بچوں کا فرض ہے کہ والدین کو سنبھالیں
اُف نہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تمہاری مرضی کی بات نہ ہوبلکہ تمہارے مخالف بات ہوتب بھی تم نے اُف نہیں کرنا۔ اگر ماں باپ ہر وقت پیار کرتے رہیں، ہربات مانیں، ہروقت تمہاری بلائیں لیتے رہیں، لاڈ پیار کرتے رہیں پھرتو ظاہر ہے کوئی اُف نہیں کرتا۔ فرمایا کہ تمہاری مرضی کے خلاف باتیں ہوں تب بھی نرمی سے، عزت سے، احترام سے پیش آنا ہے۔ اور نہ صرف نرمی اور عزت و احترام سے پیش آنا ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی ہے۔ اور اتنی پیار، محبت اور عاجزی سے ان کی خدمت کرنی ہے جیسی کہ کوئی خدمت کرنے والا کرسکتاہو۔ اور سب سے زیادہ خدمت کی مثال اگر دنیا میں موجود ہے تو وہ ماں کی بچے کے لئے خدمت ہی ہے۔ اب یہاں رہنے والے، مغرب کی سوچ رکھنے والے، بلکہ ہمارے ملکوں میں بھی، برصغیر میں بھی، بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ماں باپ کی خدمت نہیں کرسکتے، ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور یہ لکھتے ہیں کہ جماعت ایسے بوڑھوں کے مراکز کھولے جہاں یہ بوڑھے داخل کروا دئے جائیں کیونکہ ہم تو کام کرتے ہیں، بیوی بھی کام کرتی ہے، بچے اسکول چلے جاتے ہیں اور جب گھر آتے ہیں تو بوڑھے والدین کی وجہ سے ڈسٹرب (Disturb)ہوتے ہیں، اس لئے سنبھالنا مشکل ہے۔ کچھ خوف خدا کرنا چاہئے۔ قرآن توکہتاہے کہ ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو اور اس عمر میں اُن پررحم کے پرجھکا دو۔ جس طرح بچپن میں انہوں نے ہرمصیبت جھیل کر تمہیں اپنے پروں میں لپیٹے رکھا۔ تمہیں اگر کسی نے کوئی تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تو مائیں شیرنی کی طرح جھپٹ پڑتی تھیں۔ اب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے توکہتے ہو کہ ان کو جماعت سنبھالے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنبھالتی ہے لیکن ایسے بوڑھوں کو جن کی اولاد نہ ہویاجن کے کوئی اور عزیز رشتے دار نہ ہوں۔ لیکن جن کے اپنے بچے سنبھالنے والے موجود ہوں تو بچوں کا فرض ہے کہ والدین کو سنبھالیں۔ تو ایسی سوچ رکھنے والوں کو اپنی طبیعتوں کو، اپنی سوچوں کو تبدیل کرنا چاہئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍جنوری۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۲؍مارچ ۲۰۰۴ء)