حضرت مصلح موعود ؓ

قرآنِ کریم پڑھنے کی ہدایت (قسط دوم۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۸؍مارچ ۱۹۱۹ء)

کوئی نہیں جو قرآن کے علوم کو ختم کر سکے اس میں وہ علوم ہیں جو یہاں بھی کام آتے ہیں اور اگلے جہاں میں بھی کام آئیں گے۔یہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ اس میں انسان کی ہر حالت کے متعلق ہدایتیں ہیں

(تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۷؍ دسمبر ۲۰۲۳ء)

جب تم اپنے دل میں یہ خیال کر کے قرآن کریم کو پڑھو گے کہ تم نے ابھی اس کو ختم نہیں کیا اور یہ کہ اس کے علوم لامحدود ہیں۔

اگر کوشش کریں گے تو نئے نئے علوم حاصل ہوں گے۔ تو اس وقت دیکھو گے کہ ہر بار نئے علوم اور نئے معارف تمہیں حاصل ہوں گے۔

مگر جو انسان یہ خیال کرے کہ جو کچھ اس نے کرنا تھا وہ کر چُکا وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا، لیکن جو خیال کرے گا اور جانے گا کہ ابھی اس نے بہت کم کیا ہے اور بہت زیادہ کرنا ہے وہ بہت کچھ کر لے گا۔

دُنیا میں دیکھو جن لوگوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ بس دُنیا اس سے زیادہ نہیں جس قدر ہمیں معلوم ہے وہ اس سے زیادہ معلوم نہ کر سکے۔ مگر جن کو کسی طریق سے پتہ لگ گیا کہ زمین یہی نہیں جو ہمیں معلوم ہے اُنہوں نے اور بھی بہت سی زمین کا پتہ لگا لیا اور کئی جزیروں کا ان کو علم ہو گیا۔ پس

اسی طرح جو سمجھتا ہے کہ اس نے علوم کو ختم کر لیا ہے وہ ترقی نہیں کر سکتا

اورجو ابھی اپنے آپ کو محتاج جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ابھی اس نے علوم کو ختم نہیں کیا۔ اس کے لئے اَور علوم کھولے جاتے ہیں۔

پس کوئی نہیں جو قرآن کے علوم کو ختم کر سکے اس میں وہ علوم ہیں جو یہاں بھی کام آتے ہیں اور اگلے جہاں میں بھی کام آئیں گے۔

یہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ اس میں انسان کی ہر حالت کے متعلق ہدایتیں ہیں۔

اگرچہ اس کے الفاظ مختصر ہیں مگر معانی و مطالب اس قدر وسیع ہیں کہ جن کی کوئی حد نہیں جو اس خیال سے اس کا پڑھنا ترک کر دیتا ہے کہ جوکچھ اس نے پڑھنا تھا پڑھ چُکا وہ غلطی پر ہے کیونکہ درحقیقت وہ قرآن کو نہیں پڑھ چُکا چونکہ

درحقیقت اس میں وہ ہدایتیں ہیں جو انسان کی ہر حالت کے متعلق ہیں اور انسان کی حالت ہروقت بدلتی رہتی ہے۔ اس لئے ہر وقت اس کا پڑھنا ضروری ہے۔

پس مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ

قرآن کریم کے پڑھنے میں کوشش کریں تو ان کو ایسے ایسے معارف ملیں گے کہ ان کی رُوحیں ان کی لذّت کو محسوس کریں گی

اور ان کو معلوم ہو گا کہ وہ ایسے سمندر میں سے جواہر نکال رہے ہیں جس کے جواہرات کا کبھی خاتمہ نہیں ہو سکتا۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو گُر بتائے ہیں اگر انسان ان کو مدِّنظر رکھے تو وہ ان علوم سے حصّہ پاسکتا ہے مگر لوگ الفاظ کی طرف چلے جاتے ہیں اور معانی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔

حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے روزانہ قرآن کریم کا درس جاری فرمایا تھا۔ ان کی تڑپ ایک خاص رنگ اور امتیاز رکھتی تھی۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ

صحابہ کا دستور تھا کہ ہفتہ میں ایک دن یا دو دن قرآن کا درس دیتے تھے مگر میرا جی چاہتا ہے کہ ہر وقت قرآن سمجھاتا رہوں

اس کا ایک یہ تو فائدہ ہوا کہ بہت سے لوگوں نے اس درس سے فائدہ اُٹھایا اور ایسا سمجھا کہ وہ دوسروں کو سمجھانے کے قابل ہو گئے مگر جس بات سے آپ ڈرایا کرتے تھے وہ اب پیدا ہو گئی ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ عادت کے طور پر وعظ سُنتے ہیں۔ اُنہیں اگر وعظ سُننے کا موقع نہ ملے تو اپنی حالت پر قائم نہیں رہتے۔

بات یہ ہے کہ

جن طلباء کو ہر وقت اُستاد کی نگرانی اور سہارے کی عادت ہو جائے ان کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسی نشہ کے عادی کی ہوتی ہے

کہ اگر نشہ نہ ملے تو اعضاء شکنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی حالت علوم کے نشہ کی ہوتی ہے۔ اگر ان کو وہ نشہ ملتا رہے تو ان کی حالت درست رہتی ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ غذا نہ ملے تو پھر اعضاء شکنی شروع ہو جاتی ہے اور کسل اور سُستی پیدا ہو جاتی ہے۔ جن کو علوم کی غذا کی عادت ہو جائے اُنہیں اپنے نفس پر زور دینے کی عادت کم ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے بہت سے نقص پیدا ہو جاتے ہیں مثلاً میری پچھلے دنوں کی بیماری میں جبکہ مَیں درس نہ دے سکا تو ایسی باتیں یہاں کے لوگوں میں پیدا ہوگئیں جو پیدا نہیں ہونی چاہئیں تھیں۔ ان لوگوں کی حالت اس لئے ہو گئی کہ وہ روزانہ رُوحانی غذا کے نہ ملنے کی وجہ سے اپنی حالت پر قائم نہ رہ سکے۔ کیونکہ وہ تو سہارے کے محتاج ہو گئے تھے۔

اب یہاں ایک غور طلب سوال پیدا ہو گیا ہے جو یہ ہے کہ قادیان کی مرکزی حیثیت تو چاہتی ہے کہ یہاں روزانہ تعلیم کا سلسلہ جاری رہے کیونکہ مہمان روزانہ باہر سے آتے رہتے ہیں۔

ان کی حالت متقاضی ہوتی ہے کہ روزانہ درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہے مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور عادت کے باعث اگر کچھ دنوں کے لئے یہ سلسلہ رُک جائے تو ان سے بعض میں کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ پس چونکہ قادیان کی مرکزی حیثیت سے باہر والوں کے لئے روزانہ درس کی ضرورت ہے اور یہاں کے لوگوں کے لئے روزانہ درس بطور عادت ہو جاتا ہے اس لئے اب درس کا سوال بہت اہم ہوگیا ہے۔

میرے نزدیک یہ بات ضروری ہے کہ ہمیشہ درس جاری رہے

اور مہمانوں کی ضروریات مقدّم ہوں اور وہ لوگ جن کے لئے روزانہ درس بطور عادت ہو گیا ہے اور جو اگر درس نہ ہو تو ٹھوکریں کھاتے ہیں اُنہیں مَیں ایک نصیحت کرتا ہوں کیونکہ درس میں کبھی رکاوٹ بھی پیدا ہونا ہوئی۔ کیونکہ بشریّت ہر ایک شخص کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ بیماریاں بھی آتی ہیں اور بھی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ پس

میرے نزدیک وہ لوگ جو روزانہ درس سنتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ عادت کے طور پر اسے نہ سُنیں بلکہ اپنا روزانہ محاسبہ بھی ساتھ جاری رکھیں۔

جن لوگوں کو عادت ہو جاتی ہے وہ واقعی ابتلاء میں پڑتے ہیں، لیکن اگر وہ محاسبہ جاری رکھیں گے تو ٹھوکروں سے بچ جائیں گے۔ دیکھا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو کسی حرکت کی عادت ہو جاتی ہے وہ ہر وقت ان سے سرزد ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً بعض لوگوں کو ناک ہلانے کی عادت ہوتی ہے، بعض کو خاص طور پر ہاتھ ہلانے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ اسی طرح ہو جاتی ہے کہ بغیر جانے کے وہ یہ حرکت شروع کر دیتے ہیں۔ لیکناگر کوئی شخص جان کر کسی کام کے لئے ہزار بار بھی کوئی حرکت کرے تو وہ اس کی عادت میں داخل نہیں ہو گی۔

ایک دوست جو پُرانے مخلص ہیں ان کو دیکھا ہے کہ ان کی انگلیاں ہلتی رہتی ہیں ان سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ غیر احمدی ہونے کی حالت میں زیادہ تسبیح پھرانے کے باعث یہ عادت ہو گئی ہے۔ اگر تسبیح نہ بھی ہو تو بھی انگلیاں ہلتی رہتی ہیں۔ تو اس قسم کی عادت کی وجہ غفلت ہوتی ہے اور غفلت کے باعث اعصاب خود بخود حرکات کرتے رہتے ہیں۔ پس

وہ لوگ جو روزانہ درسوں میں شامل ہوں وہ بطور عادت کے شامل نہ ہوں بلکہ ہر روز یہ نیت لے کر آیا کریں کہ ہمیں کچھ سیکھنا ہے۔

اگر وہ روزانہ اس نیت سے شامل ہوں گے اور بغور سُنیں گے تو انشاء اﷲ ان کے لئے بہت مفید ہو گا۔

اس بیماری کے دوران میں یہ نقص بھی سمجھ آگیا۔ ورنہ جب حضرت مولوی صاحبؓ فرمایا کرتے تھے تب یہ بات خیال میں بھی نہیں آتی تھی کہ روزانہ درس کے باعث بعض نقص بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔

اب اﷲ تعالیٰ کے فضل سے میری صحت پہلے سے بہت اچھی ہے اور ارادہ ہے کہ درس جاری کردوں مگر چونکہ ابھی صحت پورے طور پر اچھی نہیں ہوئی۔ اس لئے ارادہ ہے کہ ہفتہ میں تین دن درس ہوا کرے اور انشاء اﷲ اسی ہفتہ سے شروع کر دوں گا۔ ہفتہ کا دن چونکہ جمعہ کے قریب ہوتا ہے اس لئے یہ مستورات کے لئے، کیونکہ وہ اس کو یاد رکھ سکتی ہیں اور پیر اور بدھ کے دو دن مردوں کے لئے ہوں گے۔ اگر اﷲ تعالیٰ توفیق دے گا تو اس کو بڑھایا بھی جاسکے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button