۸۰ تھی۔ جرمنی کے مختلف شہروں سے آنے والے مہمانوں کی تعداد ۱۹۰ تھی۔ جب کہ جرمنی کے علاوہ دوسرے یورپین ممالک البانیا، بوزنیا، میسیڈونیا، بلغاریہ، KOSOVO، ہنگری، رومانیہ، لتھوانیا، سربیا،کروشیا،ترکی، چیک ریپبلک، سلواکیہ، پولینڈ وغیرہ کے مہمانوں کی تعداد ۱۴۰ تھی۔
علاوہ رشین ممالک، افریقی ممالک اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے ۵۵۰ مہمان شامل تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم خواجہ عبد النور صاحب نے کی۔ بعد ازاں اس کا جرمن ترجمہ پیش کیا۔
اس کے بعد پانچ بج کر بارہ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
حضور انور کا تبلیغی مہمانان سے خطاب
تشہد و تعوذ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تمام معزز مہمانانِ کرام۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ سب سے پہلے، میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ہماری جماعت کے ممبر نہ ہونے کے باوجود ہماری دعوت قبول کی اور جلسہ سالانہ میں شرکت کی۔ اسلام کے بارے میں جاننے میں آپ کی دلچسپی اور اس مذہبی تقریب میں شرکت آپ کے کھلے دل اور رواداری کی عکاس ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج، میں اسلام کے خلاف عام طور پر لگائے جانے والے بعض اہم اعتراضات کا مختصراً ذکر کرنا چاہتا ہوں اور ان کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ مثال کے طور پر، یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات انتہا پسندانہ ہیں اور مسلمانوں کو ممالک فتح کرنے یا دوسرے مذاہب اور عقائد کو جبراً ختم کرنے اور تشدد کا استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کو حقیر سمجھتے ہیں اور اسلام انسانی اقدار کو ترجیح نہیں دیتا یا معاشرہ کے بعض طبقات کو، خاص طور پر خواتین کو، مساوی حقوق نہیں دیتا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ میں نے کہا، اسلام کے خلاف ایک اہم الزام یہ ہے کہ یہ تلوار سے پھیلایا گیا تھا اور مسلمانوں کو دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو زبر دستی پیغام قبول کرانے کےلیے تشدد کے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن مجید، جو تمام اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے، اسلام کی تبلیغ کے حوالے سے کیا کہتا ہے۔ چنانچہ سورہ یونس آیت ۱۰۰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اگر تیرا ربّ چاہتا تو جو بھی زمین میں بستے ہیں اکٹھے سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تُو لوگوں کو مجبور کرسکتا ہے۔ حتی کہ وہ ایمان لانے والے ہو جائیں۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگراللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر سکتا تھا، تاہم اس نے انسانوں کو خود فیصلہ کرنے کی آزادی دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اللہ نے انسانوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا، تو یہ ممکن نہیں کہ آنحضرت ﷺ یا ان کے سچے پیروکار آزادیٔ عقیدہ کے اصول کی خلاف ورزی کریں۔ یہ ایک آیت ہی ثابت کردیتی ہے کہ اسلام مذہبی معاملات میں زور اور زبردستی کی اجازت نہیں دیتا اور ہر شخص اپنا راستہ خود چننے کے لیے آزاد ہے۔
اسی طرح، قرآن مجید کی سورہ کہف کی آیت ۳۰ میں آتا ہے کہ، ’’ اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔‘‘ جہاں یہ آیتِ کریمہ اسلام کو سچا الٰہی مذہب ہونے اور انسانیت کی نجات کا ذریعہ قرار دیتی ہے وہاں یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ہر شخص اپنی تعلیمات کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اسلام مسلمانوں کو تلواروں، بموں یا بندوقوں کی نفرت آمیزاور خوفناک طاقت کے ذریعے اپنے ایمان کو زبردستی پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ انہیں عقل، دلائل اور پیار کے ذریعے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو فتح کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
سب سے بڑھ کر اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمام بنی نوع کےلیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں اور مختلف عقائد ہونے کے باوجود معاشرہ کی بنیادباہمی احترام اور رواداری پر ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ بارہا مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کریں، حتیٰ کہ روزمرہ کے معمولی کاموں میں بھی اعلیٰ اخلاق ظاہر کریں۔
اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمان نرم دلی کو صرف اپنے پیاروں یا دیگر مسلمانوں تک محدود کریں۔ اس کے برعکس قرآن مجید مسلمانوں کو ہر ایک کے ساتھ انصاف، خیرسگالی اور شفقت سے پیش آنے کی ہدایت کرتا ہے۔ مثلاً قرآن مجید سورہ مائدہ کی آیت 9 میںسچائی اور دیانت کا ابدی اور شاندار معیار قائم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔’ پھر آگے اس آیتِ کریمہ میں فرمان ہے کہ، ‘‘ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ ‘‘
یہ آیتِ کریمہ اسلام کے بیان کردہ نظامِ عدل کا اعلیٰ معیار بیان کرتی ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ برا سلوک بھی کرے یا ظلم کرے، تو پھر بھی یہ ظلم آپ کو ہر گز غیر متناسب بدلہ لینے یا ردِ عمل دکھانے پر مجبور نہ کرے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تاریخ بھری پڑی ہے کہ جنگوں اور تنازعات نے معاشرے کواپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے اور یہ افسوسناک رجحان آج بھی جاری ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انصاف کے ایسے عظیم معیار بین الاقوامی تعلقات میں یا جنگ سے متاثرہ ملکوں، چاہے ان کی حکومتیں سیکولر ہوں یا مذہبی ہوں، وہاں اپنائے جارہے ہیں؟ اس کا سادہ جواب ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ صرف اسلام ہی ہے جہاں ہم کامل انصاف کے ایسے واضح اور بے مثال اصول پاتے ہیں۔ اور یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ دورِ جدید کی مسلمان حکومتیں بھی اس اسلامی معیار کے مطابق حکومت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ایک اوراعتراض جو بارہا دہرایا جاتا ہے یہ ہے کہ اسلام جنگ وجدل اور خون خرابہ کا مذہب ہے۔ اس سلسلے میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی مسلمانوں کو لڑنے یا ہتھیار اٹھانے کی کھلی اجازت نہیں دی ہے۔ جہاں قرآن مجید نے جنگ کی اجازت دی ہے وہ صرف انتہائی حالات میں اور سخت شرائط اور پابندیوں کے ساتھ ہے۔ بلاشبہ، اگر کوئی اسلام کے ابتدائی دور کو غیر جانبدار نظر سے دیکھے تو وہ دیکھے گا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے جو جنگیں لڑی تھیں وہ مکمل طور پر دفاعی نوعیت کی تھیں۔ اپنےآبائی شہر مکہ میں غیر مسلموں کے ہاتھوں ناقابل تصور سفاکی اور مسلسل ظلم و ستم کو صبر و تحمل سے سالہا سال برداشت کرنے کے بعد، پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ اور ان کے ساتھی عرب کے ایک شہر مدینہ ہجرت کر گئے۔ تاہم، ہجرت کے بعد بھی وہ امن سے نہیں رہ سکے کیونکہ مکہ کی فوج نے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کو مارنے اور اسلام کو یکسر ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے ارادہ سے ان کا پیچھا کیا۔ ان انتہائی حالات میں، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دفاعی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ یہ اجازت قرآن مجید کی سورہ حج کی آیات ۴۰ اور ۴۱ میں بیان کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے، ’’ اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیے گئے۔ اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (یعنی) وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقیناً اللہ ضرور اُس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔‘‘
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ آیات اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کو صرف اسلام کے تحفظ کے لیے لڑنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ مکہ والوں کا اصل مقصد تمام مذاہب کو ختم کرنا اور تمام عبادت گاہوں کو منہدم کرنا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آزادی ضمیر اور عقیدے کی آزادی کے عالمگیر اصول قائم کرنے کے لیے لڑنے کا حکم دیا۔ دراصل، اسلام کی تعلیمات کے مطابق، اگر کبھی بھی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے مذہبی آزادی کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنانے کے لیے مسلمانوں کی مدد طلب کی تو مسلمانوں کو ان کی حمایت کرنی چاہیے۔ اگر یہ اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں، تو آپ کا یہ سوال بجا ہو گا کہ ’حالیہ برسوں میں دہشت گردوں نے اسلام کے نام پر خوفناک حملے کیوں کیے؟‘ اس کا جواب یہ ہے کہ قابلِ نفرت انتہا پسندوں یا جن کے بعض سیاسی مقاصد ہیں، انہوںنے قرآنِ کریم کی بعض آیات سے بالکل غلط نتائج اخذ کیے ہیں تاکہ اپنی شیطانی خواہشات اور مفادات کو پورا کریں۔ تاہم، اگر کوئی شخص ان آیات کے اصل متن کا غیرجانبدارانہ مطالعہ کرتا ہے، تو وہ دیکھے گا کہ اسلام کسی بھی قسم کے ظلم و ستم کی اجازت نہیں دیتا اور قرآن کریم یا اسلامی تعلیمات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ بلاشبہ، تمام آیاتِ قرآنی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلامی معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ایک اور اہم اصول قرآن مجید کی سورۃ النحل کی آیت ۹۱ میں بیان کیا گیا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے؛ ’ یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباءپر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حُکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔‘
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نہ صرف انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تمام لوگوں کے ساتھ، چاہے ان کا کوئی بھی مذہب ہو، محبت اور شفقت سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو بغیر کسی مفاد کے، دوسروں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ آیت مسلمانوں کو بغاوت یا ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے سے واضح طور پر منع کرتی ہے۔ اس تعلیم کے ہوتے ہوئے، ایک سچے مسلمان کا اپنے ملک یا لوگوں کے لیے خطرہ بن جانے کا کوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
اگلی ہی آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’اور تم اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد نہ توڑو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر کفیل بنا چکے ہو۔ اللہ یقیناً جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مسلمان کو کبھی بھی وعدہ خلافی یا عہد شکنی نہیں کرنی چاہیے۔ اپنی قسموں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اکثر مسلمان مہاجرین کی مغرب سے وفاداری اور اعتماد کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تاہم جرمنی میں یا کہیں بھی، مسلمان بطور شہری اپنے ممالک کے ساتھ وفاداری اور خلوص کا عہد کرتے ہیں اور قانون کی پابندی کا حلف اٹھاتے ہیں۔ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اس عہد کو نبھائیں، اپنے وطن کی خدمت کریں اور اس کی ترقی کے لیے کوشش کریں۔ آنحضرتﷺ کی ایک مشہور حدیث ہے کہ ’’ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ اس تعلیم کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ سچے مسلمان وفادار شہری نہ ہوں اور معاشرے میں انتشار کے بیج بونے والے ہوں۔ بلکہ اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنے وطن کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس سے بہتر انٹیگریشن کیا ہو گی کہ مسلمان تارکین وطن جو کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوئے، آج وہ اپنے اپنائے ہوئے نئے ملک کا خلوصِ دل سے حصہ ہیں اور اس کی خوشحالی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ نیز وہ ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کی بغاوت کو مسترد کرنے اور تمام غیر قانونی سرگرمیوں سے گریز کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اسلامی تعلیمات ایسی ہیں کہ مسلمان غیر مسلم ممالک میں انٹیگریٹ کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر مذہبی عقائد کی وجہ سے کوئی مسلمان شراب پینے سے پرہیز کرتا ہے، نائٹ کلبوں میں نہیں جاتا، شائستہ لباس پہنتا ہے یا ان چیزوں کا انکار کرتا ہے جو اس کے اخلاقی اقدار کے خلاف ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ انٹیگریٹ کرنے میں ناکام ہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ انٹیگریشن کا تقاضا ہے کہ ایک تارکِ وطن ہمیشہ اپنے اختیار کردہ ملک کی بہتری کے لیے کوشاں رہے، اس کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہے اور ایمانداری سے اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کی کوشش کرے۔ اس طرح کی انٹیگریشن اس بات کو یقینی بنائے گی کہ معاشرے کا تنوع کسی قسم کے تصادم پر منتج نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ معاشرے کو تقویت دینے کا ذریعہ بنے گا اور اس کے شہریوں کے مابین مضبوط اتحاد قائم ہوگا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلام میں معاشرے کی خدمت کرنے کے حوالے سے مسلمانوں پر ایک خاص ذمہ داری ہے کہ وہ ہر اس شخص کی مدد اور حفاظت کریں جو کسی بھی طرح سے غیر محفوظ ہے یا تکلیف میں ہے۔ مثال کے طور پر، قرآن کریم کی سورہ الذاریات، آیت ۲۰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’’اور ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور بے سوال ضرورت مندوں کے لیے ایک حق تھا۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک سچے مسلمان کی علامت یہ ہے کہ وہ خدا کی تمام مخلوق کی دیکھ بھال کرے اور ضرورت مندوں کی مدد کرے خواہ وہ ان کی مدد طلب کریں یا نہ کریں۔ مسلمانوں کو کسی سے مدد کی درخواست کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ معاشرے میں ان لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہیے جو پریشانی میں ہیں اور ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی مشکلات یا مصائب سے نکل سکیں۔ یہاں قرآن کریم کہتا ہے کہ کچھ جاندار بول نہیں سکتے یا اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کر سکتے، تو اس میں جانور بھی شامل ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام جانوروں کو پالنے یا ان سے محبت کرنے سے روکتا ہے لیکن یہ آیتِ کریمہ مسلمانوں کو ان جانوروں کی اچھی دیکھ بھال کرنے کی تلقین کرتی ہے جو ان کے زیرِ نگرانی ہوں۔ اسی طرح یہ آیت وائلڈلائف (جنگلی حیات) کے تحفظ اور ماحولیات کی حفاظت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسی طرح، قرآن مجید کی سورہ البلد کی آیت ۱۴ سے ۱۷ میں، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو معاشرے کے سب سے کمزور طبقہ کی حمایت کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور مسلمانوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائیں اور غریبوں کی مدد کریں۔ مسلمانوں کو ان لوگوں کی بھی مدد کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے جو تنہا ہیں اور ان کے پاس خاندان یا دوست احباب نہیں ہیں، جو ان کی مدد کرسکیں۔ اس کے علاوہ، یہ آیات مسلمانوں کو ان لاچار لوگوں کے لیے آزادی اور انصاف تلاش کرنے کا حکم دیتی ہیں جو غیر انسانی طور پر غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ یتیموں سے محبت سے پیش آئیں اور ان کے حقوق کا تحفظ کریں اور جو بھی محروم افراد ہیں، ان کی تسلی کے اسباب کریں۔ قرآنِ کریم کی ان روشن آیات میں تمام انسانیت کے لیے پیغام ہے کہ وہ معاشرے کے سب سے کمزور طبقہ کے حقوق ادا کریں اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کریں۔ در حقیقت، یہ آیاتِ کریمہ مسلمانوں کو دنیا سے ہر طرح کی غلامی، غربت اور محرومی کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتی ہیں۔ دراصل، قرآن ِ کریم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ روحانی ترقی کا ایک بنیادی ذریعہ خدمتِ انسانیت ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرآنِ کریم میں حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت پر روشنی ڈالنے والی اور بہت سی آیات ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۹ میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہر شخص مختلف ہے اور اس کا اپنا مطمحِ نظر اور ذاتی عزائم ہیں۔ تاہم، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں کا بنیادی مقصد نیکوکاری میں ترقی کرنا ہونا چاہیے اور بنی نوع انسان سے محبت اور حسنِ سلوک نیکوکاری کی بنیادی شرط ہے۔
پھر قرآنِ کریم کی سورۃ النساء کی آیت ۳۷ میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے محبت کا اظہار کرنے کی اہمیت کو دوبارہ بیان فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر، فرماتا ہے کہ لوگوں کو اپنے والدین کے ساتھ شفقت اور صبر سے پیش آنا چاہیے۔ یہ آیت رشتہ داروں، دوست احباب، غریبوں اور یتیموں کے حقوق کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ پھر اس آیت ِ کریمہ میں پڑوسیوں کے حقوق کی بھی وضاحت کی گئی ہے اور اسلام کے مطابق پڑوسی کی تعریف بہت وسیع ہے۔ گھر کے اردگرد چالیس گھروں تک رہنے والے افراد پڑوسی ہیں۔ پھر پڑوسی کی تعریف میں سفر میں شریک ساتھی، کام کی جگہ پر دیگر کام کرنے والے اور ماتحت بھی شامل ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے آس پاس کے ۴۰ گھروں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور ماتحتوں کے حقوق پورے کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ مکمل طور پر ہم آہنگ اور پرامن ہو جائے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرآن مجید کی سورۃ الحجرات کی آیت ۱۲ میں معاشرے میں امن قائم کرنے کا ایک اور اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ دوسری اقوام کی تذلیل یا تحقیر کرنا بالکل غلط ہے۔ دوسروں کی توہین کرنے سے یقینی طور پر نفرت پیدا ہوگی اور معاشرے کے امن کو نقصان پہنچے گا۔ حال ہی میں سویڈن میں بعض افراد نے قرآن مجید کی کاپیاں جلا ئیں اور اس ناپسندیدہ فعل کو سوشل میڈیا پر فخر سے پیش کیا۔ اسی طرح، کئی سال سے آنحضرتﷺ کے انتہائی توہین آمیز کارٹون شائع ہورہے ہیں۔ ایسے وحشیانہ اعمال کے خلاف ہمارا مؤقف صرف ان واقعات تک محدود نہیں جن میں اسلام یا مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بلکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کے مقدس افراد کی توہین کرنا قابل نفرت فعل ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔ ایسے اعمال بلا وجہ معصوم لوگوں کو اشتعال دلاتے اور انہیں تکلیف دیتے ہیں اور شدید غصے اور بغض کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ ایسے اعمال معاشرے میں امن اور یکجہتی کو کمزور کرنے کا باعث ہیں۔اسلام تعلیم دیتا ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا ہرطرح سے خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اپنی گزارشات ختم کرنے سے قبل میں اسلام میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ جب خواتین کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو یقینی طور پر اسلام کی تعلیمات کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خواتین کے حقوق سے انکار کرنے کی بجائے خواتین کے حقوق قائم کیے ہیں۔ اور یہ حقوق ان ممالک میں حقوق کی فراہمی سے صدیوں قبل قائم کیے، جو اب ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ایک ایسے دور میں جب خواتین کے حقوق کو قابلِ غور بھی نہیں سمجھا جاتا تھا، قرآنِ کریم اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے خواتین اور لڑکیوں کے بے شمار حقوق ہمیشہ کے لیے قائم فرما دیے، جن میں تعلیم، طلاق اور وراثت کا حق شامل ہے۔ ایک موقع پر آنحضرتﷺ نے عورت کوپسلی سے تشبیہ دی کہ وہ اس طرح نازک ہیں اور ان سے نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ اگر کوئی اس فرمان کا غور سے تجزیہ کرے تو وہ سمجھ جائے گا کہ اسلام میں عورت کو کتنا اعلیٰ مقام دیا گیا ہے۔ پسلی انسان کے اہم اعضاء کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے اور عورتوں کو اس سےتشبیہ دیتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ عورتیں انسانیت کی بقا کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آنحضرت ﷺ کی ایک مشہور حدیث ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ خواتین کو یہ منفرد اور بلند مقام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ ماں معاشرے کی اگلی نسل کی پرورش میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے اور اپنی اولاد کی خاطر بے پناہ قربانیاں دیتی ہے۔ اگر ایک عورت اپنے بچوں کے فرائض پوری طرح ادا کرتی ہے تو وہ بچے با اخلاق اور صالح افراد بن کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں گے۔ اس طرح ماں اپنی اولاد کے لیے اس دنیا میں ترقی اور کامیابی کا ذریعہ ہے اور انہیں ایسی راہ پر چلاتی ہے، جو آخرت میں جنت میں لے جانے والا راستہ ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت۲۰ میں عورتوں کے گھریلو حقوق قائم کیے گئے ہیں۔ یہ آیتِ کریمہ خاص طور پر مسلمان مردوں کو اپنی بیویوں سے پیار سے پیش آنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کی ہدایت کرتی ہے۔ یہ آیت اعلان کرتی ہے کہ عورتیں آزاد افراد ہیں اور کسی بھی مرد کے قبضے میں نہیں دی جاسکتیں۔ مالی معاملات کے حوالے سے، جو کچھ عورت کماتی ہے وہ اس کی اپنی کمائی ہے اور شوہر اس سے حصہ نہیں مانگ سکتا۔ طلاق کے حوالہ سے اسلام تعلیم دیتا ہے کہ ازدواجی زندگی میں جو کچھ بھی شوہروں نے انہیں دیا، وہ اپنے پاس رکھنے میں آزاد ہیں۔ آج کے دور میں، جب کوئی علیحدگی ہوتی ہےتو اکثر طویل اور تلخ تنازعات ہوتے ہیں کیونکہ مرد اپنی بیویوں کو جو کچھ دے چکے ہوتے ہیں، واپس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔
قرآن کریم میں سورہ نحل کی آیت ۷۳ میں عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی پھر سے تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مردوں کو اپنی بیویوں سے شفقت سے پیش آنا چاہیے اور ان کی عزت کرنی چاہیے جنہوں نے ان کی اولاد کو جنم دیا ہے۔ پھر سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۸ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے لیے لباس ہے اور شوہر اپنی بیوی کے لیے لباس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کا درجہ برابر ہے اور وہ ایک دوسرے کے لیے تحفظ کا ذریعہ ہیں۔ انہیں اپنے ساتھی کےلیے دکھ یا غم کا ذریعہ بننے کی بجائے ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے اور اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس مختصر وقت میں، میں نے اسلام کے قائم کردہ خواتین کے حقوق میں سے صرف چند کا ذکر کیا ہے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ یہ اعتراض کہ اسلام خواتین کے حقوق سلب کرتا ہے،بالکل بےبنیاد اور حقائق کے منافی ہے۔ درحقیقت اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ خواتین کے حقوق کا اسلامی تصور دراصل انقلابی تھا اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، اسلام پر بہت سے اعتراض کیے گئے ہیں، لیکن یہ سب بے بنیاد ہیں۔ یقیناًیہ غلط ہے کہ اسلام کو تشدد یا انتہا پسندی کے مذہب کے طور پر پیش کیا جائے یا یہ دعویٰ کیا جائے کہ اسلام کی اخلاقی اقدار کسی بھی طرح سے کمتر ہیں۔ یہ کہنا بالکل ناانصافی ہے کہ اسلام معاشرے میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام وہ مذہب ہے جو تمام مذاہب اور عقائد کے لوگوں کے مابین دوریاں ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو امن، محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔ دراصل لفظ ’اسلام‘ کا لفظی مطلب ہی امن ہے۔ اگر کوئی مسلمان دوسروں کے حقوق پورے نہیں کرتا تو اس میں اسلام یا اسکی تعلیمات کا کوئی قصور نہیں، بلکہ یہ ان کی اپنی ناکامی ہے۔ ایسے لوگ اپنے عقیدے کی تعلیمات کے خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ان الفاظ کے ساتھ، میں امید کرتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں آپ کے ذہنوں میں اگر کوئی خدشات تھے تو ان کا مناسب جواب مل گیاہوگا۔ لیکن اگر آپ میں سے کسی کو مزید وضاحت کی ضرورت ہو تو آپ ہمارے مربیان یا یہاں کے جماعتی مشن سے بات کرسکتے ہیں۔
آخر پر میں دعا کرتا ہوں کہ تمام بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہچان لیں اور تمام انسان آپس میں مذہبی عقائد سے قطع نظر امن اور باہمی احترام کی روح کے ساتھ رہیں۔ آمین۔ میں اس موقع پر آپ سب کا ایک بار پھر یہاں ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت شکریہ۔
حضور انور کا یہ خطاب پانچ بج کر پینتالیس منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی اور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
پروگرام کے مطابق سات بج کر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور ترکی (TURKEY) سے آئے ہوئے ایک پرنٹنگ کمپنی کے مالک MR. IHSAN ACAR نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف پایا۔ حال ہی میں ترکی سے جماعت نے جو قرآن کریم شائع کروایا ہے وہ انہی کے پریس سے شائع ہوا ہے۔
بعد ازاں تاجکستان کے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات پایا۔ پولینڈ، آسٹریا اور جرمنی وغیرہ سے ۳۰ تاجک احباب جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئے تھے۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ حضور انور کا خواتین سے خطاب بہت پسند آیا ہے حضور انور نے جو نصائح فرمائیں بہت اچھی لگیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا اب آپ سب لوگوں کو پیغام مل گیا ہے۔ اب آپ کو پتا لگ گیا ہے تو آپ سوچیں اور غور کریں۔ آنحضرت ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ جب تم امام مہدیؑ کو پائو تو اُسے میرا سلام پہنچائو خواہ تمہیں برف کے تودوں پر سے چل کر جانا پڑے۔ آپ کو دنیا سے نہیں ڈرنا چاہیے کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ ہم مسلمان ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے اس پر حضور انور نے فرمایا: مسلمان ہیں تو پھر آپ کو آنحضرت ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ آگے بڑھنا چاہیے ایک جگہ ٹھہر نہیں جانا چاہیے۔
ایک دوست محمد سعید رضائی صاحب نے عرض کیا کہ وہ جلسہ پر پہلی دفعہ آئے ہیں۔ تاجکستان کی آزادی کے بعد ہماری مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: کیا آزادی کے بعد اپنی مرضی سے عبادت کرنے کی اجازت ہے یا حکومت کے تابع کسی ایک فرقے کے پابند ہیں۔ حضور انور نے فرمایا جب حنفی مذہب کے مسلمان زیادہ ہیں تو پھر مذہبی آزادی کیوں نہیں ہے۔ پھر کیا مشکلات ہیں۔ اس پر مہمانوں نے عرض کیا کہ ہمیں سیاسی طور پر مشکلات ہیں۔ ساری طاقت حکومت کے ہاتھ میں ہے اور حکومت ہی ہر چیز کنٹرول کرتی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کی آزادیاں بحال کرے۔ ہمارے ساتھ بھی پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ سب اسلامی تعلیم کے خلاف ہے، مذہبی آزادی پر پابندیاں ہیں۔ یہ نہیں ہونی چاہئیں۔ حکومتیں جو دوسری بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہیں ان کا پھر یہی کہنا ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر پابندیاں لگائی جائیں۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور کی درازی عمر کے لیے دعا گو ہوں۔ اس وقت تاجکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے سب روس کی مدد سے ہورہا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا خدا تعالیٰ ان کو آزادی عطا فرمائے۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ خدا کے نزدیک محبوب وہی ہے جو اعلیٰ اخلاق والا ہے۔ ہمیں اعلیٰ اخلاق کی ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ میں اخلاق کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر میں دوسروں سے موازنہ کروں تو جوجماعت کے اخلاق والا رویہ ہے وہ جماعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا اور دوسروں کے لیے بھی نمونہ ہوگا۔ دوسری طرف جتنے بھی دینی، مذہبی گروہ میں ان کی ترجیحات میں اور چیزیں تو ہیں لیکن اخلاق نہیں ہیں۔
ایک دوست نے سوال کیا کہ دینی گروہوں کے جو آپس کے اختلافات ہیں اس میں جماعت احمدیہ کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: اس کے لیے تو ہم ساری دنیا میں کوشش کر رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھاکہ آئندہ زمانہ میں جب مسیح و مہدی آئے گا تو وہ ساری امت کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے گا۔ جو آنے والا تھا وہ توآچکا۔ ساری نشانیاں اور پیشگوئیاں پوری ہوگئیں۔ سورہ تکویر میںیہ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔ اسی طرح چاند سورج گرہن کی پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔
آپؑ کو الہام بھی ہوا تھا۔ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو علی دِین وَّاحد۔
تو ہم یہی کام کررہے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع ہونا چاہیے۔ جماعت یہ کام ہر جگہ کر رہی ہے۔لیکن ان باتوں پر وقت لگتا ہے۔ لیکن ان شاء اللہ ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے اور فتنہ وفساد کرنے والوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
حضور انور نے فرمایا ان شاء اللہ آپ کے ساتھ اور مجلس ہو گی۔ اب اس وقت ایک اور پروگرام میں بھی جانا ہے۔
آخر پر ایک دوست نے درخواست کرکے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوائی۔ اس کے بعد ایک اور دوست تصویر کے لیے آگئے۔بعد ازاں باری باری سب احباب اور فیملیز نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
تاجکستان سے آنے والے ان احباب میں سے بعض نے اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا۔
تاجکستان سے آنے والے مہمانان کے تاثرات
تاجکستان سے آنے والے وفد میں ایک دوست آرزو کریم صاحب بھی شامل تھے۔ یہ دوست عربی اور تاجک زبان پر بہت مہارت رکھتے ہیں اور جامعۃ الازہر سے تعلیم یافتہ ہیں۔بہت سی عربی کتب کا تاجک زبان میں ترجمہ بھی کرچکے ہیں اور کئی تاجک کتب کے مصنف بھی ہیں۔انہوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا:
میں نے جلسہ کو بہت غور سے سنا اور لوگوں کو دیکھا اور جماعت احمدیہ کے ان اوصاف کا ذکر کروںگا جو کہ اب دیگر دینی جماعتوں میں ختم ہو رہے ہیں اور وہ احمدیوں کے اعلیٰ اخلاق ہیں۔میں نے بہت سے اسلامی فرقوں پر تحقیق کی ہے۔اگر باقی سب فرقے اس وقت اسلام پر ایک فیصد عمل پیرا ہیں تو یہ جماعت اسلام کی تعلیمات پر ۹۹ فیصد عمل پیرا ہے۔ بک سٹالز پر مختلف زبانوں میں لٹریچر آپ کی تبلیغی کا وشوں کا ثبوت ہے۔میں آپ سے رابط رکھوں گا اور مزید جماعت کے بارہ میں جاننا چاہتا ہوں۔میں کسی سے ڈرتا نہیں ہوں سوائے ایک خدا کے۔آپ کے خلیفہ سے ملاقات اور بات کرنا میرے لیے بہت اعزاز ہےاور میں حضورکی اس بات سے اتفاق کروںگا کہ اصل کمزوری ہم لوگوں میں ہے اور ہم ہر وقت حکومت اور رجیم کو کوستے رہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ حضور سے پھر ملاقات ہوگی۔میں نے اپنے ساتھ دوستوں کو کہا ہے کہ اگرچہ یہ ایک اسلامی پروگرام ہے لیکن ہم اس سے انتظامی طور پر بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
تاجکستان کے وفد میں شامل ایک غیر از جماعت تاجک دوست ستور صاحب نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا
حضور سے ملاقات میں تاجکستان کے سیاسی مسائل اور دینی پابندیوں پر بہت سیر حاصل بات ہوئی۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ حضور کو ساری انسانیت کی بے تحاشا فکر ہے۔
مجھے یہاں آنے سے قبل جماعت احمدیہ کے بارہ میں بہت منفی خبریں دی گئی تھیں۔لیکن مجھے آپ کی جماعت سے بھائی چارہ اور انسانیت کا درس سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
ایک تاجک خاتون مزمہ خانم صاحبہ کہتی ہیں:
حضور سے ملاقات میں جو نصائح سنیں اس پر عمل کی کوشش کروںگی میں سمجھتی ہوں حضور کی باتیں صرف احمدی ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان عمل کر کے ایک اچھے معاشرے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔میں نے حضور کا عورتوں سے خطاب سنا اور مجھے لگا کہ حضور کو ہر طبقہ کی اصلاح کی بہت فکر ہے۔ایک چیز جو میں نے جلسہ میں نوٹ کی کہ عورتیں اپنا ہر کام خود کر رہی تھیں۔ اتنا بڑا پروگرام اور یہ سب انتظام عورتوں کا کر نا بہت ہی قابل ستائش ہے۔
تاجکستان کے مبلغ کہتےہیں:تاجکستان کے وفد میں ایک دوست غنیو صاحب بھی شامل تھے۔ یہ بہت معترض طبیعت کے تھے۔ جلسہ کےپہلے دو دن اعتراضات ہی کرتے رہے۔ ایک اعتراض کرتے جواب سنے بغیر ایک اور سوال کر دیتے۔ان کے اپنے دوستوں نے بھی کہا کہ ہمیں مشاہدہ کرنا چاہیے۔جلسہ کے دوسرے دن وفد کی حضور انور سے ملاقات تھی۔سب دوستوں نے ماسک پہنے تھے۔حضور انور نے بات کا آغاز ہی غنیو صاحب کی طرف اشارہ کرکے کیا اور کہا آپ کون ہیں ماسک پیچھے کریں اور اپنا تعارف کروائیں۔انہوں نے حضور انور سے کافی تفصیل سے باتیں کیں۔
ملاقات کے بعد غنیو صاحب بہت خوش تھے اور بار بار اس بات کا اظہار کرتے کہ میں حضور انور کی توجہ کے لیے شکر گزار ہوں اور حضور کے لیے درازی عمر اور جماعت کے لیے کامیابیوں کا خواہش مند ہوں۔
عجیب بات ہے ملاقات کے بعد دو دن تک انہوں نے کوئی بھی اعتراض نہیں کیا۔ یہ سب خدا کے فضل کے بغیر ناممکن ہے۔
مختلف ممالک سے آنے والے عرب احباب کا انتظام ایک علیحدہ ہال میں کیا گیا تھا۔ ان کی تعداد ۴۰۹ تھی۔
پروگرام کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ہال میں تشریف لے آئے اور ملاقات کا پروگرام شروع ہوا۔
حضور انور نے فرمایا کہ جو پہلی دفعہ آئے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ اس پر نئے آنے والوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے تو حضور انور نے ان کومخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے یہاں جلسہ میں کوئی غیر اسلامی چیز نہیں دیکھی۔ کچھ توقف کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ خاموشی ہے تو اس کا مطلب ہے نہیں دیکھی یا پھر بتانا نہیں چاہتے۔
حضور انور نے فرمایا خدا تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے آگے بڑھنے والے اور ترقی کرنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام جس غرض کے لیے آئے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا قیام تھا۔ آپؑ نے اس کی طرف توجہ دلائی۔ آپ سب بھی اس طرف توجہ کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہوں اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ خدا آ پ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس کے بعد ایک خاتون نے عرض کیا کہ میں نے حضور انور کی خدمت میں ایک خط بھیجا تھا۔ میری بیٹی کی شادی ایک سیرین لڑکے سے ہو رہی ہے۔ میرے پاس انگو ٹھیاں ہیں حضور انور تبرک کردیں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت یہ انگوٹھیاں اپنے دست مبارک میں لے کر تبرّ ک فرمائیں۔
ایک دوست نے سوال کیا کہ جب حضور خاموش دعا کرواتے ہیں تو اس میں کیا پڑھتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ اور درود شریف پڑھتا ہوں اس کے بعد موقع کے لحاظ سے دعائیں کرتا ہوں۔
بعد ازاں ایک دوست نے عرض کی کہ اپنے بھائی کے لیے دعا کی درخواست کرتا ہوں وہ اس وقت ترکی میں ہے۔ اس کے دو بیٹے ہیں ان کے نام حضور انور نے رکھے تھے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
سیریا سے تعلق رکھنے والے ایک نومبائع نے عرض کیا کہ میں نیا احمدی ہوں۔ دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: تعلق باللہ پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اپنا دینی علم بڑھائو خدا تعالیٰ آپ کو ایمان اور روحانیت میں بڑھاتا چلا جائے۔
ایک خاتون نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی قصیدہ کے اشعار پڑھنا چاہتی ہوں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا دو شعر پڑھ دو۔ چنانچہ موصوفہ نے دو شعر پڑھ کر سنائے۔
الجزائر سے تین مرد اور چار خواتین پر مشتمل وفد آیا تھا۔ ایک خاتون نے جماعت الجزائر کے لیے دعا کی درخواست کی کہ خدا تعالیٰ ہمیں تقویٰ میں بڑھائے۔ وہاں ہمیں شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ میں خود تین دفعہ مقدمات کی وجہ سے عدالت جا چکی ہوں۔ میں سکول میں پڑھاتی تھی۔ مجھے وہاں سے نکال دیا گیا۔ خدا تعالیٰ نے مجھے ایک دوسری ملازمت دے دی ہے۔ میرا خاوند اور بیٹی احمدی ہیں۔ بیٹا احمدی نہیں ہے۔ اس کے لیے دعا کریں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ہدایت عطا فرمائے۔
کینیڈا سے آنے والے ایک عرب دوست نے عرض کیا کہ میں ۳۰ سال سے احمدی ہوں اور کیلگری میں رہتا ہوں۔ میں یہاں صرف حضور کی زیارت کے لیے آیا ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ سیریا سے ہوں اور دو سال قبل بیعت کی تھی۔ دعا کریں کہ حضور کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے سکوں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا۔نیکی اور تقویٰ میں آگے بڑھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ایمان و یقین میں بڑھائے۔
ملاقات کا یہ پروگرام آٹھ بج کر ۵۵ منٹ تک جاری رہا۔ مختلف عرب ممالک سے آنے والے ان احباب میں سے بعض نے اپنے تاثرات کا اظہا رکیا۔
جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے بعض عرب احباب کے تاثرات
محمد علی صاحب جن کا تعلق سیریا سے ہے، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
احمدیت کا تعارف میرے ایک دوست کے ذریعے ہوا۔ میرا دوست مجھے جلسہ پر ساتھ لے آیا۔ میرا ارادہ تھا کہ دن گذار کر شام کو واپس گھر چلا جاؤں گا۔ گھر قریب ہی ہے۔ اور یہ جگہ آرام دہ نہیں ہے۔ لیکن جب میں نے ماحول اور تنظیم کو دیکھا۔ ہر شخص مسکراتا ہوا ایک دوسرے سے مل رہا ہے گویا کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہے۔ یہ ماحول میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تو میں نے اپنا ارادہ بدل لیا اور تین دن تک بخوشی جلسہ میں زمین پر سوتا رہا۔
خلیفہ کو دیکھنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ وہ ایک عام آدمی ہیں لیکن جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ پیار اور شفقت جو میں نے محسوس کی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ جلسہ کے دوسرے ہی دن احمدیت کی صداقت میرے دل میں گھر کر گئی۔ اور میں نے بیعت کرنے کا ارادہ کر لیا۔ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی۔
میں احمدیوں کے نظام کی پابندی، نظم و نسق کا خیال رکھنا اور عدم انتشار سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اور میں نے دیکھا کہ ہر کوئی اپنے فرائض کو جانتا ہے، چاہے منتظمین ہوں یا مہمان۔
عبد القادر ہلال عبد اللہ غسام جن كا تعلق يمن سے ہے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
میں نے چند ماہ قبل بیعت کی ہے اور میں پہلی بار جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ جلسہ میں حقیقی طور پر محبت، اخوت، تعاون کی روح، تالیف قلوب، برکت اور ترتیب و تنظیم نظر آئی۔کہتے ہیں کہ میں اس اجتماع کو عام جلسوں کی طرح خیال کر رہا تھا۔ لیکن یہاں آ کر جب میں نے ہزاروں لوگ اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کا احترام، اور محبت اور مساوات دیکھی تو یقین ہو گیا کہ یہ عام جلسوں کی طرح نہیں ہے۔
حضور کی موجودگی کی وجہ سے ماحول بہت روحانی تھا۔ ہر دل خوش اور مطمئن دکھائی دیا۔ تمام حاضرین میں آپس میں مساوات کی روح اور کسی سے کوئی نفرت نہیں دیکھی۔ جب امیر المومنین کا چہرہ مبارک دیکھا تو دل خوشی اور مسرت سے بھر گیا۔ اللہ تعالیٰ ہم کو خلیفہ کا حقیقی سلطان نصیر بنائے۔
عرب وفد کی ایک خاتون نوال کتان صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:
مجھے خلیفہ سے پہلی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔الحمد للہ رب العالمین۔ جماعت کے افراد کا خصوصی شکریہ جو شہد کے چھتے کی طرح شاندار اور منظم انداز میں کام کرتے ہیں۔میں نے امیر المومنین کے وژن میں اعلیٰ روحانیت کا ادراک محسوس کیا۔ اور اس میں خدا تعالیٰ کے صالح انبیاء کی بصیرت کو محسوس کیا، آپ حقیقی اسلام کے اعلیٰ ترین آئیڈیل ہیں۔میری خوش قسمتی تھی کہ یہ دعوت مجھ تک پہنچی، اور مجھے جماعت کے عقائد، کتابوں اور اس کی تعلیمات کے بارے میں آگاہی حاصل ہوئی۔ درحقیقت یہ جماعت حقیقی اسلام کی نمائندگی کرتی ہے اور جو کچھ قرآن پاک میں محبت اور احترام کی تعلیم بیان کی گئی ہے۔ اس کی اصل تصویر ہے۔
عبد الرحمٰن اسماعيل صاحب جن کا تعلق عرب وفد سے تھا کہتے ہیں:
جلسہ سالانہ میں میں پہلی بار شریک ہوا ہوں۔ دنیا بھر میں کوئی ایسا گروہ نہیں ہے جو ایسا کام کرتا ہو، حاضرین پوری دنیا سے شامل ہوئے۔ لیکن کسی قسم کا کوئی لڑائی جھگڑا نہیں دیکھا۔ بلکہ اس کے برعکس آپس میں پیار، محبت اور بھائی چارہ کی اعلیٰ مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
جلسہ میں شامل ہونے والوں کی بڑی تعداد کی توقع کی جارہی تھی۔ لیکن میرے خیال میں توقع سے بھی بڑھ کر تعدا د تھی اور اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ خلیفہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور قربت ہے۔
جب امیر المومنین عرب مہمانوں کی مجلس میں آئے تو میں نے سب کے چہروں پر خوشی اور سکون دیکھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے انہیں روحانیت میں بڑھایا ہے۔ آپ نے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔ہر جواب کے بعد شاملین کے چہروں پر سکون اور اطمینان محسوس کیا۔
ايك سيرين عرب مکرم محمد العکش صاحب اپنے خیالات کے اظہار میں بیان کرتے ہیں:
میرا یہ پہلا جلسہ تھا۔ میں نے اس ملاقات میں وہ سب کچھ پایا جس کا میں نے خواب دیکھا تھا۔ میں نے ایک ناقابل بیان راحت محسوس کی۔ مجھے لگا جیسے میرے سینے سے روشنی نکل رہی ہے۔ میں جانتا تھا کہ جماعت بہت منظم ہے۔لیکن جو کچھ میں نے دیکھا وہ میرے تصور سے بڑ ھ کر ہے۔ ایسا روحانی ماحول میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ ہر کام منظم انداز سے ہو رہا تھا۔ اور ہر چھوٹا بڑا اپنے کام میں مگن اور ہشاش بشاش نظر آتا تھا۔
ایک سیرین مہمان عادل بکور صاحب لکھتے ہیں:
میں پہلی بار جماعت احمدیہ کے جلسہ میں شریک ہوا۔ جلسہ بہت اچھا تھا۔ اور نظام بہترین تھا۔ جلسہ کا ماحول مکمل طور پر اسلامی اور روحانیت سے بھرپور تھا۔ خیر وبرکت سے کوئی چیز خالی نہیں تھی۔ تمام احمدی اور مہمان ہمارے ساتھ بہت اچھے اور مہمان نوازتھے۔ کھانا وغیرہ ہر وقت میسر تھا۔ جلسہ کے متعلق میں کوئی بھی منفی بات نہیں کر سکتا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر بہترین تھی۔ میری ذاتی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد میرا سینہ کھولے گا اور میں جماعت میں شامل ہو جاؤں گا۔ میں ہمیشہ آپ سے ہر سال ملنے اور حاضر ہونے کی امید کرتا ہوں۔
مكرم عبد الله عزت عقیلی صاحب كا تعلق مصرسے ہے اور آجكل فرانس میں فزكس میں ماسٹرز كررہے ہیں۔ وه جلسہ جرمنی کے تاثرات بیان کرتے ہوئے كہتے ہیں:
چونكہ فزكس میں ہر چیز كو شك كی نظر سے دیكھا جاتا ہے اس لیے ہر چیز میں شك كرنا میری طبیعت كا بھی حصہ بن گیا۔ گو میں نے بیعت تو بہت عرصہ پہلے كی تھی اور جماعت وخلافت كے ساتھ تعلق بھی تھا لیكن آہستہ آہستہ دیگر امور كے علاوه جماعت كے باره میں بھی شكو ك پیدا ہو گئے اور میں جماعت سے دور ہو نے لگا۔
امسال جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے كے لیے حاضر ہوا تو رجسٹریشن میں كچھ تاخیر ہو گئی اور میں جلسہ گاه اس وقت پہنچا جب حضور انور جمعہ كا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ جلسہ گاه میں داخل ہوتے ہی خطبہ كے جو الفاظ میرے كانوں میں پڑے وه یہ تھے كہ
’’اگر انسان ہر بات پر بدظنی کرنے لگے تو شاید ایک دم بھی دنیا میں نہ گزارسکے۔ وہ پانی نہ پی سکے کہ شاید اس میں زہر ملا دیا ہو۔ بازار کی چیزیں نہ کھا سکے کہ ان میں ہلاک کرنے والی کوئی شئے ہو۔ پھر کس طرح وہ رہ سکتا ہے۔‘‘
یہ الفاظ سنتے ہی میں اندر سے ہل كر ره گیا۔ ایسے لگا كہ جیسے میرا اس وقت جلسہ گاه میں آنا خدائی تقدیر تھا كیونكہ پہلا جملہ ہی میری مرض كا علاج تھا اور جیسے مجھے ہی مخاطب كر كے كہا جارہا تھا۔
یہ كوئی اتفاقی بات نہیں ہو سكتی تھی۔ اس كا میرے دل پر گہرا اثر ہوا اور خدا تعالیٰ كے فضل سے شكوك اور بدظنیاں ختم ہو گئیں۔ الحمد لله كہ خدا تعالیٰ نے جلسہ سالانہ میں شركت كی بدولت مجھے شكوك و بدظنیوں سے نجات عطا فرمائی۔
محمد طاہر ندیم صاحب (عربی ڈیسک یوکے) جو شعبہ ترجمانی کے تحت جلسہ جرمنی میں موجودتھے۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: جلسہ كے تیسرے روز ہم ایم ٹی اے العربیہ كے ایك لائیو پروگرام میں شركت كے لیے محمد شریف عوده صاحب كے ساتھ انتظار كررہے تھے كہ ایك شخص آیا اور كہنے لگا كہ
میرا نام مہدی بُسطی ہے اور میں رُشدی بُسطی صاحب كا بیٹا ہوں جنہوں نے مولانا جلال الدین شمس صاحب كے ذریعہ حیفا میں ۱۹۲۸ء میں بیعت كی تھی۔
ہم یہ سن كر بہت خوش بھی ہوئے اور حیران بھی كہ اتنے لمبے عرصہ تك یہ كہاں رہےہیں۔ ان سے بات كر كے معلوم ہوا كہ گو ان كے والد صاحب حیفا كے اوائل احمدیوں میں سے تھے اور نہایت مخلص اور فعال احمدی تھے۔وه حیفا سے دمشق منتقل ہو گئے اور ان كی وفات كے بعد ہماری ساری فیملی كا احمدیوں سے رابطہ منقطع ہو گیا۔لیكن ہم میں احمدی افكار اور جماعت سے ایك طرح كا تعلق ہمیشہ زنده رہا۔ دمشق كے حالات خراب ہوئے تو تقریباً سات سال قبل میں جرمنی آگیا اورسٹٹ گارٹ كے علاقے میں رہائش اختیار كی۔ چند روز قبل فیس بك پر میرے ایك دوست نے جلسہ سالانہ جرمنی كا اعلان پوسٹ كیا تو میں نے رابطہ كر كے اس میں شامل ہونے كی درخواست كی۔اور پھر آج جلسہ میں حاضر ہو گیا۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا كہ جماعت اس قدر ترقی كر چكی ہوگی او راتنے وسیع پیمانے پر جلسہ منعقد كررہی ہو گی۔ اور میری ملاقات حیفا كے كسی احمدی (یعنی محمد شریف عوده صاحب) سے بھی ہو جائے گی۔
ان كی باتیں سن كر شریف عوده صاحب نے انہیں لائیو پروگرام میں بٹھا لیا اور پھر انہوں نے وہاں یہ ساری باتیں اور اپنے مرحوم والد اور اپنے باره میں مزید امور بیان کیے جن كو سن كر ناظرین بہت محظوظ ہوئے اور بہت ایمان افروز تبصرے موصول ہوئے۔
انہوں نے بتایا كہ ان كے والد صاحب كا حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ كے ساتھ خطوط كے ذریعہ مضبوط رابطہ تھا۔ اور انہوں نے حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ كے خطوط سنبھال كر ركھے ہوئے تھے۔
والد صاحب كی چار بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ كی خدمت میں اولاد نرینہ كے لیے دعا كی درخواست كی تو حضور كا جواب موصول ہوا كہ میں نے دعا كی ہے اور اگر آپ كابیٹا پیدا ہو تو اس كا نام هادی ركھنا۔ چنانچہ حضور كی دعا كو الله تعالیٰ نے قبول فرمایا اور میری چار بہنوں كے بعد بڑا بھائی پیدا ہوا۔
اس كے كچھ عرصہ بعد میرے والد صاحب نے دوباره حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ كی خدمت میں ایك اور نرینہ اولاد ہونے كے لیے دعا كا خط لكھا تو حضور كا جو اب موصول ہوا كہ میں نے دعا كی ہے اور الله تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے كہ تمہارے ہاں ایك اور بیٹا پیدا ہو گا اور میں نے اس كا نام مہدی ركھا ہے۔
میرے والد صاحب نے یہ بات اپنے حلقہ احباب میں بتائی تو سب نے اعتراض كیا كہ كیا تمہارے خلیفہ كو غیب كا علم ہے جو اتنے وثوق سے یہ كہہ سكتے ہیں؟ وه توقع كررہے تھے كہ یہ بات درست ثابت نہیں ہو گی اور انہیں جماعت پر مزید اعتراض كا موقع ملے گا۔
لیكن تقریباً ایك سال كے عرصہ میں بالكل ویسے ہوا جیسے حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ نے خط میں لكھا تھا اور میرے والدین كے ہاں میری پیدائش ہوئی۔ یہ نشان دیكھ كر اس وقت شاید بیس كے قریب لوگ احمدیت میں شامل ہوئے۔
پھر جب حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ نے یورپ كے سفر كے دوران دمشق میں قیام فرمایا تو میرے والد صاحب مجھے لے كر حضور كی خدمت میں حاضر ہوئے اور مجھے فرمایا كہ جاؤ خلیفہ وقت کی دست بوسی كرو۔ یوں مجھے حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ كے دست مبارك كو بوسہ دینے كا شرف حاصل ہے۔
الحمد لله كہ مہدی بُسطی صاحب كے ساتھ مجلس بہت اچھی رہی۔ شریف عوده صاحب نے حیفا میں بعض پرانے احمدیوں كو ان كی تصویر بھیجی تو اكثر نے یہ كہا كہ یہ تو حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ كی استجابت دعا كا معجزه ہیں۔
اس كے بعد مہدی بُسطی صاحب نے بفضلہ تعالیٰ بیعت میں بھی شمولیت اختیار كی۔ تاہم بعض كتب بھی ساتھ لے كر گئے اور دوباره سب كچھ پڑھ كر غور كرنے كا عزم كیا ہے۔ الله كرے كہ انہیں عمر كے اس حصہ میں دوباره جماعت كا فعال ركن بننے كی توفیق مل جائے۔آمین
سومی محمد امین صاحب کا تعلق الجزائر سے ہے۔ وہ پہلی بار جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مجھے اور میری اہلیہ كو زندگی میں پہلی باركسی جلسہ میں شامل ہونے اور خلیفۂ وقت كی بالمشافہ زیارت اوران سے ملاقات كا شرف حاصل ہوا۔ جلسہ كے پہلے روز جب میں اپنی اہلیہ كے ساتھ جلسہ گاه كے ایریا میں داخل ہوا تو ہم دونوں نے مسك كی اسی خوشبو كو محسوس كیا جس كا احساس ہمیں ۲۰۱۸ء میں مكہ مكرمہ میں عمره ادا كرتے وقت ہواتھا۔
فاطمة الزھراء حشمان صاحبہ جن کا تعلق الجزائر سے ہے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:
ہفتہ كے روز جب حضرت امیر المومنین ایده الله بنصره العزیز لجنہ كے ہال میں داخل ہوئے تو حضور انور كے چہره مبارك سے نور كی كرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ مجھے ایسے لگا جیسے آسمان سے ایك خاص روحانی قوت نازل ہو كر پورے ہال میں پھیل گئی ہے۔اور میں اس پر سكون روحانی قوت میں ڈوبتی جارہی ہوں۔
جب خلیفہ وقت خطاب فرمانے كے لیے كھڑے ہوئے تو ایسے لگا كہ كوئی فرشتہ سامنے كھڑا ہے۔ آپ كی عاجزی وانكساری ایك صاف پانی كے چشمہ كی طرح آپ كے پورے وجود سے مترشح ہو رہی تھی۔
حضور انور كی ہال سے واپسی سے قبل میں نے سوچا میں حضور انور كو جی بھر كے دیكھ لوں اور جب میں نے دیكھنا شروع كیا تو محسوس ہوا كہ میرا دل پگھل رہا ہے۔ میرے آنسو بشدت بہنے لگے۔ مجھے لگا كہ جیسے میرے نفس كی بنجر زمین پر موسلا دھار بارش برسنے لگ گئی ہو۔ایسی حالت كا عجیب نظاره تھا كہ میں محسوس كررہی تھی جیسے وہاں میرے اور خلیفہ وقت كے علاوه اوركوئی نہیں۔ اور میرا دل حضورانور كی طرف نظر كرنے سے اور آپ كی محبت میں پگھلا جا رہا تھا اور آنسو تھے كہ بہتے جاتے تھے۔
بعد ازاں نو بجے حضور انور نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز مغر ب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
مہمانوں کے تاثرات
آج کی اس تقریب کے بعد جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جرمن اور دوسرے مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے مہمانوں سے خطاب فرمایا۔اس تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔
ایک جرمن مہمان الیاس شَٹَائن (Ilyas Stein) نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خلیفہ کے خطاب کا سارا دار و مدار حقیقی امن کا قیام ہے۔مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ اسلام کے ایک عظیم مذہبی راہنما کی طرف سے آج کے اس تاریک دور میں امن پر خاص توجہ دی گئی۔مجھےاس بات نے بھی بہت متاثر کیا ہے کہ مسلمانوں کو نہ صرف مسلمانوں کی حفاظت کا حکم ہے بلکہ وسیع طور پر ہر ایک کی بغیر بلا تمیز قوم و مذہب حفاظت کا حکم ہے۔خلیفہ کے خطاب نے بہر حال اسلام کے بارہ میں میرے تصور کو بدل دیا ہے اور خلیفہ کی شخصیت ایسی ہے جو دوسری بڑے نامور شخصیات کی طرح دور معلوم نہیں ہوتی بلکہ بہت قرب کے تعلق والی اور ہمدرد معلوم ہوتی ہے۔
ایک جرمن مہمان گُنتہ مؤوَا (Gunter Moar ) نے کہا کہ میں مذہب اسلام کو critical نظر سے دیکھتا ہوں مگر میں نے پھر بھی خلیفہ کے خطاب کو بہت توجہ سے سنا ہے یہاں تک کہ خلیفہ نے جو حوالے اپنے خطاب میں بیان فرمائے ہیں میں نے ان کو بھی چیک کیا ہے۔ میں تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ خلیفہ کا خطاب سن کر مجھے بہت حیرانگی ہوئی ہے کہ خلیفہ نے امن اور بھائی چارہ پر اتنا زور دیا ہے۔ بلا شک خلیفہ نے بہت اچھا خطاب فرمایا ہے۔میں یہ بار بار کہنے پر مجبور ہوں کہ میری حیرانگی کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ خلیفہ نے اسلام کی امن پسند تصویر دکھائی ہے جو یہاں عموماً نظر نہیں آتی۔یقیناً اسلام کے بارہ میں میرے نظریہ میں آج بہت بڑا اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس سے پہلے میں اسلام کو امن کا مذہب بھی تصور نہیں کر سکتا تھا اور اسلام کی امن کی تعلیمات کا مجھے علم نہیں تھا۔میں نے آج سب سے پہلے خلیفہ کا لجنہ سے خطاب مردانہ ہال کی سکرین پر دیکھا اور مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ خلیفہ ہیں مگر میں تب ہی بہت متاثر ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ جماعت کا یہ مقرر ہی اتنا charismatic ہے تو ان کا خلیفہ کتنا عظیم ہوگا۔ پھر جب ابھی مہمانوں سے خطاب کے لیے میں نے دیکھا کے سٹیج پر یہی مقرر تشریف لا رہے ہیں تو یہ جان کر مجھے خوشی ہوئی کہ یہی خلیفہ ہیں۔
ایک مسلمان سپینش مہمان نے کہا:
میں سمجھتا ہوں کہ حضور نے اسلام کے موجودہ حالات کے مختلف اہم امور پر اچھی طرح روشنی ڈالی ہے اور بہت اچھا خطاب فرمایا ہے۔ خاص طور پر اسلام میں خواتین کے مقام پر جو آپ نے روشنی ڈالی ہے وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے۔ حضور کے خطاب سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کا تعلق نام نہاد مسلمانوں کے غلط اعمال سے نہیں۔ حضور کے بارہ میں میں اپنے جذبات بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے حضور کو آج پہلی بار دیکھا ہے اور اتنی قریب سے دیکھا ہے اور پھر آپ کی اقتدا میں نماز بھی پہلی دفعہ ادا کی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک پر امن انسان ہیں جو ہمیں واقعۃً امن کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ آپ کی شخصیت نہایت مضبوط ہے جس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ آپ کی صحبت میں مجھے امن اور حفاظت محسوس ہوتی ہے۔میں اسلام کے بارہ میں کافی confuse رہتا تھا مگر پھر میں نے حضور کے خطابات سننے شروع کیے تو وہ سب confusion دور ہو گئی ہے اور اب میں کبھی بھی آپ کے خطابات سننا نہیں چھوڑوں گا کیونکہ آج مسلمانوں کو در پیش تمام مسائل کا حل حضور کے ارشادات میں ہے۔
ایک جرمن مہمان وِلفَغید کیرنتکے W(Wilfred Kerntke)e جو کہ ایک Business Consultant ہیں نے کہا:
مجھے یہ بات پسند آئی ہے کہ خلیفہ نے لوگوں کو واضح طور پر بتایا ہے کہ ان کے اعمال کیسے ہونے چاہئیں نہ کہ صرف زبانی اعتقاد پر اکتفا ہو۔ میں اس مختصر وقت کے بعد یہ تو نہیں بتا سکتا کہ خلیفہ کا وجود کیسا ہے لیکن بہر حال ایک پاک انسان معلوم ہوتے ہیں۔
ایک Georgianخاتون مہمان نے کہا:
میں نے آج خلیفہ کے دونوں خطاب سنے اور دونوں خطاب بہت عمدہ تھے اور بہت گہری حکمتوں سے پر تھے۔ خلیفہ کے خطاب سے مجھے آج یہ بات سمجھ آئی ہے کہ حقیقی integration کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مذہب، قوم اور انسانیت کی خدمت کرے۔ مجھے لگتا ہے کہ خلیفہ بہت گہری سوچ رکھنے والے اور ہر ایک کو سچے دل سے خوش آمدید کہنے والی شخصیت ہیں۔مجھے خلیفہ کی تلاوت بہت پسند آئی ہے کیونکہ اس میں بہت نرمی اور سکون ہے مگر ساتھ ہی آپ کی تلاوت میں ایک عجیب طاقت بھی ہے۔میں نے ایسی تلاوت پہلے کبھی نہیں سنی۔مجھے جلسہ سالانہ کا ماحول بہت پسند آیا ہے کیونکہ یہاں ہر قسم کی قوم و نسل اور ہر مذہب کے لوگ بڑی محبت اور اتفاق کے ساتھ پر امن اکٹھے ہوئے ہیں جو کہ مجھے اپنے ملک میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ خلیفہ کے لجنہ سے خطاب میں مجھے پہلی دفعہ اسلام کی عورتوں کے مقام کے بارہ میں تعلیم میں اتنی وسعت کا پتا چلا ہے کہ ایسی مسلمان عورتیں بھی گزریں ہیں جنہوں نے جنگوں میں بھی بڑے اہم کردار ادا کیے۔یہ میرے لیے بڑی حیران کن بات تھی۔
ایک جرمن مہمان کیوِن (Kevin) نے کہا:
میں تو خلیفہ کے خطاب کو سن کر بس حیران رہ گیا ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ کیا کہوں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہر ایک کو ان سب باتوں پر عمل کرنا چاہیے جو خلیفہ نے بیان فرمائی ہیں۔ خلیفہ نے مسکراہٹ کے بارہ میں جو بات بیان کی وہ بہت ضروری ہے۔ اس کی کمی جرمنی میں بہت زیادہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ خلیفہ ایک بہت ہی impressive شخصیت ہیں جن کو اتنا زیادہ تجربہ ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ عورتوں کے مقام کے بارہ میں آپ کے ارشادات سے مکمل طور پر متفق ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ نے بیان کیا ہے وہ سب سچ ہے۔
ایک سپینش نو مبائع عیسیٰ کارَابَلی (Eisa Carabali) نے کہا کہ
خلیفہ کا خطاب بہت اچھا اور ضروری تھا کیونکہ کئی لوگ اسلام کو تشدد اور دوسرے مذاہب کو برا بھلا کہنے والا مذہب سمجھتے ہیں۔میں آپ کے خطاب کو وقت کی مناسبت سے بہت موزوں اور ضروری سمجھتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ خلیفہ کے خطاب جیسے مزید تقاریر کی جائیں تاکہ لوگوں کو اسلام کی اصلی تعلیم کا مزید پتا چلے۔خلیفہ کے خطاب میں سے سب سے اہم باتیں یہ تھیں کہ اسلام تشدد پسند نہیں ہے اور عورتوں کی عزت کو قائم کرتا ہے۔ خلیفہ کا طرز بیان مجھے بہت اچھا لگا کیونکہ آپ نرمی اور سکون سے بولتے ہیں۔ بہر حال یہ بات بہت عیاں تھی کہ خلیفہ ایک حقیقی مسلمان ہیں۔
ایک جرمن مہمان یُولِیان سَلوَار موزِر J(Julian Salvar Moser)r نے کہا کہ خلیفہ مجھے بہت open اور بہت ہمدرد لگے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے جو بھی فرمایا وہ گہرے تجربہ کی بنیاد پر فرمایا ہے۔ خلیفہ نے یہ جو بات بیان فرمائی کہ انسان جس ملک میں رہے اُس ملک کی خدمت کرے اور اسلام ہمسایوں کی تعریف کو ساتھ والے چالیس گھروں تک وسعت دیتا ہے کیونکہ یونہی حقیقی طور پر ہر ایک کا خیال رکھا جا سکتا ہے۔ عیسائیت نے بھی ہمسایوں کے حقوق کے بارہ میں تعلیمات دی ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ ہمسائیگی میں کون کون شامل ہے اسی وجہ سے صرف ساتھ والے کو ہمسایہ شمار کیا جاتا ہے جبکہ اسلام نے اس سے زیادہ بہتر تعلیم پیش کی ہے۔
ایک افریقن مسلمان مہمان عُمار (Omaar) نے کہا
میں حیران ہوں کہ جماعت جلسہ سالانہ جیسا بڑا اور وسیع پروگرام صرف احبابِ جماعت کے چندوں سے کیسے منعقد کر سکتی ہے۔ میں خلیفہ کو دیکھ کر بھی حیران ہوا ہوں کیونکہ آپ کا وجود پر سکون اور پر امن ہے اور آپ کی شخصیت گہرا اثر چھوڑنے والی ہے۔
ایک جرمن نومبائع تِم کَرُندَمَن T(Tim Krunderman)nنے کہا کہ
میں نے ایک ہفتہ پہلے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت پائی ہے۔ مجھے حضورِانور کا خطاب بہت اچھا لگا ہے اور آپ کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میرے لیے یہ بات نئی تھی کہ اسلام نے عورتوں کو کتنے وسیع حقوق دیے ہیں اور عورتوں کا مقام اسلام میں کتنا اعلیٰ ہے۔اس سے زیادہ حیران کن بات میرے لیے یہ تھی کہ عورتوں کے یہ حقوق اور مقام اسلام نے بہت عرصہ قبل ہی قائم کر دیے ہوئے تھے۔
حضورِانور کا خطاب سن کر مجھے ایک مسلمان ہونے پر بہت فخر اور خوشی محسوس ہورہی تھی۔ حضورِانور کا وجود بہت متاثر کرنے والا قوی اور روحانی وجود ہے۔حضورِانور کی صحبت میں بیٹھنا میرے لیے موجب سکون اور دل کو نرم کرنے والا تجربہ تھا اور عین یہی احساسات اور جذبات میرے دل میں تب بھی اجاگر ہوتے ہیں جب میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی مبارک تصاویر کو دیکھتا ہوں۔
ایک جرمن مہمان مکس (Max) نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب مجھے بہت اعلیٰ اور متاثرکن لگا۔خاص طور پر امن اور عورتوں کے حقوق کی تعلیم مجھے بہت پسند آئی ہے۔ یہ تعلیمات دیگر لوگوں تک پہنچانا بہت ہی ضروری ہے۔
ایک جرمن عیسائی مہمان کَرِستِیان پیشکِن (Christian Peschken) جو کہ ایک کیتھولک ٹی وی کے نمائندہ ہیں۔انہوں نے کہا :
خلیفہ کا خطاب بہت متاثرکن تھا اور آپ نے اپنے خطاب کا دائرہ سامعین کی وسعت کے مطابق تشکیل دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح خلیفہ نے بنیادی اصول بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ یہ بنیادی اصول بھی خدا نے سکھائے ہیں نہ کہ آج کی United Nations یا کسی اور کے قائم کردہ ہیں۔ اسی طرز پر باقی مذہبی راہنماؤں کو اس وضاحت کے ساتھ اپنے خطاب دینے چاہئیں۔ خلیفہ کا خطاب ایسا تھا کہ اسے محض سن لینا کافی نہیں بلکہ اس پر بہت غور اور فکر کرنا چاہیے کہ آپ کی بیان فرمودہ باتوں سے مراد کیا ہے۔خلیفہ یقیناً ایک عاجزی اختیار کرنے والے انسان ہیں۔ آپ میں ایک خاص کشش ہے جو محسوس کی جاتی ہے۔میں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارہ میں بہت تحقیق کی ہے اور اسلام کے بارہ میں میرا تصور بہت اچھا ہے۔ خلیفہ نے اسلام میں عورتوں کے بارہ میں جو تعلیمات بیان فرمائی ہیں وہ بہت دلچسپ ہیں مگر میری خواہش ہے کہ لوگ یہ یاد رکھیں کہ یہ حقوق اور مقام کسی NGO یا UNO نے نہیں قائم کیے بلکہ خدا تعالیٰ نے مذہب کے ذریعہ قائم فرمائے ہیں۔
ایک جرمن عیسائی مہمان اَندرِیاس حَیْرمَن (Andreas Herrmann ) جن کا تعلق protestant چرچ سے ہے۔انہوں نے کہا:
خلیفہ وقت کا خطاب اور وجود دونوں بہت متاثر کن ہیں۔ خلیفہ ایک لیڈر ہونے کے باوجود مجھے عاجزی اختیار کرنے والے انسان معلوم ہوتے ہیں۔میں نے نوٹ کیا ہے کہ خلیفہ جو بھی بات بیان فرماتے ہیں اس کا تعلق ہمیشہ قرآن کریم کی تعلیم سے ہوتا ہے۔ میں اس بات کو بہت ضروری اور اچھا سمجھتا ہوں کہ خلیفہ نے اپنے خطاب میں امن اور عورتوں کے حقوق پر بہت زور دیا ہے۔خلیفہ ایک پر سکون انسان معلوم ہوتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ باوجود اتنی اہم شخصیت ہونے کے خلیفہ کو یہ پسند نہیں کہ ان کی خاطر تالیاں بجائی جائیں۔
ایک جرمن مہمان یَنِک (Yannik) نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا اور open minded تھا۔ خلیفہ نے اسلام کے بارہ بہت عمدہ معلومات بیان فرمائی ہیں اور مجھے ان تعلیمات سے اس سے پہلے آشنائی نہیں تھی۔ خلیفہ ایک پر حکمت شخصیت معلوم ہوتے ہیں جن کا علم بہت وسیع ہے۔ خلیفہ نے اپنے ارشادات بڑی عمدگی کے ساتھ اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمائے ہیں جس کی وجہ سے اب اسلامی تعلیما ت مجھ پر واضح ہو گئی ہیں اور میں ان کو صحیح طرح سے سمجھ سکتا ہوں۔
ایک مہمان علی بکر (Ali Bakr) جو کہ آسٹریلیا کی Green Muslims پارٹی کے ترجمان ہیں نے کہا کہ
خلیفہ کا خطاب بہت دلچسپ اور متاثر کن تھا کیونکہ آپ نے جو باتیں بیان فرمائی ہیں وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ معاشرہ کے ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے ضروری ہیں۔ خلیفہ کا یہ فرمانا کہ امن صرف مسلمان ممالک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،میرے لیے بہت دلچسپ بات تھی۔ مجھے سب سے زیادہ یہ بات پسند آئی ہے کہ خلیفہ کا طرزِبیان بہت پرحکمت ہے۔ آپ آرام اور تحمل سے خطاب فرماتے ہیں جس سے لوگ متاثر بھی ہوتے ہیں اور یوں آپ کے ارشادا ت پر غور و فکر بھی کر پاتے ہیں۔خلاصۃً یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلیفہ ایک بہت اچھے مقرر ہیں۔
ایک جرمن خاتون مہمان کِیغا (Kira) نے کہا کہ
حضور کا خطاب بہت متاثرکن تھا اور آپ نے بہت سارے مختلف اور ضروری امور پر خطاب فرمایا ہے۔ حضور کے خطاب میں سے جو چیز میرے لیے سب سے زیادہ دلچسپ تھی وہ عورتوں اور مردوں کے تعلقات کے بارہ میں تعلیم تھی جس سے اسلام احمدیت کے اعلیٰ اخلاق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ حضور اور جماعت امن کے قیام پر بہت زور دیتے ہیں۔ حضور ایک پرسکون شخصیت ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیوں مگر حضور کے الفاظ سیدھا دل کو چھوتے ہیں۔مجھے یہ بات بہت اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے تحمل اور آرام سے اپنا خطاب فرمایا اور مصنوعی طور پر لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش نہیں کی۔
ایک ہنگری کےمہمان جو کہ legal advisor ہیں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا اورآپ کا پیغام کہ دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بہت اہم اور ضروری ہے۔ خلیفہ کی ہمدردی صرف جماعت احمدیہ تک محیط نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے ہے۔ خلیفہ کی شخصیت الفاظ میں میں بیان نہیں کر سکتا مگر خلیفہ کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔آج میرا اسلام کے بارہ میں تصور مکمل طور پر بدل گیا ہے۔آپ کے خلیفہ نہایت ہی ہمدرد اور پر امن لیڈر ہیں۔بد قسمتی یہ ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں کم ہیں جبکہ آج ان کی بہت ضرورت ہے۔
ایک جرمن خاتون مہمان ماغی (Marie ) نےمسلمان نہ ہونے کے باجود دلی احترام کے اظہار کی خاطر دوپٹہ پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ
خلیفہ کا خطاب نہایت ہی متاثر کن تھا۔ میں عیسائی ہوں اور آج خلیفہ کے خطاب کے دوران مجھے دوبارہ محسوس ہوا ہے کہ ہمارا آپس میں فرق صرف معمولی ہے اور ہم مل جل کر پر امن طریقہ سے رہ سکتے ہیں اور میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔دورانِ خطاب میرے دل پہ اتنا اثر ہوا کہ میری آنکھیں نم ہو گئیں۔خلیفہ نے عورتوں کے بارہ میں جو تعلیمات بیان فرمائی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ در اصل اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے وہ وہی ہیں جو خلیفہ نے بیان فرمائے ہیں نہ کہ وہ جو دوسری communities بیان کرتی ہیں اور میں نے خود جلسہ سالانہ پر مشاہدہ کیا ہے کہ ان تعلیمات پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ جب خلیفہ کی تشریف آوری ہوئی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ خلیفہ کو دیکھ کر فطرتی طور پر میرا خیال عیسائی پوپ کی طرف بھی گیا مگر خلیفہ اور پوپ میں بہت فرق ہے۔ مثلاً خلیفہ ہم سب سے قربت رکھنے والا وجود معلوم ہوتے ہیں جبکہ پوپ کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ آج دیکھا ہے کہ خلیفہ کے خطاب اور طرز بیان سے تمام حاضرین بہت متاثر ہوئے ہیں اور خلیفہ کی باتیں سیدھا دل کو چھونے والی تھیں اور میں نے یہاں لوگوں کو روتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
ایک lithuanian خاتون مہمان جو ایک پروفیسر ہیں انہوں نے کہا خلیفہ کا وجود مجھے بہت ہمدرد لگا ہے۔ خلیفہ سے مجھے کالسروئے میں جلسہ سالانہ کے دوران ایک دفعہ delegation ملاقات کے دوران سوال کرنے کا موقع ملا تھا اور میں حیران رہ گئی تھی کہ میرے ایک معمولی سوال پر بھی خلیفہ نے اپنے قیمتی وقت میں سے بہت وقت دیا اور تفصیل سے جواب دیا۔
ایک جرمن مہمان جَاکَمو اِیزو (Giaccamo Izzo) جنہوں نے سُنی اسلام اختیار کیا ہے انہوںنے کہا کہ
خلیفہ نے اپنا خطاب اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر فرمایا ہے اور آپ نے وہی تعلیمات بیان فرمائی ہیں جن پر ایک مسلمان کو زندگی بھر عمل کرنا چاہیے اور ان کے مطابق دوسروں سے تعلق اختیار کرنا چاہیے۔جماعت کا ماٹو ’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘ میں بہت سے گہرے مطالب مخفی ہیں اور در اصل یہ تمام انسانیت کے لیے ہے۔ خلیفہ کا خطاب مجھے اس لیے بھی اچھا لگا کہ آپ نے قرآنی آیات کی بنیاد پر اپنے ارشادات فرمائے ہیں۔ویسے تو ہم سب کو پتا ہے کہ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا مگر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اچھائی اچھائی کیوں ہے اور برائی برائی کیوں ہے اور اس پر خلیفہ نے بڑی وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ خلیفہ وقت ایک نرم دل اور خاموش طبع انسان ہیں۔ آپ کی آواز میں سکون ہے۔ آپ کے ارشادات کو انسان بڑی آسانی سے سن اور سمجھ سکتا ہے اور جب خلیفہ کے الفاظ پر انسان غور کرتا ہے تو باقی سب کچھ بھول جاتا ہے۔جلسہ میں شامل ہو کر مجھے احساس ہوا ہے کہ یہاں پر مجھے نہ صرف زبانی طور پر خوش آمدید کہا گیا ہے بلکہ اس کا اظہار عملی طور پر بھی محسوس ہوا ہے۔
ایک جرمن خاتون مہمان اَنگیلِیکا بَغاؤنے (Angelika Braune) نے کہا کہ
مجھے خلیفہ کا خطاب بہت دلچسپ لگا ہے کیونکہ آپ نے بغیر جھجک کے ان تمام امور پر خطاب فرمایا ہے جن کے بارہ میں پبلک میں بات کرنا مشکل ہوتی ہے مگر آپ نےسیاستدانوں کی طرح گول مول بات نہیں کی بلکہ سیدھی اور کھری بات کی ہے اور یہ میرے لیے بہت خوشکن اور تازگی بخشنے والی بات تھی۔خلیفہ نے فرمایا کہ ہم سب کو مل کر امن قائم کرنے کی خاطر جد و جہد کرنی ہوگی اور یہ کام پہلے چھوٹی سطح پر شروع کرنا ہو گا اور آپ نے اس بارہ میں بہت عمدہ مثالیں بھی دی ہیں۔ خلیفہ کو اس سے قبل میں نے صرف ویڈیو اور تصاویر میں دیکھا تھا مگر آج براہ رست دیکھ کر آپ کی اعلیٰ شخصیت کی ایک خاص کشش مجھے محسوس ہوئی ہے۔ جب آپ ہال میں تشریف لائے تو تمام لوگ صرف خاموش ہی نہیں ہوئے بلکہ ہر ایک نے اپنی مکمل توجہ آپ کی طرف کر دی۔ میرے خیال میں خلیفہ نہ صرف مذہبی طور پر بلکہ عمومی طور پر بھی بہت اچھے لیڈر ہیں کیونکہ مختلف الفاظ میں آپ اپنے پیروکاروں کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ آپ ان کی فکر کرتے ہیں اور ان کی راہنمائی ہمیشہ بہتری کی طرف ہی کرتے ہیں کیونکہ آپ ان کے لیے صرف بہتری ہی چاہتے ہیں۔ اسلام احمدیت میں عورتوں کے مقام کے بارہ میں مجھے بہر حال ابھی مزید ریسرچ کرنی پڑے گی کیونکہ اس بارہ میں بہت منفی خبریں میڈیا وغیرہ سے ملتی رہتی ہیں مگر میں یہ گواہی دے سکتی ہوں کہ جو تعلیم خلیفہ نے عورتوں کے بارہ میں بیان فرمائی ہے اس کو عملی طور پر احمدی خواتین میں مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایک جرمن مہمان توبِیاس ویبا(Tobias Weber) نے کہا
یہ میرا تیسرا جلسہ سالانہ ہے اور پیغام ایک ہی ہے کہ ’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘۔ اس لیے میرے لیے یوں تو کوئی نئی چیز نہیں تھی مگر مجھے دوبارہ سے جلسہ میں شامل ہونے پہ بہت خوشی ہے۔ آج یہ دوسری دفعہ موقع نصیب ہوا ہے خلیفہ وقت ہمارے بہت قریب سے گزرے ہیں اور ہمیں انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ میرے لیے یہ اتنی بڑی بات نہیں ہو گی جتنی جماعت احمدیہ کے احباب کے لیے ہے مگر مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ احباب جماعت کے لیے اور ان کے ایمان کے لیے خلیفہ وقت کا وجود بہت زیادہ ضروری ہے۔خلیفہ کو دیکھ کر امن محسوس ہوتا ہے۔ مجھے خلیفہ کا لجنہ سے خطاب بہت پسند آیا ہے اور میں نے گذشتہ سالوں میں کبھی ایسا خطاب نہیں سنا۔
ایک کرگ احمدی مہمان نے کہا کہ حضورِانور میں مجھے صرف نور ہی محسوس نہیں ہوتا ہے بلکہ کچھ اور بھی محسوس ہوتا ہے جو میرے لیے قاصر البیان ہے مگر دل ونین دونوں بھر آتے ہیں۔
ایک جرمن مہمان نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب مجھے بہت اچھا لگا ہے کیونکہ اس میں بہت سارے حالیہ اور ضروری امور مثلاً عورتوں کے حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے اور آپ نے ان امور پر بڑی عمدگی کے ساتھ وضاحت فرمائی ہے۔ خلیفہ عاجزی اختیار کرنے والے اور عالم انسان معلوم ہوتے ہیں۔ آپ پر حکمت ہیں اور جو آپ بات بیان فرماتے ہیں اس پر آپ کو مکمل عبور حاصل ہے اور آپ well informed بھی ہیں۔ اس وجہ سے آپ کا لوگوں پر بہت گہرا اثر ہے۔مجھے یہ بات اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے اس بات کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ اسلام کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ جھگڑوں کو ختم کرے۔ مجھے بہت اچھا لگا ہے کہ آپ نے ان ضروری امور کو تکرار سے بیان فرمایا ہے۔
ایک ترک مہمان نے کہا کہ خلیفہ سے ایسی شعاعیں محسوس ہوتی ہیں جنہیں میں بیان نہیں کر سکتا مگر ان شعاعوں نے تمام ہال کو بھر دیا تھا۔