اسلام مذہبی آزادی اور رواداری قائم کرنے کا علمبردار
قرآن کریم ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس نے انسانی حقوق کو نہ صرف کھول کر بیان کیا بلکہ ان کی حفاظت بھی فرمائی۔ آزادیٔ عقیدہ اور مذہبی رواداری کے متعلق قرآن کریم اس قدر حسین تعلیم دیتا ہے کہ وہ دنیا کے لیے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ شریعت حقّہ میں مذہبی آزادی اور آزادیٔ ضمیر کو انسان کی زندگی کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
قرآن شریف نے اپنی متعدد آیات میں اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ دین کا معاملہ ہر شخص کے ضمیر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا دین میں قطعاً کسی قسم کا جبر واکر اہ نہیں ہونا چاہیے۔چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَقُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ (سورۃ الکہف:۳۰) اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔
پھرسورت یونس آیت ۱۰۹ میں فرماتا ہے:قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ۚ وَمَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ۔ تُو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے حق آچکا ہے۔ پس جو ہدایت پا گیا وہ اپنے نفس کی خاطر ہی ہدایت پاتا ہے اور جو گمراہ ہوا وہ اپنے نفس کے خلاف ہی گمراہ ہوتا ہے۔ اور میں تم پر نگران نہیں ہوں۔
پھر فرماتا ہے:لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ (سورۃ بقرۃ:۲۵۷)یعنی: دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقیناً ہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی۔قرآن کریم کی یہ تعلیم صرف کاغذوں کی زینت یامنبروں کی سجاوٹ نہیں تھی بلکہ اس پر نہایت دیانتداری کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا۔ آنحضرتﷺجو قر آنی تعلیم کی عملی تصویر تھے۔ آپ کی پوری زندگی میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس سے دین میں جبر کا جواز ثابت ہوتا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس آپ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی بعثت صرف اسی لیے ہوئی کہ مذہبی آزادی کی حفاظت کی جائے اور آزادی ضمیر کی ضمانت دی جائے۔
آنحضرتؐ نے ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ کی یہودی آبادی کے ساتھ جو سب سے پہلا معاہدہ (جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے ) کیا اس کی بنیاد مذہبی آزادی اور مذہبی رواداری کے اصول پر ہی قائم کی گئی تھی۔(سيرت ابن هشام)
صحیح مسلم میں ایک روایت آتی ہے کہ کسی لڑائی میں صحابہؓ نے ایک ایسے کا فرکو قید کر دیا جو قبیلہ بنو ثقیف کے حلیفوں میں سے تھا۔ جب آنحضرتﷺ اس قیدی کے پاس سے گزرے تو اس نے قید سے رہائی پانے کے خیال سے کہا کہ اے محمدؐ ! مجھے کیوں قید میں رکھا ہے؟ میں تو مسلمان ہوتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم اس حالت سے پہلے مسلمان ہوتے تو خدا کے حضور یہ اسلام قبول ہوتا اور تم نجات پا جاتے۔ مگر اب نہیں۔ اس کے بعد آپ نے اس کے بدلہ میں دو مسلمان قیدی بنوثقیف سے چھڑوائے اور انہیں کفار کوواپس کر دیا۔(مسلم بحوالہ مشكوٰة باب حكم الاسراء)
فتح مکہ کے موقع پر جب مکہ مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہوا اور آنحضرتؐ اور آپ کے اصحاب ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے اس وقت گو بعض لوگ قریش مکہ میں سے اپنی مرضی سے مسلمان ہو گئے تھے۔ لیکن بہت سے قریش کفر پر قائم رہے۔ اور ان سے قطعاً کوئی تعرض نہیں کیا گیا اور پھر جوں جوں ان لوگوں کو اسلام کے متعلق شرح صدر ہوتا گیا وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوتے گئے۔ ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں میں تھی۔ چنانچہ صفوان بن امیہ جو کہ مکہ کے رئیس امیہ بن خلف کا لڑکا تھا اور اسلام کا سخت دشمن تھا وہ بھی فتح مکہ کے موقع پر مسلمان نہیں ہوا اور کفر کی حالت میں ہی آنحضرتؐ کے ساتھ ہو کر غزوہ حنین میں شریک ہوا۔ جس میں اور بہت سے مشرک بھی شریک ہوئے تھے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ آنحضرتؐ کے حسن اخلاق سے اس پر اسلام کی حقانیت کھل گئی اور بالآخر وہ خود بشرح صدر مسلمان ہو گیا۔ (اصابه و اسد الغابه والاستيعاب)
چنانچہ لوہے کی تلوار نے نہیں بلکہ براہین وآیات کی تلوار نے اپنا کام کیا اور ایک نہایت قلیل عرصہ میں مکہ کی سرزمین شرک کے عنصر سے پاک ہوگئی تھی۔ جب بنو نضیر مدینہ سے اپنے عہد کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں جلا وطن کیے گئے تو ان میں وہ لوگ بھی تھے جو انصار کی اولاد تھے۔ (زمانہ جاہلیت میں جب کسی اوسی یا خزرجی مشرک کے ہاں اولا د نرینہ نہ ہوتی تھی تو وہ منت مانتا تھا کہ اگر میرے ہاں کوئی لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے یہودی بنا دوں گا۔ اس طرح اوس و خزرج کے کئی بچے یہودی بن گئے تھے۔ ) انصار نے انہیں روک لینا چاہا۔ مگر آنحضرتﷺنے قرآنی تعلیم کے ماتحت کہ دین کے معاملہ میں جبر نہ ہونا چاہیے انصار کو منع فرمایا کہ ایسا نہ کریں۔ اور انصار کےخلاف فیصلہ فرماتے ہوئے بنو نضیر کو اجازت دی کہ وہ ان لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائیں۔(ابوداؤد کتاب الجہاد)
حضرت عمر ؓکے زمانہ خلافت کے متعلق وثیق رومی کی ایک روایت آتی ہے کہ حضرت عمر ؓکے زمانہ خلافت میں مَیں ان کا غلام ہوتا تھا۔ آپ مجھ سے فرماتے رہتے تھے کہ مسلمان ہو جاؤ مگر میں انکار کرتا تھا اور حضرت عمر ؓیہ فرما کر خاموش ہو جاتے تھے کہ اچھا ’’لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ‘‘یعنی دین کے معاملہ میں جبر جائز نہیں ہے۔ پھر جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے خود بخود آزاد کر دیا۔ اور فرمایا: اب جہاں چاہتے ہوچلے جاؤ۔(ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء صفحہ۷)
اسلام صلح اور آشتی کا مذہب ہے۔ اسے کسی سے بغض اور بیر نہیں۔ سب سے پہلا مذہب یا سب سے پہلا رسول جس نے مذہبی رواداری اور با ہمی صلح اور آشتی کی تعلیم دی حضرت محمدﷺ ہیں۔ بالعموم جھگڑے اس بات پر پیدا ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے بزرگوں کا ادب نہیں کیا جاتا۔ اس نقص کو دور کرنے کے لیے حضرت نبی کریمؐ نے یہ فرما کر اپنے متبعین کو ہدایت کی کہ خبردار! ہر قوم اور ہر ملک میں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ لوگ یعنی نبی اور رسول آئے ہیں۔( سورت فاطر آیت ۲۵)
اس لیے تم پر فرض ہے کہ تم نہ صرف ان کا ادب اور ان کی تعظیم کرو بلکہ ان پر ایمان لانا بھی تمہارافرض ہے۔
دوسری چیز جو مذہبی رواداری کے سلسلہ میں نبی کریمؐ نے اپنی امت کو سکھائی وہ یہ ہے کہ کسی کی قابل عزت چیز کو برا نہ کہو۔ ظاہر ہے کہ جب مختلف افراد یا مختلف اقوام ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینا یا ایک دوسرے کے قابل احترام چیزوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں گے تو پھر ان میں آپس میں کوئی وجہ مخاصمت باقی نہ رہے گی۔ اور دنیا میں امن قائم ہو جائے گا۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ ہدایت فرماتاہے کہ وَلَا تَسُبُّواالَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوااللّٰہَ عَدۡوًۢابِغَیۡرِ عِلۡمٍ۔ (سورة الانعام :۱۰۹)تم ان لوگوں کو برا بھلا مت کہو جن کو وہ یعنی غیرمذاہب والے خدا تعالیٰ کے مقابل پر پکارتے ہیں۔ کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو پھر وہ بھی تمہارے خدا کو جسے وہ نہیں جانتے گالی دیں گے۔
کتنی اچھی تعلیم ہے کہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو جو سچے تھے مان لو بعض کو تم سچا خیال نہیں کرتے ان کو بھی گالی مت دو۔ اس قرآنی تعلیم کے ماتحت ایک مومن کے لیے دنیا کی ہر قوم کا مذہبی لیڈر ایک قابل احترام ہستی بن جاتاہے۔
اس مبارک تعلیم کے ماتحت آنحضرتؐ کو دوسری اقوام کے مذہبی پیشواؤں کی عزت کا اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ جب ایک صحابیؓ نے یہودی کے سامنے آنحضرتؐ کی حضرت موسیٰ ؑ پر ایسے رنگ میں فضیلت بیان کی جس سے اس یہودی کے دل کو صدمہ پہنچا۔ تو آپؐ نے اس صحابی کو ملامت فرمائی۔ اور فرمایا تمہارا یہ کام نہیں کہ خدا کے نبیوں میں اس طرح بعض کو بعض پر افضل بیان کرتے پھرو۔ اور پھر آپ نے حضرت موسیٰؑ کی ایک جزوی فضیلت بیان کر کے اس یہودی کی دلداری فرمائی۔ (بخاری کتاب بدء الخلق )
ایک موقع پر جبکہ آپؐ طائف سے مکہ کو واپس آ رہے تھے آپ کو ایک عداس نامی شخص ملا جس نے آپ سے ذکر کیا کہ میں نینوا کا رہنے والا ہوں۔ آپ نے بے ساختہ فرمایا ’’نینوا! یونس بن متی کا شہر! یونس میرے بھائی تھے۔ میں اسی خدا کا رسول ہوں جس نےیونس کو مبعوث کیا تھا۔‘‘(سيرت ابن هشام جلد ۱ صفحہ ۱۴۷)
یہ تعلیم کیسی مبارک دلکش اور اخوت اور امن کے جذبات سے کیسی معمور ہے۔ مگر افسوس کہ دنیا نے اس کی قدرنہ کی پھر قرآن کریم نے لڑائی جھگڑوں کی بنا کو مٹاتے ہوئے یہ بھی تعلیم دی کہ بنی نوع انسان سے بغیر کسی تخصیص کے خواہ دوست ہوں یا دشمن عدل وانصاف کا سلوک کرو۔ چنانچہ فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ۫ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ (سورة المائدۃ:۹) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔یہ آیت غیر حکومتوں اور غیر قوموں کے ساتھ تعلقات کے لیے بطور ایک بنیادی پتھر کے ہے۔ کیونکہ اس میں وہ اصل الاصول بتایا گیا ہے جس پر بین الا قوام اور بین الدول تعلقات قائم ہونے چاہئیں اور غور کیا جائے تو یہ اصول ایسا زریں ہے کہ اگر فریقین کی طرف سے اس پر پورا پورا عمل ہو تو نہ صرف یہ کہ بین الا قوام تعلقات کبھی بگڑ نہیں سکتے بلکہ وہ ایسی خوشگوار صورت میں قائم رہ سکتے ہیں کہ جس میں بگڑنے کا کوئی امکان ہی نہ ہو۔
جذبات و احساسات کا رشتہ نہایت نازک ہوتا ہے اور فاتح اور غالب اقوام عموماً اس معاملہ میں بہت بے اعتنائی دکھاتی ہیں کیونکہ اس کا دار و مدار کسی قانون پر نہیں ہوتا بلکہ اس روح پر ہوتا ہے جو قلوب میں مخفی ہوتی ہے اور جس پر کوئی مادی قانون حکومت نہیں کر سکتا۔ مگر آنحضرتؐ اور آپ کے صحابہؓ اپنے غلبہ اور حکومت کے زمانہ میں بھی غیر مذاہب کے احساسات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ مدینہ میں ایک یہودی نو جوان بیمار ہو گیا۔ آنحضرتؐ کو اس کا علم ہوا تو آپ اس کی عیادت کو تشریف لےگئے۔ اس کی حالت کو نازک پا کر آپ نے اسلام کی تبلیغ فرمائی وہ آپ کی تبلیغ سے متاثر ہوا مگر چونکہ اس کا باپ زندہ تھا اور اس وقت پاس ہی کھڑا تھا وہ ایک سوال کی ہیئت بنا کر باپ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔ باپ نے کہا ’’بیٹے ! ابوالقاسم کی بات مان لو۔‘‘ لڑکے نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ جس پر آنحضرتؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: خدا کا شکر ہے کہ ایک روح آگ کے عذاب سے نجات پاگئی۔‘‘(بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبي)
جب شام کا ملک فتح ہوا اور وہاں کی عیسائی آبادی اسلامی حکومت کے ماتحت آ گئی تو ایک دن جبکہ آنحضرتؐ کے صحابی سہل ؓبن حنیف اور قیس ؓبن سعد قادسیہ کے شہر میں ایک میت دیکھ کر تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے ایک مسلمان نے جو آنحضرتؐ کا صحبت یافتہ نہیں تھا اور ان اخلاق سے نا آشنا تھا جو اسلام سکھاتا ہے یہ دیکھ کر بہت تعجب کیا اور حیران ہو کر سہل اور قیس سے کہا کہ یہ تو ایک ذمی کا جنازہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں! ہم جانتے ہیں مگرآنحضرتؐ کا یہی طریق تھا کہ آپ غیر مسلموں کے جنازہ کو دیکھ کر بھی کھڑے ہو جاتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ کیا ان میں خدا کی پیدا کی ہوئی جان نہیں ہے؟(بخاری، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي)
اسلامی حکومت میں غریب اور نا دار غیر مسلم رعایا کی مالی امداد کا انتظام کیا جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓنے ایک بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے دیکھا تو اس سے پوچھا:کیا ماجرا ہے؟ اس نے کہا: بوڑھا ہو گیا ہوں اور نظر کمزور ہے کام ہو نہیں سکتا اور جزیہ کی رقم بھی ابھی مجھ پر لگی ہوئی ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓبے چین ہو گئے۔ فوراً اسے اپنے ساتھ لیا اور اپنے گھر لا کر مناسب امداد دی اور پھر بیت المال کے افسر کو بلاکر کہا کہ یہ کیا بے انصافی ہے کہ ایسے لوگوں پر جز یہ لگایا جاتا ہے۔ ہمیں تو حکم ہے کہ غرباء کی امداد کریں نہ کہ الٹا ان پر ٹیکس لگائیں۔ اس کے بعد ایک عام حکم جاری فرمایا کہ ایسے لوگوں پر جزیہ نہ لگایا جاوے بلکہ اس قسم کے مستحق لوگوں کو بیت المال سے وظیفہ دیا جاوے۔(كتاب الخراج قاضي أبو يوسف فصل في من تجب عليه الجزيه صفحہ ۷۲)
ذمیوں کی امداد تو الگ رہی اسلام میں حربی دشمنوں کی امداد کی مثالیں بھی مفقود نہیں ہیں چنانچہ جب ۵ھ میں مکہ میں قحط پڑا تو آنحضرتؐ نے اپنے پاس سے مکہ والوں کی امداد کے لیے کچھ چاندی بھجوادی حالانکہ ابھی تک قریش مکہ اسلام کے خلاف برسر پیکارتھے۔( تاريخ الخميس جلد ۱ صفحہ ۲۸ ) عام سلوک اور سیاسی تعلقات کے معاملہ میں بھی اسلام نے ایسا نمونہ قائم کیا جس کی مثال کسی دوسری قوم میں نہیں ملتی۔ جب خیبر فتح ہوا تو آنحضرتؐ ان سے محاصل کی ثباتی کے لیے اپنے صحابی عبداللہ بن رواحہ ؓکو بھیجا کرتے تھے۔ آپ کی تعلیم کے ماتحت عبد اللہ بن رواحہؓ فصل کی بٹائی میں اس قدر نرمی سے کام لیتے تھے کہ فصل کے دو حصے کر کے یہودیوں کو اختیار دے دیتے تھے کہ اب ان حصوں میں سے جو حصہ بھی تم پسند کرو لے لو اور پھر جو حصہ پیچھے رہ جاتا تھا خود لے لیتے تھے۔ (ابو دائود كتاب البيوع)
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں شام فتح ہوا تو معاہدہ کی رو سے مسلمانوں نے شام کی عیسائی آبادی سے ٹیکس وغیرہ وصول کیا۔ لیکن اس کے تھوڑے عرصہ بعد رومی سلطنت کی طرف سے پھر جنگ کا اندیشہ پیدا ہو گیا جس پر شام کے امیر حضرت ابوعبیدہ ؓنے تمام وصول شدہ ٹیکس عیسائی آبادی کو واپس کر دیا اور کہا کہ جب جنگ کی وجہ سے ہم تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتے تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ یہ ٹیکس اپنے پاس رکھیں۔ عیسائیوں نے یہ دیکھ کر بے اختیار مسلمانوں کو دعا دی اور کہا ’’خدا کرے تم رومیوں پر فتح پاؤ اور پھر اس ملک کے حاکم بنو۔‘‘ چنانچہ جب مسلمانوں نے دوبارہ فتح حاصل کی تو علاقہ کی عیسائی آبادی نے بڑی خوشی منائی اور واپس شد ہ ٹیکس پھر مسلمانوں کو ادا کیے۔(كتاب الخراج ابو يوسف صفحہ ۸۰ تا ۸۲) یہ اس قسم کے حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ جب حضرت عمر ؓشام تشریف لے گئے تو وہاں کے عیسائی لوگ گاتے اور بجاتے ہوئے ان کے استقبال کے لیے نکلے اور ان پر تلواروں کا سایہ کیا اور پھولوں کی بارش برسائی۔ (فتوح البلدان البلاذری صفحہ۱۴۶)
ملکی عہدوں کے معاملہ میں بھی غیر مسلم رعایا کے حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ایک عیسائی ابو زبید نامی کو ایک جگہ کا عامل مقرر فرمایا تھا۔(اصابه جلد ۹ صفحہ ۱۴۷)
آنحضرتؐ کی تعلیم اور تعامل کے ماتحت حضرت عمر ؓکو اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا کے حقوق اور ان کے آرام و آسائش کا اتنا خیال رہتا تھا کہ وہ اپنے گورنروں کو تاکید کرتے رہتے تھے کہ ذمیوں کا خاص خیال رکھیں اور خود بھی ان سے پوچھتے رہتے تھے کہ تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ چنانچہ ایک دفعہ ذمیوں کا ایک وفد حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضرت عمرؓ نے ان سے پہلا سوال یہی کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا۔ یعنی ہم نے مسلمانوں کی طرف سے حسن وفا اور حسن سلوک کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔(طبری جلد ۵ صفحہ ۲۵۶۰)
حضرت عمرؓ کو آنحضرتؐ کے تاکیدی ارشادات کے ماتحت اپنی غیر مسلم رعایا کا اس قدر خیال تھا کہ انہوں نے فوت ہوتے ہوئے خاص طور پر ایک وصیت کی جس کے الفاظ یہ تھے۔
’’میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا سے بہت نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے، ان کے معاہدات کو پورا کرے، ان کی حفاظت کرے، ان کے لیے ان کے دشمنوں سے لڑے اور ان پر قطعاً کوئی ایسا بوجھ یا ذمہ داری نہ ڈالے جوان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ ‘‘(كتاب الخراج صفحہ ۷۲)
حضرت ابو بکرؓ کے متعلق روایت آتی ہے کہ وہ جب کبھی بھی کوئی اسلامی فوج روانہ فرماتے تھے تو اس کے امیر کو خاص طور پر یہ ہدایت فرماتے تھے کہ غیر مسلم اقوام کی عبادت گاہوں اور ان کے مذہبی بزرگوں کا پوراپورا احترام کیا جاوے۔(موطا امام مالك كتاب الجهاد)
مذہبی رواداری کے متعلق آنحضرتؐ کا یہ عملی نمونہ کس قدر حسین اور قابل تقلید ہے کہ جب نجران کے عیسائی مدینہ میں آئے تو آنحضرتؐ نے انہیں مسجد نبویؐ کے اندر اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور جب بعض صحابہ نے انہیں روکنا چاہا تو آپ نے ان صحابہؓ کو منع فرمایا۔ چنانچہ ان عیسائیوں نے مشرق رخ ہو کر عین مسجد نبوی میں اپنی عبادت کےمراسم ادا کیے۔(زرقانی جلد ۴ حالات و فدنجران)
یہ اس ضابطہ اخلاق کا مختصر نقشہ ہے جو غیر قوموں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا اور جس پر آپؐ کے صحابہؓ اور آپ کے خلفاء نے عملاً کاربند ہوکر یہ بتا دیا کہ یہ تعلیم صرف کاغذوں کی زینت یا منبروں کی سجاوٹ نہیں بلکہ شریعت حقہ کا ایک ضروری اور عملی حصہ ہے جس کے بغیر کوئی حکومت صحیح معنوں میں دینی حکومت کہلا نہیں سکتی۔