خوابوں کے ذریعہ سے احمدی ہونے والوں کے بعض واقعات
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍ستمبر ۲۰۱۷ء)
[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۵؍ دسمبر ۲۰۲۳ء]
فرانس سے ایک خاتون مالکہ صاحبہ ہیں۔ وہ اپنی قبولیت احمدیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ میرے سارے خاندان میں احمدیت کا پیغام پہنچ چکا تھا اور اس حوالے سے اکثر ہمارے گھر میں بات بھی ہوتی رہتی تھی کہ فلاں شخص کی اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ رہنمائی کی اور وہ جماعت میں شامل ہو گیا۔ میں یہ باتیں سنتی رہتی تھی لیکن خود میں نے کبھی کوئی بات نہیں کی۔ کہتی ہیں کہ ایک دن میں نے خدا کے حضور دعا کی کہ تُو مجھے بھی بتا کہ احمدیت سیدھا راستہ ہے یا غلط۔ کہتی ہیں کہ اگلی تین راتوں میں خدا تعالیٰ نے مجھے یکے بعد دیگرے تین خوابیں دکھائیں۔ پہلی خواب میں مَیں نے دیکھا کہ جیسے قیامت آ گئی ہے اور ہر طرف افراتفری ہے۔ لیکن میرے بہن بھائی جو احمدی ہو چکے ہیں وہ بالکل افراتفری میں نہیں بلکہ نہایت خوش ہیں جبکہ میں چیخ و پکار کر رہی ہوں کہ حالات بہت خطرناک ہیں لیکن وہ بالکل پریشان نہیں بلکہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے جماعت احمدیہ کے اجلاس میں جانا ہے۔ میں خواب میں خوف کی حالت میں ہی ان کے ساتھ چمٹ جاتی ہوں۔ پھر ایک خواب میں دیکھا کہ میری بہن جو احمدی ہو چکی ہے وہ مجھ سے کہہ رہی ہے کہ نماز پڑھو۔ یہی ایک راہ ہے۔ اسی طرح تیسری رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہوں اور میں نے محسوس کیا جیسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر کچھ لکھا ہے۔ چنانچہ ان خوابوں کے بعد کہتی ہیں میرے دل میں شرح صدر پیدا ہوا کہ یہ جماعت کی سچائی کے بارے میں ہی خوابیں ہیں اور میں نے بیعت کر لی اور اب پورا خاندان احمدیت میں داخل ہو چکا ہے۔
عبدالعزیز تراوڑے صاحب جو آئیوری کوسٹ کے ایک گاؤں شیپو( Chiepo) میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک معمّر شخص وامارا تراوڑے (Wamara Traore) صاحب نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ ان کے گاؤں میں عرب لوگ آئے ہیں۔ خواب میں ہی ان کے آنے پر بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ لوگ اصلی عرب نہیں ہیں۔ ان سے دُور رہیں۔ یہ کہتے ہیں اسی دوران مجھے خواب میں آواز آئی کہ اگر تم خدا تعالیٰ کو پانا چاہتے ہو تو انہی لوگوں کے ذریعہ خدا کو پاؤ گے۔ کہتے ہیں کہ اس کے چند دن بعد احمدیوں کے مبلغ ہمارے گاؤں آئے تو بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ ان کو پتا تھا کہ احمدی مبلغ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو مسلمان ہی نہیں ہیں اور ان لوگوں سے دُور رہا جائے۔ یہی ہمارے مولویوں کا فتویٰ ہے۔ موصوف نے جب یہ دیکھا تو انہیں اپنی خواب یاد آ گئی۔ اس کے چند روز بعد ہی انہوں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ جلسہ سالانہ آئیوری کوسٹ میں بھی یہ شامل ہوئے اور بڑے جوش اور ولولے سے شامل ہوئے۔
کانگو برازاویل سے بشیر ساکلہ (Basheer Ntsakala) صاحب ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مجھے پہلی دفعہ 2014ء کے وہاں کے مقامی جلسہ سالانہ میں شرکت کا موقع ملا۔ جہاں معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰؑ وفات پاچکے ہیں اور اب وہ آسمان سے زندہ نہیں اتریں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ مسلمان فرقوں میں بٹ جائیں گے اور اسلام صرف نام کا باقی رہ جائے گا۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئیں گے اور صرف ان کی جماعت ہدایت پر ہو گی۔ کہتے ہیں کہ پھر میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر اور کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا جس سے مجھے احمدیت کی سچائی کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اسی دوران ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نے مجھے سفید اور گلابی رنگ کا خوشنما لباس دیا ہے۔ اور پھر ماہ رمضان میں ایک روز خواب دیکھا کہ میں بہت اعلیٰ بس میں سفر کر رہا ہوں۔ اس خواب کے بعد میری تسلی ہو گئی کہ بس چونکہ سفر کا ذریعہ ہے اس لئے میں جس راستے پر جا رہا ہوں وہ بہت اعلیٰ ہے۔ پس اس خواب کے بعد میں نے احمدیت قبول کر لی۔
قرغزستان جماعت کے نومبائع اِشلن رامیل (Ishalin Rameel) صاحب اپنا قبول احمدیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں ایک مسلمان خاندان میں پیدا ہوا۔ اس لئے اسلام میرے لئے اجنبی مذہب نہیں تھا۔ لیکن میں نے مذہب کی غرض و غایت کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں قرغزستان جماعت کے صدر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ مذہب کے حوالے سے جب گفتگو کی تو ان کی باتوں سے آہستہ آہستہ اسلام کی حقیقت مجھ پر کھلنی شروع ہو گئی اور مجھے اس بات کا علم ہوا کہ موجودہ دور کے مسلمان حقیقی اسلام پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ ان سے بات کر کے مجھے میرے سوالات کے جوابات ملنے شروع ہو گئے جو کہ قرآن کریم کے حوالہ جات، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، احادیث کی مستند کتابیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور میرے جو مختلف خطبات تھے ان کی روشنی میں تھے۔ کہتے ہیں میں نے دیکھنا شروع کیا۔ اس طرح میں نے پہلی دفعہ قرآن کریم پڑھنا شروع کیا۔ پھر کہتے ہیں ایک دن مَیں نے بیعت کر نے کا فیصلہ کیا۔ اسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے والد صاحب کے دوست نے مجھے ایک طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس جگہ پر ایک نشان ہے لیکن اس نشان کے بارے میں کسی کو مت بتانا کیونکہ دہشت گرد آ کر اس نشان کو تباہ کر دیں گے۔ چنانچہ میں نے جا کر اس نشان کو دیکھا۔ وہ ایک بہت بڑا باغ ہے۔ اس باغ میں تتلیوں کی طرح کی مخلوق اڑ رہی تھی۔ چنانچہ میں سوچنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کے اس نشان کو ہم کیسے چھپا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اسی دوران مَیں خواب میں پرندے کی طرح اڑنے لگ جاتا ہوں۔ اور میں اڑ کر اپنے والد صاحب کے دوستوں کے گھر گیا وہ چائے پی رہے ہوتے ہیں لیکن مجھے دیکھ کر محض ایک پرندہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن مَیں انہیں تین دفعہ اللہ اکبر کہتا ہوں تو وہ گھبرا جاتے ہیں کہ یہ پرندہ کیسے بول سکتا ہے۔ کہتے ہیں چنانچہ میں آسمان کی طرف اڑ جاتا ہوں۔ پھر آسمان کی طرف اڑتے وقت میں پرندے سے ایک فرشتے میں تبدیل ہو جاتا ہوں۔ پھر میں زمین کی طرف دیکھتا ہوں کہ سب لوگ مر چکے ہیں اور کوئی بھی زندہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد خواب میں ہی مَیں اپنے گھر کی طرف اڑ کر آتا ہوں اور گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے میں بیدار ہو جاتا ہوں۔ اس خواب کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ روحانی طاقت دی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد پھر میں نے بیعت کر لی اور جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیا۔
حمدی محمد عبدالہادی صاحب مصر کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ احمدیت کے بارے میں جاننے سے کافی عرصہ پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک ویران اور سنسان راستے پر ایک گمنام منزل کی طرف چل رہا ہوں۔ ایسے میں ایک صالح شخص آتا ہے اور مجھے اس راستے سے ہٹا کر ایک نئے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ میں کوئی مزاحمت کئے بغیر بخوشی اس راستے پر چلنا شروع کر دیتا ہوں جس پر وہ صالح شخص مجھے لاکر کھڑا کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ہمدردانہ رویّے سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے اس نے مجھے بدانجام سے بچا کر حسن عاقبت اور خیر ِکثیر کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ اس راستے پر چلتے چلتے کچھ دیر کے بعد ایک بلند جگہ پر پہنچ کر اپنے پرانے راستے کی طرف دیکھتا ہوں تو وہاں پر ایک جابر شخص کو بعض لوگوں سے جبری مشقت کرواتے ہوئے پاتا ہوں تو میں سوچتا ہوں کہ اگر صالح شخص مجھے اس راستے سے نہ ہٹاتا تو آج میں بھی دیگر کئی لوگوں کی طرح اسی ظلم کا وشکار ہو جاتا۔ خواب میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ شاید یہ صالح انسان خدا کا نبی موسیٰ علیہ السلام ہے۔ کہتے ہیں کافی عرصہ کے بعد جب میرا جماعت سے تعارف ہوا تو سمجھ میں آیا کہ جس راستے پر میں گامزن تھا وہ تباہی اور بربادی کی طرف جاتا تھا اور جس صالح انسان نے مجھے اس راستے سے اٹھا کر نئے راستے پر ڈال دیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے جبکہ نیا راستہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام تھا۔
یہ چندنمونے مَیں نے پیش کئے۔ کوئی روس کی سابقہ ریاستوں قازان، قرغزستان سے ہے تو کوئی یورپ کے ملک کا ہے۔ کوئی مغربی افریقہ میں سے ہے تو کوئی سینٹرل افریقہ میں سے ہے اور کوئی عرب ملک کاہے۔ مختلف قوموں کے مختلف زبانیں بولنے والے لوگ لیکن ایک ہی طرح کی رہنمائی ان سب کی ہو رہی ہے۔ یہ رہنمائی کون کر رہا ہے؟ یقیناً خدا تعالیٰ ان کی (راہنمائی) فرما رہا ہے جس نے آپ کو فرمایا تھا کہ مَیں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بڑھاؤں گا۔
٭…٭…٭