سیرت النبی ﷺمتفرق مضامین

آنحضرتﷺ بطور سفیرِ امن

(’ایچ ایم طارق‘)

دنیا کی حالتِ زار

آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے بحروبر میں ایک فساد برپا تھا۔ ایک طرف دنیا کی بڑی سیاسی طاقتیں عیسائی، رومن ایمپائراورزرتشتی سلطنت ایران باہم برسرپیکار تھیں تو دوسری طرف دونوں اہل مذہب یہودو نصاری کے مابین اختلاف انتہا پر تھا۔ وہ ایک ہی کتاب بائبل پر ایمان کے باوجود نہ صرف ایک دوسرے کو بلکہ اپنے سوا سب کو جہنمی قرار دے کر عملاً حالت جنگ میں تھے۔

تب فاران کی چوٹیوں سے ایک سفیر امن حقوق انسانی کا علمبردار بن کر اترا۔

ایک سفیرِامن کی امن و صلح کی پیشکش

یہ تھےہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰﷺ۔آپؐ نے جہاں شایانِ روم و فارس کو امن کے خطوط بھجوائے وہاں اپنے دور کے یہودونصاریٰ کو دعوت صلح دیتے ہوئے فرمایا: قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ۔ (آل عمران:۶۵)تُو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کى طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمىان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسى کى عبادت نہىں کرىں گے اور نہ ہى کسى چىز کو اُس کا شرىک ٹھہرائىں گے اور ہم مىں سے کوئى کسى دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہىں بنائے گا پس اگر وہ پھر جائىں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ ىقىنا ًہم مسلمان ہىں۔

یعنی امن وصلح کی اس پیشکش کے ذریعہ ہم نے مصالحت کی ابتداکر دی ہے۔اگرمذہبی صلح کی اس دعوت عام کو قبول کیا جاتا تو آج دنیا میں جبروتشددکی بجائے امن کا راج ہوتا۔

رسول کریمؐ نے صلح و آشتی کے خدائی سفیر کے طور پر اپنے اعلان امن کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّمَآ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِيْ حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ۖ وَّأُمِرْتُ أَنْ أَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۔(النمل:۹۲) یعنی مجھے یہ حکم دیاگیا ہے کہ میں اس شہر(مکہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے امن والا بنا کر اس کو حرمت بخشی ہے اور ہر چیز اسی کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں اور امن کی دعوت دینے والوں میں سے ہوجاؤں۔

صلح کے دیگر اصول

بانئ اسلامؐ نے اس مصالحت میں پہل کرتے ہوئےیہ تاریخی اعلان بھی کیا کہ دنیا کے تمام مذاہب اور ان کے پیشوا سچے تھے۔ ان کی تعلیمات خدا کی طرف سے تھیں۔ اور ہم ان تمام گذشتہ پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں جن کی تعلیم زیادہ خالص اور مکمل طور پر اپنے عملی نمونہ کے ساتھ حضرت محمد مصطفیٰﷺ پیش کر رہے ہیں۔(البقرة:۲۸۶وفاطر:۲۵)

سفیر امن کےمصالحانہ فارمولے کا دوسرا اصول وَلَايَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللّٰهِ (آل عمران:۶۵) ہے جس میں انسانی قدروں کی بحالی کی دعوت ہے کہ انسان کو خدا نہ بناؤ اور اپنے مفادات کی خاطر انسانی قدریں پامال نہ کرو بلکہ اعلیٰ قدریں قائم کر کے دکھاؤ تاکہ سب مذاہب کے ماننے والے کم از کم انسانی بنیادی حقوق ادا کرنے لگ جائیں اورنتیجۃً امن عالم قائم ہو جائے۔ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے بانئ اسلامؐ نے دوسرے مذاہب کی نیک انسانی اقدار دیانت وامانت وغیرہ کی تعریف کی۔ (آل عمران: ۷۶)

نیز فرمایا کہ یہود و نصاری میں بھی عہدکے پابند اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والےاور عبادت پر قائم لوگ ہیں جو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ (آل عمران: ۱۱۴تا۱۱۶) اور ایسے یہودی،نصرانی یا صابی جن کو پیغام اسلام پہنچا نہیں یا سمجھ نہیں آیا اور وہ خداترسی سے اپنے دین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اللہ اوریوم آخرت پر ایمان لاکے نیک کام کر رہے ہیں ان کوقرآن نے نجات کی یہ نوید سنائی کہ ان کے رب کے پاس ان کا مناسب اجر ہے اور ان پر کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔ (البقرة:۶۳) ہاں اتمام حجت کے باوجود انکار کرنے والے خسارہ میں ہوں گے۔ (آل عمران:۸۶)

بانیٔ اسلامؐ امنِ عالم کے اوّلین علمبردار

اس سے ظاہر ہے کہ تاریخ میں عالمی سطح پر امن کی پہلی مہم شروع کرنے والے ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ جنہوں نے آج سے پندہ سو برس قبل اس وقت انسانی حقوق کی بات کی جب Atlantic Treaty کا تصور تھا، نہ UNO کے ہیومن رائٹس چارٹر کا۔ نہ Magna Carta وجود میں آیا تھا اور نہ دوسوکا معاہدہ عمرانی Social Contract۔

بانیٔ اسلامﷺ نے اس وقت انسانی حقوق کے قیام کا آغاز اس اعلان سے کیا کہ میری آمد سے ملک،قوم، رنگ،نسل اور زبان کے تمام امتیازات کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ میں(کسی خاص قوم کی طرف نہیں بلکہ ) تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں۔ایک عالمگیر رسول!!

بانئ اسلامﷺ کے ذریعہ ہی پہلی دفعہ مساوات انسانی کا بھی اعلان ہوا کہ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَّأُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَاللّٰهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ۔ (الحجرات: ۱۵)یعنی اے دنیا کے انسانو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے گروہ اور قبائل پہچان کے لیےبنائے ہیں۔ پس ذات پات اور نسلی امتیازات کالعدم ہیں۔ عزت و فضیلت محض خوبی اور خدا ترسی سے ہوگی۔

پہلی اسلامی حکومت میں بنیادی حقوق کی ضمانت

فتح مکہ کے موقع پر پہلی آزاد اسلامی حکومت قائم کرتے ہوئے نبی کریمؐ نے یہ بھی واضح فرمادیاتھاکہ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ،وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ،وَلَاأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ،وَلَاأَسْوَدَعَلَى أَحْمَرَ، إِلَّابِالتَّقْوَى (مسنداحمدجزء۳۸ صفحہ۴۷۴) عربی کو عجمی پر اورعجمی کو عربی پر، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ سب آدم کی اولاد اور انسان ہیں۔ یہی وہ دن تھا جب ہر انسان کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کے بنیادی حقوق انسانی کا قیام مسلمانوں کی اولین ذمہ داری قرار دیا گیا۔ (بخاری کتاب العلم باب ليبلغ العلم المشاهد الغائب)

فرد واحد سے امن کا آغاز

بانی اسلامؐ نے گھر اور محلے کے چھوٹے یونٹ سے قیام امن کا آغاز کیا ہے اورمسلمان کی تعریف ہی یہ کی ہےکہ وہ شخص جس سے دوسرے لوگ سلامتی میں رہیں۔اسی طرح فرمایا:حقیقی مومن وہ ہے، جس سے تمام دوسرے انسانوں کو امن حاصل ہو۔ دراصل ایمان کا لفظ ہی امن سے نکلا ہے۔ (مسند احمدجلد۲صفحہ۲۱۵مطبوعہ بیروت)

ایک اور موقع پر فرمایا کہ مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور خدا کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کی مخلوق سے بہترین حسنِ سلوک کرے۔

گھر کا امن

گھر کا امن قائم کرنے کے لیےمرد کو گھر کا نگران مقرر کیا۔ (النساء:۳۵)تو عورتوں کے حقوق و فرائض کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح ان کے کچھ فرائض ہیں،ایسے ہی ان کے حقوق بھی ہیں۔(البقرة:۲۳۹)رسول کریمؐ نے فرمایا کہ تم میں سےسب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی اور اہل خانہ کے لیے بہتر ہے۔ (ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبیؐ)

مرد کو گھر سے باہر اور عورت کو گھر کے اندر ایک دائرہ اختیارو انتظام دیتے ہوئے اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے کی تعلیم دی تاکہ گھریلو امن کی پختہ بنیاد پڑجائے۔فرمایا کہ ہر ایک شخص اپنے دائرہ کار میں نگران ہے کہ اپنی ذمہ داریاں اور حقوق ادا کرے۔ اور اس بارے میں وہ پوچھا جائےگا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائےگا۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح، باب المرأۃ راعیۃ في بیت زوجھا)اسی طرح رشتہ داروں اور دوستوں کے حقوق کے بارے میں اسلام نے جامع تعلیم دی ہے تاکہ ماحول اور معاشرہ میں بھی امن قائم رہے۔ اور رسول کریمؐ نے ہر پہلو سے بہترین نمونہ قائم کرکے دکھایا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کے لیے ایک کامل نمونہ اور اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ (الاحزاب:۲۲) اور فرمایا اس کی پیروی کی برکت سے دنیا وآخرت سنور جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار حاصل ہوسکتا ہے۔

رسول کریمؐ نے گھریلو ماحول میں اپنابہترین نمونہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے اہل خانہ سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔(ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبیؐ)

اسی طرح آپؐ نے اولاد کی عزت کرنے اور ان کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دلائی تاکہ گھریلو امن مکمل ہو۔خودرسول اللہؐ کی بیویوں نے بھی آپ کے اعلیٰ حسن سلوک کی گواہی دی۔

پہلی وحی کےموقع پرحضرت خدیجہؓ نے شہادت دی کہ اے معصوم شہزادے! آپؐ کی تو ساری زندگی خدمت انسانی سے عبارت ہے۔ خدا آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔آپؐ تو صلہ رحمی کرتے، غریبوں کے بوجھ اٹھاتے، معدوم اخلاق کو قائم کرتے اور مہمان نوازی کرتے اور مصیبت میں لوگوں کی مددکرتے ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی)

حضرت عائشہؓ نے بھی یہ گواہی دی کہ رسول اللہؐ کے اخلاق عین قرآن کے مطابق تھے۔(مسند احمدبن حنبل جلد۸صفحہ۴۴)

قیام امن کے لیے بانیٔ اسلامؐ کی عملی کاوش

دعویٰ نبوت سے پہلے ہی حضرت محمدمصطفےٰﷺ قیام امن کی خاطرشرفائے مکہ کے ساتھ مظلوموں کی مدد کے معاہدہ حلف الفضول میں شامل ہوئے بعد میں بھی آپؐ اس پر فخر کیا کرتے تھے۔ (السيرة النبوية لابن هشام جزء۱صفحہ ۱۴۲-۱۴۱ مصطفىٰ البابی الحلبی)

قیام عدل و امن کے لیےرسول کریمؐ نے اعلیٰ اخلاقی اقدار قائم کیں۔دعویٰ نبوت کے بعدبھی آپؐ نے اپنے جانی دشمن سردار مکہ ابوجہل سے ایک مظلوم اجنبی تاجر الاراشی کا حق دلانے سے گریز نہ کیا اور اس کی درخواست پر اپنی جان خطرے میں ڈال کر سیدھا ابوجہل کے دروازے پر جا دستک دی اور نہیں واپس آئےجب تک اس مظلوم کو حق مل نہ گیا۔ (السيرة النبوية لابن هشام جلد۲صفحہ۱۲۳تا۱۲۴ دار الفكر بیروت)

مظلوم کی حمایت

رسول اللہ ؐکے دل میں بلا امتیاز مذہب وملت انسانیت کا ایک درد تھا۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ مجلس میں ہجرت حبشہ سےلوٹ کر آنے والے ایک صحابی نے یہ واقعہ سنایا کہ ہمارے پاس سے ایک حبشی عیسائی بڑھیا سر پر پانی کا مٹکا اٹھائے گزری۔ محلے کے کسی شریر لڑکے نے اسے دھکا دے کر گرادیا اور اس کامٹکا ٹوٹ گیا۔ بڑھیا نے اسے ملامت کرتے ہوئے کہا:بدبخت! تجھے اس روز اپنے کیے کا انجام معلوم ہوگا جب ہاتھ پاؤں بھی گواہی دیں گے اور خدا اپنی عدل کی کرسی پر جلوہ افروز ہو کر فیصلہ سنائے گا۔

رحمۃللعالمینؐ کو اس کمزور بڑھیا پر اتنا ترس آیا کہ دل بےچین ہوگیا اور آپؐ زمان ومکان کے فاصلوں سے قطع نظر اس بڑھیا کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اورعجب انسانی ہمدردی کے جوش سے فرمایا:’’وہ بڑھیا سچ اور بالکل سچ کہتی تھی۔ اللہ اس قوم کوکبھی برکت نہیں دیتا جس میں کمزوروں کے حق طاقتوروں سے نہیں دلائے جاتے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر)

امرواقعہ یہ ہے کہ رسول اللہؐ  مستحق اور مفلوک الحال ضرورت مند شخص کو دیکھ کر اس وقت تک بے چین رہتے تھے جب تک اس کی تکلیف دُورنہ ہو جائے۔ ایک دفعہ مدینہ میں کچھ لوگ آئے جن کے جسم پر لباس تھا،نہ پاؤں میں جوتے اور فاقہ سے بری حالت تھی۔ رسول اللہﷺ انہیں دیکھ کر بےقرار ہوگئے پہلے ان کی فوری امداد کےلیے اپنے گھرگئے پھر صحابہؓ کو جمع کرکےامدادکےلیےاتنی مؤثر تحریک فرمائی کہ تھوڑی ہی دیر میں غلےکے دو ڈھیرجمع ہوگئے۔ ان غرباء کی ضرورت پوری ہوتی دیکھ کر رسول اللہؐ کا چہرہ خوشی سے ایسے دمک رہا تھا جیسے سونے کی ڈلیا ہو۔ (مسند احمد جلد۱صفحہ۳۵۹مطبوعہ بیروت)

انسانی اقدار کا قیام و احترام

ہمارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عظمت انسانیت کا عملی درس دیتے ہوئے زندوں کے ساتھ غیروں کے مُردوں کا بھی احترام کروایا اور نئی اخلاقی قدریں قائم فرمائیں۔یہودمدینہ کی تمام ترزیادتیوں اور عہدشکنیوں کےباوجود شہر مدینہ میں یہ عجیب نظارہ دیکھا گیا۔ کسی یہودی کا جنازہ آرہا تھا، رسول کریمؐ احتراماً کھڑےہوگئے۔صحابہؓ نے وضاحت کی کہ یا حضرت! یہ کسی مسلمان کانہیں یہودی کا جنازہ ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! أَلَیْسَتْ نَفْسًا کیا یہودی انسان نہیں ہوتے؟ اور یوں اپنے عمل سے احترام انسانیت کا نمونہ دیا۔ (بخاري كتاب الجنائز باب من قام لِجنازۃ و يهودی) یہ تھے امن اور شرف انسانی کے علمبر دار حضرت محمد مصطفیٰؐ۔

حضرت یعلیؓ بن مرہ بیان فرماتے تھے کہ میں نے نبی کریمؐ کے ساتھ کئی سفر کیے۔ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ نے کسی انسان کی نعش بے گورو کفن پڑی دیکھی ہو اور اسے دفن نہ کروایا ہو۔ کبھی آپؐ نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کافر ہے یامسلمان؟ (مستدرک حاکم جلد۱ صفحہ۳۷۱)

جنگ احزاب میں بھی سردار مکہ نوفل مخزومی خندق میں گر کر ہلاک ہوا۔کفار مکہ نے اس ڈر سے کہ مسلمان انتقامًا اس کی نعش کا مثلہ نہ کریں،بارہ ہزار درہم تک پیشکش کی۔ ہمارے نبیﷺ نے اس مشرک دشمن کی نعش کا بھی احترام کیا اور فرمایا: اہل مکہ کو بلا معاوضہ لوٹا دو تاکہ اپنی مرضی کے مطابق وہ اسے دفن کر سکیں۔ (الدلائل النبوة للبیہقی جلد۳صفحہ۴۳۷،۴۳۸۔ابن ہشام جلد۳صفحہ ۲۷۳۔طبری جلد۲صفحہ۵۷۴۔مسند احمد جلد۱صفحہ۲۴۸)

آج اس عظیم رسولﷺ کی طرف منسوب ہو کر جو اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کی نعشیں قبرستانوں سے اکھیڑ کران کی بے حرمتی کرنے والے توہین رسالت کےساتھ توہین انسانیت بھی کرتے ہیں وہ رسولؐ جس نے یہود اور مشرکین کے مُردوں کا ایسا احترام کیا کہ عرش الٰہی پر فرشتے بھی یہ نعرے لگاتے ہوں گے انسانیت زندہ باد،محسنِ انسانیت زندہ باد۔

امن ،آزادیٔ ضمیر اور مذہب

دنیا میں قیام امن کے لیے ایک اہم قدم آزادیٔ ضمیرو اظہار عقیدہ کا انسانی حق تسلیم کرنا ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں بھی سچائی سے بھری ہوئی وہ قابل عمل اصولی تعلیم پیش فرمائی کہ بےاختیار ہر انسانی فطرت اس کا اقرار کرتی ہے۔ فرمایا:وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْۖ فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْيَكْـفُرْ (الكہف:۳۰) یعنی تمہارے رب کی طرف سے مکمل سچائی آچکی ہے۔ اب ماننانہ ماننا تمہارے اختیار میں ہے۔ اسی طرح فرمایا: لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ:۲۵۷) یعنی آج سے دین کے معاملہ میں ہر قسم کےجبرو تشدد کا خاتمہ ہے۔

بانی اسلامؐ نے ہمیشہ اس اصول کی پاسداری کر کے دکھائی۔ جب یہودی قبیلہ بنو نضیر کو اپنی عہد شکنی کی وجہ سے مدینہ چھوڑنا پڑا تو انصار مدینہ کے کئی بچے یہود کے پاس پرورش پاتے ہوئے یہودی ہو چکے تھے۔ انصار نے کہا کہ ہم اپنے بچے یہودی نہیں رہنے دیں گے۔ کیونکہ ہماری عورتوں نے اپنی نذر پوری کرتے ہوئے جب ان کو یہود کے سپرد کیا تب ہم ان کے دین کو بہتر سمجھتےتھے۔ اب اسلام کے بعد ہم اپنی اولاد یہود کے حوالے نہیں کرسکتے۔ مگر نبی کریمؐ نے یہود کے حق میں فیصلہ سنایا کہ دین اسلام میں جبر نہیں اس لیے بچوں پر زبر دستی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ (ابوداؤد كتاب الجہاد باب الأسير یكره على الاسلام) اور یوں اپنے جگر گوشوں کی قربانی دے کر بھی آپؐ نے آزادی مذہب کے حق کی حفاظت فرمائی۔

قیام امن کےلیےاسلام ہر مذہب کے لوگوں کو تبلیغ کا حق دیتا ہے۔ چنانچہ بانی اسلامؐ نے یہ بھی اعلان کیا کہ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِیَ دِیْنِ (الکافرون:۷) یعنی اے کافرو! جس طرح تمہیں اپنے دین پر قائم اور عمل پیرا رہنے اور اُسے پھیلانے کا حق ہے اسی طرح ہمیں اپنے دین پر قائم رہنے اور اسے پھیلانے کا برابر کا حق حاصل ہے۔اسی طرح یہ اعلان بھی کیا کہ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ (الکہف:۳۰) کہ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔ گواسلام میں آزادی مذہب کے لیےیہ حقوق مسلّم ہیں کہ

۱. جو چاہے کوئی بھی مذہب اختیار کرسکتا ہے۔

۲.جو چاہے اسلام میں داخل ہو سکتا ہے۔

۳.جو چاہے اسلام کو چھوڑ سکتا ہے۔

۴.جو چاہے کسی بھی مذہب پر قائم رہ کر اس پر عمل کرنے کاحق رکھتا ہے۔

آزادیٔ ضمیر اور دیگر مذاہب سے اسلامی تعلیم کا موازنہ

اسلام بعض دوسرے مذاہب کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تیرا بھائی بیٹا یا بیوی غیر معبودوں کی بندگی کے لیےپھسلائے تو اسے سنگسار کرکے قتل کر دینا۔ (استثنا۱۶-۹/۷) اور کسی شہر کے لوگ غیر معبودوں کی بندگی کریں تو اس کے باشندوں کو قتل کر کے آگ سے جلا ڈالو۔ (استثنا۶-۹/۱۳)نہ یہ کہتا ہے کہ کوئی نیچ سمجھا جانے والا اگر دین کی بات سن لے تو اس کے کان میں سیسہ پگھلاکر ڈال دیں۔

اسلامی تعلیم کے مطابق ماں باپ جو مشرک ہوں اور اپنی مسلمان اولادکو شرک اور بت پرستی کی تبلیغ کریں تو ایسے غیرمسلم والدین پر بھی سختی کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ فرمایا کہ شرک کے بارے میں (جو خلاف حقیقت ہے) ان کی بات نہ مانو لیکن پھر بھی دنیوی معاملات میں ان سے تعلقات رکھنا۔(لقمان:۱۶)

دوسری طرف حالت جنگ میں جنگجو مشرکوں پر بھی تبلیغ کے لیے جبر کی اجازت نہیں دی بلکہ فرمایا اگر کوئی مشرک پناہ کا طالب ہوتو اسے پناہ مہیا کرو۔ یہاں تک کہ وہ آزادی سے اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔(التوبہ:۶)

اللہ تعالیٰ تمام مذاہب کے پیروؤں کو یہ بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ جب تک دل سے اسلام کی صداقت کے قائل نہ ہوں اپنے مخصوص مسلک کے مطابق عبادت کریں اور ایک دوسرے کو مجبور نہ کریں کہ وہ قائل ہوئے بغیر کسی دوسرے کے طریق عبادت کو اختیار کریں۔ چنانچہ فرمایا:

قُلِ اللّٰہَ اَعۡبُدُ مُخۡلِصًا لَّہٗ دِیۡنِیۡ۔فَاعۡبُدُوۡا مَا شِئۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ۔(الزمر:۱۵۔۱۶)یعنی اے نبی! آپ اعلان کر دیں کہ میں اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (اےکافرو!) تم اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو۔

دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام

مذہبی لوگ اپنے معابد کے ساتھ عقیدت و احترام کےجذبات رکھتے ہیں۔ مذہبی رواداری کے فقدان کے باعث دنیا میں معابد کی بھی بے حرمتی ہوتی رہی ہے۔ مگر بانی اسلامﷺ نے مسلمانوں کو صرف اپنی مساجد کی حفاظت کا ہی حکم نہیں دیا۔ بلکہ فرمایا کہ دیگر مذاہب کے عبادت خانوں عیسائیوں کے گرجوں اور یہود کے معابد کی بھی حفاظت کرلیں۔(الحج:۴۱)

چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ میں انہیں مکمل مذہبی آزادی دیتے ہوئےلکھا کہ’’مسلمان ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے۔ کوئی گرجا گرایا نہیں جائے گا، نہ ہی کسی پادری کو بےدخل کیا جائے گا، نہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے گا اور نہ ان پر کوئی ظلم یازیادتی ہوگی۔ ( ابوداؤد کتاب الخراج باب اخذالجزایہ والطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد اول صفحہ۲۶۶)

۴؍ ہجری میں نبی کریمؐ نے سینٹ کیتھرائن متصل کوہ سینا کے راہبوں اور عیسائیوں کو ایک امان نامہ دیا جسے آزادیٔ ضمیر اور مذہبی رواداری کے شاہکار کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔اس امان نامہ کے آغاز میں لکھا ہے:’’جو مسلمان اس امان نامہ کی مخالفت کا مرتکب ہو وہ خدا سے کیے ہوئے میثاق سے پھرنے والا اور لعنت کا مستوجب ہے۔

اس امان نامہ میں عیسائیوں،ان کے معابد،خانقاہوں حتی کہ مسافر خانوں تک کی مکمل حفاظت کی ضمانت ان الفاظ میں ہے:ان کے گرجے، عبادت خانے،خانقا ہیں، اور مسافر خانے خواہ وہ پہاڑوں میں ہوں یا کھلے میدان میں یا تِیره وتار غاروں کے اندر ہوں یا آبادیوں میں گھرے ہوئے ہوں یا وادیوں کے دامن اور ریگستان میں ان سب کی حفاظت میرے ذمہ ہے…ان معاہدین اور ان کے ہم مشرب گروہ کے عقائد ورسوم مذہب کے تحفظ میں میری ذمہ داری ہے۔ یہ لوگ خشکی اور تری،شرق و غرب کے کسی حصہ میں کیوں نہ ہوں ان کے لیے میرے ساتھ مسلمانوں کا ہر فرد اس امان نامہ کا پابند ہے۔ان کے پادری راہب اور سیاح جن مناصب پر ہیں انہیں معزول نہیں کیا جائے گا۔ ان عبادت گاہوں میں مداخلت نہ کی جائے گی۔ نہ انہیں مساجد میں تبدیل کیا جائے گا۔ نہ مہمان سرائے کے طور پر استعمال کیا جائے گا…کسی نصرانی کو مسلمان ہونے پر مجبور نہ کیا جائے۔ جس مسلمان کے گھر میں عیسائی عورت ہو اسے اپنے مذہبی شعائر ادا کرنے کی اجازت ہے وہ عورت جب چاہے اپنے علماء سےمسئلہ دریافت کر سکتی ہے۔ جو شخص اپنی نصرانی بیوی کو اس کے مذہبی شعائر ادا کرنے سے منع کرے وہ خدا اور رسول کی طرف سے ان کو دیے گئے میثاق کا مخالف اور اللہ کے نزدیک جھوٹا ہے۔ اگر وہ اپنی عبادت گاہوں اور خانقاہوں یا قومی عمارتوں کی مرمت کرنا چاہیں اور مسلمانوں سے مالی اور اخلاقی امداد کے طلب گار ہوں تو ان کی اعانت کرنا ہی چاہیے یہ اعانت ان پر قرض یا احسان نہ ہوگی بلکہ اس عہد سے وفا ہوگی جو رسول اللہ(ﷺ) نے از راہ احسان و کرم ان سے کیا ہے۔‘‘ (سیاسی وثیقہ جات صفحہ 121-127)

عیسائی مؤرخین بھی یہ معاہدہ نقل کرتے ہوئے ششدر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ چنانچہ مسٹر کرنسٹن اپنی کتابWorld Faith میں ان معاہدات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“Has any conquering race or faith given to its subject nationalities a better guarantee than is to be found in these words of the prophet?….It would be hard to find a more tolerant and Truely and brotherly statement in the teachings of any religion…. Thirteen hundred years before the Atlantic Charter incorporated freedom of religion and freedom from fear, Mohammad made treaties with the Jewish and Christian tribes he had conquered and gave them freedom of religions wor-ship and local self-government. In many Muslim invaded countries, there has been conspicuously fair and just treatment of the non-Muslim population.”

’’کیا دنیا میں کسی فاتح قوم یا مذ ہب نے اپنی مفتوح قوموں کو اس سے بڑھ کر تحفظات کی ضمانت دی ہے جو ہادئ اسلامؐ کے ان الفاظ میں موجود ہے؟…دنیا کے کسی مذہب میں اس سے زیادہ روادارانہ اور حقیقی طور پر برادرانہ تعلیم تلاش کرنا مشکل ہے…اٹلانٹک چارٹر میں تو مذہبی آزادی،آزادی اور دہشت و ہراس سے نجات کو انسانی حقوق میں آج شامل کیا گیا ہے لیکن اٹلانٹک چارٹر سے بھی تیرہ سو سال پیشتر محمدؐ نے یہودی اور عیسائی قبیلوں سے ان پر فتح حاصل کرنے کے بعد جو معاہدات کیے ان میں مذہبی عبادات کی آزادی اور مقامی لحاظ سے ان کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے مفتوح ممالک میں غیر مسلم آبادی کے ساتھ واضح طور پر اچھا اور منصفانہ سلوک روارکھا جا تا رہا۔‘‘

اسی طرح ایک مشہور مؤرخ ایڈمنڈاولے نے لکھا:’’یہ ایک نہایت وقیع اور عظیم الشان پروانہ آزادی ہے اور دنیا کی تاریخ میں اعلیٰ درجے کی مساوات کی ایک قابل وقعت شریفانہ یادگار ہے۔‘‘

(World Faith; Ruth Cranston, p.207-209, Britain 1953)

معاشرتی امن کے لیے اسلامی تعلیم اور اس کے خوبصورت نمونے

مذہبی اختلاف کے نتیجہ میں معاشرتی تعلقات محدود یا ختم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اسلام نے اس بارے میں بھی امن اور رواداری کی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ بعض دیگر اقوام کی طرح اسلام غیر مذاہب سے نفرت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ ان کے ساتھ احسان کے تعلقات کا حکم دیتا ہے۔ سوائے مجرم پیشہ لوگوں کے جن سے معاشرہ کے امن کو خطرہ ہو۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اللہ تم کو ان لوگوں سے نیکی کرنے اور عدل کا معاملہ کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دینی اختلاف کی وجہ سے نہیں لڑے اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(الممتحنہ:۹)

ان دوستانہ تعلقات کے علاوہ اسلام اہل کتاب کا کھانا کھانے اور ان کی پاکدامن عورتوں سے شادی کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ (المائدہ:۵)اور جہاں تک غیر مذاہب کے لوگوں سے تعلق رکھ کر انہیں فائدہ پہنچانے کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو بلا امتیاز مذہب وملت محض خدا کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کا خیال رکھتے اور بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر انہیں کھانا مہیا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا۔اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا۔(الدھر:۹،۱۰)جنگی جرائم کے مرتکب میدان جنگ سے گرفتار کیے جانے والے قیدیوں کے بارے میں ہمارے نبی ؐنے حسن سلوک کی تعلیم دی اور فرمایا جو خود کھاؤ وہ انہیں بھی کھلاؤ اور جو خود پہنو وہ انہیں بھی پہناؤ۔

چنانچہ سرولیم میور کا بیان ہے کہ مسلمان خود بھوکے رہ کر بھی اپنے غیر مسلم جنگی قیدیوں کو کھانا مہیا کرتے تھے۔آپؐ نے خود بسا اوقات مشرکوں کی مہمان نوازی کی اور ان کے گندگی سے آلودہ کپڑے خود دھوئے۔(اکرام الضیف صفحہ۴۲-۴۳) رسول کریمؐ نے یہود کی طرف سے آپؐ کے قتل کی کوششوں کے باوجود کئی دفعہ ان کی دعوت طعام قبول فرمائی۔ (بخاری کتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب قبول الهدية من المشرکين)

آزادئ ضمیر و مذہب اور رواداری کی اسلامی تعلیم کے مطابق پہلی اسلامی ریاست مدینہ میں یہود کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے یہود کو ان کے دین اور اموال پر قائم رہنے کا اختیار دیا اور مسلمانوں اور یہود کو دوسرے لوگوں سے جدا امتِ واحدہ قرار دیا۔ میثاق مدینہ میں مذہبی آزادی کی ضمانت ان الفاظ میں موجودہے (للیھود دینھم وللمسلمین دینھم)کہ یہود کو اپنے مذہب دین اور مسلمانوں کو اپنے دین کی مکمل آزادی ہوگی۔ (السيرة النبوية لابن هشام جلد۲صفحہ ۱۴۷تا۱۵۰)

فی الواقعہ میثاق مدینہ آج سے ڈیڑ ھ ہزار سال قبل دی گئی مذہبی آزادی اور قیام امن شہر مدینہ میں عظیم الشان مثال ہے۔

مدینہ میں یہود کی مذہبی درسگاه بیت مدارس میں بدستور ان کے رِبّی اور علماء تیار ہوتے تھے جن کا کام یہودی مذہب کی تبلیغ تھا۔ مدینہ میں رواداری کی ایسی فضا قائم تھی کہ یہود جب چاہتے رسول کریم ؐکی مجلس میں آکر علمی و مذہبی سوالات پوچھتے اور رسول اللہؐ ان کی مذہبی درسگاہ میں جاکر ان کے علماء پر اسلام کی حقانیت ظاہر فرماتے۔ (بخاری کتاب الجزیة بَابُ إِخْرَاجِ اليَهُودِ مِنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ) اسی طرح عیسائیوں کے ساتھ بھی ان کے مذہبی حقوق تسلیم کرتے ہوئے برابری کی سطح پر تبلیغی خطوط اور گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ نجران سے عیسائیوں کےلارڈبشپ نے آکر رسول اللہؐ سے مناظرہ کیا۔ مسجد نبویؐ میں ان کے ساتھ مذہبی گفتگو جاری تھی کہ ان کی عبادت کا وقت ہو گیا نبی کریمؐ نے انہیں مسجد نبوی میں ان کے طریق کے مطابق اسلامی قبلہ کے بر عکس مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (طبقات ابن سعد جزء۱صفحہ۳۵۱ دارلفکر بیروت) پھر مشرکین بنوثقیف کا وفد طائف سے آیا جنہوں نے آپؐ کو سفر طائف میں پتھر مار مارکرلہولہان کیا تھا اس وقت بھی آپؐ نے ان کی ہدایت کی دعا کی تھی اور ان کے آنے پر آپؐ نے بعض اصحاب کی مخالفت کے باوجود انہیں مسجد نبوی میں ٹھہراکر ان کی خاطر تواضع کا اس طرح اہتمام کروایا جیسے کوئی عزیز اور پیارے دوست کے لیے کرواتا ہے۔(احكام القرآن للجصاص جلد۳ صفحہ ۱۰۹)

الغرض قیام امن کی خاطر اسلام میں داخل کرنے کے لیے بھی کوئی جبرو تشدد روانہیں رکھا گیا بلکہ یہی وجہ ہے کہ ایک عیسائی مصنف ایڈم میٹس کے بیان کے مطابق دیگر مذاہب کے لوگوں کا کثرت سے اسلام قبول کرنے کا اصل سبب اسلامی رواداری ہی تھا۔

مذہبی اختلاف کی بنا پر دنیا میں انصاف کا بھی خون کیا گیا۔ قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ آج کی مذہبی آزادی کی علمبردار مہذب قوموں کا دامن بھی اس سے پاک نہیں۔ اسلام دوسری قوموں کی طرح تعلیم نہیں دیتا کہ دشمن قوموں پر قابو پا کر جیسے چاہوان کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرو۔ انہیں نابود کر ڈالو اوران کے عبادت خانے گرا دو۔ (استثنا باب۷آیت۱تا۶)

چودھویں اور پندرھویں صدی عیسوی میں اس تعلیم کے نتیجہ میں مذہب کے نام پر روا رکھی جانے والی ظالمانہ کارروائیاں خواہ ان کا تعلق سپینش انکویزیشن سے ہو یا رومن انکویزیشن اور فرنچ انکویزیشن سے بلا شبہ انسانیت پر ایک بدنما داغ ہیں۔جب خلاف بائبل سائنسی تحقیقات کی وجہ سے بھی اہل علم تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔

امن کا بنیادی اسلامی اصول

مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ اور یہود مدینہ کی شرارتوں اور مظالم کے باوجود ان کے ساتھ عدل و انصاف کے سلوک کی یہ خوبصورت تعلیم دی:

يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى أَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۔ (المائدة:۹) یعنی اے مومنو! اللہ کی خاطر انصاف کے ساتھ گواہی دینے کے لیے مضبوطی اور استقامت سے قائم ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف کا دامن چھوڑ دو۔ تم عدل سے کام لو کیونکہ تقویٰ کے سب سے قریب ترین چیز عدل ہے۔

ہمارے نبیؐ کی ساری زندگی اس تعلیم کی خوبصورت تصویر تھی۔چنانچہ مدینہ کے یہودی بھی اپنے فیصلے رسول اللہﷺ کی عدالت سے کروانےکو ترجیح دیتے۔ مدینہ میں یہ نظارہ بھی دیکھا گیا کہ یہودی قرض خواہ کے مسلمان کے خلاف مقدمہ میں رسول اللہؐ نے یہودی کے حق میں ڈگری دی اور مسلمان نے باوجود نا مساعد حالات کے اپنے تن کے کپڑے فروخت کر کے قرض ادا کر دکھایا۔ (مسند احمد جلد۳صفحہ ۴۲۲بیروت)

بانیٔ اسلام کے عدل اور احسان کے نمونے

امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے نبیﷺنے قیام امن کے لیے غیر مذاہب کے لوگوں سے رواداری کا مظاہرہ محض عدل سے ہی نہیں بلکہ احسان کا سلوک روارکھ کر فرمایا۔ چنانچہ آپ نے اپنے پیروؤں کو مذہبی مخالفین کے جذبات کا احترام کرنے کی تعلیم دی اور اس حدتک اس کی تلقین فرمائی کہ وہ مشرک جو پتھر اور مٹی کی بےجان مورتیوں اور بے حقیقت بتوں کو اس کائنات کا خالق ومالک سمجھتے تھے ان کے بارے میں بھی فرمایا: وَلَا تَسُبُّوا الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰـهِ (الانعام: ۱۰۹)یعنی جن چیزوں کو تمہارے مخالفین خدا کے مقابلہ میں پکارتے ہیں ان کو بھی برا نہ کہو تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔

رسول کریمؐ نےقیام امن کی خاطر اپنے جذبات کی قربانی دے کربھی مذہبی پیشواؤں کی عزت و احترام کے ذریعہ غیر مذاہب کے جذبات کے احترام کا نہایت حسین نمونہ پیش فرمایا۔ ایک دفعہ مدینہ کے ایک یہودی کا ایک مسلمان سے حضرت موسیٰ  ؑکی رسول اللہﷺ پر فضیلت پر جھگڑا ہو گیا۔ وہ یہودی رسول اللہؐ کی عدالت میں مقدمہ لایا۔ آپؐ نے کیا حکیمانہ فیصلہ فرمایا: لَا تُخَيِّرُوا بَيْنَ الْأَنْبِيَاءِ لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى(بخاری کتاب الخصومات بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الإِشْخَاصِ وَالخُصُومَةِ بَيْنَ المُسْلِمِ وَاليَهُودِ)کہ گذشتہ انبیاء بشمول حضرت موسیؑ پر میری فضیلت کاذ کر اس طور سے نہ کیا کرو جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو۔

اسلامی جنگوں کی حقیقت

تعلیم اورنبی کریمؐ کا کردار دونوں گواہی دیتے ہیں کہ یہ الزام سراسر جھوٹا ہے۔ آپؐ نے جنگ کی لیکن یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں ایک فریق پیکر صبر تھا اور دوسرا فریق پیکر تکبر۔ یا یہ ایسی جنگ تھی جس میں ایک شخص لڑنانہ چاہتا ہومگر مجبوراًاسے ایسے دشمنوں کے خلاف لڑنا پڑے جو طاقت کے بل بوتے پر اسے نیست ونابود کرنے پر تلےہوں…پیغمبر اسلامﷺ کی تمام جنگیں سچے مذہب کو بچانے اور برقرار رکھنے کی غرض سے تھیں۔

یہ جنگیں مقصود بالذات نہ تھیں اور بہر حال مدافعانہ تھیں نہ کہ جارحانہ۔قرآن شریف صاف فرماتا ہے اور اللہ کے راستے میں لڑو ان سے جو تمہارے خلاف لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو۔(البقرة:۱۹۱)

اگر ہم محمدﷺکی پیشنگوئیوں پر غور کریں یا مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات کو دیکھیں تو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ الزام کہ اسلام بزورشمشیرمنوایا گیا اور اسلام جلدی سے پھیل جانا تلوار کی وجہ سےتھا سراسرلغواور بیہودہ ہے۔ (اسلام پر نظر صفحہ۱۳ ترجمہAn interpretation of Islam از شیخ محمد احمد مظہر)

سنت نبویؐ میں دورِحاضر میں تعلیم ِامن کا احیائے نو

اس زمانہ میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اس پاکیزہ تعلیم کے نمونے زندہ کر کے دکھائے ہیں۔ آپؑ نے کیا خوب فرمایا:’’ہمارا یہ اصول ہے کہ کُل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدددے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد۱۲صفحہ۲۸) ’’اپنے تو درکنارمیں تو کہتا ہوں کہ غیروں اورہندوؤں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد۱صفحہ۴۶۲۔ایڈیشن۱۹۸۴ء)

یہی تعلیم اور نمونہ گذشتہ ۱۱۶سال سے آپؑ کےخلفاء ہر دور میں پیش کرتے رہے۔آج پھر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جہاں تیسری عالمی جنگ کے خطرات سے دنیا کو ہوشیار کررہے ہیں وہاں امن عالم کے قیام کےلیے دنیا کے تمام عظیم رہنماؤں کو خطوط لکھ کر قیام امن کی طرف توجہ دلاچکے ہیں۔۲۰۰۴ء میں آپ نےNational Peace Symposiumکی بنیاد رکھی جس کا مقصد دنیا میں مختلف مکتبہ ہائے فکر اور شعبہ جات کے لوگوں کو دعوت دے کر ان کے ساتھ دنیا میں امن قائم کرنے کے طریق پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ یہ Peace Symposiumہر سال منعقد کیا جاتا ہے اور الا ماشاءاللہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس تشریف لا کراپنے خطابات کے ذریعہ خصوصی طور پر موجود مہمانو ں کو اور عمومی طور پر پوری دنیا کو اسلامی تعلیم کی روشنی میں قیام امن کے رہنما اصول بیان فرماتے ہیں اور دنیا کے موجودہ مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ Peace Symposiumمیں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نےآزادی اظہار، رواداری، امن کے قیام کے لیے خدا تعالیٰ کی پہچان، ایٹمی جنگ کےتباہ کن نتائج، انصاف کی ضرورت اور انصاف پر مبنی تعلقات جیسے اہم موضوعات پر راہنمائی فرمائی ہے۔

حضور کے بابرکت عہد میں اٹھارہ مرکزی امن کانفرنسز کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔جن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برطانیہ اورمختلف ممالک میں امن کی ضرورت اوراسے قائم کرنے کے طریق کار پر راہنما ئی فرمائی ہے۔

ان کانفرنسز کے ذریعہ ساری دنیا میں حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا تعارف ’’سفیرِامن‘‘کے طور پرہوا ،اب دنیا کی بڑی بڑی پارلیمنٹس آپ کو اپنے خطاب کی دعوت دینے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔

امن کانفرنسز میں ہر سال دنیا بھر میں قیام امن کے لیے نمایاں کام کرنے والوں کو احمدیہ امن پرائز سے بھی نوازا جا تا ہے۔ ایسے افراد کی خدما ت کو سراہنے کے لیے ۲۰۰۹ءمیں حضور انورنے Ahmadiyya Muslim Prize for the Advancement of Peace کے نام سے ایک انعام بھی جاری فرمایاہے۔اب امن کے قیام کے لیے کوشش کرنے والےپندرہ منتخب افراد کو جماعت احمدیہ کی طرف سے عالمی سطح پر یہ انعام دیا جا چکا ہے۔

یہ وہ کام ہیں جو براہ راست خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قیام امن کی غرض سے کرتے رہے ہیں۔ تا ہم ہزاروں کام ایسے بھی ہیں جو حضور کے ارشاد پر جماعت احمدیہ کے رضاکاران سر انجام دے رہے ہیں۔جیساکہ عالمی تنظیم ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ ساری دنیا خصوصاً غریب ممالک میں انسانی خدمت پر پوری طاقت کے ساتھ کمربستہ ہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ امن عالم کی خواہش کا اظہار کرتےہوئے فرماتے ہیں:’’مَیں دعا کرتا ہوں کہ آج بھی اور آئندہ بھی دنیا کے راہ نما جنگ، خون ریزی اور تباہی کے عذاب سے بنی نوع انسان کو محفوظ رکھنے کے لیے بھر پور کردار ادا کریں۔ اور میں دل کی گہرائی سے دعا گو ہوں کہ بڑی طاقتوں کے سربراہ اور ان کی حکومتیں ایسے اقدامات نہ اٹھائیں جو ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تباہ کرنے والے ہوں۔ بلکہ ان کی ہر کوشش اور جد و جہد اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونی چاہیے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے خوشحال اور پر امن دنیا چھوڑ کر جائیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ عالمی راہ نما وقت کی نزاکت کا احساس کرنے والے اور دنیا میں قیام امن اور استحکام کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کو بہترین انداز سے نبھانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمام معصوم اور نہتے لوگوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن قائم ہو۔ آمین‘‘(پریس ریلیز ۲۴؍فروری ۲۰۲۲ءبحوالہ الفضل انٹرنیشنل یکم مارچ۲۰۲۲ءصفحہ۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button