خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (فرمودہ ۱۹؍ مئی۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: یہ نام نہاد علماء اور مخالفین سمجھتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعودؑکی جماعت کو اپنی پھونکوں سے ختم کر دیں گے لیکن نہیں جانتے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقابل پر جب کھڑے ہوں تو اپنی ہی تباہی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد اور تائید اور نصرت فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تائید اور مدد اور نصرت کے نظارے ہم دنیا کے دُور دراز ملکوں میں بھی دیکھتے ہیں ایسے علاقوں میں جہاں بعض دفعہ عام طور پر انسان کی پہنچ نہیں ہوتی، بڑے مشکل رستے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ وہاں بھی اپنی تائید کے نظارے دکھا رہا ہے…دنیا میں جو اللہ تعالیٰ کی تائید کے واقعات ہوتے ہیں، جو حضرت مسیح موعودؑسے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں یہ کس طرح پورے ہوتے ہیں ان کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن اس وقت میں کچھ واقعات جماعت کی ترقی کے بیان کروں گا۔کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آئیں اور آپؑ کو مانیں۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گنی کناکری میں قبول احمدیت کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: گنی کناکری کے مبلغ لکھتے ہیں کہ وہاں ایک گاؤں کُٹایا (Kotoya) ہے وہاں تبلیغ کی غرض سے پہنچے۔ حضرت مسیح موعودؑکا پیغام تفصیل کے ساتھ پہنچایا تو گاؤں کے سب سے بزرگ شخص نے کہا کہ وہ اپنے دادا سے ایک لفظ مہدی، مہدی اکثر سنا کرتا تھا لیکن اسے کبھی اس بات کی سمجھ نہیں آئی اور نہ ہی دادا نے کبھی اس کی تفصیل بتائی لیکن یہ بتایا کہ اس کا تعلق اسلام سے ہے۔ لہٰذا آج جب آپ نے تفصیل سے امام مہدی کا ذکر کیا ہے تو میں صدق دل سے احمدیت میں داخل ہوتا ہوں اور اس نے گاؤں والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت کو قبول کر لیں کیونکہ میں نے اکثر افریقن ممالک میں سفر کیا ہے اور ہر جگہ مجھے احمدیہ مسلم جماعت ہی اسلام کی خدمت کرتی نظر آئی ہے جبکہ دوسرے فرقے یا تو دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور یا پھر ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے لیے اپنی علمی کاوشیں دکھاتے رہتے ہیں۔ ایک یہی جماعت ہے جو قرآن اور اسلام کی خدمت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گاؤں میں امام سمیت بہت سارے لوگوں نے بیعت کی۔ایک بہت بڑی جماعت قائم ہو گئی۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے افریقہ میں بچوں کوقرآن کریم پڑھانے کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: افریقہ کے ایک ملک کے ہمارے مربی ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ تبلیغی میدان میں بعض دفعہ بظاہر نظر معمولی واقعات ہوتے ہیں لیکن دراصل پس منظر میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کام کر رہی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں ہماری تبلیغی ٹیم کاؤنٹی کے ایک اہم ٹاؤن’’باما‘‘میں جو کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہے تبلیغ کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ ابھی ہم مسجد میں ہی بیٹھے تھے کہ اسی ٹاؤن سے چار افراد پر مشتمل ایک وفد ہمیں ملنے آ گیا۔ ان میں ایک خاتون بھی شامل تھی جو کہ اس ٹاؤن کی عورتوں کی تنظیم کی چیئرپرسن تھی۔ وفد کے ممبر نے بتایا کہ ہم آپ کو دعوت دینے آئے ہیں۔ آپ ہمارے علاقے میں آئیں اور جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچائیں کیونکہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ آپ کی جماعت تبلیغ کرتی ہے اور خاص طور پر بچوں کو قرآن مجید سکھانے کا انتظام کرتی ہے۔ چنانچہ ہم نے اگلے ہی دن وہاں جانے کا پروگرام بنا لیا۔ وہاں پہنچ کر جماعت کا تعارف ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی آمد اور غرض و غایت بیان کی اس کے بعد سوال و جواب کا ایک لمبا سلسلہ چلتا رہا جس کے اختتام پر گاؤں والوں نے ، سب نے یہ فیصلہ کیا کہ آج سے ہم جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔ اس طرح یہاں بھی نئی جماعت قائم ہو گئی اور اس کے بعد انہوں نے اس علاقے کے سارے بچوں کو اکٹھا کر کے ہمارے سامنے پیش کر دیا کہ آج سے یہ جماعت کے بچے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں ان کو کیسے قرآن مجید سکھایا جائے؟ چنانچہ مربی صاحب کہتے ہیں ان میں سے دو لڑکوں کو قرآن کریم سکھانے کے لیے میں نے منتخب کیا کہ ان کو قرآن سکھایا جائے گا اور پھر وہ واپس جا کر اپنی مسجد میں اپنے علاقے میں قرآن کریم کی کلاسز لگا کر باقی بچوں کو سکھائیں گے۔ کہتے ہیں ہم نے ابھی ایک ارادہ ہی کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت تائید و نصرت ہمارے ساتھ شامل کر دی۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے چاڈمیں مسجدکےافتتاح پرمخالفت کاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:چاڈافریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ۲۰۲۲ء کی مارچ میں جماعت کی پہلی مسجد کا افتتاح ہوا۔کہتے ہیں کہ دارالحکومت چاڈ میں ہماری مسجد کا افتتاح ہوا۔ حاسدین مختلف سازشیں کر رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ ہمارے ملک میں ایک نیا دین لے کر آ گئی ہے۔ افتتاح کے بعد جماعت کی ذرا زیادہ مشہوری ہوئی تو حاسدوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی اور ان کی کارروائیاں بھی بڑھنے لگیں۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے کے چند ائمہ کرام، نام نہاد مولوی جو ہیں مسجدوں میں جماعت کے خلاف تقریریں کر رہے ہیں، پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ احمدیوں کی مسجد کو بند کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور چاڈ اسلامک کونسل میں بھی گئے اور ان سے یہ کہا آپ لوگوں نے جماعت احمدیہ کو مسجد بنانے کی کیوں اجازت دی تھی اور مسجد کو جمعہ کے لیے کیوں کھول دیا گیا ہے، اس مسجد کو فوراً بند کرایاجائے،اس سے ہمارے علاقے میں فتنہ پیدا ہو رہا ہے۔ اسلامک کونسل والوں نے کہا کہ عبادت کرنا ان کا، احمدیوں کا حق ہے،ہم کیسے مسجد جو اللہ کا گھر ہے اسے بند کردیں۔اگر آپ لوگوں کو کسی فتنے کا ڈر ہے تو پولیس میں جا کے رپورٹ کر دیں۔ وہاں کی اسلامک کونسل کو کم از کم اتنی عقل بھی ہے اور انصاف پسند بھی ہے کہ انہوں نے کسی کا خوف نہیں کیا… بہرحال اس کے بعد وہ لوگ پولیس ہیڈ کوارٹر چلے گئے اور شکایت کی کہ ہمارے علاقے میں فتنہ پیدا ہو رہا ہے۔ احمدیوں کو بند کرایا جائے۔ نیا دین لے کر آ گئے ہیں اور نعوذباللہ آنحضورﷺکو بھی نہیں مانتے۔ پولیس افسر نے مبلغ کو بلایا۔ جماعت کی رجسٹریشن کی کاپی اور مسجد بنانے کی اجازت وغیرہ مانگی۔ ساری چیزیں، سارے کاغذات پیش کیے گئے۔ بہرحال اس نے کہا آپ جائیں۔ تفتیش کر کے مَیں بتاؤں گا۔ اس کے بعد اس پولیس افسر نے محلے کے چیف کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تمہارے محلے میں احمدیوں نے مسجد بنائی ہے اور نیا دین لے کر آئے ہیں اور آنحضور ﷺ کو نہیں مانتے۔ چیف نے جواب دیا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔میں نے خود جمعہ ان کی مسجد میں پڑھا ہے اور وہ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور تین سال سے میں جماعت احمدیہ کو جانتا ہوں اور خدمتِ خلق کے بڑے کام بھی یہ کر رہے ہیں۔ بہرحال پولیس افسر ایک دن ہماری مسجد میں بھی آ گیا اور مسجد کے باہر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہا کہ آپ لوگ تو محمد ﷺ کو مانتے ہیں۔ مسجدکے ہال میں جو اندر حصہ تھا قرآنی آیات دیکھ کر اَور بھی حیران ہوا۔ پھر کہاآپ کا قبلہ بھی ایک ہے اور مسجد میں صف بندی بھی مسلمانوں کی مساجد کی طرح ہے۔ مجھے تو یہ بتایا گیا تھا کہ نیا دین لے کر آ گئے ہیں۔بہرحال پولیس نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ اردگرد کے جو غیر احمدی تھے ان کے گھروں سے بھی پوچھا۔ انہوں نے بھی کہا کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جب یہ لوگ پولیس سے ناکام ہوئے تو گھروں میں جانے لگ گئے۔ ہمسایوں کو کہا کہ ان کو یہاں سے نکالنے کے لیے شور مچاؤ تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مسجد تو اللہ کا گھر ہے اور ہمیں ان میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آرہی جو اسلام سے ہٹ کر ہو تو بہرحال ہر لحاظ سے ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے تنزانیہ میں ایک نوجوان کےمسجدکےلیےجگہ فروخت کرنے کا کیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: تنزانیہ سے قبول احمدیت کا ایک واقعہ ہے۔ سیمیو ریجن کی ایک جماعت ہے موابےما (Mwabuma)۔ وہاں کہتے ہیں معلمین نے تبلیغ شروع کی۔ لوکل لوگوں سے جب مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کے لیے پلاٹ لینا چاہا تو ہر ایک نے جو قیمت بتائی وہ بہت زیادہ تھی۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ ہمارے خلاف لوکل پادریوں نے ایک کمپین چلا رکھی ہے کہ کوئی ان کو مسجد بنانے کے لیے جگہ نہ بیچے کیونکہ یہ جادو کرتے ہیں اور ان کے پاس جن ہوتے ہیں اور قرآن کے ذریعے جس کو چاہیں قتل کر دیں اور پتا بھی نہ چلے۔ اس خوف سے کوئی ہمیں مسجد بنانے کے لیے جگہ نہیں دے رہا تھا۔عیسائیوں کا علاقہ تھا۔ اس پر معلمین نے گھر گھر جا کر ان لوگوں کے وسوسے ختم کیے۔ لوگوں کی رائے بدلنے کی کوشش کی۔ چند ماہ کے اندر ایک نوجوان نے اپنا ایک ایکڑ کا پلاٹ ہمیں دینے کی حامی بھر لی۔ اس سے جماعت نے پلاٹ لے لیا۔ اس نوجوان نے بتایا کہ اس مسجد کے لیے پلاٹ فروخت کرنے کے بعد بڑی برکت پڑی ہے۔ کہتا ہے کہ ایک آدمی جو کئی سالوں سے اسے قرض واپس نہیں کر رہا تھا اور اس کی وجہ سے اس کے کئی کام رکے ہوئے تھے پلاٹ بیچنے کے چند دن کے بعد ہی خود ہی اس نے ساری رقم لوٹا دی اور میرے سارے قرض اس کی وجہ سے ادا ہو گئے۔ بہرحال اس بات سے متاثر ہو کر وہ اپنی فیملی سمیت احمدی ہوگیا۔ اس کے بعد کہتے ہیں ایسی ہوا چلی ہے قبول احمدیت کی کہ سینکڑوں لوگ اس علاقے میں سے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے ہیں اور وہاں ایک بڑی مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کی بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو توفیق دی۔
سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کےآخر پر کن مرحومین کا ذکرخیر فرمایااورنمازجنازہ غائب پڑھائی؟
جواب:۱۔مکرمہ پروین اختر صاحبہ جو غلام قادر صاحب مرحوم سیالکوٹ کی اہلیہ تھیں۔ نوے سال کی عمر میں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے عارف محمود صاحب بینن کے مبلغ سلسلہ ہیں جو اپنی والدہ کے جنازے میں میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے۔ مبلغ سلسلہ عارف محمود بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت چودھری امام دین صاحب چوہان کی پوتی تھیں اور معلم سلسلہ غلام احمد صاحب کی بیٹی تھیں۔
۲۔مکرمہ ممتاز وسیم صاحبہ جو چودھری وسیم احمد ناصر صاحب مرحوم گھٹیالیاں کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے بیٹے بھی آج کل زیمبیا میں مبلغ سلسلہ ہیں۔ مرحومہ کا تعلق معروف صحابی حضرت مسیح موعودؑ حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ رئیس لاہور کے خاندان سے تھا۔ آپ حضرت میاں عبدالرشید صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کی نواسی اور حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ المعروف مرہم عیسیٰ کی پڑپوتی تھیں۔
۳۔مکرم بریگیڈیئر منور احمد رانا صاحب۔ یہ جماعت راولپنڈی ضلع کے جنرل سیکرٹری تھے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا چودھری غلام احمد صاحب ایڈووکیٹ صحابی حضرت مسیح موعودؑکے ذریعہ سے آئی تھی۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستان آرمی میں انہوں نے کمیشن لیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہمہ وقت جماعتی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ امارت کینٹ اور ضلع راولپنڈی میں ان کو مختلف خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی۔
۴۔گروپ کیپٹن ریٹائرڈ مکرم عبدالشکور ملک صاحب جو آج کل ڈیلس امریکہ میں تھے۔ وہاں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے نانا غلام نبی شیخ صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی تھے۔ ان کے ذریعہ آپ کے آبائی گاؤں نوشہرہ میں بھی احمدیت کی تبلیغ عمل میں آئی۔ تبلیغ ہوئی اور جماعت کا نفوذ ہوا۔ مرحوم کو پاکستان ایئر فورس میں بطور انجینئر اور بعد میں بطور گروپ کیپٹن کام کرنے کی توفیق ملی۔ پندرہ سال تک راولپنڈی میں بطور نائب امیر خدمت سرانجام دیتے رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے متعدد اسیران کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔