متفرق مضامین

رسالہ فتح اسلام میں مذکور کارخانہ الٰہی کی پانچ شاخیں اور سایۂ خلافت میں اُن کا نَمُو

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بشارت دی کہ موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا

’’یہ پانچ طور کا سلسلہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا …. خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سب ضروری ہیں اور جس اصلاح کے لئے اُس نے ارادہ فرمایا ہے وہ اصلاح بجُز استعمال اِن پانچ طریقوں کے ظہور پذیر نہیں ہوسکتی۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ ماموریت کے بعد اپنی پہلی تصنیف ’’فتح اسلام‘‘ میں اپنے ذریعہ جاری ہونے والی اس جماعت کو الٰہی کارخانہ یا سلسلہ سے موسوم کر کے تحریر فرمایا ہے کہ ’’اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو ، اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اُس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزئن جلد ۳ صفحہ۱۱-۱۲)

اس کے بعد آپؑ نے اس الٰہی کارخانہ یعنی سلسلہ احمدیہ کی پانچ شاخوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں ۱۔ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ۲۔ اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ۳۔ واردین اور صادرین (صحبت میں رہنے والوں کا سلسلہ) ۴۔مکتوبات ۵۔مریدوں اور بیعت کرنے والوں کا سلسلہ شامل ہیں اور ان پانچ شاخوں کے متعلق حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ پانچ طور کا سلسلہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا…. خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سب ضروری ہیں اور جس اصلاح کے لئے اُس نے ارادہ فرمایا ہے وہ اصلاح بجز استعمال اِن پانچ طریقوں کے ظہور پذیر نہیں ہوسکتی۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۵-۲۶)

آپؑ کی زندگی اصلاح خلق کے مشن میں ان پانچ طریقوں کے بکثرت استعمال اور حسن انتظام سے بھرپور نظر آتی ہے۔ وسائل کی تنگی کے باوجود آپؑ نے کبھی ان طرق اصلاح میں کمی نہیں آنے دی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ان پنجگانہ شاخوں کو جاری رکھا ۔مخالفین نے ہر ممکن کوشش کی کہ آپؑ کو اپنے مقاصد میں ناکام کریں لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اپنے مقاصد میں بےشمار فضلوں اور برکتوں سے نوازا۔ انبیاء و مرسلین کے الٰہی مشن کو مٹانے کی ہر کوشش میں ناکامی کے بعد اُن کے مخالفین بالآخر اس آس میں بیٹھ جاتے ہیں کہ ان مرسلین کا سلسلہ بس ان کی حیات کے ساتھ وابستہ ہے جیسے ہی یہ اس دنیا سے رخصت ہوں گے ان کا سلسلہ بھی دنیا سے رخصت ہوجائے گا، اس کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے قرآن کریم میں ملتی ہے جب اُن کے مخالفین نے کہا : فَتَرَبَّصُوۡا بِہٖ حَتّٰی حِیۡنٍ (سورۃ المومنون:۲۶) یعنی کچھ عرصہ تک اس کے بارہ میں انتظار کرو۔ علامہ القرطبی اپنی تفسیر میں اس آیت کے معنی میں لکھتے ہیں:أي اِنْتَظِرُوْا مَوْتَهٗ۔یعنی اس کی موت کا انتظار کرو۔ (تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي۔المومنون:۲۵) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بھی مخالفین میں اسی قسم کی قیاس آرائیاں تھیں چنانچہ انڈیا میں لمبا عرصہ کام کرنے والا ایک سکاٹش مشنری J. Murray Mitchell حضرت اقدس علیہ السلام کے بارے میں لکھتا ہے:

‘‘The Mirza is about sixty five years of age… When he dies, what then? His claims are at once exploded, his name becomes a byword, and the movement collapses. What will become of his followers? Probably some will return to Islam….. That transition will be far more easily made when this extraordinary man is finally dead and gone.”(The Missionary Review of the World, Vol:XVII (new series) February 1904 page 100, Funk & Wagnallis Company New York)

یعنی مرزا (صاحب) کی عمر تقریباً پینسٹھ سال ہے… جب وہ مریں گے تو پھر کیا ہوگا؟ ان کے دعوے ایک دم پھٹ جائیں گے، بس اُن کا نام رہ جائے گا اور تحریک منہدم ہو جائے گی۔ ان کے پیروکاروں کا کیا بنے گا؟ غالباً کچھ لوگ (رائج الوقت) اسلام کی طرف لوٹ جائیں گے…. یہ تبدیلی اس وقت کہیں زیادہ آسانی سے ہو جائے گی جب یہ غیر معمولی آدمی آخر کار مر کر چلا جائے گا۔

پس گوکہ مخالفین اسی آس میں ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انبیاء کی وفات کے بعد اپنی سری قدرت یعنی خلافت کو جاری کر کے مخالفین کی آس کو یاس و حسرت میں بدل دیتا ہے اور انبیاء کے سلسلے کو خلافت جیسی نعمت عظمیٰ کے سائے میں پروان چڑھاتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس حقیقت کا ذکر ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ’’بعض نادان لوگ نبی کے زمانہ میں کہاکرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشیار اور چالاک آدمی ہے اور دکاندار ہے کسی اتفاق سے اس کی دکان چل پڑی ہے لیکن اس کے مرنے کے بعد یہ سب کاروبار تباہ ہو جاوے گا تب اللہ تعالیٰ نبی کی وفات کے وقت ایک زبردست ہاتھ دکھاتا ہے اور اس کے سلسلہ کو نئے سرے سے پھر قائم کرتا ہے۔آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا …تب خدا تعالیٰ نے ابو بکر کو اٹھایا اور تمام کاروبار اسی طرح جاری رہا، اگر انسان کا کاروبار ہوتا تو اس وقت ادھورا رہ جاتا… اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کا ایک نمونہ دکھانا چاہتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

بلکہ حضرت اقدس علیہ السلام نے رسالہ فتح اسلام میں ہی فرمایا دیا تھا کہ ’’خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بشارت دی کہ موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا… اور اپنی قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤں گا۔ پس میری اس دوبارہ زندگی سے مراد بھی میرے مقاصد کی زندگی ہے مگر کم ہیں وہ لوگ جو اِن بھیدوں کو سمجھتے ہیں۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۶ ،حاشیہ)

پس حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات کے بعد آپؑ کی تحریک نہ بند ہوئی اور نہ ماند پڑی بلکہ الٰہی سنت کے مطابق خلافت کے سائے میں پروان چڑھی اور دن بدن ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی گئی اور خلافت حقہ کےزیر سایہ کامیابی اور کامرانی کا یہ سفر آج تک بفضلہ تعالیٰ جاری ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے رسالہ فتح اسلام میں ان پانچ شاخوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’میں جانتا ہوں کہ اِن پنجگانہ شاخوں کے قائم رکھنے کی سبیل آپ وہ قادر مطلق نکال دے گا جس کے ارادۂ خاص سے اس کارخانہ کی بنا ہے۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۹) نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی زندگی میں پیش آمدہ مشکلات کو دور کیا اور اِن پنجگانہ شاخوں کے قائم رکھنے کی سبیل نکالی بلکہ آپؑ کی وفات کے بعد قدرت ثانیہ یعنی خلافت کے ذریعے اِن پنجگانہ شاخوں کے ہمیشہ قائم رکھنے کی راہ پیدا کر کے ان میں مزید وسعتیں اور ترقیات عطا فرمائیں۔ ذیل میں ان ترقیات اور وسعتوں کا مختصر حال پیش کیا جاتا ہے۔

تالیف و تصنیف کا سلسلہ

یہ زمانہ قلمی جہاد کا زمانہ ہے اسی کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو براہین احمدیہ کے دور میں ہی اس قلمی جہاد کی ذمہ داری نبھانے کا حکم دے دیا تھا چنانچہ الہامًا فرمایا: ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، فَاکْتُبْ وَ لْیُطْبَعْ وَ لِیُرْسَلْ فِی الْأَرْضِ‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۲۶۷ حاشیہ در حاشیہ) یعنی اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں۔ پس تو لکھ اور وہ طبع کیا جائے اور چاہیے کہ ساری زمین میں بھیجا جائے۔

حضرت اقدس علیہ السلام نے بڑی جانفشانی، محنت اور انہماک کے ساتھ اس کام کو سر انجام دیا اور اسلام کے دفاع، قرآن کریم کی صداقت اور رسول اللہ ﷺ کی حقانیت میں ہزاروں صفحات تصنیف فرمائے۔ الٰہی کارخانہ کی پنجگانہ شاخوں میں پہلی شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے۔ آپؑ کی تصانیف اور تالیفات کی کیا اہمیت ہے اس کے متعلق آپؑ رسالہ فتح اسلام میں ہی فرماتے ہیں: ’’ہر وقت یہ امر ہماری مدّ نظر رہنا چاہیئے کہ جس ملک کی موجودہ حالت ضلالت کے سمّ قاتل سے نہایت خطرہ میں پڑ گئی ہو بلا توقف ہماری کتابیں اس ملک میں پھیل جائیں اور ہر ایک متلاشی حق کے ہاتھ میں وہ کتابیں نظر آویں۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۷) اس عظیم ذمہ داری کی بجاآوری میں آپؑ کی مساعی حیرت انگیز اور ایمان افروز ہیں، تفصیلات کی یہاں گنجائش نہیں ، خلاصہ کے طور پر آپؑ کا ایک فقرہ یہاں درج کیا جاتا ہے، آپؑ فرماتے ہیں: ’’ان لوگوں کو کیا علم ہے کہ ہم کس طرح راتوں کو کام کر کر کے کتابیں چھپواتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۶۹۰ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

آپؑ نے بڑی توجہ اور ہر ممکن کوشش سے اپنی تصنیفات کی اشاعت کی ۔ امریکہ اور یورپ میں اسلامی تبلیغ کی تجویز پر آپؑ نے فرمایا: ’’میری صلاح یہ ہے کہ بجائے ان واعظوں کے عمدہ عمدہ تالیفیں اِن ملکوں میں بھیجی جائیں … میں چاہتا ہوں کہ ایک تفسیر بھی تیار کر کے اور انگریزی میں ترجمہ کراکر اُن کے پاس بھیجی جائے …لیکن افسوس کہ ابھی وہ دلائل اندرونی طور پر بھی اپنی قوم میں شائع نہیں چہ جائیکہ مخالفوں کے مختلف فرقوں میں شائع ہوں … خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے اور امید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا اور میرے تمام ارادے اور امیدیں پوری کر دے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۱۸تا ۵۲۰)

آپؑ کے یہ تمام ارادے اور امیدیں حتی الوسع آپؑ کی زندگی میں بھی پورے ہوئے اور آپؑ کی وفات کے بعد بفضل اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کے ذریعے ان ارادوں اور امیدوں کی وسیع پیمانے پر تکمیل ہوئی اور آج تک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپؑ کی تحریرات کی حفاظت اور اشاعت کے متعلق جماعت احمدیہ کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام … کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دنیا کی ساری کتابوں اور تحریروں سے بیش قیمت ہےاور اگر کبھی یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کی ہوئی ایک سطر محفوظ رکھی جائے یا سلسلہ کے سارے مصنفین کی کتابیں! تو میں کہوں گا آپ کی ایک سطر کے مقابلہ میں یہ ساری کتابیں مٹی کا تیل ڈال کر جلا دینا گوارا کروں گا مگر اس سطر کو محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی کوشش صرف کر دوں گا۔ ہماری کتابیں کیا ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کی تشریحیں ہیں۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۹)

الحمد للہ خلافت کی زیر نگرانی ہی آپؑ کی تصنیفات کا مجموعہ ’’روحانی خزائن‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے، نظام جماعت میں باقاعدہ طور پر اشاعت اور تصنیف کے شعبے خلافت احمدیہ کی زیر ہدایت ان تصنیفات کے تراجم اور اشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ ازالہ اوہام میں مذکور آپؑ کی خواہش کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ ایک تفسیر بھی تیار کر کے اور انگریزی میں ترجمہ کر اکر اُن کے پاس بھیجی جائے‘‘ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ذریعے ہی پوری کر دکھائی ہے اور آپ کی تحریرات میں مذکور قرآنی آیات کی آسمانی تفسیر کی تخریج کر کے ’’تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام‘‘ کے نام سے الگ شائع کی گئی ہے اور نہ صرف یہ کہ انگریزی ترجمہ والی خواہش مدت ہوئی کہ پوری ہو چکی ہے بلکہ ۷۵ سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ اشاعت کتب کے اس عظیم الشان کام میں مطبع خانوں کا قیام، ایم ٹی اے، ویب سائٹس اور مختلف زبانوں کے desks کا قیام وغیرہ بھی خلافت احمدیہ کی برکات کا ہی نتیجہ ہیں۔ غرضیکہ الٰہی کارخانہ کی پہلی شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ بفضلہ تعالیٰ خلافت کے زیر سایہ بہت سی ترقیات حاصل کر چکا ہے اور مزید اہداف کے حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔ اللّٰہم زد فزد۔

اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ

تائید حق اور اشاعت اسلام کے کام کی دوسری شاخ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام رسالہ فتح اسلام میں فرماتے ہیں: ’’دوسری شاخ اس کارخانہ کی اشتہار جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکمِ الٰہی اتمامِ حجت کی غرض سے جاری ہے اور اب تک بیس ہزار سے کچھ زیادہ اشتہارات اسلامی حجتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لئے شائع ہوچکے ہیں اور آئندہ ضروت کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔‘‘

اشتہار (جسے دوسروں لفظوں میں اعلان یا اطلاع عام بھی کہا جاتا ہے اور انگریزی میں اسے leaflet کہتے ہیں) پیغام پہنچانے کا آسان اور فوری ذریعہ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے دیگر ذرائع کے علاوہ اس ذریعہ تبلیغ کو بھی خوب استعمال کیا، خاص طور پر اُس زمانے کے ماحول میں دشمنان اسلام کے جھوٹے پراپیگنڈا کا فوری اور مؤثر قلع قمع کرنے کے لیے اشتہار بہترین ذریعہ تھا، آپؑ نے تو قرآن اور حاملِ قرآن ﷺ کے دفاع میں انعامی اشتہارات بھی شائع فرماکر معترضین پر اتمام حجت کی اور عوام الناس کے اذہان سے معترضین کے اعتراضات کا اثر صاف کیا۔

یہ یاد رہے کہ رسالہ فتح اسلام اُس زمانے کا ہے جبکہ ابھی سلسلہ احمدیہ کا کوئی اخبار یا جریدہ جاری نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اُس کے فی الوقت کوئی آثار تھے ، اس لحاظ سے سلسلہ اشتہارات ایک مناسب ذریعہ ابلاغ تھا۔ سات سال بعد اخبار الحکم جاری ہوا جس کے اگلے پانچ سالوں میں پھر اخبار بدر اور رسالہ ریویو آف ریلیجنز بھی جاری ہوگئے اور فوری اور دور دراز پیغام رسانی کے سامان بہم میسر آئے۔ حضور علیہ السلام قادیان کے انہی اخبارات کے متعلق فرماتے ہیں: ’’یہ بھی وقت پر کیا کام آتے ہیں، الہامات وغیرہ جھٹ چھپ کر ان کے ذریعے سے شائع ہو جاتے ہیں ورنہ اگر کتابوں کی انتظار کی جاوے تو ایک ایک کتاب کو چھپتے بھی کتنی دیر لگ جاتی ہے اور اس قدر اشاعت بھی نہ ہوتی۔‘‘ (بدر ۲؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۴ کالم ۱)

الحمد للہ دورِ خلافت میں یہ شاخ بھی شروع دن سے ترقی پذیر ہے، ہر خلیفہ کے دور میں اس شاخ کی نشو و نما کا منفرد رنگ نظر آتا ہے اور خلافت خامسہ کے مبارک دور میں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اس میں بہت وسعت آگئی ہے جس کی ایک جھلک جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۳ء کے دوسرے دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کے اس خلاصہ میں دیکھی جا سکتی ہے، حضور انور نے فرمایا:

٭…اب تک جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن کریم کے شائع شدہ تراجم میں کل زبانوں کی تعداد ۷۶؍ ہے۔…

٭…حضور انور نے نظارت اشاعت قادیان کی رپورٹ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم ناظرہ کو پندرہ لائنوں کی نئی سیٹنگ میں جس میں ہر صفحہ کے آخر پرآیت کا اختتام ہوتا ہے اور میر اسحق صاحبؓ کے ترجمہ قرآن خط منظور میں تیار کرنے میں انہوں نے بڑا کام کیا ہے ۔اس کے علاوہ کنڈی، ملیالم ،گجراتی، حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا ترجمہ قرآن اورمیراٹھی ترجمہ قرآن کے حوالے سے انہوں نے بہت سارا کام کیا ہے۔

٭…۱۰۵؍ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق امسال ۴۴۸؍کتب وپمفلٹ ۴۷؍زبانون میں طبع ہوئے۔ ۲۶؍ زبانوں میں مختلف رسائل اور اخبارات شائع ہو رہے ہیں۔

٭…امسال ۹۱۶۶؍نمائشوں کے ذریعہ ۱۵؍لاکھ نوّے ہزار لوگوں تک پیغام پہنچایا گیا۔…

٭…وکالت تعمیل و تنفیذ کی رپورٹ کے مطابق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ۸۸؍کتب میں سے ۷۸؍ کتب کے تراجم شائع ہوچکے ہیں اور باقی بھی تیار ہیں۔

٭…عربی ڈیسک کے تحت گذشتہ سال تک ۱۷۸؍کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں تیار ہوکر شائع ہوچکے ہیں۔

ملفوظات کی دس جلدوں پر مشتمل مکمل سیٹ عربی زبان میں پرنٹنگ پریس میں دیا جارہا ہے جس کے بعد عربی زبان میں کُل کتب اور مجلدات کی تعداد ۱۸۸؍ ہوجائے گی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ۳۴؍ کتب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا ہے جس میں تفسیر کبیر کی دس جلدوں کا سیٹ سر فہرست ہے۔ علاوہ ازیں انوارالعلوم کی بعض کتب اور دیگر بہت سی کتب کا عربی ترجمہ ہوچکا ہے یا تیاری کے مراحل میں ہے۔

٭…لیف لیٹس اور فلائرز کی تقسیم کے منصوبے کے تحت امسال ۱۰۷؍ ممالک میں مجموعی طور پر ایک کروڑ سترہ لاکھ چودہ ہزار لیف لیٹس تقسیم کیے گئے جس سے ایک کروڑ اسی لاکھ اکانوے ہزارسے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔…

٭…الفضل انٹرنیشنل ہے، اِس کا اجرا ۱۹۹۴ء میں یہاں سے ہفت روزہ کی شکل میں ہوا تھا، پھر اِس کے بعد ۲۰۱۹ء میں مَیں نے اِس کو ہفتہ میں دو شمارے کر دیا تھا اب الله تعالیٰ کے فضل سے روزنامہ ہو چکا ہے اور اِس میں اب ہر ماہ پہلے اور تیسرے اتوار کو بچوں کا الفضل بھی شائع ہوتا ہے، خصوصی نمبر ز سمیت اِس کے ۱۴۹؍ شمارے شائع ہوئے۔(الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍جولائی تا ۴؍اگست ۲۰۲۳ءصفحہ۱۵،۱۴)

واردین اور صادرین

(صحبت میں رہنے والوں کا سلسلہ)

اس شاخ کے ضمن میں حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:‘‘تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں جو اِس آسمانی کارخانہ کی خبر پاکر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں۔ یہ شاخ بھی برابر نشو و نما میں ہے۔’’ پھر مزید فرماتے ہیں: ‘‘یہ عاجز اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے اور چاہتا ہے کہ صحبت میں رہنے والوں کا سلسلہ اور بھی زیادہ وسعت سے بڑھا دیا جائے اور ایسے لوگ دن رات صحبت میں رہیں کہ جو ایمان اور محبت اور یقین کے بڑھانے کے لیے شوق رکھتے ہوں۔’’

روایات میں آیا ہے زُرْ غِبًّا تَزْددْ حُبًّا (البیھقی) یعنی وقتًا فوقتًا ملتے رہا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی ہمیشہ اپنی جماعت کو بار بار قادیان آنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے ، مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۵ء کی ڈائری میں لکھا ہے کہ آپؑ نے فرمایا:‘‘جب تک یہاں انسان ایک عرصہ تک نہ رہے یا کثرت کے ساتھ نہ آتا رہے کم فائدہ ہوتا ہے اور یہ بڑی خامی اور بے قدری ہوتی ہے… یہاں رہیں اور ان ایام کی قدر کریں۔’’ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۴۱۳ ایڈیشن ۱۹۸۸ء) قادیان وارد ہونے اور صحبت میں رہنے کا ایک سامان خود اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کی شکل میں مہیا فرما دیا اور رسالہ فتح اسلام لکھے جانے کے اگلے ہی سال یعنی ۱۸۹۱ء میں اس کا آغاز ہوگیا، حضرت اقدس علیہ السلام جلسہ سالانہ کی برکات و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔’’ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۳۴۱۔ اشتہار ۷؍دسمبر ۱۸۹۲ء)

خدائے قادر و مطلق نے جہاں قدرت اولیٰ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جلسہ سالانہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقیات سے نوازا اور دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف قومیتوں کے افراد کو آپس میں ملایا اور باہمی محبت اور مواخات کے سامان کیے وہاں قدرت ثانیہ یعنی خلافت کے سائے میں بھی جلسہ سالانہ کو عظیم وسعتوں سے نوازا اور ‘‘اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی’’ کے حیرت انگیز نظارے دکھاتے ہوئے ایک طرف دنیا کے مختلف ملکوں کو اپنے اپنے سالانہ جلسوں کے انعقاد کی توفیق دی اور دوسری طرف خلافت کی برکات کے طفیل ہی مرکزی جلسے کو بین الاقوامی جلسے میں ڈھال دیا جہاں ہر سال ہزاروں لوگ اپنے مال، وقت اور آرام کا حرج کر کے محض خلیفہ وقت کی محبت میں ایمان اور یقین کے بڑھانے کے شوق میں حاضر ہوتے ہیں۔ پس جلسہ سالانہ کی بنیادی اینٹ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی تھی آج اُ س پر خلافت احمدیہ کی برکت سے پُر شوکت عمارت کھڑی ہوچکی ہے۔ پھر جلسہ سالانہ کے ساتھ مسیح محمدیؐ کے لنگر خانہ میں بھی حیرت انگیز وسعت آچکی ہے، حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا:

لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ

وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْأَھَالِیْ

یعنی ایک وہ وقت تھا کہ میرا گزارہ دسترخوان کے بچے ہوئے ٹکڑوں پر تھا، اب دیکھو میں بڑے بڑے خاندانوں کا کھلانے والا بن گیا ہوں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء کے موقع پر اپنے ایک خطاب بعنوان ‘‘سیر روحانی’’ میں جلسہ سالانہ کے ساتھ وابستہ مسیحؑ کے اس لنگر میں مزید الٰہی برکتوں اور وسعتوں کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا:‘‘یہ لنگر بھی ہمیشہ قائم رہے گا اور کبھی نہیں مٹے گا کیونکہ اس کی بنیاد خدا کے مسیح موعودؑ نے قائم کی ہے … ایک لنگر امریکہ میں بھی ہوگا، ایک انڈیا میں بھی ہوگا، ایک جرمنی میں بھی ہوگا، ایک روس میں بھی ہوگا، ایک چین میں بھی ہوگا، ایک انڈونیشیا میں بھی ہوگا، ایک سیلون میں بھی ہوگا، ایک برما میں بھی ہوگا، ایک شام میں بھی ہوگا، ایک لبنان میں بھی ہوگا، ایک ہالینڈ میں بھی ہوگا۔ غرض دنیا کے ہر بڑے ملک میں یہ لنگر ہوگا۔’’(سیر روحانی نمبر ۱۱، انوارالعلوم جلد ۲۶ صفحہ ۳۴۲-۳۴۳)

الحمد للہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لنگر خانہ کروڑوں روپے کے بجٹ میں پہنچ چکا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی دنیا کے مختلف ملکوں میں ‘‘لنگر ہوگا’’ والی پیشگوئی خلافت احمدیہ کی برکت سے ‘‘لنگر ہے’’ کی حقیقت میں ڈھل چکی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مائدہ خلافت احمدیہ کے سائے میں اب خاندانوں کی بجائے قوموں کو کھلانے والا بن گیا ہے۔

مکتوبات

تیسری شاخ کے ضمن میں حضور علیہ السلام نے ملاقات کے لیے آنے والے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے لیکن کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سفری اخراجات اور صعوبتیں برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے خاص کر دور دراز علاقوں کے رہنے والے۔ ایسے لوگوں کے لیے ‘‘خط نصف ملاقات ہوتی ہے’’ کا نسخہ ہی کارگر ہوتاہے اور حضرت اقدسؑ نے چوتھی شاخ میں اسی نسخہ کو رکھا ہے چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:‘‘چوتھی شاخ اس کارخانہ کی وہ مکتوبات ہیں جو حق کے طالبوں یا مخالفوں کی طرف لکھے جاتے ہیں۔’’ اس شاخ کو بھی آپؑ نے خوب نبھایا ہےاور باقاعدگی سے حق کے طالبوں یا مخالفوں کے خطوط کے جوابات ارسال فرمائے ہیں۔ حق کے طالب وہ ہیں جو اپنے ازدیاد ایمان کی خاطر دعائیہ رنگ میں آپ کی خدمت میں خط لکھتے تھے اور آپؑ از راہ شفقت اُن کے جوابات تحریر فرماتے تھے۔ کام کی بہتات کے باوجودآپؑ کبھی بھی احباب جماعت کے خطوط سے تنگ نہیں پڑتے تھے بلکہ بڑی محبت اور شفقت سے اُن کے خطوں کا جواب دیتے کیونکہ یہ طریق بھی تعلق بیعت کو تازہ اور زندہ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اسی لیے جو لوگ آپ کی خدمت میں خط نہیں لکھتے تھے آپؑ اُن کے لیے فکر کا اظہار فرماتے ہیں چنانچہ فرمایا:‘‘جو لوگ مجھ سے سچا تعلق رکھتے ہیں وہ اگرچہ ہزار کوس پر بھی ہیں تاہم ہمیشہ مجھے لکھتے رہتے ہیں… مگر افسوس کہ بعض ایسے ہیں کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ قطع نظر ملاقات کے سالہا سال گزر جاتے ہیں اور ایک کارڈ بھی اُن کی طرف سے نہیں آتا۔ اس سے میں سمجھتا ہوں کہ اُن کے دل مرگئے ہیں۔’’ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۷۷) اسی طرح اپنی ایک فارسی نظم میں آپؑ فرماتے ہیں:

بمکتوب گہ گہ بکن شاد کام

خط و نامہ با ما چرا شد حرام

کبھی کبھی خط لکھ کر ہمیں خوش وقت کر دیا کر۔ تونے ہمیں خط بھیجنا کیوں ترک کر دیا۔ (درثمین فارسی مع فرہنگ جلد دوم صفحہ ۵۵۳)

حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں‘‘جس شاخ کا تعلق درخت سے نہیں رہتا وہ آخر خشک ہو کر گِر جاتی ہے۔’’ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۲۹) پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ اپنے تعلق بیعت کو خشک ہونے سے بچائے اور اس کا ایک اہم ذریعہ امام وقت کی خدمت میں خط لکھنا ہے۔ الحمد للہ خلافت احمدیہ کی برکت سے دنیا کے دور دراز ملکوں میں احمدیت کا نفوذ ہوا تو بُعدمکانی کے باوجود اسی مکتوبات کی شاخ نے احباب جماعت کو امام وقت سے منسلک رکھا اسی لیے خلفاء وقت بھی گاہے بگاہے افراد جماعت کو اس کی تلقین کرتے چلے آئے ہیں، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ایک نو مبائع کے نام مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:‘‘جو شاخ تنے سے جدا ہوتی ہے وہ سوکھ جاتی ہے، تعلقات کا قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے، جہاں تک ہو سکے قادیان آنے کی کوشش کریں، جب تک نہ آ سکیں کبھی کبھی خط لکھتے رہیں ’’ (الفضل ۱۸؍مئی ۱۹۱۸ء صفحہ۲ کالم۲-۳) خلافت کی برکت سے مکتوبات کی شاخ میں روز افزوں ترقی کے باعث اب مختلف زبانوں کے ڈیسک قائم ہیں جو خلیفہ وقت کی خدمت میں آنے والی ڈاک کے جوابات متعلقہ زبانوں میں تیار کر کے بھجواتے ہیں۔

مریدوں اور بیعت کرنے والوں کا سلسلہ

کارخانہ الٰہی کی پانچویں شاخ کے تحت حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:‘‘پانچویں شاخ اس کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ نے اپنی خاص وحی اور الہام سے قائم کی مریدوں اور بیعت کرنے والوں کا سلسلہ ہے … فرمایا کہ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا اُس نے تیرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا۔’’

آپؑ نے حکم الٰہی سے بیعت لینے کا اعلان پہلی بار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو ان الفاظ میں فرمایا:‘‘میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عمومًا اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصًا پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدّارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں … یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔ اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے:اذا عزمت فتوکل علی اللّٰہ و اصنع الفلک باعیننا و وحینا۔ الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ۔ یدُ اللّٰہ فوق ایدیھم…’’ (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۷۰)

اس اعلان کے بعد ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ میں بیعت لینے کا آغاز فرمایا جس کے بعد دن بدن یہ شاخ بڑھتی چلی گئی اور لاکھوں لوگوں نے آپ کی بیعت میں شامل ہونے کا شرف پایا۔ جو لوگ خود قادیان نہیں آ سکتے تھے انہوں نے بذریعہ خط بیعت کی اور فرمان نبویؐ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوْهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ فَإِنَّهُ خَلِيْفَةُ اللّٰهِ الْمَهْدِيُّ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، باب خُرُوجِ الْمَهْدِيِّ)کی تعمیل کی سعادت پائی۔

جہاں آپؑ نے حکم الٰہی کے ماتحت بیعت کا سلسلہ جاری رکھا وہاں اپنے بعد بھی قدرت ثانیہ کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:‘‘اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں۔’’ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶) پس آپؑ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی قدیم سنت کے مطابق جب خلافت کا قیام فرمایا تو افراد جماعت کو حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر جمع کردیا۔ آپؓ نےخلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں فرمایا:‘‘اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو بیعت بک جانے کا نام ہے… اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی۔’’ (اخبار الحکم ۶؍جون۱۹۰۸ء صفحہ ۸۔ بدر ۲؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۸) یہ سلسلہ بیعت خلافت احمدیہ کے ذریعہ آج تک قائم و دائم ہے اور کارخانہ الٰہی کی یہ پانچویں شاخ بھی خلافت احمدیہ کی برکت سےمخالفت کی شدید آندھیوں کے باوجود سر سبز و شاداب ہے۔

پس خلافت احمدیہ ہی ان پانچ شاخوں کو قائم رکھنے کی وہ سبیل ہے جس کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ‘‘میں جانتا ہوں کہ اِن پنجگانہ شاخوں کے قائم رکھنے کی سبیل آپ وہ قادر مطلق نکال دے گا جس کے ارادۂ خاص سے اس کارخانہ کی بنا ہے۔’’ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۹) اب ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وابستگی کا اقرار کرتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس وابستگی کو قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستگی رکھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button