حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مہمان نوازی بھی ایک اعلیٰ خُلق ہے

مہمان نوازی بھی ایک اعلیٰ خلق ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی دیتا ہے ویسے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی جو تم کرتے ہو اس کا اجر پاؤ گے۔ لیکن یہ نیکی ایسی ہے کہ جب خوش دلی سے کی جائے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کی جائے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو کھینچنے والی بنتی ہے اور ایمان میں مضبوطی کا باعث بنتی ہے۔ آنحضرتﷺ کی مہمان نوازی ایک تو مہمان نوازی کے جذبہ سے ہوتی تھی لیکن ایک یہ بھی مقصد ہوتا تھا کہ اگر کوئی کافر مہمان یا دوسرے کسی مذہب کا مہمان ہے تو وہ آپؐ کے اعلیٰ اخلاق اور مہمان نوازی دیکھ کر یہ سوچے کہ جس تعلیم کے یہ علمبردار ہیں، جس تعلیم کے یہ پھیلانے والے ہیں یہ اسی تعلیم کا اثر ہو گا کہ اتنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ اور یوں اس مہمان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور آپؐ یہ مہمان نوازی کرتے بھی اس لئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف توجہ پیدا ہو تاکہ اس کی دنیا کے ساتھ ساتھ عاقبت سنور جائے۔ پس آپؐ کی مہمان نوازی صرف ظاہری خوراک کے لئے نہیں ہوتی تھی جس سے مہمان کی ظاہری بھوک مٹے بلکہ روحانی خوراک مہیا کرنے کے لئے بھی ہوتی تھی تاکہ اس کی آخرت کی زندگی کے بھی سامان ہوں اور یہی تعلیم آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو دی کہ تمہارے ہر کام کے پیچھے خدا تعالیٰ کی رضا ہونی چاہئے۔ ایک روایت میں آتا ہے، جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو کافر تھا حضرت رسول کریمﷺ کے ہاں مہمان بنا۔ آنحضرتﷺ نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہ کر لانے کے لئے فرمایا جسے وہ کافر پی گیا۔ پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ (اور آپؐ کے اس اسوہ کو دیکھ کر، اس حسن سلوک کو دیکھ کر کہ بغیر کسی چوں چراں کے، بغیر کسی احسان جتانے کے، بغیر کسی قسم کے اشارہ کے آپؐ نے جتنی مجھے بھوک تھی، جتنا مَیں پینا چاہتا تھا یا آزمانا چاہتا تھا بہرحال مجھے اتنا دودھ اور خوراک مہیا کی۔ اس کو دیکھ کر) اگلی صبح اس نے اسلام قبول کر لیا۔ تو آنحضرتﷺ نے اگلے دن پھر اس کے لئے بکری کے دودھ کا انتظام کیا تو ایک بکری کا دودھ وہ پی گیا اور دوسری بکری کا دودھ لانے کے لئے فرمایا تو پورا ختم نہیں کر سکا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھانا کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں بھرتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل مسند ابی ہریرہؓ جلد 3 صفحہ 385 حدیث 8866 عالم الکتب بیروت 1998ء) اور اسلام قبول کرنے سے پہلے اسے آپؐ نے کچھ نہیں کہا اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے یہ نہیں کہا کہ یہی حکم ہے کہ تم بھوک چھوڑ کر کھاؤ۔ جہاں تک مہمان ہونے کے ناطے اس کاحق تھا اسے پوری خوراک جو گزشتہ رات دیکھ کر دی تھی اس کا انتظام کیا، اسے پیش کی لیکن اس نے خود ہی انکار کر دیا۔ تب آپؐ نے یہ بات فرمائی کہ مومن ایک آنت سے پیتا ہے اور کافر سات آنتوں سے۔ اس کے اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے مقام کا احساس بھی اسے دلادیا کہ انسان کی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔

(خطبہ جمعہ۱۷؍جولائی ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍اگست ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button