مَردوں کی ذمہ داریاں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍مئی۲۰۱۷ء)
اسلام کی تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہر معاملے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اس رہنمائی پر عمل کرنے والا بن جائے تو ایک حسین معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ آج غیر مسلم دنیا جو اسلام پر اور مسلمانوں کے عمل پر اعتراض کرتی ہے اس اعتراض کے بجائے یہ لوگ اسلام کی تعلیم پر صحیح رنگ میں عمل کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کے نمونوں کی مثال دے کر اسلام کے معتقد ہو جاتے۔ قرآن کریم میں بےشمار احکامات ہیں لیکن ان سب کو ایک جگہ ایک فقرے میں اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر جمع کر دیا کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:22) کہ یقینا ًتمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر زندگی گھر سے لے کر وسیع معاشرتی تعلقات تک قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والی تھی۔ مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو پڑھتی تو ہے، اس بات کو بڑے احترام کی نظر سے بھی دیکھتی ہے لیکن اس پر عمل کے وقت اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پس حقیقی کامیابی اسی وقت ہو سکتی ہے جب ہم ہر معاملے میں اس اُسوہ کو اپنے سامنے رکھیں۔ بعض دفعہ انسان بڑے بڑے معاملات میں تو بڑے اچھے نمونے دکھا رہا ہوتا ہے لیکن بظاہر چھوٹی نظر آنے والی باتوں کو اس طرح نظر انداز کر دیا جاتا ہے جیسے ان کی اہمیت ہی کوئی نہ ہو۔ جبکہ اس کے برعکس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان باتوں کی طرف بہت توجہ اپنے ارشادات میں بھی اور اپنے نمونے میں بھی دلوائی ہے۔
پس اگر اپنی زندگیوں کو ہم پُرسکون بنانا چاہتے ہیں، اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انہی اخلاق کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملے میں ہمارے سامنے پیش فرمائے اور پھر اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق نے ان کو کھول کر ہمارے سامنے رکھا اور اس پر عمل کی طرف توجہ دلوائی۔
اِس وقت میں اِس حوالے سے مَردوں کی مختلف حیثیتوں سے ذمہ داریوں کے معاملے میں کچھ کہوں گا۔ مرد کی گھر کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ہے۔ مرد کی خاوند کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ہے۔ مرد کی بحیثیت والد کے بھی ذمہ داری ہے۔ پھر اولاد کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ہے۔ اگر ہر مرد اِن ذمہ داریوں کو سمجھ لے اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کرے تو یہی معاشرے کے وسیع تر امن کے قیام اور محبت اور بھائی چارے کے قائم کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہی باتیں اولاد کی تربیت کا ذریعہ بن کر پر امن اور حقوق انسانی کو قائم کرنے و الی نسل کے پھیلنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ گھروں کے سکون انہی باتوں سے قائم ہو جاتے ہیں۔ آجکل کئی گھروں کے مسائل اور شکایات سامنے آتی ہیں جہاں مرد اپنے آپ کو گھر کا سربراہ سمجھ کر، یہ سمجھتے ہوئے کہ مَیں گھر کا سربراہ ہوں اور بڑا ہوں اور میرے سارے اختیارات ہیں، نہ اپنی بیوی کا احترام کرتا ہے اور اسے جائز حق دیتا ہے، نہ ہی اولاد کی تربیت کا حق ادا کرتا ہے۔ صرف نام کی سربراہی ہے۔ بلکہ ایسی شکایات بھی ہندوستان سے بھی اور پاکستان کی بعض عورتوں کی طرف سے بھی ہیں کہ خاوندوں نے بیویوں کو مار مار کر جسم پر نیل ڈال دئیے یا زخمی کر دیا۔ منہ سُوجا دئیے۔ بلکہ بعض لوگ تو اِن ملکوں میں رہتے ہوئے بھی ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں۔ پھر بچوں اور بچیوں پر ظلم کی حد تک بعض باپ سلوک کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد بھی جاہل لوگوں کی طرح ہی رہنا ہے، ان مسلمانوں کی طرح رہنا ہے جن کو دین کا بالکل علم نہیں ہے، اپنے بیوی بچوں سے ویسا ہی سلوک کرنا ہے جو جاہل لوگ کرتے ہیں تو پھر اپنی حالتوں کے بدلنے کا عہد کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیا مرد جو خدا کا حق ادا کرنے کی ان پر ذمہ داری ہے اور جو عملی حالت کے معیار بلند کرنے کی ان پر ذمہ داری ہے اسے ادا کر رہے ہیں؟ اگر وہ اسے ادا کر رہے ہوں تو پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کبھی ان کے گھروں میں ظلم ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب سے پہلے گھر کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے توحید کے قیام کی اہمیت اپنے بیوی بچوں پر واضح فرما کر اس پر عمل کروایا لیکن یہ کام بھی پیار اور محبت سے کروایا۔ ڈنڈے کے زور پر نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو گھر کے سربراہ ہونے اور دنیا کی اصلاح اور شریعت کے قیام کی تمام تر مصروفیات ہونے کے باوجود اپنے گھر والوں کے حق ادا کئے اور پیار اور نرمی اور محبت سے یہ حق ادا کئے۔ گھر کا سربراہ ہونے کا حق اس طرح ادا کیا کہ پہلے یہ احساس دلوایا کہ تمہاری ذمہ داری توحید کا قیام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نفل کے لئے اٹھتے تھے اور پھر صبح نماز سے کچھ پہلے ہمیں پانی کے چھینٹے مار کر اٹھاتے تھے کہ نفل پڑھو۔ عبادت کرو۔ اللہ تعالیٰ کے وہ حق ادا کرو جو اللہ تعالیٰ کے حق ہیں۔ (بخاری کتاب الوتر باب ایقاظ النبیﷺ اھلہ بالوتر حدیث 997) (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب قیام اللیل حدیث 1308)
پھر آپ اپنے گھر والوں کے حق ادا کس طرح فرماتے تھے؟ وہ کام جو بیویوں کے کرنے والے تھے ان میں بھی آپ ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ ہی فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپ گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپ کو نماز کا بلاوا آتا اور آپ مسجد تشریف لے جاتے۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب من کان فی حاجۃ اھلہ … الخ حدیث 676)
پس یہ ہے وہ اُسوہ جو ہم نے اپنانا ہے اور ہمیں اپنانا چاہئے۔ نہ کہ بیویوں سے ایسا سلوک جو ظلم کے مترادف ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے گھریلو کاموں کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے مزید فرماتی ہیں کہ اسی طرح آپ اپنے کپڑے بھی خود سی لیتے تھے۔ جوتے ٹانک لیا کرتے تھے۔ گھر کا ڈول وغیرہ مرمت کر لیا کرتے تھے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب من کان فی حاجۃ اھلہ … الخ حدیث 676جلد 5صفحہ 298 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
پس ان نمونوں کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے خاوندوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اس پر توجہ دینی چاہئے کہ کیا ان کے گھروں میں یہ سلوک ہیں؟ یہ رویّے ہیں؟
اپنے صحابہ کو خاوند کے فرائض اور اس کے رویّے کے معیار کے بارے میں ایک موقع پر فرمایا جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مومنوں میں سے کامل الایمان وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں سے خُلق کے لحاظ سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لئے بہتر ہے۔ (سنن الترمذی ابواب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا حدیث 1162)
پس ہر اس شخص کو جس کا اپنی بیویوں سے اچھا سلوک نہیں ہے جائزہ لینا چاہئے کہ اچھے اخلاق اور بیویوں سے اچھے سلوک کا مظاہرہ صرف ظاہری اچھا خُلق نہیں ہے۔ بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ ایمان کے معیار کی بلندی کی بھی نشانی ہے۔