تعلقات میں تلخی کی چند وجوہات
ذاتی انا: مسائل کا پہاڑ
فریقین میں مسائل کے آغاز کی ایک بڑی وجہ ان کی ذاتی انا بھی ہوتی ہے۔ اس کمزوری پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں: ’’آجکل بذریعہ خطوط یا بعض ملنے والوں سے سن کر طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ ہمارے مقاصد کتنے عظیم ہیں اور ہم ذاتی اناؤں کو مسائل کا پہاڑ سمجھ کر کن چھوٹے چھوٹے لغو مسائل میں الجھ کر اپنے گھر کی چھوٹی سی جنت کو جہنم بنا کر جماعتی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کو کھڑا کرنے میں جو بھی فریق اپنی اناؤں کے جال میں اپنے آپ کو بھی اور دوسرے فریق کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اور پھر آخر کار بعض اوقات مجھے بھی الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے عقل دے اور وہ اس مقصد کو سمجھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں۔
پس یہ بڑا مقصد ہے جس کے پورا کرنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کو جستجو رہنی چاہئے اور کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی مدد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی اناؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ان پاک ہدایتوں پر عمل نہیں کرتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہیں۔ پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے ؟ اپنی اناؤں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے ؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہو گا اور لڑکی کو بھی لینا ہو گا، مرد کو بھی لینا ہو گا، عورت کو بھی لینا ہو گا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہو گا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے۔ کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہاں میں نے گزشتہ دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں۔ تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑکا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً 30-40 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سسرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں‘‘۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں: ’’اسلام نے ہمیں اپنے گھر یلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جارہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو۔ تو نکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا،اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گا جس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضا کے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔
میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں۔ یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خد اتعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرموده ۱۰؍ نومبر ۲۰۰۶ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر ۲۰۰۶ء)
(عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ۱۲۶تا۱۲۸)