حضرت مسیح موعودؑ: حکم و عدل (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍ اگست ۲۰۲۰ء)
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود کو حَکم اور عدل بنا کر بھیجا ہے۔ وہ حَکم اور عدل جس نے اسلام کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں تمام مسلمانوں کو امّتِ واحدہ بنانا تھا۔ جس نے مختلف مسالک اور فرقوں کی غلط تشریحات اور فروعی اختلافات کو دور کر کے امّتِ واحدہ بنانا تھا۔ جس نے مسلمانوں کو ایک وحدت عطا کرنی تھی۔ پس آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہر فرقے میں سے وہ لوگ جنہوں نے سنجیدگی سے غور کیا، اسلام کے مختلف فرقوں کے اختلافات کے درد کو محسوس کیا انہوں نے علم، عقل اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور لاکھوں کی تعداد میں ہر سال یہ شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پس جماعتِ احمدیہ کسی فرقے یا مسلک کے فرق یا اختلافِ نظریات اور تشریح و تفسیر پر قائم ہونے والی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخری زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ذریعے قائم ہونے والی جماعت ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر انہی اختلافات کو جو شیعہ، سنی کے درمیان ہیں یا کسی فرقے اور مسلک کے درمیان ہیں ختم کر کے امتِ واحدہ بننا ہے۔ مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کر کے ہم نے امتِ واحدہ بنانا ہے۔ اس کام کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ اسی کام کے لیے آپؑ نے جماعت کا قیام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا اور اس کام کے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا کہ ’’سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ۔‘‘ (تذکرہ صفحہ490۔ایڈیشن چہارم)
پس یہ کام جو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے سپرد فرمایا ہے یہی کام آپؑ کے بعد خلافت سے جڑ کر، اس کی بیعت میں آ کر آپؑ کی قائم کردہ جماعت کا ہے اور یہی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ ایک سو تیس سال سے کر رہے ہیں یا جب سے خلافت کا نظام شروع ہوا تو ایک سو بارہ سال سے کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کام کیا۔ اور نہ صرف مسلمانوں کو قرآن کریم، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحیح احادیث زمانے کے امام اور حَکم اور عدل کی عارفانہ تشریح کی روشنی میں بتا رہے ہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم بتا کر انہیں دائرۂ اسلام میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس مسیح موعود اور حَکم و عدل کی جماعت اختلافات ختم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے اور باوجود مخالفتوں، مقدموں، سختیوں اور گالیوں کے ہماری طرف سے ہر ایک کو امن اور سلامتی اور دعا کا ہی پیغام ہوتا ہے۔ یقیناً ہم نے حق کو پھیلانے اور حق بات کہنے سے نہیں رکنا اور اس کے لیے قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ لڑائی اور گالم گلوچ نہ ہماری طرف سے پہلے کبھی ہوئی نہ ہو گی۔ الٰہی جماعتوں کی مخالفتیں بھی ہوتی ہیں اور ان کو ظلم بھی سہنے پڑتے ہیں لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی عطا فرماتا ہے۔ ہم دعا بھی کرتے ہیں اور جیساکہ مَیں نے کہا کہ کوشش بھی کرتے رہیں گے کہ زمانے کے امام کے پیغام کو ہر مذہب اور ہر ملک کے لوگوں میں پھیلاتے رہیں لیکن عامۃ المسلمین اور سنجیدہ طبع اور حق کے متلاشی اور فتنہ و فساد ختم کرنے کی خواہش رکھنے والے صاحب ِعلم اور عقل لوگوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ اس بات پر غور کریں۔ ابتدا کی چند دہائیوں کے علاوہ شروع سے ہی مسلمان اختلافات میں مبتلا ہوکر سینکڑوں سال سے اپنی وحدت اور اکائی کو کمزور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آج کل ہم محرّم کے مہینے سے گزر رہے ہیں جو اسلامی سال کے کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ انگریزی سال کے شروع ہونے پر ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اسلامی سال کے شروع ہونے پر کئی مسلمان ملکوں میں اس فرقہ واریت کی وجہ سے قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ وہ دین جو امن اور سلامتی کی اعلیٰ ترین تعلیم دینے والا دین ہے کیوں اس کے ماننے والے اپنے سال کا آغاز فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری سے کرتے ہیں؟ہمیں سوچنا چاہیے۔ ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا چاہیے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح ہم مسلمانوں کو امتِ واحدہ بنا کر ان فسادوں اور دہشت گردیوں کو ختم کر سکتے ہیں؟ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے آقا و مطاع حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اسلام کی ابتدا کی ترقی کے بعد ایک فیج اعوج کے زمانے کی خبر دی تھی تو پھر یہ خوشی کی خبر بھی دی تھی کہ خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی۔ وہی معاملہ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف ہوا تھا وہی معاملہ آخری زمانے میں خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کے بعد مسلمانوں کو امتِ واحدہ بنانے کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔ مسلمانوں کی ترقی اور اکائی کا ایک روشن نشان بن جائے گا۔ پس جب حالات بتا رہے ہیں کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہ نشانیاں جو قرآن و حدیث سے پتہ چلتی ہیں پوری ہو رہی ہیں یا ہو گئی ہیں تو کیوں نہ ہم اس حَکم اور عدل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی تلاش کریں جو شیعہ سنی اور مختلف فرقوں اور مسلکوں کے اختلافات کو ختم کر کے ہمیں ایک بنانے والا ہے۔ ان اندھے نام نہاد علماء کی تقلیدنہ کریں جو خود بھی ڈوب رہے ہیں اور اپنے ساتھ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو بھی ڈبونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیکھیں جب وہ نشانیاں پوری ہو گئیں جن میں قرآن اور حدیث سے پتہ چلتا ہے تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون ہے، اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کون ہے جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا ذریعہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا کیا گیاہے۔ کسی کو کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم احمدی کہتے ہیں کہ وہ بانیٔ جماعتِ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں جن کے سپرد اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام کیا ہے یا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کروا رہا ہے یا کروائے گا جنہوں نے جھگڑوں اور فسادوں کو امن و سلامتی میں بدلنا ہے۔