شرائط بیعت کی پُر معارف تشریح اور ان پر کاربند ہونے کی تلقین (جلسہ سالانہ گھانا کے اختتامی اجلاس سے خطاب)
٭…جماعت احمدیہ گھانا کے ۹۱ویں صد سالہ جلسہ سالانہ کا با برکت انعقاد
٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا اسلام آباد ٹلفورڈ سے براہِ راست بصیرت افروز اختتامی خطاب، گھانا میں ۳۹؍ہزار جبکہ اسلام آباد میں ۱۳۳۳؍ احباب جماعت کی شمولیت
(اسلام آباد، ٹلفورڈ، ۲۴؍فروری ۲۰۲۴ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) جماعت احمدیہ مسلمہ گھانا کا ۹۱واں جلسہ سالانہ ۲۲، ۲۳ و ۲۴؍فروری ۲۰۲۴ء کو بخیروخوبی منعقد ہوا جس میں ۳۹؍ ہزارافراد نے شمولیت کی۔ امسال جلسہ سالانہ گھانا کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ گھانا میں جماعت احمدیہ کے قیام کو سو سال مکمل ہونے پر صد سالہ جوبلی جلسہ منعقد کیا جا رہاتھا۔ یاد رہے کہ گھانا میں جماعت احمدیہ کا قیام فروری ۱۹۲۱ء میں ہوا جب حضرت مولوی عبد الرحیم نیّرصاحبؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر انگلستان سے گھانا تشریف لے گئے۔ خلافت احمدیہ کی راہنمائی اور مبلغین کی شب و روز قربانیوں کی بدولت آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے گھانا میں جماعت احمدیہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اور روزبروز ترقیات کی نئی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے اورتین سال قبل اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے جماعت احمدیہ گھانا اپنی دوسری صدی میں داخل ہو چکی ہے۔
بلاشبہ آج کا دن جماعت احمدیہ گھانا کے لیے غیر معمولی برکتوں، فضلوں اورتاریخی اہمیت کا حامل دن ہے کہ امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صد سالہ جوبلی جلسہ کے اختتامی اجلاس سے اسلام آباد، ٹلفورڈ سے براہ راست خطاب فرمایا۔
ایوانِ مسرور اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں حضور انور کی تشریف آوری
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ چار بج کر چار منٹ پر ایوان مسرور میں رونق افروز ہوئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام شاملین کو ’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘ کا تحفہ پیش فرمایا۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا جس کی سعادت مکرم نا صر کوناڈو صاحب کو حاصل ہوئی۔ آپ نے سورۃ اٰل عمران کی آیات ۱۹۱ تا ۱۹۵کی تلاوت کی۔ اس کا انگریزی ترجمہ مکرم بلال بونسوصاحب کو پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بعد ازاں مکرم احسان احمد صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام
اُن کیلئے تو بس ہے خدا کا یہی نِشاں
یعنی وہ فضل اُس کے جو مُجھ پر ہیں ہر زماں
دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا
گمنام پا کے شُہرۂ عالَم بنا دیا
میں سے منتخب اشعار خوش الحانی کے ساتھ پیش کرنے کی سعادت ملی جبکہ مکرم علی موانڈا صاحب نے منظوم کلام کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔
خلاصہ خطاب حضورِ انور
اس کے بعد حضورِانور نے انگریزی زبان میں بصیرت افروز اور پُرمعارف خطاب فرمایا جس کا خلاصہ اردو زبان میں ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ گھانا گذشتہ تین دن سے اپنا جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق پارہی ہے اور آج اس جلسے کا آخری روز ہے۔ یوں بھی امسال یہ جلسہ سالانہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جماعت احمدیہ گھانا کے قیام پر سو سال مکمل ہوچکے ہیں۔ اس خوشی کے موقعے پر جہاں آپ احباب خوشی و مسرت کا اظہار کر رہے ہیں وہیں آپ کے دل خدا تعالیٰ کے شکر کے جذبات سے بھی بھر جانے چاہئیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ آج جماعت احمدیہ کا تعارف گھانا کے چپے چپے میں پہنچ چکا ہے۔ آج آپ گھانا کے کسی بھی باشندے سے، خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں رہتا ہو اگر جماعت احمدیہ مسلمہ کے متعلق پوچھیں تو ضرور وہ اس سے متعارف ہوگا۔ جماعت احمدیہ گھانا میں تبلیغ کے ساتھ ساتھ سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں کے قیام اور دوسرے رفاہی کاموں کے ذریعے بھی اس قوم کی خدمت کی توفیق پارہی ہے۔
یاد رکھیں! آپ کی یہ ترقی اور کامیابی آپ پر مزید ذمہ داریاں بھی ڈال رہی ہے۔ سو سالہ جشن کے بعد اب مسلسل آپ کا قدم آگے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ اب احمدیت کا پیغام گھانا کے ہر باشندے تک پہنچانے کے لیے آپ کو کوشش کرنی ہوگی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے آپ کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہوگی اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ خود کو قرآن کریم اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے غلامِ صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات سے جوڑنے کی مخلصانہ کوشش کریںگے۔
آج کے دَور میں صرف اور صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات سے وابستہ ہوکر ہی ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حقیقی مفہوم سمجھ سکتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہی اسلامی تعلیمات کی اصل ہے۔ اگر ہم ان دونوں بنیادی اسلامی تعلیمات پر کماحقہ عمل کرنے والے بن جائیں گے تو ہمارا گھر، ہمارا گاؤں، ہمارا شہر، ہمارا ملک اور تمام دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گی۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم دنیا کو جنگ اور تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ دنیا کا امن صرف اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔
جب آپ اپنے ملک میں جماعت احمدیہ کا پیغام پھیلائیں گے تو وہ یقیناً آپ سے پوچھیں گے اور دیکھیں گے کہ آخرآپ میں یعنی احمدی مسلمانوں میں اور دوسروں میں کیا امتیازی فرق ہے؟ کیا آپ کا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق ہے؟ کیا آپ باہم محبت اور الفت کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ کیا آپ کی نیکی اور تقویٰ کا واقعی وہ معیار ہے کہ جس کا تقاضا جماعت احمدیہ مسلمہ کی تعلیمات کرتی ہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو آپ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں ایک حقیقی احمدی مسلمان کی صفات اور خصوصیات بیان فرمادی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روح شرائط بیعت میں مذکور ہے۔ پس شرائط بیعت پر کاربند ہوکر ہی ہم حقیقی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ شرائط بیعت ہمیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت سے کیا امید رکھتے تھے۔
پہلی شرط بیعت میں شرک سے مجتنب رہنے کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے بیزاری کا اظہار فرماتا ہے۔ پس صرف زبان سے لا الٰہ الّا اللّٰہ کا اقرار کافی نہیں بلکہ دل سے غیر اللہ کو بکلی نکال دینا ضروری ہے۔ توحید پر ایمان ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے کسی شَے کی کوئی حیثیت نہیں۔
دوسری شرط بیعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی گناہوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ان میں جھوٹ، زنا، بدنظری، فسق و فجور، ظلم و خیانت اور فسادوبغاوت جیسے گناہ شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جھوٹ کی بتوں کی پرستش سے مماثلت بیان فرمائی ہے۔ پھر ایک اور گناہ زنا ہے، اللہ تعالیٰ بڑا واضح فرماتا ہے کہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو اور بےحیائی کی باتوں سے بچتے رہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس چیز میں زنا کا شائبہ بھی ہو تو اس سے بچو۔ زنا کا عادی شخص اپنی زندگی کا حقیقی مقصد کبھی نہیں پاسکتا۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غیر شادی شدہ ہے تو وہ خود کو ان بےحیائی کے راستوں سے بچانے کے لیے روزے رکھے۔
پھر بد نظری سے بچنا اور اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔ اسلام جہاں عورتوں کو پردے کا حکم دیتا ہے وہیں مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کی ہدایت فرماتا ہے۔ اسی طرح بدکلامی اور گالم گلوچ بھی ایسی برائیاں ہیں جن سے ہر مسلمان کو بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر کبھی آپس میں کسی قسم کا جھگڑا یا لڑائی ہو تو انسان کو انتہائی صبر اور وقار کے ساتھ اس کا نرم زبان کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت سے اعلیٰ ترین روحانی مراتب کے درجے کے حصول کی امید کرتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی تعلیمات سے منہ موڑتا ہے اللہ تعالیٰ پھراس کی پروا نہیں کرتا۔ اگر ایک بیٹا اپنے باپ کی بابت جو اس کی ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا نہیں کرتا اور نافرمانی کرتا ہے تو ایسا باپ اپنے بیٹے کی بھی پروا نہیں کرتا تو پھر خدا تعالیٰ کیوں ایسے انسانوں کی پروا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میری جماعت کے لوگوں کو پوری توجہ کے ساتھ ان باتوں پر غور کرنا چاہیے اور اپنی روحانی ترقی کے لیے ہر دم تقویٰ کے ساتھ کوشاں رہ کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ میری جماعت کو پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام کرنا چاہیے اور کسی قسم کی برائی اور شرارت کا خیال بھی قریب نہیں لانا چاہیے۔ اگر کسی نے تم سے بے ایمانی کا سلوک کیا ہے تو تم جواباً اس کی امانت کا حق ادا کرو اور اس سے بے ایمانی مت کرو۔ انسان کو اپنے جذبات قابو میں رکھنے چاہئیں، نفسانی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی چاہیے اور اخلاق سوز اور بد اخلاقی کی چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ اس زمانے میں ٹیکنالوجی جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اسی رفتار سے اخلاقیات ختم ہو رہی ہیں جن کے باعث انسان تقویٰ سے دور جا رہا ہے۔ مثلاً انٹرنیٹ، ٹی وی اور میڈیا کی دیگر چیزیں برائی کے دروازے کھول رہی ہیں۔ اس لیے ہر احمدی استغفار پڑھےاور اللہ تعالیٰ کے حضورجھکے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہر قسم کی برائی سے بچانے والا ہے۔ استغفار انسان کو ہر اُس گناہ سے روکتا ہے جس کا تعلق زبان، کان، آنکھ اور دل سے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت سے عہد لیا ہے کہ وہ ہمیشہ پنج وقتہ نمازوں کا التزام کریں گے۔ اس کے علاوہ تہجد بھی جہاں تک ممکن ہو ادا کریں گے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نماز ادا کرنے، زکوٰۃ دینے اور نبی کی فرمانبرداری کرنے کی تلقین فرماتا ہے تاکہ انسان پر رحم کیا جائے۔
پھر ہر احمدی کو درود کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے کیونکہ یہی وہ کنجی ہے جس کے ذریعے کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اور دوسرے مسلمان بھائیوں کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچاناچاہیے۔ کبھی ایسا نہ ہو کہ ہماری خواہشات یا تکبر کی وجہ سے کسی کو زبان سے یا کسی اور طریقے سے نقصان پہنچے۔ ہمیشہ دوسروں کو معاف کر کے ہمدردی کا سلوک کرنا چاہیے۔ اپنے بھائی کے متعلق برا خیال کرنا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ مسلمان ممالک میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان تعلیمات پرمکمل عمل نہیں کیا جاتا بلکہ ایک دوسرے کے مال اوراملاک کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ لوگ لالچ کی وجہ سے دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے نتیجۃً عدل و انصاف سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے آپ اپنے جلسے پر خاص دعا کریں کہ دنیا میں حقیقی امن و انصاف قائم ہو جائے۔ اپنے دلوں کی حالتوں اور اپنے اعمال پر خاص توجہ کریں۔ آپ نے کبھی کسی کی طرف نفرت سے نہیں دیکھنا یا کسی سے ظلم نہیں کرنا۔ اپنے دل سے ہر قسم کے برے خیال نکال دینے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا دامن نہیں چھوڑنا۔ ہمیشہ برداشت اور صبر کا ثبوت دینا ہے۔ حقیقی صبر یہ ہے کہ چاہےجیسا بھی انسان کو دکھ پہنچتا ہو اللہ تعالیٰ کا دامن نہ چھوٹے۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دامن پکڑا ہے تو یاد رکھیں کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے وفا کرنی ہے اور قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ اپنی تمام تر ترقیات کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ الہام فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں۔ پس اگر ہم ایسا کریں گے اورعاجزی کی راہ اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے افضال کے مورد بنیں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بیعت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم نے ہمیشہ اسلام کے جھنڈے کو ہر جھنڈے پر بلند رکھنا ہے۔ اسلام کو سب سے زیادہ اہمیت دینی ہے۔ اپنے ہر کام میں دین کو دنیاپر مقدم رکھنا ہے۔ ہمیں اپنے اندر ایک حقیقی دینی و روحانی انقلاب لے کر آنا ہے۔ اگر ہم ایسا مقام حاصل کرنے والے ہوں گے تو اپنے روحانی مقاصد کو حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے پیارے ہر ایک سے محبت و ہمدردی کریں کیونکہ جتنی محبت وہ کریں گے اتنا ہی اللہ ان سے خوش ہوگا۔ اس لیے احمدیوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی ہر دو حیثیتوں میں بنی نوع کی خدمت کریں۔
حضور انور نے فرمایا کہ میں نے دنیا بھر میں کئی بار احمدیوں کو نصیحت کی ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی خدمت کریں۔ جس میں استعداد ہو غریب کی بھوک کو دور کرے۔ ان کی مفلسی کو دور کرے۔ ان کی بہبود کا خیال کرے۔ کوشش کی جائے کہ ضرورت مندوں کی ایسی امداد کی جائے جو انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرے نہ یہ کہ وقتی ضرورت کو پورا کرے۔
میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ بطور احمدی ہم حضرت مسیح موعودؑ سے اطاعت کا تعلق رکھیں گے۔ ہر احمدی کو محض للہ یہ تعلق رکھنا چاہیے اور ان تعلیمات پر بڑی سنجیدگی سے عمل کرنا چاہیے تب ہی ہم حقیقی احمدی مسلمان کہلانے والے ہوں گے۔ ہر احمدی کو خلافت کے ساتھ کامل وفاداری اور اطاعت کا تعلق پیدا کرنا چاہیے کیونکہ ہماری ترقی کا راز اسی میں مستور ہے کہ ہم خلافت اور حضرت مسیح موعودؑ سے کیے گئے عہد کو پورا کریں جو شرائط بیعت میں درج ہیں۔
اللہ کرے کہ جس طرح گھانا جماعت کی پہلی صدی کامیابی کےساتھ گزری ہے ایسے ہی اگلی صدی بھی پہلے سے بڑھ کر کامیابی و کامرانی کا پیغام لائے۔ اللہ کرے کہ آپ آگے بڑھیں اور اپنے اندر ہر قسم کی روحانی اور پاک تبدیلی پیدا کریں اوراپنے عہدِ بیعت کو حرف بحرف پورا کریں۔ اللہ کرے کہ آپ اسلام اور احمدیت کی تعلیم کو پھیلانے والے ہوں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ افریقہ میں گھانا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں احمدیت بہت آغاز میں پہنچی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ گھانا دنیا بھر میں اسلام احمدیت کو پہنچانے کے مشن کے ہراول دستہ میں شامل ہو۔ خدا کرے کہ آپ اسلام کی محبت، اخوت اور رواداری کی تعلیم اپنانے والے ہوں اور مغربی دنیا کے لیے نمونہ بن جائیں اورآپ اور آپ کی نسلیں دنیا کو الحاد سے بچا کر ایک خدا کی طرف لانے والے ہوں۔
خدا کرے کہ آپ اس دنیا کے نام نہاد ترقی یافتہ لوگوں کو حقیقی ترقی اور روحانی زندگی، عدل و انصاف، مساوات اور انصاف کا سبق سکھانے والے ہوں۔ اس زمانہ میں مغربی طاقتیں بہت ظلم کر رہی ہیں اور ا ن کی جنگوں اور ان کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم میں دجالی طاقتوں کی منصوبہ بندی اور منافقت کا عکس نظر آتا ہے۔ اس لیے دنیا کے لیے اور آئندہ نسل کے لیے ہم پر لازم ہے کہ افریقہ کو ایسا نمونہ بنائیں کہ دنیا افریقہ کو دیکھ کر راہنمائی لے۔ خدا کرے کہ دنیا افریقہ اورگھانا کو ایک نمونہ کے طور پر دیکھے۔ اللہ کرے کہ افریقی اقوام سب سے پہلے اسلام احمدیت قبول کرنے والی ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں۔ اگر اس طرح تبدیلی ہو گی تو آپ دنیا کو ہر قسم کے تنازعات اور برائی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں گے اور آنے والی نسلوں کی اس طرح تربیت ہو گی تو دنیا کو ہر طرح کے ظلم سے بچانے والے ہوں گے۔
آخر پر حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے اللہ تعالیٰ جماعت گھانا پر بے پناہ فضل فرمائے۔ اور آپ جلسے کے مقاصد حاصل کر کے اپنے گھروں کو بخیریت لوٹنے والے ہوں۔
پانچ بج کر۱۳؍منٹ پر حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد مختلف گروپس کی صورت میں اردو، عربی اور مقامی افریقی زبانوں میں حمدیہ، نعتیہ اور خلافت احمدیہ سے عقیدت پر مبنی ترانے پیش کیے گئے۔
ترانوں کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم نور محمد بن صالح صاحب امیر و مبلغ انچارج گھانا سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ جلسے پر آپ کی حاضری نیز ترانوں کے ذریعہ آپ کے جذبات کو دیکھ کر مجھے افسوس ہےکہ میں جلسہ میں (بنفس نفیس) شامل نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد چند لمحات کے لیے حضور انور نے امیر صاحب گھانا سے پُر شفقت گفتگو فرمائی۔
حضور انور نے گھانا اور اسلام آباد میں حاضری کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ گھانا میں ۳۹؍ہزار جبکہ ایوان مسرور اسلام آباد میں ۱۳۳۳؍ افراد موجود ہیں۔ پانچ بج کر چالیس منٹ پر حضوِانور ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عطا فرما کر ایوان مسرور سے تشریف لے گئے۔
جماعت احمدیہ گھانا کی ایک عظیم سعادت
گھانا اس لحاظ سے بھی انتہائی خوش قسمت ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہاں قریباً آٹھ سال بطور واقفِ زندگی خدمات سرانجام دیں۔ حضور کو ۱۹۷۷ء میں گھانا بھجوایا گیا جس کے شمالی ریجن میں نصرت جہاں سکیم کے تحت ٹمالے (Tamale) سے ۹۰ میل کے فاصلہ پر واقع سلاگا(Salaga) میں ۱۹۷۱ء میں احمدیہ سیکنڈری سکول قائم کیا جا چکا تھا۔ یہاں پر حضور انور نے بطور پرنسپل دو سال خدمات سرانجام دیں۔
اس کے بعد حضورِانور گھانا کے سنٹرل ریجن میں واقع اکرافو(Ekrawfo) سے ایک میل دور ایسارچر (Essarkyir) میں قائم احمدیہ سکول میں متعین ہوئے۔ یہاں پر بھی حضورِ انور نے تقریباً چار سال بطور ہیڈ ماسٹر خدمات سرانجام دیں۔
اس کے بعد حضور انور گھانا کے شمالی علاقہ میں واقع احمدیہ ایگریکلچرل فارم ڈیپالے (Depali) میں دو سال بطور مینیجر مامور رہے۔ یہاں حضور انور نے گھانا میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر گندم اگانے کا کامیاب تجربہ فرمایا۔ یاد رہے کہ حضورِ انور نے ایسارچر میں اپنے قیام کے دوران سکول سے ملحقہ فارم میں سویابین اگانے کا بھی کامیاب تجربہ فرمایا۔
مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضورِانور دو مرتبہ گھانا کے دورے پر بھی تشریف لے جا چکے ہیں نیز ازراہِ شفقت متعدد مقامات پر جماعت احمدیہ گھانا ور گھانا کے لوگوں کے لیے پسندیدگی کا اظہار فرما چکے ہیں، و ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔
ادارہ الفضل انٹرنیشنل اس پُرمسرّت موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز اور جماعت احمدیہ گھانا کی خدمت میں مبارکباد کا تحفہ پیش کرتا ہے نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام افرادِ جماعت احمدیہ عالمگیر کو حضورِانور کی منشائے مبارک کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے تا اسلام کا پُرامن اور عظیم الشان پیغام دنیا کے کناروں تک کامیابی سے پہنچ جائے۔ اللّٰھم آمین