محمود بحالِ زارکیوں ہو
محمود بحالِ زار کیوں ہو
کیا رنج ہے بےقرار کیوں ہو
کس بات سے تم کو پہنچی تکلیف
کیا صدمہ ہے دل فگار کیوں ہو
ہاں سوکھ گیا ہے کونسا کھیت
کچھ بولو تو اشکبار کیوں ہو
جب تک نہ ہو کوئی باعثِ درد
بے وجہ پھر اضطرار کیوں ہو
میں باعثِ رنج کیا بتاؤں
کیا کہتے ہو۔ بےقرار کیوں ہو
دل ہی نہ رہا ہو جس کے بس میں
وہ صبر سے شرمسار کیوں ہو
سب جس کی امیدیں مر چکی ہوں
زندوں میں وہ پھر شمار کیوں ہو
دولہا نہ رہا ہو جب دلہن کا
بیچاری کا پھر سنگار کیوں ہو
کاٹے گئے جب تمام پودے
گلشن میں مرے بہار کیوں ہو
آنکھوں میں رہی نہ جب بصارت
دیدارِ رخِ نگار کیوں ہو
جس شخص کا لُٹ رہا ہو گھر بار
خوشیوں سے بھلا دوچار کیوں ہو
اسلام گھرا ہے دشمنوں میں
مسلم کا نہ دل فگار کیوں ہو
ماضی نے کیا ہے جب پریشاں
آئندہ کا اعتبار کیوں ہو
کیا نفع اٹھایا ترکِ دیں سے؟
دنیا پہ ہی جاں نثار کیوں ہو
(رسالہ تشحیذ الاذہان ماہ جون ۱۹۱۳ء بحوالہ کلام محمود مع فرہنگ صفحہ۱۱۵)