گلدستۂ معلومات
کیوں؟
پیارے بچو! آج کا سوال ہے کہ روٹی کیوں پھولتی ہے؟
بچو آپ کو معلوم ہے کہ روٹی عام طور پر گیہوں یعنی گندم کے آٹے سے بنتی ہے۔ روٹی پکانے سے پہلے آٹے کو گوندھا جاتا ہے۔ گیہوں میں ایک چیز ہوتی ہے، جسے گلوٹن (Gluten) کہتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا پروٹین ہوتا ہے۔ اس پروٹین کی وجہ سے آٹے میں لچک پیدا ہوتی ہے اور وہ کھینچا جاسکتا ہے۔ آپ نے اپنی امی کو روٹی بیلتے دیکھا ہوگا۔ لچک کی وجہ سے ہی روٹی بڑھتی ہے۔ بہت سے لوگ تو بہت بڑی بڑی روٹیاں بھی بنا لیتے ہیں۔ آٹے کو لوچ دار بنانے کے علاوہ یہ پروٹین اس میں ایک جال سا بنا دیتا ہے۔ اس کے ننھے ننھے خانوں میں گیس کے بلبلے پھنس جاتے ہیں۔ روٹی جب توے پر ڈالی جاتی ہے تو گرمی سے بھاپ بنتی ہے۔ یہ بھاپ گلوٹین کے ننھے ننھے خانوں کو پھلا کر اوپر کی طرف دھکیلتی ہے اور روٹی پھول جاتی ہے۔ گرمی سے روٹی کے اندر بھاپ بنتی ہے۔ وہ آٹے میں موجود گلوٹین کے جال کو اوپر کی طرف دھکا دیتی ہے۔ اسی سے روٹی پھول جاتی ہے۔
پیارے بچو! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پوریاں بھی تو پھولتی ہیں اور گول گپّے بھی۔ تو اس کا جواب ہے کہ وہ بھی اسی اصول کے تحت پھولتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انہیں گرم تیل سے گرمی ملتی ہے۔ وہ تیل میں تلے جاتے ہیں۔
تو بچو! یہ تھا اس سوال کا جواب! آپ بتائیں کہ آپ کو کیا پسند ہے؟ روٹی، پراٹھا یا نان۔
٭… ٭… ٭… ٭… ٭
ایک ضرب المثل کی کہانی
چور کی داڑھی میں تنکا
کہتے ہیں ایک گاؤں میں کسی زمیندار کی بھینس چوری ہو گئی۔ زمیندار نے سرپنچ کے پاس جا کر شکایت کی اور چند آدمیوں کے نام بھی بتائے۔ سرپنچ نے گاؤں والوں کو جمع کر کے کہا کہ جس نے بھینس چرائی ہے مجھے معلوم ہو چکا ہے ۔ چور کی داڑھی میں تنکا ہے۔ ان لوگوں میں چور بھی موجود تھا اس نے سوچا کہیں میری داڑھی میں تنکا نہ ہو، اس نے فوراً ہی اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا ۔ جبکہ باقی لوگ ہاتھ نیچے کیے کھڑے تھے اس حرکت پر وہ فوراً ہی پکڑ لیا گیا۔ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا اور اسے بھینس واپس کرنا پڑی۔
٭… ٭… ٭… ٭… ٭
اردو محاورے
آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا: شرم و حیا کا اظہار کرنا۔ غصہ و ناراضگی کا اظہار کرنا
بَغَل میں چُھری اورمُنہ پَر رام رام: کہتا کچھ ہے کرتا کچھ ہے ۔منافقوں کی نسبت کہتے ہیں ۔
٭… ٭… ٭… ٭… ٭
میر تقی میرؔ
میر محمد تقی (پیدائش: 28 مئی 1723ء آگرہ— وفات: 22 ستمبر 1810ء لکھنؤ) اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میرؔ اِن کا تخلص تھا جس کے سبب وہ میر تقی میر مشہور ہوئے۔ اردو شاعرى ميں مير تقى ميرؔ كا مقام بہت اونچا ہے۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھے۔میرؔ کا بہت حد تک مکمل کلیات اُن کی زندگی کے آخری سالوں میں تیار ہونا شروع ہوا اور وفات کے بعد ایک سال کے اندر ہی نہایت اہتمام کے ساتھ فورٹ ولیم کالج(کلکتہ) نے 1811ء میں شائع کر دیا۔
آپ كے متعلق اردو كے عظیم شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔؎
ریختہ كے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے ميں كوئى ميرؔ بھی تھا
ان کے دو اشعار یہ ہیں:
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے
٭… ٭… ٭… ٭… ٭