جاپان کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشاداتِ عالیہ
جاپان میں خدمت سلسلہ کرتے ہوئے خاکسار کو خیال آیا کہ جاپان کے بارے میں امام الزمان حضرت اقدس بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے مقدس ارشادات سے استفادہ کیا جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضورؑ کے ارشادات اکٹھے کرنے شروع کیے تو متعدد ارشادات ملتے گئے اور زمانی ترتیب کے اعتبار سے ایک خاص تسلسل اور دلچسپ مضمون پیدا ہوگیا۔ کسی تفصیل یا وضاحت میں جائے بغیر چاہتا ہوں کہ اسی زمانی ترتیب کے لحاظ سے یہ ارشادات ِعالیہ الفضل کے ذریعہ احباب جماعت کے سامنے رکھ دوں، اس درخواست کے ساتھ کہ ان ارشادات کو پڑھتے ہوئے خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جاپان میں اشاعتِ اسلام کے مؤثر سامان مہیا فرمائے، اشاعتِ اسلام کی راہیں اپنے فضل سے آسان بنا دے اور جاپان میں اشاعتِ اسلام کے سلسلہ میں حضور کی جملہ بابرکت خواہشات کو جلد پایۂ تکمیل تک پہنچا نے کی توفیق اور سعادت عطا فرمائے آمین۔
۶؍فروری ۱۹۰۴ء سے لے کر ۵؍ستمبر ۱۹۰۵ء تک روس اور جاپان کے درمیان زبردست جنگ ہوئی۔ یہ جنگ اگرچہ بہت ہولناک تھی لیکن حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی آمد کے وقت مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام پر ہونے والے حملے اس سے بھی شدید تر تھے۔ چنانچہ اس ضمن میں فرمایا:
کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج
اِک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار
جنگِ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا
دِل گھٹا جاتا ہے یا ربّ سخت ہے یہ کارزار
اَے خدا شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ
وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار
جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگِ روس اور جاپان سے
مَیں غریب اور ہے مقابل پر حریفِ نامدار
(مناجات اور تبلیغ حق،درثمین اردو)
اسی مذکورہ بالا جنگ ِروس اور جاپان کا ذکر حضرت مسیح پاکؑ کی بابرکت مجلس میں ایک اور رنگ میں ہوا۔ اس کا ذکر ان الفاظ میں درج ہے:’’اس جنگ کے ذکر پر حضرت حکیم نورالدین صاحب نے بیان کیا کہ اس قدر خو نخوار جنگ ہے کہ ہزاروں آدمی ہلاک ہورہے ہیں حالانکہ دونو سلطنتوں کا مذہب ایسا ہے جس کی رُو سے اس جنگ کی مطلق نوبت ہی نہ آنی چاہیے۔جاپان کا بُدھ مذہب ہے اور اس کی رو سے ایک چیونٹی کا مارنا بھی گناہ ہے۔رُو س عیسائی ہے اور اُن کو چاہیے کہ مسیح کی تعلیم کے بموجب اگر جاپان ایک مقام پر قبضہ کرے تو دوسرا مقام خود اس کے حوالہ کر دیں۔‘‘(ملفوظات جلد ہفتم، صفحہ ۲۱۶ایڈیشن۱۹۸۴ء)
ملفوظات حضرت امام الزمان کی تیسری جلد میں اس گفتگو کی تفصیل درج ہے جو حضورؑ نے ۷؍ اگست ۱۹۰۲ء کو نمازِ فجر کے بعد سیر کے دوران فرمائی۔ اس میں درج ہے کہ’’۷؍اگست ۱۹۰۲ء کی صبح کو حسب معمول سیر کو نکلے۔ ایڈیٹر الحکم نے عرض کی کہ حضور امسال شکاگو کی طرز پر ایک مذہبی کانفرنس جاپان میں ہونے والی ہے۔ جس میںمشرقی دنیا کے مذاہب کے سر کردہ ممبروں کا اجتماع ہو گا اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں اور تائیدپر لیکچر دئیے جائیں گئے۔کیا اچّھاہواگر حضور کی طرف سے اس تقریب پر کوئی مضمون لکھا جائے اور اسلام کی خوبیاں اس جلسہ میں پیش کی جاویں۔ہماری جماعت کی طرف سے کوئی صاحب جیسے مولوی محمد علی صاحب ہیں، چلے جائیں۔ جاپان کے مصارف بھی بہت نہیں ہیں۔ اور جاپان والوں نے ہندوستانیوں کو دعوت کی ہے۔ بلکہ وہ ہندوستان سے جانے والوں کے لیے اپناالگ جہاز بھیجنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ اس پر فرمایا کہ بیشک ہم تو ہر وقت تیار ہیں۔ اگر یہ معلوم ہوجاوے کہ وہ کب ہوگی اور اس کے قواعد کیا ہیں۔ تو ہم اسلام کی خوبیوں اور دُوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کر کے دکھاسکتے ہیں اور اسلام ہی ایسا مذہب ہے جوکہ ہر میدان میں کامیاب ہوسکتا ہے کیونکہ مذہب کے تین جزوہیں۔اوّل خداشناسی۔ مخلوق کے ساتھ تعلق اور اس کے حقوق اور اپنے نفس کے حقوق۔جس قدرمذاہب اس وقت موجود ہیں بجز اسلام کے جو ہم پیش کرتے ہیں سب نے بےاعتدالی کی ہوئی ہے۔ پس اسلام ہی کامیاب ہوگا۔
ذکر کیا گیا کہ وہاں بُدھ مذہب ہے اس کا ذکر بھی اس مضمون میں آجانا چاہیے۔فرمایا: بُدھ مذہب دراصل سناتن دھرم ہی کی شاخ ہے۔ بُدھ نے جو اوائل میں اپنے بیوی بچّوں کوچھوڑ دیا۔ اور قطع تعلق کر لیا۔ شریعت ِ اسلام نے اس کو جائز نہیں رکھا۔ اسلام نے خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنے اور مخلوق سے تعلق رکھنے میں کوئی تناقض بیان نہیں کیا۔ بُدھ نے اوّل ہی قدم پر غلطی کھائی ہے اور اس میں دہریّت پائی جاتی ہے۔مجھے اس بات سے کبھی تعجب نہیں ہوتاکہ ایک کُتّا مُردار کیوں کھاتا ہے جس قدر تعجب اس بات سے ہوتا ہے کہ انسان انسان ہو کرپھر اپنی جیسی مخلوق کی پرستش کیوں کرتا ہے۔ اس لیے ا س وقت جب خدا نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے تو سب سے اوّل میرا فرض ہے کہ خدا کی توحید قائم کرنے کے لیے تبلیغ اور اشاعت میں کوشش کروں۔ پس مضمون تیار ہوسکتا ہے ا ور وہاں بھیجا جاسکتا ہے۔ پہلے قواعد آنے چاہئیں۔
پھر فرمایا کہ اس مضمون کے پڑھنے کے لیے اگر مولوی عبدالکریم صاحب جائیں تو خوب ہے۔ ان کی آواز بڑی بارُعب اور زبردست ہے اور وہ انگریزی لکھا ہو اہو۔ تو اُسے خوب پڑھ سکتے ہیں اور ساتھ مولوی محمد علی صاحب بھی ہوں اور ایک اور شخص بھی چاہئے۔ الرفیق ثم الطریق(ملفوظات جلد سوم، صفحہ ۳۱۱، ۳۱۲ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ملفوظات کی ساتویں جلد میں ۲۶؍جون ۱۹۰۵ء کی ڈائری ان الفاظ میں شائع شدہ ہے کہ ایک دوست نے تحریک کی کہ جاپان میں تہذیب کی بہت ترقی ہوئی ہے اور عیسائی لو گ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمام جاپانی عیسائی ہوجائیں۔ آریوں نے بھی لاہور میں جاپانی زبان سیکھنے کے واسطے ایک مدرسہ قائم کیا ہے اور جاپان میں کئی آدمی بھیجے ہیں۔ اگر مناسب ہو تو سلسلۂ حقہ کی اس ملک میں اشاعت کے واسطے تجویز کی جائے۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا : ہر نبی اور رسول کا آخری زمانہ اس کے سلسلہ کی نصرت کا وقت ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانۂ نبوت کا پہلا بہت سا حصہ مصائب اور تکالیف میں گذرا تھا اور فتوحات اور نصرت کا زمانہ آپ کی عمر کا آخری حصہ ہی تھا۔ہم بھی اپنی عمر کا بہت سا حصہ طے کر چکے ہیں۔ اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ اب خدا کے وعدوں کے پورا ہونے کے دن ہیں۔ ہماری حالت وہ ہے کہ عدالت میں مدت سے کسی کا مقدمہ پیش ہے اور اب فیصلہ کے دن قریب ہیں۔ہمیں مناسب نہیں کہ اور طرف توجہ کر کے اس فیصلہ میں گڑ بڑ ڈال دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب اس فیصلہ کو دیکھ لیں۔ اس مُلک میں جو جماعت تیار ہوئی ہے ابھی تک وہ بھی بہت کمزور ہے۔ بعض ذرا سے ابتلا سے ڈر جاتے ہیں اور لوگوں کے سامنے انکار کر دیتے ہیں اور پھر بعد میں ہم کو خط لکھتے ہیں کہ ہمارا انکار دلی نہیں ہے۔ گو ایسے لوگ اس آیت کی ذیل میں آجاتے ہیں۔ مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَقَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ(النحل : ۱۰۷) تا ہم جن کے دلوں میں حلاوتِ ایمانی پورے طور سے بیٹھ جائے وہ ایسا فعل نہیں کر سکتے۔ فی الحال موجودہ معاملات میں ہی توجہ اور دعا کی بہت ضرورت ہے اور ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ اب معاملہ دور جانے والا نہیں۔ ایسے معاملات میں آریوں کے ساتھ ہماری کوئی مناسبت نہیں ہو سکتی۔ وہ قوم کو بڑھانا چاہتے ہیں اور ہم دنیا میں تقویٰ اور نیکی کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم آریوں کی نقل کرنا چاہیں تو ان کی پیروی ہمارے لیے منحوس ہوگی۔ اور ہم کو وحی کرنے والے گویا وہی ٹھہریں گے۔
اگر خدا تعالیٰ جاپانی قوم میں کسی تحریک کی ضرورت سمجھے گا تو خود ہم کو اطلاع دے گا۔ عوام کے واسطے امور پیش آمدہ میں استخارہ ہوتا ہے اور ہمارے واسطے استخارہ نہیں۔ جب تک پہلے سے خدا تعالیٰ کا منشاء نہ ہو ہم کسی امر کی طرف توجہ کر ہی نہیں سکتے۔ ہمارا دارومدار خدا تعالیٰ کے حکم پر ہے۔ انسان کی اپنی کی ہوئی بات میں اکثر ناکامی ہی حاصل ہوتی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہے گا تو اس ملک میں طالبِ اسلام پیدا کردے گا جو خود ہماری طرف توجہ کرے گا۔ اب آخری زمانہ ہے۔ ہم فیصلہ سننے کے انتظار میں ہیں۔ ہاں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ میں اپنی جماعت کے سب لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ دن بہت نازک ہیں۔ خدا سے ہر اساں و ترساں رہو۔ ایسا نہ ہو کہ سب کیا ہوا برباد ہو جاوے۔ اگر تم دوسرے لوگوں کی طرح بنوگے تو خدا تم میں او ران میں کچھ فرق نہ کرے گا۔ اور اگر تم خو د اپنے اندر نمایاں فرق پیدا نہ کروگے تو پھر خدا تعالیٰ بھی تمہارے لیے کچھ فرق نہ رکھے گا۔ عمدہ انسان وہ ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق چلے۔ ایسا انسان ایک بھی ہو تو اس کی خاطر ضرورت پڑنے پر خدا تعالیٰ ساری دنیا کو بھی غرق کر دیتا ہے۔ لیکن اگر ظاہر کچھ اَور ہو اور باطن کچھ اَور تو ایسا انسان منافق ہے اور منافق کافر سے بدتر ہے۔ سب سے پہلے دلوں کی تطہیر کرو۔ مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے۔ ہم نہ تلوار سے جیت سکتے ہیں اور نہ کسی اورقوت سے۔ ہمارا ہتھیار صرف دعا ہے اور دلوں کی پاکیزگی۔ اگر ہم اپنے آپ کو درست نہ کریں گے تو ہم سب سے پہلے ہلاک ہوں گے۔ اگر خدا نہ چاہے تو جاپان میں کیا رکھا ہے؟ ہاں زبان سیکھنے میں کوئی حرج نہیں، داشتہ آید بکار۔ اگر ہمیں خدا کا حکم ہو تو بغیر زبان سیکھنے کے آج ہی چل پڑیں۔ ہم ایسے معاملات میں کسی مشورہ پر نہیں چل سکتے۔ خدا کے منشاء کے قدم بقدم چلنا ہمارا کام ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ہفتم، صفحہ ۳۸۴تا ۳۸۶، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
۲۶؍اگست ۱۹۰۵ کی ڈائری میں ذکر ہے کہ’’آج نماز ظہر میں مسجد مبارک میں قبل از نماز ذکر آیا کہ جاپان میں اسلام کی طرف رغبت معلوم ہوتی ہے اور بعض ہندی مسلمانوں نے وہاں جانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر فرمایا :جن کے اندر خود ہی اسلام کی روح نہیں وہ دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائیں گے۔جب یہ قائل ہیں کہ اب اسلام میں کوئی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ خدا اس سے کلام کرے اور وحی کا سلسلہ بند ہے تو یہ ایک مردہ مذہب کے ساتھ دوسرے پر کیا اثر ڈالیں گے۔ یہ لوگ صرف اپنے پر ظلم نہیں کرتے بلکہ دوسروں پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ اُن کو اپنے بدعقائد اور خراب اعمال دکھا کر اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ اُن کے پاس کونسا ہتھیار ہے جس سے یہ غیر مذاہب کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے۔ اُن کی بوسیدہ اور ردّی متاع کو کون لے گا۔ چاہیئے کہ اس جماعت میں سے چند آدمی اس کام کے واسطے تیار کیے جائیں جو لیاقت اور جرأت والے ہوں اور تقریر کرنے کا مادہ رکھتے ہوں۔‘‘( ملفوظات جلد۴صفحہ ۳۵۱، ایڈیشن۱۹۸۸ء)’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ جاپانیوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ اس لئے کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں اسلام کی حقیقت پورے طور پر درج کر دی جاوے گویا اسلام کی پوری تصویر ہو۔ جس طرح پر انسان سراپا بیان کرتا ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک کی تصویر کھینچ دیتا ہے۔اسی طرح سے اس کتاب میں اسلام کی خوبیاں دکھائی جاویں۔ اس کی تعلیم کے سارے پہلوؤں پر بحث ہو اور اس کے ثمرات اور نتائج بھی دکھائے جاویں۔ اخلاقی حصہ الگ ہو اور ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جاوے۔‘‘
پھر اسی سلسلہ میں مزید فرمایا:’’میرے نزدیک تو یہ ضرورت ایسی ضرورت ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہے۔ اُسے بھی چاہیے کہ وہ اپنا روپیہ اس دینی جہاد میں صرف کردے۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کو پانچوں نمازیں اکٹھی پڑھنی پڑی تھیں۔لیکن اب چونکہ تلوار کا جہاد نہیں بلکہ صرف قلم کا جہاد رہ گیا ہے۔
اس لیے اسی ذریعہ سے اس میں ہمت، وقت اور مال کو خرچ کرنا چاہیے۔‘‘(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ ۲۰، ۲۱)
مذکورہ بالا حوالہ میں حضور ؑنے جس کتاب کی تجویز فرمائی ہے اس کے بارےمیں اخبار بدر میں یوں ذکر ہے، فرمایا:’’اسلام کا پورا نقشہ کھینچا جاوے کہ اسلام کیا ہے۔ صرف بعض مضامین مثلاً تعدد ازدواج وغیرہ پر چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنا ایسا ہے۔ جیسا کہ کسی کو سارا بدن نہ دکھایا جائے اور صرف ایک انگلی دکھا دی جا وے۔ یہ مفید نہیں ہو سکتا۔ پوری طرح دکھانا چاہیے کہ اسلام میں کیا کیا خوبیاں ہیں اور پھر ساتھ ہی دیگر مذاہب کا حال بھی لکھ دینا چاہیے۔ وہ لوگ بالکل بے خبر ہیں کہ اسلام کیا شئے ہے۔ تمام اصول فروع اور اخلاقی حالات کا ذکر کرنا چاہیے۔ اس کے واسطے ایک مستقل کتاب لکھنی چاہیے جس کو پڑھ کر وہ لوگ دوسری کتاب کے محتاج نہ رہیں۔‘‘(ملفوظات جلد۴صفحہ ۳۷۱۔۳۷۲، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
’’جیسا کہ ہم نے… بیان کیا ہے کہ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جاوے اور کسی فصیح بلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کرایا جائے اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جائے۔‘‘(ملفوظات جلد۴صفحہ ۳۷۳، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
’’میں دوسری کتابوں پر جو لوگ اسلام پر لکھ کر پیش کریں بھروسہ نہیں کرتا۔ کیونکہ ان میں خود غلطیاں پڑی ہوئی ہیں۔ ان غلطیوں کو ساتھ رکھ کر اسلام کے مسائل جاپان یا دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنا اسلام پر ہنسی کرانا ہے۔ اسلام وہی ہے جو ہم پیش کرتے ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۳، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
’’انبیاء علیہم السلام کے حالات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو مشکلات نظر آتی تھیں تو بجز اس کے اور کوئی صورت نہ ہوتی تھی کہ وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرتے تھے۔ قوم تو صمٌ بکمٌ ہوتی ہے۔ وہ ان کی باتیں سنتی نہیں بلکہ تنگ کرتی اور دکھ دیتی ہے۔ اس وقت راتوں کی دعائیں ہی کام کیا کرتی تھیں۔اب بھی یہی صورت ہے۔ باوجود یکہ اسلام ضعف کی حالت میں ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی بحالی کے لیے پوری کوشش کی جاوے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہم جب اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر طرح سے ہماری مخالفت کے لیے سعی کی جاتی ہے۔ یہ میری مخالفت نہیں خدا تعالیٰ سے جنگ ہے۔ میں تو یہاں تک یقین رکھتا ہوں کہ اگر میری طرف سے کوئی کتاب اسلام پر جاپان میں شائع ہو تو یہ لوگ میری مخالفت کے لیے جاپان بھی جا پہنچیں گے۔ لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۵ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
ایک ضروری گزارش
جو ارشادات عالیہ خاکسار نے اس مضمون میں پیش کیے ہیں۔ یہ ان کتب سے ۱۹۸۳ء میں اخذ کیے گئے تھے جو فوری طور پر وہاں جاپان میں مجھے میسر تھیں۔ چونکہ ساری کتب وہاں موجود نہیں تھیں اس لیے اس انتخاب کو یقینی طور پر مکمل نہیں کہا جا سکتا۔ عین ممکن ہے کہ ان کتب میں جو میری نظر سے نہیں گزریں جاپان کے بارہ میں اور بھی ارشادات ہوں۔ بے حد ممنون ہوں گا اگر قارئین الفضل میں سے کوئی دوست جاپان کے بارےمیں ملنے والے مزید ارشاداتِ عالیہ الفضل میں شائع کروادیں تاکہ یہ مضمون اس اعتبار سے مکمل ہو جائے فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔