فلسطین، اسرائیل اور جماعت احمدیہ کا کردار
انیسویں صدی کے تناظر میں جب سائنس اور فلسفہ کے جدید نظریات فروغ پارہے تھے۔ ۱۸۵۹ء میں چارلس ڈارون کی کتاب منظر عام پر آئی۔ جس میں بقائے اَصْلح کا نظریہ متعارف کروایا گیا جس کے مطابق بعض انواع بعض انواع سے بہتر قرار دی گئیں،اس لیےکہ وہ فطرت کے قانون سے ہم آہنگ ہونے کی بہتر صلاحیت رکھتی تھیں۔ اس کے نتیجہ میں سوشل ڈارون ازم کا نظریہ سامنے آیا کہ جس طرح بعض انواع بعض انواع سے بہتر ہیں اسی طرح بعض اقوام بھی بعض اقوام سے بہتر ہیں۔ ان کے حقوق زیادہ ہیں۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ کائنات میں بعض قوتیں اور قوانین کار فرما ہیں جن کی حکمرانی ہے۔ خداتعالیٰ کا کوئی عمل دخل نہیں اگر خدا ہے بھی تو وہ الگ تھلگ بیٹھا ہے۔ لہٰذا طاقتور اقوام کو یہ حق ہے کہ وہ مہروماہ وانجم کے محاسب کا کردار ادا کریں۔All are equal but some are more equal.یہ تصور مولائے کل ختم الرسلﷺکے حیات آفریں پیغام کے خلاف بغاوت تھی جس میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ کسی عجمی کو عربی پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور فضیلت کا معیار محض تقویٰ ہے۔ چنانچہ اس حیات آفریں پیغام سے بغاوت کے نتیجے میں دنیاحصن حصین سے باہر نکل آئی اور قوموں کے درمیان مفادات کے حصول کے لیے اور اپنے خود ساختہ حقوق کو دوسری اقوام سے منوانے کے نتیجہ میںکشمکش کا آغاز ہوگیا۔ حالانکہ اس وقت عالمی تجارت فروغ پا رہی تھی لیکن بےانصافی کے رویے اور غلط معیار اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ اس وقت خدا کے ایک فرستادہ نے جس کا دل عشق مصطفیٰ ؐ سے لبریز اور آنکھ مدینہ و نجف کے سرمے سے روشن تھی، آسمانی بادشاہت کے نقّارے پہ ضرب لگائی اور پیغام حق کو دنیا تک پہنچایا۔
‘‘اے یورپ تو بھی اَمن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا‘‘۔
لیکن جس وقت یہ پیغام دیا گیا کوئی اس امر کا اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ جو خداتعالیٰ کی تعلیمات کو نظرانداز کرکے مکروہ کام کیے جا رہے ہیں وہ کیا تباہی لانے والے ہیں۔ چنانچہ ۱۹۰۸ء میں ونسٹن چرچل کہہ رہا تھا:
’’The unity and solidarity of the civilised world grows stronger from year to year and almost from month to month‘‘۲.
‘‘مہذب دنیا میں اتحاد و یکجہتی کا عمل سال بہ سال اور ماہ بہ ماہ فروغ پارہا ہے‘‘۔
لیکن خدائے واحدو یگانہ کے بارے میں یہ نعرے لگ رہے تھے ’’Gott ist tot‘‘۔ اور اس کی جگہ قوم و وطن کو خدا کا درجہ دے دیا گیا۔ اسی تناظر میں صیہونی تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ یورپ میں یہودی کمیونٹی اگرچہ اثر و رسوخ رکھتی تھی لیکن یورپ میں بھی وہ محسوس کرتے تھے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک رَوا رکھا جاتا ہے۔ فرانس میں Alfred Dreyfus پرجو کہ ایک یہودی تھا، غدّاری کا مقدمہ چلا۔ جس کے نتیجہ میں Theodor Herzl نے ایک سیاسی تحریک کی بنیاد رکھی جس نے یہ نتیجہ نکالا۔
’’That anti-semistism would not end and that the solution was Jewish statehood‘‘۳
اس دوران اس واحد و یگانہ نے جو ایک مدّت تک خاموش رہا ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھانے کا فیصلہ کیا اور دنیا پہلی جنگ عظیم کی طرف بڑھنے لگی۔ یہودی کمیونٹی امریکہ اور یورپ میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی تھی لہٰذا حکومت برطانیہ ان کی حمایت حاصل کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ جنگ عظیم اوّل سے پہلے فلسطین کا علاقہ بین الاقوامی قوّتوں کے لیے نہایت اہمیت اختیار کرگیا۔ فلسطین جو کہ شام کا حصہ تھا گذشتہ چار صدیوں سے سلطنت عثمانیہ کے زیرِاقتدار تھا اور سلطنت عثمانیہ کے ضعف کے آثار دیکھ کر یورپی اقوام اس علاقہ میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنا چاہتی تھیں۔ حکومت برطانیہ کے لیے فلسطین نہر سویز کے قریب ہونے کی وجہ سےنہایت اہم تھا کیونکہ یہ ہندوستان کے ساتھ رابطہ کا قریبی ذریعہ تھا۔ لہٰذا حکومت برطانیہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے یہودیوں کی سرپرستی کا فیصلہ کرلیا۔
’’Churchill then adopted the idea of a strong free Jewish state astride the bridge between Europe and Africa‘‘۴.
۱۸۹۷ء میں پہلی صیہونی (Zionist)کانگرس منعقد ہوچکی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہTo create a state in Palestine for Jewish people.۵
جدید صیہونی تحریک کا بانی تھیوڈر ہرزل سلطنت عثمانیہ کے وزیر رفعت پاشا اور سلطان کے سیکرٹری عزت بے سے بھی ملا۔ عزت بے نے ایک نجی ملاقات میں ہرزل کے بعض مطالبات سے اتفاق کیا۔
Izzat Bey proved open to some of۔ Herzl‘s proposals, especially those relating to Zionist economic compensation to the failing Ottomon Empire in return for Eretz Israel.‘‘۴
۱۸۹۷ء میں تھیوڈرہرزل نے باسل میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا اور اپنے پروگرام کا اعلان کیا۔T’’The purpose of Zionist movement was to creat a state in Palestine for Jewish people‘‘۷.
جنگ عظیم اوّل کے آغاز کے ساتھ صیہونی تحریک کو تقویت ملی۔ نومبر ۱۹۱۷ء میں لارڈ بالفور (Arthur Balfour) نے حکومت برطانیہ کی طرف سے اعلان کیا۔
His Majesty‘s Government view with’’ favour the establishment of a National Home of a Jewish people‘‘۸.
اس پر ایک عرب نے بہت اچھا تبصرہ کیا۔’’دینے کا وعدہ وہ کر رہا تھا جس کے پاس اس کا کوئی حق نہیں تھا۔ اور قبول وہ کر رہا تھا جو اس کا حقدار نہیں تھا۹‘‘۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران طلعت پاشا وزیرِسلطنت عثمانیہ نے اعلان کیا۔
I assure you of my sympathy for the’’creation of a Jewish religious centre in Palestine by means of wellorganised immigration and colonization.‘‘۱۰
جب شریف مکہ نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف حکومت برطانیہ کی ایماء پر بغاوت کی تو مہمان نوازی کے نام پر بالفور اعلان کے لیے ان کی بھی حمایت حاصل کرلی گئی۱۱۔
۳۰؍اکتوبر ۱۹۱۸ء کو مشرق وسطیٰ میں جنگِ عظیم اوّل کا اختتام ہوگیا۔ پیرس میں منعقدہ سپریم کونسل نے فیصلہ کیا کہ عرب صوبے بشمول فلسطین حکومت برطانیہ کے زیرِ انتظام رہے گا۔ ۲۴؍جولائی ۱۹۲۲ءکوکونسل لیگ آف نیشن نے حکومت برطانیہ کو فلسطین کا رَسمی اختیار دے دیا۱۲۔
حکومت برطانیہ کی سرپرستی میں فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کی رفتار تیز ہوگئی ان کو سرکاری زمینیں بھی الاٹ ہونی شروع ہوگئیں۱۳۔
۱۹۲۹ء میں فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے۔ مفتی اعظم فلسطین محمد امین حسینی نے اصل صورت حال کو واضح کرنے کے لئے دی ٹائمز کو ایک خط لکھا جس میں فلسطینیوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کو نمایاں کیا گیا اور فسادات کے بارے میں وضاحت کی گئی کہ وہ کسی باقاعدہ منصوبہ کا نتیجہ نہ تھے بلکہ یہودیوں کی زیادتیوں کے باعث اچانک پھوٹ پڑے لیکن دی ٹائمز نے یہ خط شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر ریویو آف ریلیجنز جو کہ اس وقت لندن سے شائع ہورہا تھا آگے بڑھا اور مفتی صاحب کا خط شائع کرکے فلسطینیوں کی مظلومیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۱۴۔
مفتی حسینی صاحب چاہتے تھے کہ ایک کونسل قائم کی جائے جس میں فلسطینی مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔ مسلمان اس وقت فلسطین کی آبادی کا ۸۸فیصد تھے۔ مفتی صاحب نے اس کے لیے حکومت برطانیہ کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن صیہونی لابی نے Ramsay Mac Donald پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۱۵۔
بہرحال جماعت احمدیہ کے ترجمان ریویو آف ریلیجنز نے اپنا حق ادا کر دیا۔ مفتی صاحب اور مظلوم فلسطینیوں کی آواز کو پبلک تک پہنچا دیا۔
اے دل! تو نیز خاطرِ اینان نگاہ دار
کآخر کنند دعوئے حُبِّ پیمبرمؐ
اور اقتدار کے ایوانوں تک اس مظلومیت کی پکار کو پہنچانے والے بھی احمدی ہی تھے چنانچہ سر ظفر اللہ خاں ۱۹۳۴ء میں لندن تشریف لائے، آپ لکھتے ہیں:
۱۹۳۴ء تک صیہونیت فلسطین میں اپنے قدم جما چکی تھی اور اس کا اقتدار بڑھتا جا رہا تھا۔ عرب اراضیات بتدریج صیہونی ایجنسی کی ملکیت اور تصرّف میں منتقل ہو رہی تھیں۔… اس سال گرمیوں میں جب میں انگلستان گیا تو میں نے سرسموئیل ہور وزیر ہند سے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا فلسطین میں صیہونیت کا زور بڑھ رہا ہے اور عربوں کی حالت کمزور ہو رہی ہے۔ اس صورتِ حال کی ذمہ داری دراصل حکومت برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے حکومت برطانیہ کو لازم ہے کہ وہ کوئی مؤثر اقدام کرے مثلاً عرب زرعی اراضیات کا انتقال غیرعرب مشتریان کے حق میں قانوناً روک دیا جائے۱۶۔
وزیر ہند نے سر ظفر اللہ خاں کی ملاقات وزیرِنَوآبادیات سَر فلپ کنلف لِسٹر سے کروائی۔ وزیرِنَوآبادیات نے آپ سے سوال کیا ہم کس قانون کے تحت ایسا کرسکتے ہیں کہ غیرعرب کو کسی عرب کی اراضی خریدنے سے منع کر دیں۔ سر ظفراللہ خاں نے وزیرِنَو آبادیات کو بتایا کہ پنجاب انتقال اراضی ایکٹ کے ماتحت زرعی اراضی کا انتقال ایک غیر زراعت پیشہ مشتری کے حق میں نہیں ہوسکتا۔ یہ نظیر موجود ہے۱۷۔
لیکن سر ظفر اللہ خاں کی راہنمائی کے باوجود وزیرِنَو آبادیات کو عربوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوئی اور یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا۔ اس دوران دنیا تیزی سے جنگ عظیم دوم کی طرف بڑھنے لگی۔ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کو جب آنحضرتﷺ کے بروزِ کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی مرتبہ انتباہ فرمایا تو دنیا نے کوئی پروا نہ کی اور اس کے سات سال بعد وہ تباہی آئی کے چالیس ملین لوگ ہلاک یا زخمی ہوگئے۔ اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے ہی حضرت مسیح موعودؑ کے جانشین حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے دنیا کو متنبّہ فرما دیا۔ آپ ۱۹۲۴ء میں لندن تشریف لاتے ہیں۔ ستمبر ۱۹۲۴ء میں آپ کی ملاقات مسٹر ایلی سن اور مسٹر رین سیکرٹری لیگ آف نیشنز ریلیجن اینڈ ایتھکس سے ہوتی ہے۔ وہ آپ سے امن کی بحالی کے لیے راہنمائی کی درخواست کرتے ہیں آپؓ نے فرمایا:‘‘دو صورتوں سے امن قائم ہوسکتا ہے۔ اوّل دلوں میں تبدیلی ہو۔… دوم طاقت سے۔ اور اس طاقت سے میرا یہ مطلب نہیں کہ لیگ ایک فوج رکھے۔ اس صورت میں لیگ خود ایک فریق بن جائے گی۔ بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جو قوم نقص اَمن کرے۔ باقی تمام اقوام اس کے خلاف اخلاقی طاقت استعمال کریں اور جب وہ مغلوب ہو جائے تو صلح کے وقت اس اَمر کو جو باعث تنازعہ تھا منوا دیا جاوے۔ دوسری باتوں کو مغلوب سمجھ کر پیش نہ کیا جائے جیسا کہ عہدنامہ ورسیلز [Versailles] میں کیا گیا‘‘۱۸۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اربابِ حِل وعقد کی راہنمائی قرآن پاک کی عالمگیر تعلیمات کی روشنی میں کی جو انسانیت کا واحد ذریعہ نجات ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے قرآنِ پاک کاوہ پیغام جو شفاء للناس تھا اسے معاہدہ ورسائی Versailles میں نظرانداز کر دیا گیا کیونکہ دنیا خدا کو بھول چکی تھی۔ چنانچہ دنیا نے ایک مرتبہ پھر اس واحد و یگانہ کا ہیبت ناک چہرہ دیکھا اور سات کروڑ کے قریب لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ اس جنگ میں پہلی مرتبہ ایٹم بم کا استعمال کیا گیا جس سے بعض لوگوں کی جان اس اذیّت سے نکلی کہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ۱۹۴۵ء میں جنگِ عظیم کا اختتام ہوا اور بالآخر یہ قضیہ یواین او میں پہنچا۔ اور وہاں بقول مشہور مصنف اور مؤرّخ آئی ایچ قریشی سر ظفراللہ خاں عربوں کے واحد ترجمان کی حیثیت سے اُبھرے۔
بقول سرظفراللہ خاں صاحب:‘‘جب مَیں نے تقسیم کے منصوبے کا تجزیہ شروع کیا اور اس کے ہر حصّے کی نا انصافی کی وضاحت کرنی شروع کی تو عرب نمائندگان نے توجہ سے سننا شروع کیا۔ تقریر کے اختتام پر ان کے چہرے خوشی اور طمانیت سے چمک رہے تھے‘‘۱۹۔
یو این او میں قضیہ فلسطین کے لیے دو کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ ایک کے ذمہ یہ کام تھا کہ تقسیم کی تفاصیل پر غور کرے اور دوسری کے سپرد فلسطین کی وحدت برقرار رکھتے ہوئے عربوں اور صیہونیوں کے حقوق کی حفاظت کا منصوبہ تیار کرنا تھا۔
سرظفراللہ خاں نے تقسیم کے خلاف ایسے کامیاب پراثر دلائل دیے کہ آپ فرماتے ہیں:‘‘کمیٹی میں نیوزی لینڈ کے نمائندے سر کارل بیرنڈسن (SirCarlBerendsen) تھے۔ میری ایک تقریر کے بعد کمیٹی سے نکلتے ہوئے مجھ سے فرمایا:کیسی اچھی تقریر تھی صاف، واضح، پُردلائل اور نہایت مؤثر۔… مَیں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دریافت کیا سر کارل! پھر آپ کی رائے کس طرف ہوگی؟ وہ خوب ہنسے اور کہا ظفراللہ رائے بالکل اور معاملہ ہے‘‘۲۰۔
رائے بالکل اور معاملہ بن گئی کیونکہ امریکا اور روس تقسیم کے حق میں تھے اور امریکہ کے صدر ٹرومین (HarryS.Truman) پر جنون طاری ہو چکا تھا۔ اور وہ اپنی صدارتی مہم میں یہودی لابی کی حمایت ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے تقسیم کے مخالف نمائندگان کی رائے تبدیل کی۔
ایک بار شیخ عبداللہ نے سر ظفراللہ خاں صاحب کی اُس مہارت اور قابلیت کا جس کے ساتھ آپ نے مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ یو این او میں پیش کیا تھا، ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا:‘‘ہم چلے تو تھے مستغیث بن کر لیکن ایک ملزم کی حیثیت میں کھڑے کر دیئے گئے‘‘۲۱۔
اللہ تعالیٰ نے سر ظفراللہ خاں کو مظلوموں کا مقدمہ اس کامیابی سے پیش کرنے کا ہنر عطا فرمایا تھا کہ ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان ناموسِ رسالت کی خاطر آپ کی پر جوش وکالت دیکھ کر چشم پُرآب ہوگئے اور کہا کون کہتا ہے کہ مسلمانوں میں قابل وکیل نہیں ہوتے۔ اس موقع پر بھی چودھری صاحب نے مظلوم فلسطینیوں کا مقدمہ اس مہارت سے پیش کیا کہ فلسطینیوں کی دادرسی کے لیے انصاف کا دل رکھنے والا ہر شخص بےتاب ہو گیا۔ چنانچہ جب بحث کا سلسلہ ختم ہو اتو ڈنمارک کے مندوب سرظفراللہ خاں کے پاس آئے اور آپ سے ذکر کیا کہ تقسیم کی تجویز ضرور منظور ہو جائے گی۔ کیونکہ امریکہ کا بہت اثر ہے۔ کمیٹی کو احساس ہے کہ یہ بےانصافی کا فیصلہ ہے لیکن ان کی بعض تجاویز کے متعلق ترامیم پیش کرتے جاؤ تو تمام ترمیمیں منظور ہو جائیں گی۔ سر ظفراللہ نے جب ترامیم کا سلسلہ شروع کیا تو فلسطینی وفد کے سربراہ سیّد جمال الحسینی نے آپ کو روک دیا۔ وجہ یہ بتائی کہ‘‘مشکل یہ ہے کہ اگر تقسیم ہمارے حقوق کو واضح طور پر غصب کرنے والی نہ ہوئی تو ہمارے لوگ اس کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے‘‘۲۲۔
آج بڑی بڑی عرب حکومتوں کا مطالبہ یہی ہے کہ اسرائیل اپنی پرانی حدود پر واپس چلا جائے۔
سر محمد ظفراللہ خاں صاحب نے اس تقسیم کی منظوری کے وقت دنیا کو انتباہ کیا:“آپ نے اول عالمی جنگ کے دوران میں جو وعدے عربوں سے کئے تھے ان کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو بدعہدی کے مرتکب ہوں گے اور آئندہ عربوں کا اعتماد کلی طور پر آپ سے اُٹھ جائے گا۔ تقریر ختم کرتے ہوئے مَیں نے کہا:
’’I beg you. I implore you. Entreat you not to destroy your credit in Arab countries. Tomorrow you may need their friendship but you will never get it.۲۳‘‘
لیکن بقول چودھری صاحب اقوام متحدہ کی بنیاد انصاف، مساوات اور حق خود اختیاری پر رکھی گئی تھی لیکن فلسطین کے معاملے میں ان تینوں اصولوں کا خون کیا گیا۲۴۔
تقسیم کی تجویز منظور ہوگئی۔ نیویارک سے لَوٹتے ہوئے آپ دمشق میں ٹھہرے۔ وہاں آپ نے آزاد عرب حکومتوں کے وزرائے خارجہ کے سیکرٹریوں کو اس سوال کےجواب میں کہ اسرائیل کے قیام کے خلاف جنگ کی جائے یا نہ۔ آپ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ احتیاط سے کام لیں۔ کیونکہ اسرائیل کے لیے سمندر کھلا ہے۔ اس کو امریکہ کے یہودی طبقے کی حمایت حاصل ہے اور اسرائیل کی جنگی تیاری اور تربیت آپ سے بہت بڑھ کر ہے۲۵۔
افسوس عرب ممالک نے اس مشورہ کو کوئی اہمیت نہ دی اور اسرائیل کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا جس کے نتیجہ میں اسرائیل ۶۰ فیصد مزید علاقہ پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ ملّت کی اس زبوں حالی کے تناظر میں ملّت کا ایک فدائی بے تاب ہوگیا اور ‘‘الکفر ملّۃ واحدۃ” کے نام سے ایک بصیرت افروز مضمون لکھ کر اُمتِ مسلمہ کو تنزّل وادبار کی ان اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے کا راستہ دکھایا۔ آپ نے اسرائیل کے قیام کے موقع پر فرمایا:‘‘آج رسول کریمﷺ کا یہ فرمان کہ الکفرملّۃ واحدۃ لفظ بلفظ پورا ہو رہا ہے۔ یہودی اور عیسائی اور دہریہ مل کر اسلام کی شوکت کو مٹانے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں آؤ ہم بھی سب مل کر ان کا مقابلہ کریں کیونکہ اس معاملہ میں ہم میں کوئی اختلاف نہیں۲۶۔
حضرت مصلح موعودؓ کے اس انقلاب انگیز اور خیال افروز مضمون نے شام، لبنان، اردن اور دوسرے عرب ممالک میں زبردست تہلکہ مچا دیا… شام ریڈیو نےخاص اہتمام سے اس کا خلاصہ نشر کرکے دنیائے عرب کے کونہ کونہ تک پہنچا دیا۔
چوٹی کے عرب اخبارات نے جلی قلم سے اس کے اقتباسات شائع کیے۔ متفقہ طور پر حضورؓ کی پیش فرمودہ تجویز کو نہایت درجہ مستحسن قرار دیا۲۷۔
استعماری طاقتوں کو کب یہ گوارا تھا کہ امّت مرحومہ کے زخموں پر کوئی مرہم رکھے اور انہیں امید اور رجا کا کوئی راستہ دکھائے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو آلہ کار بنا کر جماعت احمدیہ کے خلاف پراپیگنڈا کی مہم شروع کر دی جس کا انکشاف جریدہ الانباء کے نامہ نگار الاستاذ علی الخیاط آفندی نے کیا۲۸۔
عرب دنیا تو اس وقت احمدیت مخالف پراپیگنڈا سے متاثر نہ ہوئی اور وہاں کے صحافیوں نے بھی آلہ کار بننے سے انکار کر دیا لیکن بقول شورش کاشمیری، مجلس احرار کے وہ لیڈر جنہوں نے سردار پٹیل سے رقم لے کر مسلم لیگ کی مخالفت کی اور قائد اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا۔۹۲ وہ بالواسطہ استعماری طاقتوں کے ایجنٹ بن گئے چنانچہ ‘‘مولویوں کا ایک وفد وزیرِ اعظم سے ملا اور مطالبات پیش کئے۔ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے اور وزیر خارجہ چودھری سر ظفراللہ خاں صاحب کو برطرف کیا جائے‘‘۳۰۔
چنانچہ ۱۹۵۳ء کے فسادات سے لے کر آج تک معصوم احمدیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اس جرم میں کہ امّت کی زبوں حالی ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی اور وہ ناموس مصطفیٰﷺ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار تھے؎
اس جرم کو بھی شامل کر لو میرے معصوم گناہوں میں
وقت کے ساتھ ساتھ فلسطین کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور فلسطینیوں کی زبوں حالی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے نتیجہ میں اسرائیل نے عربوں کے مزید علاقوں پر قبضہ کرلیا جن میں جزیزہ نما سینائی، گولان کی پہاڑیاں، غزہ کی پٹی، مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم شامل تھے۔ اس کے نتیجے میں اب ہر عرب ملک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مجبور ہوگیا۔ پی ایل او جس کا قیام ۱۹۶۴ء میں عمل میں آچکا تھا فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آگے بڑھی۔ ۱۹۷۸ء میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے بعد فلسطینیوں میں یہ احساس شدّت اختیار کر گیا کہ ان کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔ ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدہ کے نتیجہ میں پی ایل او اور اسرائیل نے پہلی مرتبہ ایک دوسرے کا وجود تسلیم کر لیا اور محدود طور پر اختیارات فلسطینیوں کو سپرد کرنے کا عمل شروع ہوا۔ پی ایل او ایک سیکولر تنظیم تھی لیکن جب فلسطینی اس کی کارکردگی سے مایوس ہوگئے تو ان کی توجہ شدّت پسند تنظیموں کی جانب بڑھنے لگی۔
حماس جو فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی دلچسپی رکھتی تھی وہ اس تناظر میں آگے بڑھی۔ اس کی بنیاد ۱۹۸۷ء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی تھی۔ اس کا مقصد اسرائیل کا خاتمہ کرکے فلسطین میں ایک اسلامی مملکت کا قیام تھا۔ حماس اپنے مقاصد کے حصول کےلیے شدّت پسند کارروائیوں پر یقین رکھتی ہے۔ مغربی دنیا حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے۔ اسرائیل نے اوسلو معاہدہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کو اختیارات سپرد کرنے کے عمل کو آگے نہیں بڑھایا۔ ادھر پی ایل او کی کارکردگی بھی فلسطینیوں کے لیے مایوس کن تھی اس کے کئی عہدہ دار کرپشن میں ملوث ہوگئے۔ لہٰذا ۲۰۰۶ء کےالیکشن میں حماس نے فتح حاصل کرکے حیران کردیا۔ غزہ میں الفتح اور حماس کے درمیان معاہدہ کے نتیجہ میں ایک مشترکہ حکومت کا قیام عمل میں آیا لیکن یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا لہٰذا ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں آیا اور ۲۰۰۷ء میں حماس نے غزہ پر اور الفتح نے مغربی کنارے کا انتظام سنبھال لیا۔ غزہ پر حماس کے کنٹرول کی وجہ سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شدّت اختیار کرگئی۔ وجہ یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی مہاجرین کو واپس فلسطین آنے کی اجازت دینے پر رضامند نہیں۔ وہ اپنی فتح کو اپنا حق سمجھتا ہے اور حماس اسرائیل کے وجود کو ماننے پر راضی نہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ محدود مدت کے لیے امن معاہدہ کرنے پر راضی ہے۔ اس تنازعہ کے نتیجہ میں آج صورتِ حال یہ ہے کہ غزہ میں ۲۰لاکھ فلسطینی ظلم وتشدّد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہوچکے ہیں، ہسپتالوں پر حملے ہو رہے ہیں، مریضوں کے پاس دوا، خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں۔معصوم بچے ہزاروں کی تعداد میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ تمام بڑی طاقتیں مظلوموں کی دادرَسی نہیں کرتیں ؎
ادھر ایک حرف کہ کشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
یو این او کا عالمی ادارہ بے بس ہو گیا ہے۔ یو این او کے ریلیف کیمپ کا ایک عہدہ دار Philippe Lazzarini یہ کہنے پر مجبورہوگیا ہے:
The generations to come will know that we watched this human tragedy unfold over social media and news channels. We will not be able to say we did not know. History will ask why the world did not have the courage to act decisively and stop this hell on earth۳۱.
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
اب سوال یہ ہے کہ بڑی طاقتیں کیوں خاموش ہیں۔ کیوں اس بے انصافی کے خلاف حشر نہیں اٹھاتیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں انصاف کے دوہرے معیار پائے جاتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نے ۲۰۱۲ء میں عالمی راہنماؤں کو خطوط لکھے اور خاص طور پر عالمی لیڈروں کو اس طرف متوجہ کیا۔ آپ ایران کے صدر احمدی نژاد کو ۷ مارچ ۲۰۱۲ء کو تحریر فرماتے ہیں:
It is undeniably true that the major powers act with double standards. Their injustices have caused restlessness and disorder to spread all across the world۳۲.
اب سوال یہ ہے کہ انصاف کے دوہرے معیار کیوں ہیں۔ اس لیے کہ دنیا خدا شناسی سے محروم ہو چکی ہے، لہٰذا بعض قوموں کو بعض قوموں کے مقابلے میں بہتر سمجھا جاتا ہے اور ان کے حقوق بھی زیادہ خیال کیے جاتے ہیں۔ جب تک دنیا اس واحدویگانہ کی پہچان نہیں کرتی وہ ذات برادری، قوم کے تصورات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے حقوق ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتی۔ ماضی میں یہ خدا کا تصور تھا جس نے انسانوں کو ذات، برادری، قبیلہ اور قوم کے تصور سے اوپر اٹھا کر تہذیب قائم کرنے کے قابل بنایا تھا۳۳۔
حق یہ ہے کہ موجودہ عالمی مسائل کا جواب اسلام کی سچی تعلیمات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ۱۹۲۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا جب آپ کی ملاقات لیگ آف نیشنز کے ارباب اختیار سے ہوئی۔(الفضل 14؍اکتوبر 1924ءصفحہ 3،4)
لیکن مغرب اپنے دوہرے معیار کی وجہ سے مغلوب قوم کو اس کے جرم سے بڑھ کر سزا دیے بغیر نہ رہ سکا جس کا نتیجہ دوسری عالمگیر جنگ کی صورت میں نکلا۔ مغرب کا ایک مسئلہ Race Consciousness (نسلی برتری کا احساس) ہے۔ اور دوسرا مسئلہ شراب نوشی ہے۳۴۔
ان دونوں مسئلوں کا حل اسلام کی حیات آفریں تعلیمات کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں اور اس کی گواہی دور حاضر کا سب سے بڑا مؤرخ ٹائن بی بھی دیے بغیر نہ رہ سکا۔
In the struggle with each of these evils the Islamic spirit has a service to render which might prove, if it were accepted, to be of high moral and social value۳۵.
مگر اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ مغرب دعوت اسلام قبول کرلے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس امر کی وضاحت کریں کہ مغرب دعوت اسلام کیسے قبول کرے گا ہم اس مسئلہ کی طرف رجوع کرتے ہیں جس سے امت مسلمہ عمومی طور پر اور فلسطینی مسلمان خصوصی طور پر اسرائیل کے قیام سے نبرد آزما ہیں۔ جب بھی کوئی مغلوب قوم مخالف قوم کے خلاف صف آرا ہوتی ہے وہ عمومی طور پر دو قسم کے جواب دیتی ہے یا تو اس کا ردِّعمل روایتی ہوتا ہے۔ یا وہ مخالف قوم کے طریقوں کو اختیار کرکے اسی کے ہتھیاروں سے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اگر ہم فلسطینیوں کی جدوجہد کا جائزہ لیں تو PLO ایک سیکیولر تنظیم کے طور پر ابھری اس کی جدوجہد کے نتیجہ میں فلسطینیوں کو فلسطین میں محدود سطح پر اختیارات ملے لیکن فلسطینی مسلمان اس سے مطمئن نہ ہوسکے۔ لیکن PLO اپنے دائرہ کار میں فلسطینیوں کو اپنی کارکردگی سے مطمئن نہ کر سکی۔ جس کے جواب میں حماس شدت پسند تنظیم کے طور پر سامنے آئی جس نے خدمت خلق کے کام کرنے کے ساتھ ساتھ شدت پسند کارروائیوں کے ذریعہ اسرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ گو اس نے اپنی کارروائیوں کے ذریعہ اسرائیل کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا لیکن اس کے جواب میں اسرائیل مظلوم فلسطینیوں پر جو ظلم توڑتا ہے اس کا کوئی موازنہ نہیں کر سکتا۔ حماس نے اپنی جدوجہد کو جہاد کا نام دیا ہے۔
لیکن بقول حماس کے ایک لیڈر شیخ صالح ارودی کے جو پندرہ سال تک اسرائیل کی قید میں رہا۔ یہ مذہبی جنگ نہیں کیونکہ یہودی اور عیسائی یہاں ۱۴۰۰؍سال سے اکٹھے رہ رہے ہیں بلکہ یہ ایک قومی جنگ ہے جو کہ قبضہ کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔
This is only a nationalistic issue and a nationalistic war because of occupation۳۵.
اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپ میں تنازعہ کا باعث نسلی اور قومی برتری کا احساس ہے اور عرب دنیا میں بھی یہی قومی جذبہ ہے جو مزاحمتی تحریکوں کی بنیاد ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس تنازعہ میں مظلوم اور بےبس قوموں اور طبقوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت کیسے حاصل کی جائے۔ جب تک ہم خدا کی رضا سے ہم آہنگ نہیں ہوتے خدا کی تائیدونصرت حاصل نہیں ہوسکتی۔ حسن البنا سے لے کر مولانا مودودی، سیّد قطب اور محمد الفراج تک جو یہ مفکرین سمجھتے رہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے جب وعظ وتلقین کے بعد ہاتھ میں تلوار لی تو دلوں سے بدی اور شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا۳۶۔
ان مفکرین کی نظر تلوار پر تو ہے لیکن اس توجہ، دعا اور ابتہال پر نہیں جس کے ساتھ آپ ساری رات خدا کے حضور سربسجود رہے اور بالآخر آپ کو سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَیُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ۳۸کی بشارت ملی۔ آپﷺ سائبان سے باہر آئے اور ریت اور کنکر کی ایک مٹھی اٹھائی اور اسےکفار کی طرف پھینکا اور آندھی کا جھونکا آیا اور کفار کی آنکھیں اور منہ اور ناک ریت اور کنکر سے بھرنے شروع ہوگئے۳۹۔
اب سوال یہ ہے کہ دنیا خدا شناسی کی صلاحیت کھوچکی ہے۔ مسلم امت اپنی قومی جدوجہد کے لیے خدا کی توجہ اور تائید کیسے حاصل کر سکتی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فلسطین پر ہمیشہ کی حکومت تو عِبَادُ اللّٰہِ الصَّالِحُونَ کے لئے مقرر کی گئی ہے۔ پس اگر ہم تقویٰ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ کی پہلی پیشگوئی اس رنگ میں پوری ہو سکتی ہے کہ یہود نے آزاد حکومت کا وہاں اعلان کر دیا ہے لیکن اگر ہم نے تقویٰ سے کام نہ لیا تو پھر وہ پیشگوئی لمبے وقت تک پوری ہوتی چلی جائے گی… پس ہمیں چاہئے اپنے عمل سے اپنی قربانیوں سے اپنے اتحاد سے اپنی دعاؤں سے اپنی گریہ وزاری سے اس پیشگوئی کا عرصہ تنگ سے تنگ کر دیں اور فلسطین پر دوبارہ محمد رسول اللہﷺ کی حکومت کے زمانہ کو قریب سے قریب تَر کر دیں۴۰۔
خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا اس کی معرفت حاصل کرے اور قومی اور لسانی وطبقاتی برتری کے نام پر جو مکروہ کام کیے جارہے ہیں ان کا سلسلہ بند کر دے۔ اب سوال یہ ہے کہ کون اس مشن کی تکمیل کرے گا۔ مشہور مؤرخ ٹائن بی نے مغرب میں پیدا ہونے والے روحانی خلا کو پر کرنے کے لیے جس واحد اسلامی جماعت کی طرف اشارہ کیا تھا وہ احمدیہ جماعت ہے۴۱۔
اور ایک مرتبہ ایک معروف دیوبندی عالم مولانا عبیداللہ سندھی نے جو تحریک ریشمی رومال کے ایک اہم کردار تھے جب اپنے جہادی پروگرام سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے ایک مرتبہ جماعت احمدیہ کے ذکر پر لکھا ہر ایک کو کام کرنے کا موقعہ دینا چاہیے خدا جانے کس طریق سے کامیابی ہوتی ہے۴۲۔
اور سب سے بڑھ کر مخبر صادق۔ مولائے کل خاتم الرسل دانائے سبلﷺ نے فرما دیا: لَوْکَانَ الِْایْمَانُ عِنْدَالثُرَیَّا لَنَالَہُ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِنْ ھٰؤُلَاءِ۴۳۔
اور جب اس جدید دَور میں خوف خدا دلوں سے اُٹھ گیا لوگوں نے اپنے اپنے بت تراش لیے تو ملاء اعلیٰ میں ایک شور برپا ہو گیا۔ ایک بار پھر بجلی کی کڑک، دھماکا اور زلزلہ عظیم پیدا ہوا۔ ایک ایسے محی کی تلاش شروع ہوئی جس کا عشق رسولﷺ میں کوئی ثانی نہ ہو۔ اچانک اشارہ ہوا ھذا رجل یحب رسول اللّٰہ۔ چنانچہ قادیان کے گمنام گوشوں سے ایک فنا فی الرسول وجود باہر نکلا اور دلائل اور برہان کی تیغ سے لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ کا نظارہ دکھا دیا۔اور لنالہ رجل من ھؤلاء کیشنید دید میں بدل گئی۔ ہر ایک احمدی اس حقیقت کا گواہ ہے۔
آج دنیا اپنے خالق حقیقی کو بھول کر اپنے فرضی خداؤں کی پوجا پاٹ کر رہی ہے اور نسلی اور قومی تفاخر کے نام پر انصاف کا خون ہو رہا ہے۔ بے گناہ بچوں کو قتل اور بےگناہوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔ اور اس خدائے واحد ویگانہ کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کیے جا رہے ہیں۔ چنانچہ اس سے پہلے کہ خدائے واحدویگانہ ایک بار پھر اپنا چہرہ ہیبت کے ساتھ دکھائے۔ اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھردو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اٹھیں۔ تاکہ تمہاری دردناک آوازیں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خداتعالیٰ زمین پر آجائے اورپھر خداتعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہوجائے۴۴۔
حوالہ جات
۱۔حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۶۹
۲۔Report of the proceedings of the international free trade congress: 1908 page 7
۳۔Liora Halperin – Origin and Evolution of Zionism: January 9, 2015, Middle East Program
۴۔Friedman, Isaiah, The Question of Palestine, New Jersy, 1992, pp66
۵۔Kawthar Guediri, A History of Anti Partitionist in Palestine 19151918, Thesis University of Exeter, 2013. Page 42
۶۔Kawthar Guediri, A History of Anti Partitionist in Palestine 19151918, Thesis University of Exeter, 2013. Page 42
۷۔Kawthar Guediri, A History of Anti Partitionist Perspective in Palestine 19151918, Thesis University of Exter P44
۸۔(Aauni Bey Aledul Hadi, The Balfour Declaration the Annals of American Academy of Political and Science, Vol, 164, P 14)
۹۔(Dr Alex Jaffe, Palestinians and Balfour Declaration at 100, Begin Sadat Center for Studies(2017)
۱۰۔Dore Gold, The Historical Significance of the Balfour Declaration, Jewish Political Review, Vol. 28, No.12
۱۱۔Efraim Karsh, Arab and Turks Welcomed the Balfour Declaration, Begin Sadat Center for Stretegic Studies(2017) P9
۱۲۔Shamir Husan, The Zionist Project And the British Mandate in Palestine Vol, Page 74,75,79,96
۱۳۔The Review of Religion April, 1930, P100
۱۴۔The Review of Religions, April, 1930, P100
۱۵۔(Philip Mattar, The Mufti of Jerusalem and the Politics of Palestine, Middle East Journal , Vol 42, No (1988) Page 231 .232)
۱۶۔تحدیث نعمت از محمد ظفر اللہ خاں صفحہ ۴۸۵
۱۷۔تحدیث نعمت از محمد ظفر اللہ خاں صفحہ ۴۸۶
۱۸۔الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ۳۴
۱۹۔تحدیث نعمت از محمد ظفر اللہ خاں صفحہ ۵۲۱
۲۰۔تحدیث نعمت از محمد ظفر اللہ خاں صفحہ ۵۲۱
۲۱۔شیخ محمد عبداللہ: آتش چنار: علی محمد اینڈ سنز سرینگر کشمیر۔ ۱۹۸۲ء۔ صفحہ ۴۷۳
۲۲۔تحدیث نعمت از محمد ظفر اللہ خاں صفحہ ۵۲۲
۲۳۔تحدیث نعمت از محمد ظفر اللہ خاں صفحہ ۵۲۴
۲۴۔تحدیث نعمت از محمد ظفر اللہ خاں صفحہ ۵۲۵
۲۵۔ماخوذ از تحدیث نعمت صفحہ ۵۲۶،۵۲۵
۲۶۔(الفضل ۲۱ مئی ۱۹۴۸ء صفحہ ۳۴)
۲۷۔تاریخ احمدیت جلد۱۱، صفحہ ۳۹۰،۳۸۹
۲۸۔تاریخ احمدیت جلد۱۱، صفحہ ۳۹۴،۳۹۳
۲۹۔ شورش کاشمیری، بوئے گل نالہ دل دودِ چراغ محفل! مطبوعات چٹان، لمیٹڈ لاہور
۳۰۔سلسلہ احمدیہ جلددوم صفحہ ۳۹۹
۳۱۔Phillipe Lazzarini History will judge us all if there is no cease fire in Gaza. Guardian, 26 Oct 2023
۳۲۔The Review of Religions 22 April 2012
۳۳۔Ira Lapidus, Islamic Societies to Ninteenth Century, Cambridge University Press, 2012, Page 8
۳۴۔Arnold J. Toynbee: Civilization on Trial. Oxford University Press.1948. 205
۳۵۔(Ibid: Page 205)
Milton, Stephen Farrell.۳۶۔ Hamas The Islamic Resistance Movement. 2010. Page 15
۳۷۔مو لانا مودودی۔ الجہاد فی الاسلام صفحہ ۱۳۸
۳۸۔ سورۃ القمر:۴۶
۳۹۔زرقانی بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحہ ۴۱۲
۴۰۔تاریخ احمدیت جلد ۱۱ صفحہ ۳۸۹
Arnold J. Toynbee.۴۱۔ Civilization on Trial. Page 204
۴۲۔ڈاکٹر ابو سلیمان سندھی۔ مولانا عبید اللہ سندھی کے مکتوبات۔ المحمد اکیڈمی لاہور۔ صفحہ ۱۳۱
۴۳۔بخاری باب تفسیرالقرآن
۴۴۔سیر روحانی صفحہ ۶۲۰،۶۱۹
(بشکریہ اخبار احمدیہ جرمنی)