سب سے اول جس چیز کی ضرورت واعظ کو ہے وہ اس کی عملی حالت ہے
یہ امر بہت ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے واعظ تیار ہوں۔ لیکن اگر دوسرے واعظوں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو فضول ہے۔ یہ واعظ اس قسم کے ہونے چاہئیں جو پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنے چلن میں ایک پاک تبدیلی کر کے دکھائیں تاکہ ان کے نیک نمونوں کا اثر دوسروں پر پڑے۔ عملی حالت کا عمدہ ہونا یہ سب سے بہترین وعظ ہے۔…سب سے اول جس چیز کی ضرورت واعظ کو ہے وہ اس کی عملی حالت ہے۔ دوسری بات جو ان واعظوں کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کو صحیح علم اور واقفیت ہمارے عقائد اور مسائل کی ہو۔ جو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اس کو انہوں نے پہلے خود اچھی طرح پر سمجھ لیا ہو اور ناقص اور ادھورا علم نہ رکھتے ہوں کہ مخالفوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔ اورجب کسی نے کوئی اعتراض کیا تو گھبرا گئے کہ اب اس کا کیا جواب دیں۔ غرض علم صحیح ہونا ضروری ہے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسی قوت اور شجاعت پیدا ہو کہ حق کے طالبوں کے واسطے ان میں زبان اور دل ہو۔ یعنی پوری دلیری اور شجاعت کے ساتھ بغیر کسی قسم کے خوف و ہراس کے اظہار حق کے لئے بول سکیں اور حق گوئی کے لئے ان کے دل پر کسی دولتمند کا تمول یا بہادر کی شجاعت یا حاکم کی حکومت کوئی اثر پیدا نہ کرسکے۔ یہ تین چیزیں جب حاصل ہوجائیں تب ہماری جماعت کے واعظ مفید ہوسکتے ہیں۔
(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۶۹-۳۷۰، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
عوام الناس کے کانوں تک ایک دفعہ خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دیا جاوے کیونکہ عوام الناس میں ایک بڑا حصّہ ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو کہ تعصّب اور تکبّر وغیرہ سے خالی ہو تے ہیں اور محض مولویوں کے کہنے سننے سے وہ حق سے محروم رہتے ہیں۔جو کچھ یہ مولوی کہہ دیتے ہیں اُسے اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ کر مان لیتے ہیں۔ہماری طرف کی باتوں اور دعووں اور دلیلوں سے محض نا آشنا ہوتے ہیں۔
(ملفوظات جلد۳صفحہ ۵۵۱، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فطرت نیک ہے وہ آئےگا انجام کار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۷)