اسلام میں حصول علم کی اہمیت
رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعا سکھا کر مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے یہ دعا صرف برائے دعا ہی نہیں کہ منہ سے کہہ دیا کہ اے اللہ میرے علم میں اضافہ کر اور یہ کہنے سے علم میں اضافے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ بلکہ یہ توجہ ہے مومنوں کو کہ ہر وقت علم حاصل کرنے کی تلاش میں بھی رہو، علم حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہو۔ طالب علم ہو تو محنت سے پڑھائی کرو اور پھر دعا کرو تو اللہ تعالیٰ حقائق اشیاء کے راستے بھی کھول دے گا۔ علم میں اضافہ بھی کر دے گا اور پھر صرف یہ طالب علموں تک ہی بس نہیں ہے بلکہ بڑی عمر کے لوگ بھی یہ دعا کرتے ہیں۔ اور اس دعا کے ساتھ اس کوشش میں بھی لگے رہیں کہ علم میں اضافہ ہو اور اس کی طرف قدم بھی بڑھا ئیں۔ تو یہ ہرطبقے کے سب عمروں کے لوگوں کے لئے یہی دعا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ اُطْلبُواالْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ یعنی چھوٹی عمر سے لے کے، بچپنے سے لے کے آخری عمر تک جب تک قبر میں پہنچ جائے انسان علم حاصل کرتا رہے۔ تو یہ اہمیت ہے اسلام میں علم کی۔ پھر اس کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ لگا لیں کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم یا دعا پر سب سے زیادہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا۔ اور آپؐ عمل کرتے تھے، اللہ تعالیٰ تو خود آپؐ کو علم سکھانے والا تھااور قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب بھی آپ پر نازل فرمائی جس میں کائنات کے سربستہ اور چھپے ہوئے رازوں پر روشنی ڈالی جس کو اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شاید سمجھ بھی نہ سکتا ہو۔ پھر گزشتہ تاریخ کا علم دیا، آئندہ کی پیش خبریوں سے اطلاع دی لیکن پھر بھی یہ دعا سکھائی کہ یہ دعا کرتے رہیں کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ بہرحال ہر انسان کی استعداد کے مطابق علم سیکھنے کا دائرہ ہے اور اس دعا کی قبولیت کا دائرہ ہے۔ وہ راز جو آج سے پندرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے بتائے آج تحقیق کے بعد دنیا کے علم میں آ رہے ہیں۔ یہ باتیں جو آج انسان کے علم میں آ رہی ہیں اس محنت اور شوق اور تحقیق اور لگن کی وجہ سے آ رہی ہیں جو انسان نے کی۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۸؍جون ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲؍جولائی ۲۰۰۴ء)