مرکز احمدیت قادیان دارالامان میں ۱۲۸ ویں جلسہ سالانہ کا کامیاب و بابرکت انعقاد (قسط اول)
٭… MTA انٹرنیشنل کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اسلام آباد یوکے سے شرکائے جلسہ سے بصیرت افروز اختتامی خطاب
٭… ۴۲؍ ممالک کی نمائندگی ٭… ۹؍ زبانوں میں جلسہ کے پروگراموں کا رواں ترجمہ٭… چودہ ہزار ۹۳۰؍عشاق احمدیت کی جلسہ میں شمولیت
٭…درس القرآن اور ذکر الٰہی سے معمور ماحول ٭… علماء کرام کی پُر مغز تقاریر ٭… احباب جماعت کی معلومات میں اضافہ کے لیے تربیتی امور پر مشتمل ڈاکومنٹری اور مختلف معلوماتی نمائشوں کاانعقاد ٭… نکاحوں کے اعلانات ٭… پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں جلسہ کی کوریج ٭… پرسکون و خوشگوار ماحول میں جلسہ کی تمام کارروائی کی تکمیل
اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے جلسہ سالانہ قادیان بستان احمدکے وسیع احاطہ میں مورخہ ۲۹، ۳۰ و ۳۱ دسمبر ۲۰۲۳ء بروز جمعہ ہفتہ و اتوار منعقد ہو کر بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا۔ ملک کے طول و عرض سے عشاق احمدیت بڑے ہی ذوق و شوق اور جوش و خروش کے ساتھ جلسہ میں شرکت کی خاطر قادیان آنے لگے۔ اور جلسے کے ایام جوں جوں قریب آتے گئے قادیان دارالامان کی رونقوں میں توں توں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ قادیان پوری طرح مہمانوں سے بھر گیا۔ جدھر نکلو، جدھر نظر دوڑاؤ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان نظر آتے۔ بیرون ممالک سےبھی بڑی تعداد میں عشاق احمدیت جلسہ میں شریک ہوئے۔ قادیان دارالامان کی پیاری بستی ایک بار پھر خوشیوں اور رونقوں سے بھر گئی۔ مہمانوں کی آمد سے قبل ہی نظامت بجلی وروشنی کی طرف سے محلہ کی تمام گلیوں اور سڑکوں کو ٹیوب لائٹس کے ذریعہ روشن کردیا گیا۔ بہشتی مقبرہ،دارالمسیح، مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ اور منارۃ المسیح کو بجلی کےچھوٹے چھوٹے رنگین بلبوں سے دُلہن کی طرح سجایا گیا۔اس طرح مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی یہ رُوحانی بستی اپنی باطنی جگمگاہٹ کے ساتھ ساتھ ظاہری طور پر بھی جگمگا اُٹھی۔
معائنہ انتظامات جلسہ
مورخہ ۲۵؍دسمبر بروز سوموار ٹھیک ساڑھے دس بجے جلسہ گاہ بستان احمد میںنمائندہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مکرم مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب صدر، صدر انجمن احمدیہ کی زیر صدارت معائنہ انتظامات کی تقریب عمل میں آئی۔
تقریب کی کارروائی تلاوت قرآن کریم سےشروع ہوئی جومکرم تقی احمد متعلم جامعہ احمدیہ قادیان نے کی۔ بعدہٗ مرکزی نمائندہ نے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کی اہمیت و برکات پر روشنی ڈالی اور ڈیوٹی دہندگان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ آخر پر آپ نے دعا کروائی۔
پہلا دن
مورخہ ۲۹؍دسمبر بروز جمعہ
افتتاحی اجلاس: اللہ تعالیٰ کے بے حد فضل وکرم سے مورخہ ۲۹؍ دسمبر بروز جمعۃ المبارک جلسہ سالانہ قادیان زیر صدارت مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب نمائندہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز و صدر صدر انجمن احمدیہ قادیان پوری شان و شوکت اور اپنی جماعتی روایات کے ساتھ ٹھیک صبح دس بج کر چار منٹ پر شروع ہوا۔ صدر اجلاس نے لوائے احمدیت لہرایااور دعا کروائی۔ اس کے بعد جلسہ سالانہ قادیان کے افتتاحی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم مرشد احمد ڈار صاحب استاد جامعہ احمدیہ قادیان نے سورت آل عمران کی آیات ۱۹۱ تا ۱۹۵کی تلاوت کی۔ان آیات کریمہ کا اردوترجمہ تفسیر صغیر سے مکرم زین الدین حامدصاحب ناظم دارالقضا قادیان نے پیش کیا۔ بعدہٗ صدر اجلاس نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کےارشادات کے حوالہ سے حاضرین جلسہ کو چند نصائح کیں اور اجتماعی دعا کروائی۔
اس کے بعد محترم تنویر احمد ناصر صاحب نائب ناظر نشرو اشاعت قادیان نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا منظوم کلام
خدا سے چاہئے ہے لو لگانی
کہ سب فانی ہیں اور وہ غیر فانی
پیش کیا۔
اس اجلاس کی اوّل تقریربعنوان ’’ہستی باری تعالیٰ(اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان لانے کے فوائد و برکات)‘‘ مولانا محمد حمید کوثر صاحب ناظردعوت الی اللہ مرکزیہ قادیان نے کی۔ آپ نے اپنی معروضات میں قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حوالہ جات سے اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان لانے کے فوائد اور برکات کا مفصل پیرایہ میں ذکر کیا۔
آپ نے بتایا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے ملحد اور دہریہ سائنسدان جو مختلف ایجادات کے موجد ہیں اور اپنی ایجادات اور انکشافات پر تکبر کرتے ہوئے انہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نزدیک قیامت کے دن ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیت کی بنا پر ایجاد کیے گئے ہیں۔ یہ ایجادات خداتعالیٰ کی طرف توجہ مبذول کرنے کا باعث بننے کی بجائے ان کو غرور اور گھمنڈ میںبڑھانے کا موجب بن گئیں اور اس کی سزا مغرور انسانوں کو ملے گی۔ اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کے مومن بندے جب کوئی ایجاد کرتےہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ بہت سے مسلمان سائنسدان تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ علوم سے بہت سی ایجادات کیں اور بہت سی ایجادات کی بنیادیں استوار کیں۔
اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لانے کے فوائد کے بارے میں بتایا کہ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا (ابراہیم :۳۵)اور اگر تم اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں اور برکات کو شمار کرنا چاہو تو کبھی شمار نہیں کر سکوگے۔
اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لانے والے کو ایک فائدہ اور برکت یہ حاصل ہوتی ہے کہ وہ ہر خطرہ کے وقت خود کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں یقین کرتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ پر ایمان ہوتا ہے کہ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (البقرہ:۳۹) ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ ہی وہ کوئی غم کریں گے۔ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لانے کے فوائد وبرکات کے کئی ایمان افروز واقعات پیش کیے۔
اجلاس کی دوسری تقریر مولانا محمدانعام غوری صاحب ناظر اعلیٰ و امیر جماعت احمدیہ قادیان نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں(مساوات انسانی)‘‘۔ آپ نے کہا کہ آج دُنیا بدامنی اور بے چینی کا شکار ہے۔ اس کا بڑا سبب ایک تو مذہبی منافرت ہے دوسرے ذات پات کی تفریق اور رنگ ونسل کا امتیاز ہے۔ آپ نے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق جو مساوات انسانی کی تعلیم کا عظیم شاہکار ہے بتایا کہ گیارھویں ذوالحجہ کو منیٰ کے میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا :اے لوگو! تمہارا ربّ ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک تھا۔پس ہوشیار ہوکر سُن لو کہ عربوں کو عجمیوں پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ عجمیوں کو عربوں پرکوئی فضیلت ہے اسی طرح سرخ وسفید رنگ والے لوگوں کو کالے رنگ کے لوگوںپر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کالے لوگوں کوگوروں پر کوئی فضیلت ہے۔
بعد ازاں آپ نے اپنی تقریر میں انسانی مساوات، ہمدردی اور اخوت کے بعض ایمان افروز واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالہ سے پیش کیے۔
پہلے دن کا دوسرا اجلاس: جلسہ سالانہ قادیان ۲۰۲۳ء کے پہلے روز کا دوسرا اجلاس ٹھیک سوا دو بجے دوپہر زیرصدارت مکرم رفیق احمد صاحب مالاباری وکیل اعلیٰ تحریک جدید قادیان شروع ہوا۔ حافظ عمیر عباس نائیک صاحب مربی سلسلہ دفتر شعبہ وقف نو بھارت نے سورۃ الانفال آیات ۲۰ تا۲۵ کی تلاوت کی سعادت پائی۔ بعدہ تفسیر صغیر سے ترجمہ ڈاکٹر جاوید احمد لون صاحب ناظر دیوان قادیان نے پیش کیا۔مکرم سعید احمد صاحب ملکانہ مربی سلسلہ نظامت جائیداد قادیان نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کےمنظوم کلام
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے
میں سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر سنائے۔
اس اجلاس کی پہلی تقریر بعنوان ’’سیرت صحابہ حضرت عثمانؓ اورحضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ ‘‘ مولانا زین الدین حامد صاحب ناظم دارالقضاء قادیان نے کی۔ فاضل مقرر نے اپنی تقریر میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی سیرت مختصر اور جامع رنگ میں وقت کی مناسبت سے بیان کی۔ آپ نے بتایا کہ حضرت عثمانؓ اول المبائعین میں سے تھے۔ آپ بہت نیک، باعزت اور شریف نوجوان تھے۔ انہیں آغاز اسلام میں ہی بیرون ملک میں تبلیغ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہزاروں غلاموں کو آزاد کیا۔ غیر معمولی مالی خدمات کی سعادت بھی ملتی رہی۔ اسلام کے سفیر کے طور پر حضرت عثمانؓ کا حدیبیہ میں خدمت سرانجام دینا آپ کی زندگی کا نہایت اہم واقعہ ہے۔مسجد نبوی ؐکی توسیع میں آپ کا اہم کردار رہا۔آپؓ کی ایک نمایاں خدمت قرآن کریم کی کتابت ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کےدورخلافت میں آپؓ کا دست وبازو بن کر خدمات کی توفیق بھی ملی۔ آپ کے دورِخلافت میں کئی اہم کام ہوئے۔ملک پر ملک فتح ہوئے۔ آپؓ نے اسلام کی سربلندی، اشاعت قرآن اور خلافت کے قیام کے لیے اپنا جان، مال، وقت اور عزت سب کچھ قربان کردیا۔ بڑی وفا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کےکاموں میں لگے رہے اور فتنوں کے وقت باوجود طاقت اور قدرت کے امن کا شہزادہ بن کر صبر کا ایسا نمونہ دکھایا کہ آنے والی نسلیں قیامت تک آپ کے پاک نمونہ سے سبق حاصل کرتی رہیں گی۔ انشاء اللہ۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کا تذکرہ بھی بہت خوش اسلوبی سے کیا گیا۔ فاضل مقرر نے اپنی تقریر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کےاِس بزرگ صحابی کی سیرت کے چنیدہ واقعات پیش کیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موصوف کے ساتھ شفقت بےپایاں کا گوناگوں رنگ میں اظہار ہوتا رہا ہے۔ آپؓ حضورعلیہ السلام کےبڑے داماد بھی بنے۔ حضرت نواب صاحب ایک مردم شناس، قدردان، معاملہ فہم اور وفادار بزرگ تھے۔ ان کی فطرت میں سخاوت کا طبعی جوش تھا۔ حضرت حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے بھی حددرجہ اخلاص رکھتے تھے اوران کی خدمت کی بھی توفیق ملتی رہی۔ آپ نےمتعدد مواقع پر مالی قربانی کی مختلف تحریکات میں حصہ لیا۔
تقریر کے آخر پر آپ نے کہا کہ ان دونوں اصحاب کے واقعات سے ’’وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘ کی اصل تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ دونوں کی سیرت کے واقعات میں کسی قدر مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر بعنوان ’’خطبات و خطابات حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےا ستفادہ کی اہمیت وبرکات‘‘ مولانا منیر احمد صاحب خادم ایڈیشنل ناظراصلاح وارشادجنوبی ہندنے کی۔ فاضل مقرر نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ ہم وہ خوش قسمت جماعت ہیں جنہیں ایسا خلیفہ عطاہوا ہے جسے اللہ تعالیٰ بسطۃً فی العلم کے تحت علوم روحانیہ اور جسمانیہ میں وسعت فرماتا رہتا ہے۔اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس دور میں خلافت علی منہاج نبوت کے ذریعہ ظاہر ہونے والے ارشادات واحکامات کی کیا قدرو قیمت ہے۔ اور خلافت اپنی عظمت اور رفعت میں نبوت کی برکات کو سمیٹے ہوئے ہے۔
خلیفۂ وقت کے ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کی رو سے وہ آسمانی دودھ ہے جو سوا سو سال سے اپنوں اور بے گانوں پر برستا چلا جارہا ہے۔اس مینہ نے ہر ایک کو فیض یاب کیاہوا ہے۔ اس نے دنیا کے بادشاہوں کی بھی راہنمائی کی ہےاور دنیا کے مختلف علوم کے ماہرین کی بھی بہترین راہنمائی کی ہے۔پس خلیفہ وقت کے ارشادات کو سننا بلکہ سننے کے لیے بے چین ہونا ہر مومن کی دائمی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ یہ خطبات شعبہ ہائے زندگی کے مختلف مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں۔ خطبات کے علاوہ یہ روحانی دودھ خلیفۃ المسیح کے خطابات کی شکل میں بھی اترتا ہے۔ اس میں وہ خطابات بھی شامل ہیں جو غیروں کو کیے جاتے ہیں یہ خطابات بھی جہاں غیروں کے لیے مفید ہیں وہاں ہم احمدیوں کے لیے بھی ضروری ہیں۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح کی مجالس عرفان بھی اسی قدراہمیت کی حامل ہیں کہ ان سے نہ صرف ہم انفرادی وجماعتی تربیتی ذمہ داریوں میں مدد لے سکتے ہیں بلکہ دعوت الی اللہ کے حوالے سے بھی ان سے استفادہ کرکے ان پر عمل کرنا اور دنیا کوان تعلیمات سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جملہ ارشادات کو بغورسننے اور ان پر عمل کرنے اور اولاددراولاد عمل پیرا ہوتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
اس اجلاس کی تیسری تقریر بعنوان ’’باشرح چندہ اور نظام وصیت کی اہمیت وبرکات‘‘ مولانا سید کلیم الدین احمد صاحب مربی وقاضی سلسلہ نے کی۔ مقرر نے اپنی تقریر کے پہلے حصہ میں باشرح چندہ کی اہمیت وبرکات کے حوالے سے بعض امور پیش کیے اور بتایا کہ مالی قربانی عبادت کا ایک حصہ ہے، اس کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے ہے۔ آنحضرتﷺ کے صحابہ کی مالی قربانیوں کی طرح اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ نے اسلام کی سربلندی کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی اور ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو بعد میں آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کو اس حوالے سے اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں آپ کے خلفاء بھی مالی قربانی کے بارے میں ہمیں توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ پھر چندہ عام اور چندہ جلسہ سالانہ کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم شرح کے مطابق چندہ کی ادائیگی کررہے ہیں وغیرہ۔ان لازمی چندوں کےبارہ میں دوباتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اپنے چندوں کا بجٹ آمد کےمطابق باشرح لکھوانا ہے اور دوسرے اس کی ادائیگی بھی باقاعدگی کے ساتھ کرتے رہنا ہے۔آپ نےباشرح چندہ کے تعلق سے خلفائے کرام کے بعض اقتباسات پیش کیے نیز بتا یا کہ اگر کسی حقیقی مجبوری کی وجہ سے کوئی اپنے آپ کو باشرح چندہ اداکرنے کا متحمل نہیں پاتا تو کم شرح کی منظوری حاصل کرسکتا ہے لیکن اخفا اور غلط بیانی کرکے گناہ گار نہیں بننا چاہیے۔
آپ نے اپنی تقریر کےد وسرے حصہ میں نظام وصیت کی اہمیت وبرکات کا مختصر اور جامع تذکرہ کیا۔ نظام وصیت کے حوالے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات پیش کرکے بتایا کہ نظام وصیت کے قیام کے جو عظیم الشان مقاصد ہیں انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس بارہ میں حضورعلیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تعلیمات پیش کرکے بتایا کہ ہمارے موجودہ امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نظام وصیت کی اہمیت وبرکات اور اس میں شمولیت کے حوالے سے باربار توجہ دلاتے چلے آرہےہیں۔وہ احمدی احباب جو تاحال اس مقدس نظام میں شامل نہیں ہیں ان کے لیے غوروفکر کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضورا نور کی خواہش کے مطابق جلد از جلد اس نظام میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
دوسرا دن
مورخہ ۳۰؍دسمبر بروز ہفتہ
دوسرے دن کا پہلا اجلاس زیر صدارت محترم منیر احمد صاحب حافظ آبادی سیکرٹری مجلس کارپردازبہشتی مقبرہ قادیان منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن مجیدمکرم لقمان احمدتقی صاحب متعلم جامعہ احمدیہ قادیان نے کی جبکہ ترجمہ مولوی شیخ مجاہد احمد شاستری صاحب مینیجرہفت روزہ اخباربدر قادیان نے پیش کیا۔ بعدہٗ مکرم دبیراحمد شمیم صاحب قادیان نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کا منظوم کلام نہایت خوش الحانی سےپڑھ کر سنایا۔
اس اجلاس کی پہلی تقریر محترم حمید اللہ حسن صاحب امیرو مبلغ انچارج ضلع حیدر آباد نے ’’شہدائے احمدیت کی عدیم المثال قربانیاں، خوں شہیدانِ امت کا اے کم نظر،رائیگاں کب گیاتھاکہ اب جائےگا‘‘ کے عنوان پر کی۔
آپ نے ابتدا میںسورۃ البقرۃ کی آیات ۱۵۵ تا ۱۵۶ کی تلاوت کرکےاس کا ترجمہ پیش کرنے کےبعد بتایاکہ حدیث میں ذکر ہے کہ شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر پڑنے سے قبل ہی شہید کو بخش دیا جاتا ہے۔ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ جب جب دنیا کی ہدایت کے لیے انبیاء دنیا میں آتے رہے تب تب زمانے کے فرعونوں اور نمرودوں نے ان پاک وجودوں اور ان کے متبعین سے نہ صرف استہزا کیابلکہ ان کی پاک جماعتوں کو مٹانے کے لیے ہر قسم کے ظلم کو روا رکھا اور ظلم اور بربریت کی ایسی داستانیں رقم کیں جن کے ذکر سے آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔آگ میں ڈال کر جلانے کی کوشش کی گئی۔سر پر آرا رکھ کر جسم کے دو ٹکڑے کئے گئے۔دونوں ٹانگیں اونٹوں سے باندھ کرمختلف سمت میں دوڑا کر جسم کو چیر دیا گیا۔ کبھی حضرت سمیہ ؓ جیسی غریب خاتون کو شہید کیا گیا تو کبھی حضرت حمزہ ؓ کا کلیجہ کچا چبایا گیا۔کبھی بئر معونہ تو کبھی کربلا کا میدان۔
فاضل مقرر نے اپنی تقریر میں سید الشہداء حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ، حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحبؓ، مکرم افضل کھوکھر صاحب، مکرم اشرف کھوکھر صاحب،مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب، شہدائے لاہور، شہدائے بورکینافاسو اور سید طالع احمد کی دردناک شہادت کا ذکر کیا۔
اجلاس کی دوسری تقریر مکرم مظفر احمد ناصر صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ قادیان نے ’’جماعت احمدیہ کا روشن مستقبل:حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اورخلفائےکرام کےارشادات کی روشنی میں‘‘ کی۔
آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنّت چلی آ رہی ہے کہ جب کوئی مامور من اللہ دنیا میں مبعوث کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا دائمی وعدہ اس کے نبی اوررسول کے حق میں پورا ہوتے ہوئے دنیا مشاہد ہ کرتی ہے یعنی ’’میں اور میرے رسول غالب آئیںگے۔‘‘
جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اذنِ الٰہی سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد رکھی اس زمانہ میں آپ بالکل اکیلے تھے۔ کوئی دنیاوی مددگار اور ہمنوا نہ تھا۔ کاروان احمدیت جس کا آغاز چالیس افراد سے ہوا، آج اس کی تعداد کروڑ ہا کروڑ تک جا پہنچی ہے اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بڑھ رہی ہے۔ دنیا کا کوئی معروف ملک نہیں جہاں یہ شجر احمدیت نہ لگ چکا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآنی بشارات اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق خلافت احمدیہ کے عظیم الشان دور کا آغاز ہوا جس کے مظہر خامس سیدنا و اما منا حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آج عالمگیر جماعت احمدیہ کی قیادت فرما ر ہے ہیں۔
فاضل مقرر نےجماعت احمدیہ کے عظیم الشان روشن مستقبل کے متعلق خلفائے احمدیت کے اقتباسات پیش کیے۔
کُفر کی کالی گھٹا، کافور ہوگی ایک دن
اَحمدیت ہی رہے گی، ربّ کعبہ کی قسم!
تاثرات وتعارفی تقاریر: اس کے بعد محترم حفیظ بن صالح صاحب ریجنل منسٹرآف اپر ویسٹ ریجن (Upper West Region)گھانا نے انگریزی زبان میں اپنے تاثرات بیان کیے۔ موصوف نے اپناتعارف کروانے کے بعدجلسہ سالانہ کی مبارک باد دیتےہوئے اپنے ملک میں احمدیت کی ترقی کے لیے دعاکی درخواست کی۔ موصوف کے کلمات کا اردوترجمہ مکرم عطاءالمجیب لون صاحب صدرمجلس انصاراللہ بھارت نے پیش کیا۔
دوسرےنمبرپرمکرم سُنارٹو صاحب نیشنل سیکرٹری امورخارجہ انڈونیشیا نے اپنا تعارف پیش کرنے کےبعد اپنے تاثرات بیان کرتےہوئے انڈونیشا میں ہونےوالی مخالفت کاذکرکیا اوراپنے ملک میں جماعتِ احمدیہ کی ترقیات کے حوالہ سے دعاکی درخواست کی۔جس کا اردو ترجمہ محترم محموداحمدوردی صاحب انچارج مرکزی انڈونیشین ڈیسک یوکے نے پیش کیا۔
تیسرے نمبر پر مولانا صالح احمد صاحب مربی سلسلہ بنگلہ دیش نے اپناتعارف کروانے کےبعد بنگلہ دیش میں جماعتِ احمدیہ کے موجودہ حالات کاذکرکرکے اپنے ملک میں احمدیت کی ترقی کے لیے دعاکی درخواست کی۔
اس اجلاس کی تیسری تقریر مکرم کےطارق احمدصاحب ایڈیشنل ناظراصلاح وارشاد نورالاسلام قادیان نے ’’عالمی تباہی کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاانتباہ اوردردمندانہ نصائح اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر کی۔
آپ نے بتایاکہ آج دنیا میں ایک بے یقینی اور خوف کی فضا ہےاور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ عالم انسانیت کو اس وقت دیگر دنیاوی ضروریات کے ساتھ ساتھ امن و آشتی اور سکون کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید اس سے قبل کبھی نہیں رہی۔ دو عالمی جنگیں اور کروڑوں لوگوں کا خون بھی عالمی طاقتوں کو امن کی اہمیت باور نہیں کرا سکا اور تیسری عالمی جنگ کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں دنیا میں انسانیت کا ہمدرد اور اس کی بے لوث خدمت اور دعائیں کرنے والا ایک مقدس وجود خلیفہ وقت کا وجود باجود ہے۔
عالمی بحران کی ان اذیت ناک ساعتوں میں اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم ہم پر خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے روپ میں سایہ فگن ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ اپنی پوری آب وتاب سے پورا ہوتاہواہم احمدی ہر آن ہر جہت سے مشاہدہ کر رہے ہیںکہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُم دِینَہُمُ الَّذِی ارتَضٰی لَہُم وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّنۡۢ بَعدِ خَوفِہِم اَمنًا یعنی اللہ تعالیٰ مومنین کےلیے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔
آج دنیا میں امن عامہ کی جس قدر کوششیں خلافت احمدیہ نے کی ہیں، اس کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی ہے جو نہ صرف دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے مدت سے مسلسل خبردار کررہا ہے بلکہ دنیا کو اس ہولناک تباہی سے بچانے کے لیے دردمندانہ نصائح بھی کر رہا ہے۔ امن، صلح جوئی اور آشتی کی کوششیں کرنے والا ایک ہی عالمی راہنما ہے اور ہماری خوش قسمتی ہےکہ ہم اس کے ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ احسن رنگ میں ہمیں یہ فرض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (باقی آئندہ)
(رپورٹ: منصور احمد مسرور۔ منتظم رپورٹنگ)