یادِ رفتگاں

مکرم داؤد ڈگلس سمرز صاحب کا ذکرِ خیر

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

اللہ تعالیٰ جب بھی دنیا میں بنی نوع انسان کی راہنمائی اور ہدایت کے لیے کسی نبی کو بھیجتا ہے تو اسے اپنے فضل سے ایسے جاںنثار مومن عطا فرماتا ہے جو دل و جان سے اس پر نثار ہوجاتے ہیں اور اس نبی کی ہدایات پر ہر لحاظ سے عمل کرتے ہوئے روحانیت اور خدمتِ دین کے اعلیٰ مدارج پاتے ہیں۔اس غیرمعمولی تغیّر کا بہترین نمونہ ہمیں سرور کائنات حضرت محمد  مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی بابرکت زندگی میں نظر آتا ہے۔

ہمارے اس زمانہ میں اس قسم کے روحانی انقلاب اور بے لوث فدائیت کا نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت زندگی میں نظر آتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلّیت میں امتی نبی کا بلند رتبہ عطا فرمایا۔ آپؑ کو بھی اللہ تعالیٰ نے جاںنثار صحابہؓ کا وسیع حلقہ عطا فرمایا۔ جنہوں نے قرونِ اولیٰ کی یادوں کو تازہ کر دیا۔حضرت مسیح موعودؑ نے اشاعتِ اسلام کا ذکر کرتے ہوئے یہ بشارت بھی دی کہ’’ میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریز ی زبان میں ایک نہایت مدلّل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہوگا۔سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریریں اُن لوگوں میں پھیلیں گی۔ اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کے شکار ہو جائیں گے۔‘‘(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 377)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسیح پاک علیہ السلام کو دی جانے والی یہ بشارت پوری ہوئی اور ہوتی جا رہی ہے۔ الحمد للہ

اس مختصر مضمون میں ایک مرحوم انگریز احمدی کا ذکرِ خیر مقصود ہے۔ میں جب 1983ء میں بطور امام مسجد فضل لندن اور مبلغ انچارج برطانیہ آیا تو کچھ عرصہ کے بعد میرا تعارف ایک نہایت مخلص انگریز احمدی دوست سے ہوا جن کا پورا نام داؤد ڈگلس سمرزDAOOD DOUGLAS SUMMERSتھا۔ان کی تاریخِ پیدائش 5؍نومبر 1916ء تھی اور تاریخِ وفات 25؍دسمبر1988ء۔ قریباً 72 سال کی عمر میں وفات پائی اور Brookwood کے علاقہ میں جماعت کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

جب میرا ان سے تعارف ہُوا ان دنوں ان کی رہائش مسجد فضل سے زیادہ دُور نہیں تھی۔وہ کافی عرصہ قبل احمدی ہو چکے تھے۔ ان کی اہلیہ احمدی نہیں تھیں البتہ ان کے تین بیٹے والد کے ساتھ مسجد فضل اکثر آتے رہتے تھے اور اسلام میں دلچسپی رکھتے تھے۔ سوال و جواب بھی ہوتے رہتے تھے۔ ان کے والد داؤد سمرز صاحب کی بہت خواہش تھی کہ تینوں بڑے ہو کر احمدیت سے منسلک رہیں اور عملی طور پر اسلام کی خدمت کریں۔

1984ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر جماعت احمدیہ برطانیہ کو Tilford میں ایک وسیع و عریض اراضی خریدنے کی توفیق ملی جس کا نام حضور انور رحمہ اللہ کے ارشاد پر’’اسلام آباد‘‘رکھا گیا۔ خریدے جانے کے جلد بعد ہی اس نہایت خستہ حال جگہ جو پرانے سکول کی ٹوٹی پھوٹی طعام گاہ تھی وہاں چند دنوں میں ہی انصاراللہ برطانیہ کو ایک تقریب منعقد کرنے کی توفیق ملی۔ یہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والی پہلی مجلس تھی جس میں حضور انور نے شرکت فرمائی اور خطاب بھی فرمایا۔ اسلام آباد میں اس پہلی تقریب کے بعد تقریبِ بیعت بھی منعقد ہوئی۔ نمازوں اور کھانے کے بعد احباب اپنے گھروں کو واپس روانہ ہوئے۔

میں ہال سے باہر نکلا تو مکرم داؤد سمرز صاحب کو چپ چاپ اکیلا کھڑے دیکھا۔ میں نے قریب جا کر ان کو سلام کیا۔ بہت خوش ہوئے۔ بتایا کہ مجھے ایک دوست کے ساتھ آنے کا موقع تو مل گیا مگر اب واپسی کی کوئی صورت نہیں اور اندھیرا بڑھ رہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ فکر نہ کریں میں اپنی کار میں اکیلا ہوں۔ آپ میرے ساتھ آجائیں۔ کہنے لگے کہ میرا گھر تو بہت دور ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی فکر نہ کریں۔ گیٹ وِک ایئر پورٹ تک مجھے راستہ آتا ہے۔ اس کے بعد آپ کا گھر قریب ہی ہے۔ اس کا راستہ آپ بتا دیں۔ یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے۔ آنکھوں میں روشنی اور چہرہ پر مسکراہٹ آگئی۔

بسم اللہ پڑھ کر میرے ساتھ کار میں سوار ہو گئے اور ہم دونوں رات کے اندھیرے میں اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔ کافی لمبا سفر تھا۔ کار میں ہم دونوں ہی تھے۔ محترم داؤد سمرز صاحب سے باتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو چلتا چلا گیا۔ اپنے مخصوص انداز میں بڑی بےتکلفی سے انہوں نے حالات بیان فرمائے۔ ڈرائیو کرتے ہوئے میں سب باتوں کو توجہ اور دلچسپی سے سنتا رہا۔ اس خوبصورت داستان کی ایک لمبی تفصیل ہے۔ سارا وقت بہت سادگی سے اپنی باتیں بتاتے رہے۔عام طور پر وہ خاموش طبع تھے لیکن اس روز میں ان کی بے تکلف گفتگو سے بہت لطف اندوز ہوا۔ میں کار چلاتا رہا اور وہ مختلف نوعیت کی باتیں بہت سادہ انداز میں بیان کرتے رہے۔ بہت اچھا سفر کٹ گیا۔ Gatwick ایئر پورٹ کے قریب پہنچ کر میں نے کہا کہ یہاں تک تو مجھے راستہ معلوم تھا اب آگے اپنے گھر کا راستہ آپ بتاتے جائیں۔ انہوں نے راہنمائی کی اور چند منٹوں میں ہم ان کے گھر کے سامنے تھے۔ انہوں نے دلی شکر یہ ادا کرتے ہوئے اندر آنے کو کہا اور چائے کی دعوت دی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی میں نے ادب سے شکریہ کے ساتھ ان سے معذرت کر دی اور اپنے گھر آگیا۔

یہ اس سفر کی مختصر داستان ہے جو میرے دل پر نقش ہے۔ ان کی نیکی، تقویٰ اور دھیمی دھیمی خوشگوار باتوں کی یاد دل میں زندہ ہے۔ کوئی فضول اور زائد بات نہیں کی۔ اپنی سچی اور دل گداز باتیں سناتے رہے۔ بہت ہی نیک، بے ضرر اور دعا گو بزرگ تھے۔ یہ سفر مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین

مکرم داؤد سمرز صاحب سے میری اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔وہ پیدل چل کر مسجد آتے۔ با لعموم نماز ظہر سے کافی پہلے آجاتے۔ میرے دفتر میں تشریف لاتے اور اپنی پرانی یادوں کا ذکر کرتے اور دینی سولات بھی پوچھا کرتے تھے۔بہت کم گو، نیک اور مخلص احمدی تھے۔

ان کا معمول تھا کہ وہ بالعموم ظہر کے بعد مسجد میں بیٹھ کر نوافل ادا کرتے اور عصر تک ذکرِ الٰہی میں مصروف رہا کرتے تھے۔

ایک روز وہ میرے دفتر آئے اور بڑی خوشی سے یہ خبر سنائی کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب میں نےعربی میں قرآن شریف پڑھنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک احمدی دوست ڈاکٹر مجیب الحق خان صاحب سے یہ پروگرام طے کر لیا ہے کہ ہر روز ظہر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں کچھ دیر کے لیے ان کی کار میں بیٹھا کروں گا اور ہر روزان سے قرآن مجید کا سبق لیا کروں گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس نیک کام کی ابتدا قاعدہ یسرناالقرآن سے کر دی ہے۔

یہ خوشکن خبر سن کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ وہ انگریز تھے۔ عربی سے کلیۃً ناواقف، ان کا یہ جذبہ بہت ہی قابلِ قدر تھا۔ میں نے انہیں مبارکباد دی اور ساتھ ہی پوچھا کہ سمرز صاحب! یہ تو بتائیں کہ آپ کو کس طرح یہ نیک خیال آیا ہے؟ آپ عربی نہیں جانتے اور آپ کی عمر بھی ساٹھ سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔ میری یہ بات سن کر انہوں نے بتایا کہ دراصل ہوا یوں کہ میں چند روز پہلے اپنے حالات پر غور کر رہا تھا۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ میری عمر بڑھ رہی ہے۔ نہ معلوم کب میں فوت ہو جاؤں اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاؤں۔اس کے ساتھ ہی مجھے اچانک یہ خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ مسٹر سمرز! یہ بتاؤ کہ کیا تم نے میرا وہ خط اور پیغام پڑھ لیا ہے جو میں نے ساری دنیا کے نام اور تمہارے نام بھی بھیجا ہےجس کا نام قرآن مجید ہے؟ تو میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا؟ اگر میرا یہ جواب ہوا کہ خدایا! تیرا کلام تو عربی زبان میں تھا اور مجھے تو عربی زبان نہیں آتی تومیرا یہ عذر قابلِ قبول نہ ہوگا۔ خداتعالیٰ کہے گا کہ تم کسی سے مدد لے لیتے! اس صورتِ حال پر غور کرکے میں نے اسی وقت یہ فیصلہ اور عزم کر لیا کہ میں کسی احمدی دوست کی مدد سے قاعدہ یسرناالقرآن شروع کروں اور اسے مکمل کرنے کے بعد قرآن مجید پڑھنا شروع کردوں۔

مجھے یہ سب کچھ سن کر بہت ہی خوشی ہوئی۔ میں نے کھڑے ہو کر انہیں ایک بار پھردلی مبارکباد دی۔ اس کے بعد محترم داؤدسمرزصاحب کا تعلیم القرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔وہ مجھے وقفہ وقفہ سے مطلع کرتے رہتے کہ آج میں نے قاعدہ کے اتنے صفحات پڑھ لیے ہیں۔ آج قاعدہ ختم کرلیا ہے اب قرآن مجید شروع کر لیا ہے۔ اب ایک پارہ ختم کرلیا ہے اب پانچ پارے ہوگئے ہیں۔ آج آٹھ مکمل ہوگئے ہیں۔ ایک روز بڑی خوشی سے یہ خبر دی کہ اب میں نے قرآن مجید کے دس پارے پڑھ لیے ہیں۔ اور اس کے چند روز بعد ہی یہ افسوسناک خبر ملی کہ ہمارے ان بزرگ انگریز احمدی داؤد سمرز صاحب کی وفات ہو گئی ہے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون

میں آج بھی محترم داؤد سمرز صاحب کی ہمت، عزم، محنت اور لگن کو یاد کرکے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعاگو ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایک مطمئن دل کےساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوئے ہوں گے اور اپنی اس نیک کوشش کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے وارث بنے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قرب سے نوازے اور بڑی عمر کے باوجود قرآن مجید پڑھنے کی برکت سے ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے۔آمین

اس واقعہ میں جماعت کے بچوں اور بڑوں سب کے لیے ایک یاد رکھنے والا سبق ہے !

ہمارے یہ معزز انگریز بھائی مکرم داؤد سمرز صاحب بہت نیک، شریف،مخلص اور خاموش طبع انسان تھے۔ ان کی نیک سیرت کا ایک اور واقعہ یاد آیا جو میرے ذہن پر نقش ہے۔داؤدصاحب چندوں کی ادائیگی میں بہت باقاعدہ تھے آخری سالوں میں مالی حالت کافی کمزور تھی لیکن اس کے باوجود بیعت کرنے کے بعد چندوں میں بہت باقاعدہ تھے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ان کے ذمہ چندوں کاکچھ حصہ واجب الادا ہوگیا۔اتفاق سے انہی دنوں میں ماہِ رمضان کا آغاز ہُوا۔ جماعت کی طرف سے مخلص اور معمر افراد کو عید الفطر کی مناسبت سے کچھ رقم بطور تحفہ دی جاتی تھی۔مکرم سمرز صاحب کا نام بھی اس لسٹ میں آیا۔مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک روز انہیں اپنے گھر مدعو کیا۔باتیں ہوتی رہیں۔اس کے بعد میں نےانہیں ایک لفافہ دیا اور بتایا کہ اس میں کچھ رقم ہے جو عید کی مناسبت سے آپ کے لیے جماعت کی طرف سے تحفہ کے طور پر ہے۔ یہ آپ لے لیں۔

داؤد سمرز صاحب نے اسے لینے سے تامل کیا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ رقم بطور تحفہ ہے اور تحفہ تو قبول کرلینا چاہیے۔ میر ی یہ بات سن کر وہ اسے لینے کے لیے تیار ہو گئے اور جماعت کا شکریہ بھی ادا کیا۔ پھر اگلے ہی لمحہ وہ بولے کہ کیا اب یہ ساری رقم میر ی ہےاور میں جیسے چاہوں اس کو خرچ کرنے کا مجاز ہوں؟ میں نے کہا کہ آپ بالکل مجاز ہیں اب یہ رقم آپ کی ہے آپ جس طرح چاہیں اسے خرچ کرسکتے ہیں۔ یہ سن کر ان کے چہرہ پر مسکراہٹ آگئی اور تردّد کے بادل چھٹ گئے۔ انہوں نے وہ لفافہ جو وہ اپنی جیب میں ڈال چکے تھے، فوراًنکالا اور اس کو کھولا۔اس میں کافی ساری رقم تھی۔انہوں نے کہا کہ پہلے تو اس میں سے میری طرف سے فدیہ کی رقم نکال لیں کیونکہ میں کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکا۔ پھر آپ نے مزید کہا کہ اسی طرح میری طرف سے فطرانہ بھی لے لیں۔میں ان کی یہ مومنانہ ادا دیکھ کر بے حد متاثر ہوا۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ اور کون سی مدّا ت ہیں جن میں میں کچھ ادا کرسکتا ہوں۔ میں نے ان کی راہنمائی کی اور میرا دل ان کی سخا وت اور قربانی کے جذبہ کو دیکھ کرکناروں تک بھر گیا جب انہوں نے باقی کی ساری کی ساری رقم مختلف مدّات میں ادا کردی اور ایک پینس بھی اپنے پاس نہ رکھا۔ خالی لفافہ اپنی جیب میں رکھ لیا!

ایک انگریز مخلص اور فدائی احمدی کا یہ جذبۂ قربانی دیکھ کراللہ تعالیٰ کے شکر سے میری جو حالت ہو رہی تھی اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے فدائی اور مخلص احمدی جماعت کو عطافرمائے اور آج بھی الحمدللہ ایسے مخلصین کی کمی نہیں۔ برادرم داؤد سمرز صاحب کی قربانی کی یہ مثال ایسی ہے کہ اس کا انمٹ نقش ہمیشہ میرے ذہن پر مرتسم رہے گا اور یقیناً اس میں ہم سب احمدیوں کے لیے ایک یاد رکھنے والا نمونہ قابل تقلیدہے!

اس مضمون کی آخری بات یہ ہے کہ اس بزرگ روحانی سفید پرندہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ ان کی Brookwood کے جماعتی قبرستان میں تدفین کے کافی عرصہ کے بعد جب ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایک اور بزرگ مصطفےٰ ثابت صاحب مرحوم کی تدفین کے لیے تشریف لے گئے۔ تو ان کے جنازہ کے بعد قبر کی تیاری کے وقفہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قبرستان میں دیگر قبروں کا جائزہ لیا۔ مجھے یاد ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس دوران مجھ سے پوچھا کہ داؤد سمرز صاحب کی قبر کس جگہ ہے۔ میں نے نشان دہی کی تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت ان کے مزار کے قریب جا کر ہاتھ اٹھا کر ان کی مغفرت کے لیے دعا کروائی۔ باقی ساتھی بھی شامل ہوگئے!

اللہ تعالیٰ داؤد سمرز صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔اور اپنے قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button