آسمان سے شعلےگرنے کی قرآنی پیشگوئی
(ازابونائل)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :یُرْسَلُ عَلَیْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِ (سورۃالرحمٰن:۳۶)ترجمہ: تم دونوں پر آگ کے شعلے برسائے جائیں گے اور ایک طرح کا دھواں بھی۔پس تم دونوں بدلہ نہ لے سکو گے۔
قرآنی الفاظ کی لغت مفردات امام راغب میں ’اَلشُوَاظُ‘ کا مطلب بیان ہوا ہے : ’’آگ کا شعلہ جس میں دھواں نہ ہو۔‘‘مفردات میں ’النُّحَاسُ ‘کا مطلب بیان ہوا ہے:دھوئیں کے بغیر آگ کی لپیٹ۔عربی انگریزی کی مشہور لغت لین میں اس کا مطلب بیان ہوا ہے۔
’Sparks that fall from brass or iron when it is beaten with hammer.‘
یعنی وہ شعلے جو کہ لوہے یا پیتل سے اس وقت نکلتے ہیں جب اسے ہتھوڑے سے ضرب لگائی جائے۔
لیکن اس کے ساتھ اسی لغت میں اس لفظ کا یہ مطلب بھی بیان ہوا ہے :
smoke in which is no flame
یعنی وہ دھواں جس کے ساتھ شعلہ نہ ہو۔
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کریمہ کے تحت حضرت ابن عباسؓ کی یہ روایت درج کی گئی ہے:’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’شواظ‘سے مراد وہ شعلہ ہے جس میں دھواں نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سند میں امیہ بن صلت کا شعر پڑھ کر سنایا۔ اور ’نُحَاسٌ‘ کے معنی آپ نے کیے ہیں محض دھواں جس میں شعلہ نہ ہو اور اس کی شہادت میں بھی ایک عربی شعر نابغہ کا پڑھ کر سنایا۔ ‘‘
سورۃ الدخان میں ایک ایسے ہی وقت کے متعلق انتباہ کیا گیا ہے۔فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ۔یَّغْشَى النَّاسَ-هٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔(سورۃ الدخان ۱۱ و۱۲)ترجمہ: پس انتظار کر اس دن کا جب آسمان ایک واضح دھواں لائےگا۔ جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ ایک بہت دردناک عذاب ہوگا۔
مفردات امام راغب میں ’اَلدُّخَانُ‘کا مطلب لکھا ہے:اس دھوئیں کو کہتے ہیں جو آگ کے شعلہ کے ساتھ نکلتا ہے۔اسی طرح عربی انگریزی لغت میں ’دخان ‘ کا یہ مطلب بیان ہوا ہے :
“Dearth, drought, sterility, or unfruitfulness; and hunger”
یعنی قلت، قحط، بانجھ پن، بے ثمر ہونا اور بھوک
صحیح بخاری کتاب التفسیر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ دخان کا نشان پورا ہو چکا ہے۔ جب آنحضرتﷺ کی بد دعا کے نتیجہ میں کفار قریش پر قحط کا عذاب نازل ہوا تو بھوک کی شدت سے ان کا یہ حال تھا کہ جب وہ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو انہیں دھواں نظر آتا تھا۔
اسی آیت کریمہ کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر میں حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓاور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓکے اقوال درج ہیں کہ دخان کا نشان مستقبل میں ظاہر ہوگا۔ اور یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
قرآن کریم میں یہ پیشگوئی بھی بیان کی گئی ہے:كَلَّا لَیُنْۢبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِ۔وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَةُ۔نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُ۔الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ۔اِنَّهَا عَلَیْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ۔فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ۔(الھمزۃ ۲ تا ۱۰)ترجمہ: خبردار وہ حُطَمَہ میں گرایا جائے گا۔اور تجھے کیا بتائے حُطَمَہ کیا ہے۔وہ اللہ کی آگ ہےبھڑکائی ہوئی۔ جو دلوں پر لپکے گی۔ یقیناََ وہ ان کے خلاف بند کی گئی ہے۔ایسے ستونوں میں جو کھینچ کر لمبے کیے گئے ہیں۔
عربی انگریزی لغت لین میں ’حُطَمَةٌ‘کا مطلب لکھا ہے:
A vehement fire, that breaks in pieces everything that is cast into it
یعنی وہ خوفناک آگ جس میں جو چیز ڈالی جائے وہ ٹوٹ جائے۔(اس آیت کریمہ کی پر معارف تفسیر پڑھنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی معرکہ آرا تصنیفRevelation and Rationality, Knowledge and Truthکا باب Nuclear Holocaust ملاحظہ فرمائیں )
یہ کس تباہی کی پیشگوئی ہے؟
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سورۃ الرحمٰن کی آیت ۵۵ کے بارے میں تفسیر صغیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس میں کاسمک ریز اور بموں کی طرف اشارہ ہے۔
مندرجہ بالا آیات میں ایک عذاب کے متعلق خبردار کیا گیا ہے۔ اور اگر ان آیات کے مجموعی معانی پیش نظر رکھے جائیں تو اس عذاب میں دو گروہوں کے اوپر آگ کے شعلے برسیں گے۔ اور اگر لغوی معانی پیش نظر رکھے جائیں تواس شعلہ کی کیفیت یہ ہو گی کہ یہ بغیر دھوئیں کے ہوگا لیکن اسی کے ساتھ ایک قسم کا دھواں بھی ہوگا جو بطور عذاب کے دنیا کو ڈھانپ لے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسورۃ الدخان کی مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں ’تفسیر صغیر ‘میں تحریر فرماتے ہیں:’یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس آیت میں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کا ذکر ہے۔جن کے پھینکنے پر تمام جوّ میں دھواں پھیل جاتا ہے۔اور ان بموں کو اس وقت سائنسدان قیامت کا پیش خیمہ بھی بتا رہے ہیں۔‘
قرآنی پیشگوئیوں کے بارے میں ایک اہم اصول
قرآن مجید کی کوئی بھی پیشگوئی بلکہ کسی بھی آیت کریمہ کو سمجھنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ اصولی ارشاد پیش نظر رکھنا ضروری ہے: ’’قرآن شریف ذوالمعارف ہے اور کئی وجوہ سےاس کے معنی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد نہیں اور جس طرح قرآن شریف یک دفعہ نہیں اترا اسی طرح اس کے معارف بھی دلوں پر یک دفعہ نہیں اترتے۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۴۲۱)پھر آپ تحریر فرماتے ہیں:’’ایک ایک آیت دس دس پہلو پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ تمام پہلو صحیح ہوتے ہیں۔‘‘(روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۴۲۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ایک خطبہ جمعہ میں قرآن کریم کے اس اعجاز کی یہ تفصیل بیان فرماتے ہیں:’’ہر زمانہ میں لوگوں کی علمی اور عقلی حالت بدلتی رہتی ہے۔ باقی نبیوں کے لئے تو اس میں کوئی مشکل نہ تھی کیونکہ ان کا کلام اسی زمانہ کے لئے ہوتا تھا جس میں نبی مبعوث کیے جاتے تھے اور اس زمانہ کے لوگوں کی عقلی اور ذہنی حالت کے مطابق ہوتا تھا۔ لیکن اسلام کے لئے یہ امر مشکل تھا کیونکہ اسلام نے قیامت تک جانا تھا۔ اور اس وقت تک لوگ کئی زبانیں بولنے والے تھے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے سات بطن ہیں۔(تفسیر الطبری الجزء الاوّل صفحہ ۳۰تا۳۴۔ مطبوعہ مصر۱۹۵۴ء)
عام طور پر لوگوں نے اس حدیث کو پوری طرح نہیں سمجھا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف زبانوں کے تغیرات کے مطابق قرآن کریم کی آیات کے معنی کھلتے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے لوگوں کو قرآن کریم کی کئی آیات کے وہ معنی نظر نہ آئے جو بعد میں تغیر آنے والے زمانہ کے لوگوں کو نظر آئے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کے جو نکات اور معارف نکالے وہ قرآن کریم میں نئی آیات داخل کر کے نہیں نکالے۔ آیات وہی تھیں۔ ہاں آپ پر اس زمانہ کے مطابق ان کا بطن ظاہر ہوا۔ چونکہ زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور موجودہ زمانہ مذہب کے متعلق امن اور صلح کا زمانہ تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم سے امن کے احکام اور صلح کی تعلیم پیش فرمائی۔ یہ دوسرا بطن تھا جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق آپ پر کھولا گیا۔پس رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ قرآن کے سات بطن ہیںاس کے ایک معنی یہ ہیں کہ دنیا میں سات بڑے تغیرات آئیں گے اور ہر تغیر کے زمانہ میں لوگوں کے وقت بدل جائیں گےاس وقت خداتعالیٰ قرآن کریم کے ایسے معنی کھول دے گا جو لوگوں کے اس وقت کے ذہنوں اور قلوب کو تسکین اور تسلی دینے والے ہوں گے۔ اس زمانہ میں بیسیوں مسائل ایسے ہیں جو ایسے رنگ میں کھلے ہیں کہ پہلے ان کی ضرورت اور اہمیت محسوس نہیں کی جا سکتی تھی۔‘‘(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۵؍ اکتوبر۱۹۴۳ء بمقام ڈلہوزی)
قرآن کریم کی بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں آخری زمانہ کے بارے میں عظیم الشان پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں۔ پرانے مفسرین نے اپنے اپنے فہم کے مطابق ان کی تفاسیر تحریر کی ہیں۔ لیکن ان کی حقیقت اسی وقت ظاہر ہو سکتی تھی جبکہ وہ روز روشن کی طرح پوری ہو کر لوگوں کو نظر آ جائیں۔ بعض پرانے مفسرین نےمندرجہ بالا آیات کو قیامت پر چسپاں کیا ہے لیکن اپنے زمانے کے حساب سے ان کا ذہن جوہری بموں کی تباہی کا احاطہ نہیں کر سکتا تھا۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی تصنیف کے باب Nuclear Holocaustمیں مفصل دلائل بیان فرمائے ہیں کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں جوہری بموں کی تباہی کے ایسی مفصل علامات بیان ہوئی ہیں کہ ان پیشگوئیوں کے اعجاز کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔
ہیروشیما اور ناگا ساکی کی تباہی
قدیم زمانہ میں یہ بات افسانوی معلوم ہوتی تھی کہ حقیقی دنیا میں آسمان سے کوئی شعلہ نازل ہو کر عظیم تباہی کا باعث بنے گا لیکن دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جب جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے تو یہ نظارہ ایک حقیقت کی صورت میں سامنے آگیا۔ان شہروں کی تباہی سے بھی قبل ۱۶؍جولائی ۱۹۴۵ءکو امریکہ نے ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ تجربہ ٹرینیٹی کے مقام پر ۱۶؍جولائی ۱۹۴۵ء کو کیا گیا تھا۔ اس دھماکہ کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ یہ تجربہ اس وقت کیا گیا جب کہ سورج نصف النہار پر تھا۔اور اس عینی شاہد پی ماریسن نے یہ نظارہ ریت کے ایک ٹیلہ کے پیچھے پوشیدہ ہو کر ویلڈنگ کے لنز کے ذریعہ دیکھا تھا۔ اور اس لمحہ جس مینارے پر بم کو رکھ کر دھماکا کیا گیا تھا اس کے ارد گرد سفید روشنی کی ایک عظیم طشتری نظر آئی اور جب وہ غائب ہوئی تو دو پہر کا سورج بھی اس مقابلہ پر مدھم معلوم ہو رہا تھا۔ پھر اس کے نیچے سے سیاہ مادہ بلند ہونا شروع ہوا جس نے اس روشن طشتری کو کھانا شروع کیا۔اور روشنی نے ایک سرخ رنگ کے شعلہ کی صورت میں آسمان کی طرف بڑھنا شروع کیا۔اور اس کے بعد اس مقام پر ایک کھمبی کی صورت میں دھوئیں کا ایک عظیم بادل نمودار ہوا۔
(https://www.atomicarchive.com/resources/documents/trinity/morrison.html, accessed on 5.11.2023)
۶؍اگست ۱۹۴۵ء کو ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا۔اس کے ایک عینی شاہد ٹوکیو کی کیتھولک یونیورسٹی کے پروفیسر جان اے سائمیس (John A. Siemes) بیان کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے ان کی یونیورسٹی کو ٹوکیو سے ہیروشیما سے دو کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ سوا آٹھ کے قریب پوری وادی کو ایک چکا چوند کرنے والی روشنی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مجھے حرارت محسوس ہونی شروع ہوئی۔ میں باہر دیکھنے کے لیے کھڑکی کی طرف لپکا لیکن مجھے صرف ایک زرد شعلہ نظر آرہا تھا۔دس سیکنڈ کے بعد ایک دھماکا کی آواز سنائی دی جس کے بعد کھڑکی کے شیشے کے ٹکڑے ہوا میں اڑ کر میرے جسم میں پیوست ہو گئے۔اس پر مجھے احساس ہوا کہ یہ کسی بم کا دھماکا تھا۔اس کے بعد ہم نے پورے شہر سے آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھے۔
(https://www.atomicarchive.com/resources/documents/hiroshima-nagasaki/hiroshima-siemes.html, accessed on 8th Nov. 2023)
اس المیہ کے تین روز بعد ۹؍اگست ۱۹۴۵ءکو جاپان کا شہر ناگاساکی بھی اس بربریت کا نشانہ بنا۔اس بم کو گرانے کے لیے امریکی فضائیہ کےجو ہوائی جہاز ناگاساکی روانہ کیے گئے ان میں سے ایک کے پائلٹ کا بیان ہے کہ میں نے ایک جہاز سے سیاہ رنگ کے بم کو گرتے ہوئے دیکھا۔اس کے بعد اس کی زد سے نکلنے کے لیے تمام ہوائی جہاز مختلف سمتوں میں منتشر ہو گئے۔اس کے بعد باوجود اس کے کہ دن چڑھا ہوا تھا اور ہماری آنکھیں ویلڈر لینس کے پیچھے تھیں ہم نے ایک عظیم شعلے کو بلند ہوتے دیکھا۔اس کے بعد بھی اس علاقہ میں نیلے اور سبز رنگ کی روشنی چھائی ہوئی تھی۔پھر ایک عظیم دھماکے سے جہاز لرز گیا۔ اس کے بعد ایک کے بعد دوسرے دھماکوں کا اثر محسوس ہوا۔اور ۴۵ سیکنڈ کے اندر اندر ہم نے کاسنی رنگ کی آگ کا ایک ستون بلند ہوتے ہوئے دیکھا جو کہ جہازوں کی سطح تک پہنچ گیا۔پھر گردو غبار کی ایک کھمبی زمین سے بلند ہونی شروع ہوئی۔
(https://www.atomicarchive.com/resources/documents/hiroshima-nagasaki/eyewitness-nagasaki.html, accessed on 8th November 2023)
دلوں پر لپکنے والی آگ
اس سے قبل کئی لوگوں کو جو بات افسانوی معلوم ہوتی تھی وہ اب حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آ گئی تھی اور اتنی واضح ہو کر سامنے آئی کہ صدیوں پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔جیسا کہ پہلے سورۃ الھمزۃ کی آیات درج کی گئی تھیں کہ یہ ایک ایسی آگ ہو گی جو کہ دلوں پر لپکے گی۔سائنسی طور پر اس کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے؟ اس کی حقیقت اس بم کی ایجاد کے بعد ہی سامنے آ سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم کے دھماکے کے ساتھ صرف حرارت یا آگ ہی نہیں خارج ہوتی بلکہ خوفناک تابکاری (Radiation)کی عظیم مقدار بھی خارج ہوتی ہے۔ایسے بموں کے دھماکے کے بعد ابتدائی طور پر Gamma Radiation، Neutron Radiationاور Ionizing Radiationکی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔یہ شعائیں ابتدائی تین منٹوں میں پیدا ہوتی ہیں اور اس کے بعد بھی تابکاری خارج ہوتی رہتی ہے اور سائنسی اصطلاح میں اسے Residual Radiationکہتے ہیں۔ اور ملبہ کے علاوہ متاثرہ زمین سے بھی خارج ہو رہی ہوتی ہے۔اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ ان شعاعوں کا دل سے کیا تعلق ہوتا ہے؟
سائنسی تحقیق سے یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ ایٹم بم سے جو تابکاری کی شعاعیں خارج ہوتی ہیں وہ دل پر اثر انداز ہو کر دل کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔جو لوگ ہیروشیما اور ناگاساکی کے بموں کی فوری تباہ کاری سے زندہ بچ گئے تھے بعد میں عام آبادی کی نسبت ان لوگوں میں دل کی بیماریوں سے شرح اموات خاظر خواہ زیادہ تھی۔ان کو زیادہ بلڈ پریشر کی بیماری ہونے کے علاوہ ایسے بہت سے متاثرین کی دل سے نکلنے والی بڑی رگ Aortaمیں کیلشیم جمع ہونے کا عارضہ بھی زیادہ تعداد میں ہوا۔یہ موضوع کہ تابکاری شعاعوں کے اثرات سے دل کے امراض جنم لیتے ہیں، بہت سی سائنسی تحقیقات کا موضوع بنا۔ اس سال برٹش میڈیکل جرنل نے ۹۳ ایسی تحقیقات کا مجموعی تجزیہ شائع کیا جن میں دل کے امراض اور تابکاری شعاعوں کے اثرات کے باہمی تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا۔
(Ozasa K, Takahashi I, Grant EJ, Kodama K. Cardiovascular disease among atomic bomb survivors. Int J Radiat Biol. 2017 Oct;93(10):1145-1150. BMJ 2023;380:e072924 )
اس کے علاوہ اب ایسی تحقیقات بھی سامنے آئی ہیں کہ تابکاری کے اثرات سے دل کی دھڑکن تیز آہستہ اور بےترتیب ہو سکتی ہے۔
(https://www.aerjournal.com/editions/aer-volume-12-2023)
ایٹمی دھواں
اب ہم ’دخان ‘یا دھوئیں کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی کی کچھ تفصیلات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور جیسا کہ پہلے یہ ذکر کیا گیا تھا کہ ’النُّحَاسُ‘کا ایک مطلب دھوئیں کے بھی ہوتے ہیں۔کیا اس دور میں اس کی کوئی ممکنہ سائنسی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اور اس کی کیا اہمیت ہے؟ جیسا کہ پہلے حوالے درج کیے جا چکے ہیں کہ حضرت علیؓ اورکئی صحابہؓ کا نظریہ تھا کا یہ نشان مستقبل میں پورا ہوگا۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا یہ خیال تھا کہ یہ نشان آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں پورا ہو گا۔اس آیت کریمہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لطیف مضمون بیان فرمایا ہے کہ ایک پیشگوئی تاریخ کے مختلف ادوار میں بار بار پوری ہوتی ہے۔ اور اس طرح قرآن مجید کی پیشگوئیوں کی عظمت ایک بالکل نئے زاویے سے ظاہر ہوتی ہے۔آپؑ ازالہ اوہام میں تحریر فرماتے ہیں:’’پس تو اس دن کا امیدوار رہ جس دن آسمان ایک کھلا کھلا دھواں لائے گا جس کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہ عذاب دردناک ہے…اس جگہ دخان سے مراد قحط عظیم و شدید ہے جو سات برس تک آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں پڑا یہاں تک کہ لوگوں نے مردے اور ہڈیاں کھائی تھیں جیسا کہ ابن مسعود کی حدیث میں مفصل اس کا بیان ہے۔لیکن آخری زمانہ کے لئے بھی جو ہمارا زمانہ ہے اس دخان مبین کا وعدہ تھا اس طرح پر کہ قبل از ظہور مسیح نہایت درجہ کی شدت سے اس کا ظہور ہوگا۔ اب سمجھنا چاہیے کہ یہ آخری زمانہ کا قحط جسمانی اور روحانی دونوں طور سے وقوع میں آیا۔‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۷۵)
جیسا کہ پہلے حوالے درج کیے جا چکے ہیں کہ ’دخان ‘کے مطالب میں دھواں، قلت، قحط، بانجھ پن، بے ثمر ہونا اور بھوک بھی شامل ہیں۔ اور سائنسی طور پر اس پیشگوئی کے حوالے سے یہ سب مطالب پورے ہوتے ہیں اور ان مختلف مطالب کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔حضرت مصلح موعود ؓنے تفسیر صغیر میں یہ لطیف مضمون بیان فرمایا تھا کہ سورت دخان کی مذکورہ آیت میں ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں سے ہونے والی تباہی کی پیشگوئی ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں بھی ایک دھواں پھیل جاتا ہے۔ اور سائنسدان اس تباہی کو قیامت کا پیش خیمہ بتا رہے ہے۔اب اس بارے میں سائنسی تحقیقات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
۱۹۷۰ءکی دہائی تک دنیا کے چھ ممالک نےجوہری ہتھیاروں کا ایک ذخیرہ جمع کر لیا تھا اور بڑی طاقتوں کے سیاستدانوں اور ماہرین میں یہ سوچ پنپ رہی تھی کہ یہ ضروری نہیں کہ جب جوہری ہتھیاروں سے جنگ ہو تو فریقین مکمل طور پر تباہ ہوجائیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ دونوں فریق محدود پیمانے پر ان بموں کا استعمال کریں اور صرف کچھ علاقے تباہ ہو ں اور باقی ملک اور باقی دنیا محفوظ رہے۔ اور اس جنگ کے بعد فاتح دنیا پر راج کرے اور جیسا کہ ماضی کی جنگوں میں ہوتا آیا ہے مفتوح ماضی کا قصہ بن کر تاریخ کی کتابوں میں گم ہوجائےگا۔ اس سلسلہ میں امریکہ کے وزیر دفاع James A. Schlesingerنے ۴؍مارچ ۱۹۷۴ء کو اس سلسلہ میں امریکی کانگرس کو بریفنگ بھی دی۔اور سائنسی جرائد میں بھی اس ممکنہ صورت حال کا تجزیہ کیا جا رہا تھا اور اس سلسلہ میں فوری تباہی کے علاوہ تابکاری سے ہونے والی سات آٹھ لاکھ افراد کی مو ت کا اس طرح ذکر کیا جا تا تھا جیسے انسانوں کی نہیں مولیوں اور گاجروں یا آلو پیاز کی بات ہو رہی ہو۔
(Sidney D. Drell and Frank von Hippe (1976) LIMITED NUCLEAR WAR. Scientific American 235 (5), 29-37.)
لیکن یہ اندازے نا مکمل تھے۔ اس وقت کے سائنسدان ایک اہم پہلو کو نظر انداز کر رہے تھے۔اور وہ پہلو یہ تھا کہ اگر وسیع پیمانے پر جوہری ہتھیاروں سے جنگ ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں اٹھنے والا گردو غبار اور دھواں جو سطح زمین سے میلوں اوپر جا کر فضا میں معلق رہے گا اس کے زمین کے موسم اور درجہ حرارت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ اسّی کی دہائی میں ایٹمی جنگوں کے کچھ اور ممکنہ عالمی تباہ کن نتائج سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
۱۹۸۲ءمیں سائنسدانوں کی ایک کمیٹی بنائی گئی جو کہ یہ جائزہ لے کہ اگر اس وقت کی دو بڑی طاقتوں یعنی امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی بھر پور جنگ شروع ہو جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں کتنا دھواں اور کتنی گرد فضا میں بلند ہو گی اور اس کے زمین کے موسم پر کیا ممکنہ نتائج ہوں گے۔ تین چار سال بعد کمپیوٹروں کی مدد سے سائنسدانوں کی ٹیم نے جو ممکنہ نتائج بیان کیے وہ پوری دنیا کے لیے ہوشربا تھے۔ان کا تخمینہ یہ تھا کہ اگر دو بڑی طاقتیں اپنے جوہری اسلحہ کا چالیس فیصد بھی ایک دوسرے پر چلا دیتی ہیں، تو اس کی فوری تباہی سے جو انسانیت کا قتل ہوگا وہ تو ہوگا لیکن اس کے بعد اس المیہ کے جو بھیانک نتائج نکلیں گے وہ فوری تباہی سے بھی زیادہ خوفناک ہوں گے۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ جب کسی مقام پر ایٹم بم پھٹتا ہے تو اس سے پورے علاقہ میں آگ لگتی ہے اور اس کے نتیجہ میں دھوں بلند ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں یہ حساب لگایا گیا کہ اگر بھرپور ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں اندازا ََ کتنا دھواں فضا میں بلند ہوگا؟ سائنسدانوں نے یہ حساب لگایا کہ اس کے نتیجہ میں دس کروڑ ٹن دھواں بلند ہوگا۔ یہ ایک محتاط اندازہ تھا۔کچھ سائنسدانوں نے یہ اندازہ لگایا کہ اس کے نتیجہ میں تیس کروڑ ٹن دھواں بلند ہوگا۔اب یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر دس کروڑ ٹن دھواں بھی پیدا ہو تو اس کے زمین تک پہنچنے والی سورج کی روشنی پر کیا اثرات ہوں گے۔حساب کتاب کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اتنے دھوئیں سے زمین تک پہنچنے والی روشنی کا ۹۵فیصد حصہ رک جائے گا گویا دن کے وقت بھی تاریکی کا راج ہوگا۔ چونکہ زمین پر خوراک کی پیدائش کا انحصار سورج کی توانائی پر ہے، اس لیے اس عمل سے زمین پر فصلیں، پھل وغیرہ پیدا نہیں ہوں گے۔اور اس کا نتیجہ زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کے لیے تباہ کن ہوگا۔گویا ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں آگ کے شعلوں سے فوری تباہی ہو گی اور اس کے بعد دھواں بلند ہوگا جو طویل المیعادتباہی کا باعث بنے گا۔
جوہری سردی
یہ صرف ایک پہلو تھا۔ اگر اس قسم کی جنگ ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں صرف دھواں ہی نہیں بلکہ گرد کی بہت بڑی مقدار فضا میں بلند ہو گی۔رہا یہ سوال کہ گرد یا مٹی کی کتنی مقدار فضا میں بلند ہو گی۔اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ یہ ایٹمی ہتھیار کس قسم کی زمین پر چلائے گئے ہیں۔ لیکن اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ان ہتھیاروں نے شہروں کو نشانہ نہیں بنایا تو بھی ایک تخمینہ یہ ہے کہ سوا کروڑ کے قریب گرد کے باریک ترین ذرات فضا میں بلند ہوں گے۔اور گرد کے یہ طوفان سطح زمین سے بیس کلومیٹر بلندی تک بھی جا سکتے ہیں۔سائنسی زبان میں دھواں تو بارہ کلومیٹر تک یعنی فضا کی قریبی تہ Troposphereتک بلند ہوگا اور گرد کا طوفان اس سے اوپر کی تہ Stratosphereتک بلند ہو کر تباہی کا باعث بنے گا۔ان کا مجموعی نتیجہ یہ نکلے گا کہ سطح زمین پر درجہ حرارت میں زیادہ اور سطح سمندر پر کم کمی ہو گی۔اور ایک تخمینہ کے مطابق درجہ حرارت میں چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک کی کمی ہو سکتی ہے۔اسے سائنسی اصطلاح میں جوہری سردی (Nuclear Winter)کہا جاتا ہے۔ اگر صرف چند ڈگری کمی سے فصلوں پر مضر اثرات ہوتے ہیں تو اس صورت حال میں قحط کی کیا کیفیت ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ طوفانوں اور طویل المیعادتابکاری اثرات سے جو تباہی ہو گی وہ اس کے علاوہ ہے۔
(Richard P. Turco, Owen B. Toon,Thomas P. Ackerman, James B. Pollack and Carl Sagan (1984) THE CLIMATIC EFFECTS OF NUCLEAR WAR.Scientific American. 251(2), 33-43.)
محدود جوہری جنگ کے نتائج
اب دنیا کے نو ممالک کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ان میں سے صرف روس اور امریکہ کے پاس پانچ ہزار سے زائد جوہری بم موجود ہیں باقی کسی ملک کے جوہری بموں کی تعداد ایک ہزار تک نہیں پہنچتی۔ مندرجہ بالا سائنسی تخمینہ اس تصور کے تحت لگایا گیا تھا کہ اگر دو بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری جنگ ہو تو کیا صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ کسی اور دو ممالک کے درمیان جوہری تصادم ہو تو اس سے مقامی تباہی تو برپا ہو گی لیکن یہ صورت حال نہیں پیدا ہو گی کہ دنیا قحط میں مبتلا ہو جائے۔لیکن ۲۰۰۹ءمیں سائنسدانوں نے کمپیوٹروں کی مدد سے یہ تحقیق شروع کی کہ اگر نسبتاََ چھوٹے پیمانے پر مثال کے طور پر برصغیر میں ایسے تصادم کی نوبت آجائے جس میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہو تو کیا صورت حال پیدا ہو گی۔ اس تحقیق سے یہ خوفناک اعداد و شمار سامنے آئے کہ اگر محدود جوہری جنگ بھی ہو جس میں طرفین کی طرف سے سو کے قریب جوہری بم استعمال کیے جائیں تو بھی دھوئیں کی ایک بڑی مقدار فضا میں بلند ہو گی جو کہ دو ہفتہ میں پورے کرہ ارض پر محیط ہوجائے گا۔ اس کے نتیجہ میں سورج کی روشنی میں جو کمی ہو گی اس سے درجہ حرارت میں جو تھوڑی کمی ہو گی، دنیا کی زراعت پر اس کا اثر اتنا شدید ہوگا جو دنیا کو بد ترین قحط سے دوچار کردے گا۔ فضا میں اوزون کی لہر کو نقصان پہنچے گا اور موسمی تبدیلی سے نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
(Alan Robock & Owen Brian Toon (2010) Local Nuclear War, Scientific American 302(1) 74-81)
ان تمام تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ ممکنہ جوہری جنگ کے نتیجہ میں جو دھوئیں کی دیومالائی مقدار فضا میں بلند ہو گی اس کا اور ایک بھیانک قحط کا گہرا تعلق ہے۔ اور خواہ جوہری جنگ علاقائی سطح پر ہو اس کے ایسے خوفناک عالمی نتائج بر آمد ہوں گے جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
قرآن مجید کی مذکورہ پیشگوئیوں کے اصل الفاظ اور جدید تحقیقات کے نتائج بیان کر دیے گئے ہیں۔ کیا آج سے چودہ سو سال قبل کوئی ذہن ایسی جوہری جنگوں کی تباہی اور اس کے ان المناک نتائج کا تصور بھی کر سکتا تھا۔ اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔ ہر دور قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے نئے مطالب کو ظاہر کرتا چلا جاتا ہے۔ مستقبل کی تحقیقات اس ضمن میں کن نئے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہیں ؟ اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔