کیا ایسے لوگ جو روزہ نہیں رکھتے تراویح بھی نہیں پڑھ سکتے
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں: جن کو خداتعالیٰ نے روزہ رکھنے سے مستثنیٰ قرار دے دیا ان کو دوسری عبادتوں سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ تراویح کی کیا بحث ہوئی۔ پہلے تو نماز کی بحث اٹھے گی۔ عبادتیں کرسکتے ہیں کہ نہیں۔ قرآن کی تلاوت کرسکتے ہیں کہ نہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں کہ نہیں اور یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ ہر شخص اگر کسی پہلو میں کمزور ہے تو دیگر فرائض اس سے جھڑ نہیں جاتے۔ ہر ایسا شخص جس میں کوئی کمزوری پائی جاتی ہے اگر وہ بعض دوسرے فرائض سرانجام دیتا ہے تو اس کے لئے بہتر ہے وہ پکڑ کے نیچے تو آجاتاہے لیکن یہ کہنا کہ وہ باقی فرائض سے بھی آزاد ہوگیا کیونکہ ایک کمزوری پائی جاتی ہے بالکل غلط اور بے معنی بات ہے مگر یہ فرائض کی بحث کو چھوڑ کر نوافل کی بحث سے گزر کر تراویح میں جابیٹھے ہیں اور تراویح بھی نوافل کی وہ قسم ہے جو ثانوی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ طریق تھا کہ آپ تہجد کے وقت نوافل پڑھا کرتے تھے۔ میں نے تحقیق کی ہے کہ آپؐ سے یہ تو ثابت ہے کہ آپ نے تہجد کے وقت باجماعت بھی نوافل پڑھائے لیکن اس دستور کو ہمیشہ اختیار نہیں فرمایا کچھ عرصے کے بعد چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اس طرح تم لوگوں کے لئے مشکل نہ پڑ جائے لازم ہی نہ ہو جائے اور سب کے لئے یہ وقت ہو کہ تہجد کے وقت اس طرح باجماعت نوافل پڑھے اس حکمت کے پیش نظر احسان کے طور پر آپ نے باجماعت نوافل پڑھانے ترک کر دیئے۔ لیکن کم از کم یہ ثابت ہو گیا کہ باجماعت نوافل پڑھنا غلط نہیں۔ اب اگلا پہلو دیکھیں کہ تراویح کس طرح شروع ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں شروع ہوئی۔ وہ مزدور پیشہ لوگ جو دن بھر سخت محنت کا کام کرتے تھے ان کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ تہجد کے وقت اتنا پہلے اٹھیں کہ پھر وہ رات کو بھی جاگیں اس لئے ان کی رعایت سے حضرت عمر ؓ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ عشاء کی نماز کے بعد تم نوافل پڑھ لیا کرو اور باقاعدہ جماعت کے ذریعہ وہ نوافل ادا ہونے لگے۔ ان کو تراویح کہا جاتا ہے اور اس کے آخر پر وتر پڑھے جاتے تھے وجہ یہ تھی کہ ظاہر تھا کہ جو صبح نہیں اٹھ سکتا وہی تراویح پڑھے گا اور جو صبح اٹھ ہی نہیں سکتا اس نے بعد میں پھر کون سے نفل پڑھنے ہیں۔ اس لئے ایک اور سوال بھی اٹھا ہوا ہے وہ بھی ساتھ ہی جواب میں دے دیتا ہوں کہ تراویح کے بعد نفل پڑھے جائیں یا نہیں۔ تراویح تو نفل کی ثانوی شکل کا نام ہے۔ اول نفل کی صورت وہی ہے کہ تہجد پڑھ کر رات کو اٹھ کر نوافل ادا کیا کر یہ حکم ہے۔ اول نمبر پر آنحضور ﷺ ہمیشہ اسی کے پابند رہے ہیں۔ اگر ایک آدمی کسی نیکی سے جاتا ہے تو جس طرح آب کے بعد تیمم آجاتا ہے اس طرح حضرت عمرؓ نے تراویح کو تیمم کے طور پر جاری فرمایا۔ مگر یہ شرط ہے کہ جو شخص استطاعت رکھتا ہے اس کے لئے لازم ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سنت اور قرآن کی ہدایت کے مطابق تہجد پڑھا کرے ا سکے علاوہ بے شک نوافل ادا کرے جس شخص سے رمضان میں تہجد کی ادائیگی بھی ممکن نہ ہو اگر وہ اس مجبوری کے پیش نظر رات کو تہجد کے متبادل نفل پڑھ لے تو یہ گناہ نہیں ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے بعد وتر ہوں گے اور جب وتر ہو گئے تو وہ نوافل اپنی تکمیل کو پہنچے اور اس کے بعد پھر کسی نفل کا اس لئے سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اس نے وہ تراویح پڑھی اس غرض کے لئے تھی کہ مجبوری ہے کہ صبح اٹھ نہیں سکتا اگر آنکھ کھل جائے تو اٹھ کھڑا ہو بعض دفعہ ڈراؤنی خواب آجاتی ہے تہجد کی عادت نہ بھی ہو تو بے چارے ساری رات کانپتے رہتے ہیں تو ان لوگوں کے لئے میں نے کہا تھا کہ منع نہیں ہے اگر رات کو آنکھ کھلی ہے اور دل چاہتا ہے خدا کی عبادت کرنے کو تو کوئی نہیں روک سکتا اس لئے بے شک پڑھے مگر جو احسن طریق ہے جو مسنون طریق واضح اور اول ہے وہ میں نے کھول کر بیان کر دیا ہے۔
(مجلس عرفان ۲۲؍مارچ ۱۹۹۴ءمطبوعہ الفضل ۱۸؍اکتوبر ۲۰۰۲ء صفحہ۴)