الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں مکرمہ سیّدہ منورہ سلطانہ صاحبہ کا ایک مضمون لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱کی زینت ہے۔

حضرت شاہ نعمت اللہ ولیؒ نے اپنے الہامی قصیدہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپؑ کے زمانہ سے متعلق بہت سی پیشگوئیاں درج فرمائیں۔ ان میں ایک یہ بھی تھی کہ ؎

دور اوچوں شود تمام کمال

پسرش یادگار مے بینم

(اربعین فی احوال المہدیین مؤلفہ حضرت سید اسمٰعیل شہیدؓ)

یعنی جب مسیح کا زمانہ کامیابی سے گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑکا یادگار رہ جائے گا۔ جواس کے نمونہ پر ہوگا اور اس کے رنگ میں رنگین ہوجائے گا۔

قدیم مذہبی تاریخ سے بھی پتا چلتا ہے کہ مصلح موعود کی آمد کی پیشگوئی سب سے پہلے بنی اسرائیل پر منکشف ہوئی جس میں بتایا گیا کہ موعود مسیح کے بعد اس کا فرزند اور بعدہٗ اس کا پوتا اس کی روحانی بادشاہت کے وارث ہوں گے۔ چنانچہ لکھا ہے:

It is also said that he shall die and his Kingdom will descend to his Son and Grandson.

(طالمود باب پنجم ۳۷مطبوعہ لندن ۱۸۷۸ء ازجوزف بارکلے ایل ایل ڈی…)

آنحضرت ﷺ نے بھی مسیح موعودؑ کے متعلق فرمایا فَتَزَوَّجُ وَیُوۡلَدُلَہٗ۔ (مشکٰوۃ مجتبائی باب نزول عیسیٰ بن مریمؑ ) یعنی وہ شادی کرے گا اور اُس کےاولاد ہوگی۔

حضرت مسیح موعودؑکا زمانہ فیج اعوج کے نام سے موسوم ہے۔ اسلام کو نہ صرف مسلمان ہی چھوڑ بیٹھے تھے بلکہ مخالفین مختلف جہات سے اسلام اور آنحضرت ﷺ پر حملے کررہے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام کو باقی کُل ادیان پر افضل اور زندہ مذہب ثابت کرنے کے لیے قلمی اور لسانی جدوجہد فرمائی، مناظرے کیے اور انعامی چیلنج دیے۔ چنانچہ ۱۸۸۲ء میں آریہ سماج کے لیڈروں مثلاً منشی اندر من مرادآبادی اور ماسٹر مرلی دھر وغیرہ نے حضرت مسیح موعودؑ سے اسلام کی صداقت کے متعلق مناظرہ کیا اور کوئی نشان طلب کیا تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضورعجزونیاز کے ساتھ دعائیں کرنے کے لیے جنوری ۱۸۸۶ء میں ہوشیارپورکا سفر اختیار کیا جہاں تنہائی میں چلّہ کشی کی۔ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے آپؑ کوایک موعودبیٹے کی خوش خبری عطا فرمائی۔ چنانچہ۲۰؍فروری۱۸۸۶ء کو آپؑ نے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں بیان فرمودہ پچاس سے زیادہ وہ بشارات اتنی مہتم بالشان ہیں جو کہ حضرت مصلح موعودؓ کی ذات گرامی میں پوری ہوئیں۔

واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی شادی ۴۵ سال سے متجاوز عمر میں ہوئی ،کسی بھی شخص سے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے ہاں ضرور اولاد ہوگی اورہوگی تو زندہ رہے گی اور اگر زندہ رہی تو اُس میں یہ یہ خوبیاں ہوں گی۔ لیکن مصلح موعودؓ کی پیشگوئی میں پُرشوکت الفاظ اور کمال تحدّی کے ساتھ جو بہت سے وعدے کیے گئے، اُن کے عین مطابق وہ پسر موعود اپنے پدر بزرگوار کا حسن واحسان میں نظیر تھا۔ یہ فرزند ارجمند جلد جلد بڑھا اور علوم ظاہری وباطنی سے پُر کیا گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ خود فرماتے ہیں: ’’ایسا انسان جس کی صحت ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی۔اس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لیے زندہ رکھا کہ اس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے۔ … اسلام کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے۔ پھر مَیں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہ تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے اُن مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے۔‘‘(مصباح فروری ۱۹۹۷ءصفحہ۹)

حضرت مسیح موعودؑ نے ’پیشگوئی مصلح موعود‘کو بطور نشان اپنے مخالفین کے سامنے پیش فرمایا اور کثرت سے اس کی اشاعت فرمائی۔ چنانچہ الٰہی بشارتوں کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ مَیں نے حضرت اُمّ المومنینؓ کو یہ خواب بیان فرماتے سنا ہے کہ جب تمہارے بڑے بھائی پیدا ہونے کو تھے تو ایام حمل میں مَیں نے خواب دیکھا کہ میری شادی مرزا نظام الدین سے ہورہی ہے۔ اس خواب کا میرے دل پر مرزا نظام دین کے اشد مخالف ہونے کی وجہ سے بہت بُرا اثر پڑا کہ دشمن سے شادی مَیں نے کیوں دیکھی؟ مَیں تین روز تک مغموم رہی اور اکثر روتی رہتی۔ تمہارے ابا یعنی حضرت مسیح موعودؑ سے مَیں نے ذکر نہیں کیا۔ مگر جب آپؑ نے بہت اصرار کیا کہ بات کیا ہے؟ کیاتکلیف پہنچی ہے؟ مجھے بتانا چاہیے۔ تو مَیں نے ڈرتے ڈرتے یہ خواب بیان کیا۔ خواب سن کر تو آپؑ بےحد خوش ہوگئے اور فرمایا اتنا مبارک خواب اور اتنے دن تم نے مجھ سے چھپایا۔ تمہارے ہاں لڑکا اسی حمل سے پیدا ہوگا، نظام الدین کے نام پر غور کرو۔ تم نے اتنے دن تکلیف اٹھائی اور یہ بشارت نہیں سنائی۔

آپؓ مزید فرماتی ہیں: حضرت اماں جانؓ کی زبانی دائی کا نام ہرودائی تھا۔اذان بھی کان میں حضورؑ خود دیتے تھے۔ بسم اللہ وغیرہ کی کوئی تقریب مَیں نے نہیں سنی نہ دیکھی۔ آمین بےشک ہم سب کی ہوئی اور بہت دھوم سے ہوئی۔

بچپن سے ہی حضرت مصلح موعودؓ کی دلچسپیوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ طبیعت میں تجسّس کا مادہ بہت تھا اور نئی چیز دیکھنے پر اس کاذاتی تجربہ حاصل کرنے کا شوق مچلنے لگتا۔ موسم اور طبیعت کو فٹ بال سے زیادہ مناسبت ہو تو آپؓ فٹ بال کھیلا کرتے۔ جب برسات میں قادیان حدّنظر تک پھیلے ہوئے پانی کے درمیان ایک جزیرہ دکھائی دینے لگتا تو تیراکی اور کشتی رانی کا شوق غالب آجاتا۔ شکار کے دنوں میں یہ شوق بھی پورا فرماتے۔ تاہم حضرت اماں جانؓ اور حضرت مسیح موعودؑ جہاں ضروری سمجھتے مناسب نصیحت فرمادیتے۔ ایک مرتبہ آپؓ ایک طوطا شکار کرکے لائے تو حضورؑ نے حلال و حرام یا مکروہ کی ظاہری اصطلاحوں میں پڑنے کی بجائے فرمایا: ’’میاں! اللہ تعالیٰ نے سب جانور کھانے کے لیے ہی پیدا نہیں کیے۔ بعض ان میں سے خوبصورتی کے لیے بھی پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘

آپؓ گھر میں گیندبلّا وغیرہ بھی کھیلتے اور گھر کے باہر آپؓ کے مشاغل غلیل سے نشانہ بازی،کشتی چلانا، تیرنا وغیرہ تھے۔ بڑے ہوئے تو گھوڑسواری کو بہت پسند کرتے تھے۔

حضرت مسیح موعودؑ کے نزدیک تربیت کا سب سے مقدّم ذریعہ دعا تھا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں: آپؑ نے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود صاحب پرکبھی سختی نہیں کی مگرجہاں تک امورِ دینیہ کا تعلق ہے یا ایسی غلطیوں کا سوال ہے جن کے نتیجہ میں اخلاق پر بُرا اثر پڑنے کا خطرہ ہو سکتا تھا وہاں آپؑ نے موقع ومحل کے مطابق کبھی نرمی سے اور کبھی سختی سے توجہ ضرور دلائی۔ آپؓ کا اپنا بیان ہے کہ ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازے پر آیا۔ مَیں نے اس کتے کو اشارہ کیا اورکہا ’ٹیپو ! ٹیپو!۔‘ حضرت صاحبؑ بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا: ’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم اُن کی نقل کرکے کتے کو ٹیپو کہتے ہو۔ خبردار! آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا ۔‘‘ میری عمر شاید آٹھ نو سال کی تھی۔ تب سے میرے دل میں سلطان ٹیپو کی محبت قائم ہوگئی۔

نہایت شفیق اورمہربان ہونے کے باوجود حضرت اقدسؑ کبھی یہ پسند نہ فرماتے تھے کہ بچہ دینی فرائض کی سرانجام دہی میں غفلت برتے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحبؑ کچھ بیمار تھے اس لیے جمعہ کے لیے مسجد میں نہ جاسکے۔ مَیں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں۔ تاہم مَیں جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد کو آرہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا، مَیں نے اُن سے پوچھا : آپ واپس آرہے ہیں، کیا نماز ہوگئی؟ انہوں نے کہا: آدمی بہت ہیں، مسجد میں جگہ نہیں تھی۔ مَیں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی۔حضرت صاحبؑ نے یہ دیکھ کر پوچھا: ’’مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے؟‘‘ آپؑ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور چہرے سے غصہ ظاہر ہوتا تھا۔ مَیں نے کہا کہ مَیں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا۔ آپؑ یہ سن کر خاموش ہوگئے لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحبؓ آپؑ کا حال پوچھنے کے لیے آئے تو سب سے پہلی بات جو آپؑ نے اُن سے دریافت کی، وہ یہ تھی کہ آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ مَیں خود تو گیا ہی نہیں تھا۔ معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی ہے یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر غلط فہمی مجھے ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے، دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ میں نے جُھوٹ بولا۔ مولوی صاحبؓ نے جواب دیا: ’’ہاں حضور! آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔‘‘ مَیں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی۔ خدانے میری بریت کے لیے یہ سامان کر دیا ۔

حضرت اُمّ المومنینؓ کی تربیت کا بھی حضرت مصلح موعودؓ کے کردار کی تشکیل پر گہرا اثر تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد جب خاندان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگیا تو اس صبرآزما دَور میں ایک روز آپؓ اپنے لخت جگر کا ہاتھ تھام کر بیت الدُّعا میں لے گئیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے الہاموں والی کاپی نکال کر آپؓ کے سامنے رکھ دی اور کہا کہ مَیں سمجھتی ہوں یہی تمہارا سب سے بڑا ورثہ ہے۔

حضورؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے لاہور میں بعض لڑکوں کو نکٹائی لگاتے دیکھا تو مَیں نے بھی شوق سے ایک نکٹائی خریدلی اور پہننی شروع کردی۔ میرے ایک مرحوم دوست نے دیکھا تو مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے کہ ’آج آپ نے نکٹائی پہنی ہے تو ہم کل کنچنیوں کا تماشہ دیکھنے لگ جائیں گے کیونکہ جو قدم آپ اٹھائیں گے ، ہم بھی آپ کے پیچھے چلیں گے۔‘ یہ کہہ کر انہوں نے مجھ سے نکٹائی مانگی اور مَیں نے اُتار کر اُن کو دے دی۔ پس اُن کی یہ نصیحت مجھے کبھی نہیں بھول سکتی اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ایک مخلص متّبع کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے خاندان کا کوئی نوجوان اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا تو صاحبزادہ صاحب!کہہ کر اس کا دماغ بگاڑنا نہیں چاہیے، بلکہ اس سے کہناچاہیے کہ آپ ہوتے تو صاحبزادہ ہی تھے مگر اب غلام زادہ سے بھی بدتر معلوم ہورہے ہیں اس لیے آپ کو چاہیے کہ اپنی اصلاح کریں ۔

حضورؓ فرماتے ہیں:مَیں نے حضرت صاحبؑ کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب تھاتو میں نے مصّمم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ بااللہ جھوٹے نکلے تو میں گھر سے نکل جائوں گا۔ مگر مَیں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا حتیٰ کہ جب آپؑ فوت ہوئے تو میرا یقین اَور بھی بڑھ گیا۔

حضرت مصلح موعودؓ بہت متناسب الاعضاء میانہ قد تھے۔ جسم ہلکا پھلکا اور چھریرا تھا جو آخری عمر میں بھرا بھرا لگنے لگا تھا تاہم موٹاپا اور بھداپن کبھی بھی نہ آیا۔ آنکھیں غلافی پُرکشش جو عادتاً نیم وا رہتی تھیں۔ نظراُٹھاکر کم ہی دیکھتے مگر جس چیز کو بھی دیکھتے اسے پاتال تک دیکھ لیتے اور حقیقت کو بخوبی سمجھ لیتے۔ مسنون خوبصورت داڑھی جو نہ بہت لمبی تھی اور نہ ہی بہت چھوٹی ۔ چہرے پر بہت پیاری مسکراہٹ ہر وقت سجی رہتی۔ قہقہہ لگا کر بھی ہنستے تھے مگر بہت کم۔ہر حرکت و اداسنجیدگی وثقاہت لیے ہوئے ہوتی لیکن خشک مزاج صوفیوں کی طرح نہیں تھے بلکہ نہایت لطیف حس مزاح رکھتے تھے۔ آپؓ کی تقاریر بعض دفعہ گھنٹوں لمبی ہوتیں مگر سننے والا اُکتاہٹ اور بےدلی میں مبتلانہ ہوتا کیونکہ آپؓ گفتگو اور تقریر کے دوران وقفہ وقفہ سے موقع ومحل کے مطابق کوئی لطیفہ یا دلچسپ واقعہ سنا کر محفل کو زعفران زار بنا دیتے لیکن کبھی کوئی غیرمہذّب بات نہ کرتے۔

ناظرہ قرآن پڑھنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کو باقاعدہ اسکول میں داخل ہوکر مروّجہ دینی تعلیم پانے کا موقع ملا اور گھر پر بھی بعض اساتذہ سے تعلیم حاصل کی چنانچہ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کچھ عرصہ آپؓ کو اُردو پڑھاتے رہے اور بعدازاں حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ نے آپؓ کو کچھ عرصہ انگریزی پڑھائی۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا ہے۔آپؓ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ مَیں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں اس لیے آپؓ کا طریق تھا کہ آپؓ مجھے اپنے پاس بٹھالیتے اور فرماتے: میاں! میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جائو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت کُکرے پڑگئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دُکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف کُکروں کی وجہ سے پیدا ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہا اس کی بینائی ضائع ہوجائے گی۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے میری صحت کے لیے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کردیں اور ساتھ ہی آپؑ نے روزے رکھنے شروع کردیے مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپؑ نے کتنے روزے رکھے۔بہرحال تین یا سات روزے آپؑ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لیے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم مَیں نے آنکھیں کھول دیں اور مَیں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ آپؑ نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ پڑھائی اس کی مرضی پر ہوگی یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کرسکے۔آپؑ بارہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحبؓ سے پڑھ لو اس کے علاوہ آپؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔

حضورؓ مزید فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے ناناجان حضرت میر ناصر نوابؓ نے میرا اُردو کا امتحان لیا۔مَیں اب بھی بہت بدخط ہوں مگر اس زمانہ میں تو میرا اتنا بدخط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ مَیں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگائیں کہ مَیں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا۔ اس پر وہ جوش میں آگئے اور فوراً حضرت مسیح موعودؑ کے پاس پہنچے۔ ہم تو پہلے ہی اُن کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اَور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نامعلوم کیا ہو۔ خیر حضرت صاحبؑ سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں ہے مَیں نے اس کا اردو کا امتحان لیا تھا۔ آپ ذرا پرچہ تو دیکھیں اس کا اتنا بُرا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا۔ پھر اسی جوش کی حالت میں کہنے لگے آپ بالکل پروا نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہورہی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑنے جب میر صاحبؓ کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا: ’’بلائو حضرت مولوی صاحب کو۔‘‘ جب آپؑ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بُلالیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو مجھ سے بڑی محبت تھی۔ آپؓ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچا ڈال کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ حضرت مسیح موعودؑنے فرمایا: مولوی صاحب! مَیں نے آپ کو اس غرض کے لیے بُلایا ہے کہ میر صاحب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے آپؑ نے قلم اُٹھائی اور دو تین سطرمیں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا: اس کو نقل کرو۔ بس یہ امتحان تھا جو آپؑ نے لیا۔ مَیں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اس کو نقل کردیا۔ نقل کرنے میں تو اَور بھی آسانی ہوتی ہے اور پھر مَیں نے آہستہ آہستہ نقل کیا، الف اور با وغیرہ احتیاط سے ڈالے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے: مجھے تو میرصاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہوگیا تھا مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ پہلے ہی میری تائید میں اُدھار کھائے بیٹھے تھے۔ فرمانے لگے: حضور! میر صاحب کو تو یونہی جوش آگیا ورنہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے۔

خداتعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اگرچہ حضورؓ نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی تھی لیکن اتنے باشعور تھے اور مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ بیش قیمتی تقاریر اور نادر کتب کا ایک بڑا خزانہ جماعت کی راہنمائی کے لیے چھوڑا۔ قرآن کریم کے علم ومعارف، فقہ اور حدیث پرپوری دسترس حاصل تھی۔ گھنٹوں کسی بھی موضوع پر تقریر کرسکتے تھے۔ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔

حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ مجھ سے پڑھا کرتے تھے تو ایک دن مَیں نے کہا کہ میاں! آپ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں، کیا آپ کو بھی الہام ہوتا اور خوابیں وغیرہ آتی ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ مولوی صاحب! خوابیں تو بہت آتی ہیں اور مَیں ایک خواب تو تقریباً روز ہی دیکھتا ہوں اور جونہی مَیں تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح اُٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی مَیں کمان کر رہا ہوںاور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جاکر ہم حریف کا مقابلہ کررہے ہیں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر مَیں نے پار گزرنے کے لیے کوئی چیز نہیں پائی تو سرکنڈے وغیرہ سے کشتی بناکر اور اس کے ذریعہ پار ہوکر حملہ آور ہوگیا ہوں۔

حضرت شاہ صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے جس وقت یہ خواب آپ سے سنا اسی وقت سے میرے دل میں یہ بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ شخص کسی وقت یقیناً جماعت کی قیادت کرے گا اور مَیں نے اسی وجہ سے کلاس میں بیٹھ کر آپ کو پڑھانا چھوڑ دیا تھا۔ آپ کو اپنی کرسی پر بٹھاتا اور خود آپ کی جگہ بیٹھ کر آپ کو پڑھاتا تھا اور مَیں نے خواب سُن کر آپؓ سے یہ بھی عرض کردیا تھا کہ میاں! آپ بڑے ہوکر مجھے بُھلا نہ دیں اور مجھ پر بھی نظرِ شفقت رکھیں۔

(آئندہ سوموار کے شمارے میں جاری ہے)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button