’’نیک لوگ سرخ گندھک کی مانند ہو گئے ہیں ‘‘
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بیان فرمودہ جملہ
’’نیک لوگ سرخ گندھک کی مانند ہو گئے ہیں ‘‘
کی روشنی میںگندھک اور اس کی اقسام کا تعارف
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍اپریل ۲۰۱۱ء میں فرمایا:’’ اس وقت جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب’’اَلْھُدیٰ‘‘میں جو بادشاہوں اور مختلف طبقوں کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے یا اُن کا حال پیش فرمایا ہے اُس میں سے کچھ حصے پیش کرتا ہوں۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اور نیک لوگ سرخ گندھک کی مانند ہو گئے ہیں (نیکی بالکل نایاب ہو گئی ہے)۔ ان میں نہ تو اخلاقِ اسلام رہے ہیں اور نہ بزرگوں کی سی ہمدردی رہ گئی ہے۔ کسی سے بُرا آنے سے باز نہیں آتے خواہ کوئی پیارا یار کیوں نہ ہو۔ لوگوں کو کھولتا ہوا پانی پلاتے ہیں (یعنی تکلیفیں ہی دیتے چلے جاتے ہیں) خواہ کوئی خالص دوست ہی ہو۔ اور دسواں حصہ بھی بدلہ میں نہیں دیتے خواہ بھائی ہو یا باپ یا کوئی اور رشتہ دار ہو اور کسی دوست اور حقیقی بھائی سے بھی سچی محبت نہیں کرتے اور ہمدردوں کی بڑی بھاری ہمدردی کو بھی حقیر سمجھتے ہیں۔ اور محسنوں سے نیکی نہیں کرتے اور لوگوں پر مہربانی نہیں کرتے خواہ کیسے ہی جان پہچان کے آدمی ہوں۔ اور اپنے رفیقوں کو بھی اپنی چیزیں دینے سے بخل کرتے ہیں بلکہ اگر تم (اپنی نظر دوڑاؤ) دوڑاؤ اپنی آنکھ کو ان میں اور بار بار ان کے منہ کو دیکھو۔ (یعنی اپنی نظر دوڑاؤ اور ان کو دیکھو) تو تم اس قوم کی ہر جماعت کو پاؤ گے فسق اور بددیانتی اور بے حیائی کا لباس پہنا ہوا ہے۔ اور ہم اس جگہ تھوڑا سا حال اپنے زمانے کے بادشاہوں اور دوسرے لوگوں کا لکھتے ہیں جو ہوا پرست لوگ ہیں۔‘‘ ( الفضل انٹرنیشنل ۶؍ مئی ۲۰۱۱ء صفحہ ۶)
جیسا کہ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس جملہ ’’نیک لوگ سرخ گندھک کی مانند ہو گئے ہیں‘‘کی تشریح کرتے ہوئے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ ’’نیکی بالکل نایاب ہو گئی ہے ‘‘تو اس حوالہ سے راقم نے مناسب سمجھا کہ سرخ گندھک کے بارے میں کچھ معلومات لی جائیں کہ سرخ گندھک کیا ہے اورحضرت مسیح موعودؑ نے نیک لوگوں کی کمی کی مثال کے لیے اُس زمانہ میں اس مخصوص کیمیائی عنصر کی نایابی کے ذکر کو کیوں منتخب فرمایا تھا۔
آج اکیسویں صدی میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ گیس لائٹر کی ایجاد سے قبل اگر کروڑوں نہیں تو لاکھوں انسان تو ضرور ہی سرخ گندھک اپنی جیبوں میں لیے پھرتے تھے کیونکہ یہ دیاسلائی (ماچس) کی ڈبیا کی سائیڈ پہ لگی ہوتی ہے جس سے دیا سلائی کو رگڑتے ہیں تو وہ جل اٹھتی ہے۔ چنانچہ گھروں کے اندر باورچی خانوں میں بھی اس کی موجودگی ایک عام سی بات ہے۔
لیکن آج سے لگ بھگ سوا صدی قبل ایسا ہر گز نہ تھا۔
جیسا کہ یہ حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’الھدیٰ‘‘کا ہے،اس کتاب کا سن تصنیف ۱۹۰۲ء ہے (بحوالہ روحانی خزائن جلد ۱۸۔ صفحہ ۲۴۵)، اور یہ وہ سال ہے جب دوجرمن کیمیا دانوں Rudolf Schenok اور Paul Marquart نے پہلی مرتبہ امریکہ میں عام گندھک سے سرخ گندھک (Red Phosphorus) تیار کرنے کااجازت نامہ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی تھی اور پھر جملہ مراحل سے گزرنے کے بعد ۱۹۰۵ء میں اس منفرد نوایجادکردہ طریقہ کار کے جملہ حقوق (Patent) ان کے نام محفوظ ہو سکے تھے۔( https://patents/US804555A/en)
واضح رہے کہ اٹھارھویں صدی کے وسط کے بعد عام طورپر پائی جانے والی سفید یا زرد گندھک انتہائی مضر صحت قرار دیے جانے کے بعد یہ تجربات شروع کردیے گئے تھے کہ گندھک کو کسی ایسے قالب میں ڈھالا جائے جو بہت حد تک محفوظ ہو۔ زرد گندھک معمول سے کچھ ہی زیادہ درجہ حرارت پہ خود بخود آگ پکڑ لیتی ہے اس لیے اسے خاص ڈبوں یا زیر آب ہی ذخیرہ کیا جاتا ہے جبکہ سرخ گندھک دوصد تا ۵۹۰؍ ڈگری سینٹی گریڈ (۱۰۹۰؍ ڈگری فارن ہائیٹ) کے درجہ حرارت پر تیار ہوتی ہے اور اس کا مالیکیول بہت مستحکم اور محفوظ ہوتا ہے۔ یہ جانداروں کے لیے بھی بڑی حد تک بےضرر ہوتی ہے۔
زرد گندھک کا کام کرنے والے مزدوروں اور کاری گروں کی ہڈیوں خصوصاً جبڑے کی ہڈی میں ایک ایسی بیماری (Phossy Jaw)پیدا ہوجاتی تھی جس کا علاج جبڑے کو کاٹ کر الگ کردینے کے سواکچھ نہ ہوتاتھا۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق ماچس کی ڈبیا پرسرخ گندھک سب سے پہلے آسٹریا کے ایک کیمیا دان (Lundström) نے ۱۸۵۵ء میں کامیابی سے لگائی تھی۔ اس سے قبل سفید یا زرد گندھک، یا کچھ دوسری دھاتوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعض ماچس کی تیلیوں کی رگڑ کے لیے ریگ مال استعمال کیا جاتا تھا یوں سرخ گندھک والی ماچس کی ڈبیا کے لیے پہلی مرتبہ محفوظ یعنی ’’سیفٹی ماچس‘‘کی اصطلاح رائج ہوئی۔
(https://www.britannica.com/science/match-tinder#ref237290)
ایک تاریخی مقالہ کے مطابق ایجاد کے باوجود نئی سیفٹی ماچس ۱۸۹۲ء تک عام آدمی کی دسترس سے باہرہی تھی کیونکہ یہ نایاب اور بہت مہنگی ہوا کرتی تھی۔
شروع میں آسٹریا کے اس کیمیادان کے علاوہ کسی کو سرخ گندھک کے اس استعمال کی بوجہ پیٹنٹ (Patent) اجازت نہ تھی، عام مارکیٹ میں توسرخ گندھک عنقا تھی اور جیسا کہ پہلے بیان ہوا،امریکہ میں ۱۹۰۵ء میں جرمن کمپنی کو سرخ گندھک تیار کرنے کا اجازت نامہ ملا تھا۔ یہی وہ سال ہے جس میں سفید گندھک کے عام استعمال پر پابندی لگادی گئی۔
(https://www.compoundchem.com/2014/11/20/matches/)
اس منظرنامے کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا جملہ کو پڑھا جائے توکسی جنس کا سرخ گندھک کی طرح نایاب ہونے کامطلب خوب واضح ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ بیان کرنا بھی مناسب ہے کہ یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ دنیا میں گندھک محض دیا سلائی کے رگڑنے ہی کے کام آتی ہے۔ نہیں، بلکہ متعدد اقسام کی اہم ادویات، کھادوں، تیزاب، گولہ بارود، پٹرولیم مصنوعات اورمزید کئی اقسام کی ایجادات کے علاوہ قدرتی طور پر ایک طرف پتھروں اور چٹانوں تودوسری طرف ہماری ہڈیوں دانتوں نیز نباتات وغیرہ کا جزولاینفک ہوتی ہے،ان میں زیادہ تریہ اپنےمرکبات یعنی فاسفیٹ وغیرہ کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
کرہٴ ارض کے قشرمیں بھاری مقدار میں پائی جانے والی دھاتوں یا عناصر میں سے گندھک بارھویں نمبر پر ہے۔ اس کا شمار نائٹروجن کے ’’خاندان‘‘ میں ہوتا ہے۔ جدید خلائی تحقیقات کے مطابق ہماری کہکشاں میں پائی جانے والی گیسوں کے نمونہ میں بھی اس کی موجودگی کاانکشاف ہوا ہے۔
انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے مطابق بارہویں صدی کے عرب کیمیادان گندھک کے وجود اور استعمال سے بخوبی واقف تھے۔
جدید دور میں گندھک کی ایک تیسری قسم سیاہ گندھک (Black Phosphorus) بھی تیار کی جا چکی ہے جو باریک ترین ذرات پر مشتمل نینوٹیکنالوجی (Nano Particle Technology) میں انتہائی مؤثر ثابت ہورہی ہے،خصوصاً کینسرکی تشخیص اور علاج کے میدان میں۔
(https://www.sciencedirect.com/topics/physics-and-astronomy/black-phosphorus)
سائنسی تحقیقات کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ اب تو سرخ اور سیاہ کے علاوہ بنفشی اور نیلی گندھک بھی تیار کرلی گئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ اقسام ایک دوسرے سے محض رنگ کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ بعض جداگانہ خواص اور استعمال کی بنا پر بھی مختلف ہوتی ہیں۔
ہومیوپیتھک طریق علاج میں فاسفورس کی ہومیوپیتھک پوٹینسیاں بھی مختلف عوارض میں مفید بتائی جاتی ہیں۔
٭…٭…٭