پیس سمپوزیمز میں قیامِ امن کے لیے حضور انور ایدہ اللہ کی بصیر ت افروز راہنمائی
پیس سمپوزیم کا پس منظر
بنی نوع انسان کی ترقی اور راہنمائی، روحانی اور دنیاوی دونوں طرح کے امور میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہی ہے۔ فرمایا:هَدَيْنـٰهُ النَّجْدَيْنِ (البلد:۱۱)۔اُسی نے انسان کو دونوں راستوں، یعنی دینی اور دنیاوی ترقی کی راہوں، کی جانب ہدایت دی ہے۔ اسی لیے انبیاء اور خلفاء اپنے زمانے کے دینی مسائل کے علاوہ دنیاوی مسائل کے حل کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تعلیمات کی روشنی میں راہنمائی فرماتے رہے ہیں۔
ہمارے اس زمانہ میں دنیا کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ امن کا فقدان ہے۔ اس زمانہ میں اس مسئلہ کی اہمیت اس بنا پر دو چند ہو گئی ہے کہ اول تو دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر کے ایک دوسرے پر بہت زیادہ منحصر اور ایک دوسرے کے مسائل سے متاثر ہونے والی ہے۔ اگر اس کے ایک حصہ میں کوئی آفت آئے تو اس کا اثر باقی تمام دنیا پر بھی پڑتا ہے۔ دوم اس زمانہ میں جنگی ہتھیاروں، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم وغیرہ کو ایسی بھیانک اور تباہ کن صلاحیت حاصل ہو چکی ہے کہ ان کا استعمال نہ صرف ساری دنیا پر اثرانداز ہو گا بلکہ کئی نسلوں تک ان ہتھیاروں کی تباہ کاری کا اثر پڑے گا۔ چنانچہ اس وقت جس شدت اور جس تسلسل کے ساتھ حضور دنیا کو اس بات کی طرف توجہ دلا رہے ہیں، اس کی مثال ہماری تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔
حضور ایدہ اللہ نے آغاز خلافت سے ہی سیاستدانوں سے ملاقاتوں، ممبران پارلیمنٹ سے خطابات اور سربراہان مملکت کو خطوط لکھنے کے علاوہ ’’پیس سمپوزیم‘‘کا ایک سلسلہ ۲۰۰۴ء سے شروع فرمایا جو کورونا کے تعطل کے علاوہ گذشتہ ۲۰ سالوں سے مسلسل جاری ہے اور جس کا موضوع امن کا قیام ہے۔ ذیل میں حضور کے ان پیس سمپوزیم کے خطابات کا خلاصہ پیش ہے۔ نیچے درج تمام نکات قرآن کریم اور احادیث نبویؐ سے اخذ کیے گئے ہیں اور حضور انور نے ان کے حوالے بھی پیش فرمائے ہیں جو کہ متعلقہ خطابات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
امن کے فقدان کی وجوہ
حضور نے سب سے پہلے تو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دنیا میں امن کے فقدان کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے اس کی سب سے بڑی وجہ انصاف کی عدم موجودگی کو قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ امن کے قیام کے لیے بنیادی شرط انصاف ہے۔
peace cannot be established without justice پیس سمپوزیم ۲۰۱۱ء)۔)
the key requirement to fulfilling this primary goal is absolute justice (پیس سمپوزیم ۲۰۱۲ء۔)
جب تک مکمل انصاف سے کام نہیں لیا جاتا، پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ کسی ایک جگہ دباؤ ڈال کر امن قائم کر بھی دیا جائے تو اگلے دن کسی اور جگہ مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ کیونکہ جس فریق کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے اور اس کے جائز حقوق کا استحصال کیا جاتا ہے وہ زیادہ دیر تک اس ناانصافی کو برداشت نہیں کرتا اور موقع ملنے پر اسی طرح طاقت کے زور پر اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس طرح پہلے طاقت کے زور پر اس کا حق غصب کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ بدامنی ہے۔
دوسری وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی کہ بڑی طاقتیں دیگر ممالک کی دولت اور ان کے وسائل پر قبضہ قائم رکھنا چاہتی ہیں اور اپنی مخالف طاقتوں کو ان وسائل سے دور رکھنا چاہتی ہیں:
powerful countries of the world desire to maintain easy access to the wealth and resources of certain countries, and wish to avoid competing countries from having complete access to these same resources پیس سمپوزیم ۲۰۱۱ء)۔)
اس کے نتیجہ میں پھر ملک کے اندر بھی اور مختلف ممالک کے درمیان بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں:
restlessness within a country, and jealousy and enmity between countries is created mainly as a result of the wealth and resources of each other. Due to this greed quarrels break out which can have grave consequences. One of the biggest causes of the past world wars was such envy پیس سمپوزیم ۲۰۱۱ء)۔)
اپنے عوام کی خوشحالی کے لیے وسائل تک رسائی چاہنا تو جائز بات ہے، لیکن جن ممالک کی یہ دولت ہے، خود اُن ممالک کے عوام کی ترقی اور خوشحالی اور حقوق کی انہیں بالکل بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ ضرورت پڑے تو وہاں مطلق العنان حکمرانوں کی ہر طرح مدد کی جاتی ہے اور ان کے اپنے ہی عوام پر ظلم و ستم سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں اور ایسا محض اپنے خود غرضانہ مقاصد کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔ صرف امریکہ، یورپ وغیرہ مغربی ممالک ہی ایسا نہیں کرتے بلکہ روس، چین وغیرہ کا بھی یہی حال ہے۔ درحقیقت یہ بھی ناانصافی ہی کی ایک قسم ہے کہ اپنے لیے اور معیار رکھا ہوا ہے اور دوسروں کے لیے اور۔ اپنے ایک بھی باشندے کے حقوق کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتے جبکہ دوسرے ممالک کے عوام کی کچھ پرواہ نہیں کی جاتی۔ اگر اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کیا جاتا کہ تو اس پر نظر نہ رکھ جو ہم نے انہیں دنیا میں عطا کیا ہے تو اس قسم کی بدامنی سے بچا جا سکتا تھا۔
Allah has also said that you should not cast envious glances at the wealth of others and this alone is a golden principle for peace in the world (پیس سمپوزیم ۲۰۱۵ء۔)
تیسری وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی کہ اقوام متحدہ میں فیصلے انصاف پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ اقوام متحدہ کا سیکیورٹی کونسل کا نظام ہی نا انصافی پر مبنی ہے۔ چونکہ اقوام متحدہ غیر جانبدار اور انصاف پر قائم نہیں اس لیے امن قائم نہیں کر سکی
(the United Nations has not been able to establish peace, because it has not displayed true impartiality and fair dealing پیس سمپوزیم ۲۰۱۱ء)۔ )
بہت سے معاملات میں دنیا کے تمام ممالک، جو کہ ۲۰۰ سے زائد ہیں، ایک طرف ہوں اور سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین میں سے کوئی ایک ملک مثلاً برطانیہ دوسری طرف، تو خواہ وہ ایک ملک کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو، اس اکیلے کی رائے تمام دنیا کی رائے پر بھاری ہو جائے گی۔ یہ بھی نا انصافی کی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے اقوام متحدہ میں سیکیورٹی کونسل وہ واحد ادارہ ہے جس کے پاس بزور طاقت مختلف احکامات پر عمل کروانے کا اختیار ہے۔ اور اس کے پانچ مستقل ممبر ممالک یعنی امریکہ، روس، برطانیہ، چین اور فرانس کو ویٹو اختیار حاصل ہے۔ یعنی کوئی قرارداد ان پانچ ممالک میں سے کسی ایک کی مخالفت پر پاس نہیں ہو سکتی۔ یہ ممالک ہر اس قرارداد کو، جو ان کی پسند کے مطابق نہ ہو، رد کر دیتے ہیں خواہ وہ کتنی ہی مبنی بر انصاف اور درست ہو۔ مثلاً اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی بات امریکہ کو برداشت نہیں، خواہ قرار داد میں کوئی مطالبہ نہ ہو بلکہ اسرائیل کی کسی حرکت پر محض احتجاج ہی کیا گیا ہو۔ جب اقوام متحدہ بنائی گئی تھی، اس وقت یہ پانچوں ممالک مل کر جرمنی و جاپان سے بر سر پیکار تھے اور انہوں نے یہ حق اپنے لیے مختص کر لیا۔ لیکن اب یہ صورتحال ہے کہ یہ ممالک بھی آپس میں تقسیم ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے کی رائے ویٹو کر دیتے ہیں۔ چنانچہ جب ان ممالک کی مرضی ہوتی ہے تو اقوام متحدہ میں جاتے ہیں اور جب نہیں ہوتی تو یک طرفہ طور پر اقدامات کر لیتے ہیں۔ امریکہ نے عراق پر دوسری جنگ مسلط کی تو اقوام متحدہ میں نہیں گیا۔ اسی طرح روس نے یوکرائن پر جنگ مسلط کی تو اقوام متحدہ میں نہیں گیا۔ پس عملاً اقوام متحدہ ناکام ہو چکی ہے۔
چوتھی وجہ یہ بیان فرمائی کہ بدلہ اور انتقام کی آگ امن کو تباہ کر دیتی ہے۔ قرآن کریم نے اسی لیے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب دو ممالک میں جنگ ہو تو باقی سب کو مل کر سب سے پہلے جنگ بندی کروانی چاہیے۔ اس کے بعد مسئلہ کا منصفانہ حل تلاش کرنا چاہیے۔ اور اگر پھر بھی ایک فریق نہ مانے اور جنگ کرے تو سب کو مل کر اس کے خلاف جنگ کرنی چاہیے، یہاں تک کہ وہ باز آ جائے۔ لیکن اس کے بعد انتقامی کارروائی اور نا انصافی نہ ہو۔
once you have successfully stopped an aggressive nation from inflicting further cruelties, you should not seek revenge or impose hardship upon it پیس سمپوزیم ۲۰۱۹ء)۔ )
ظاہر ہے کہ اگر ایک فریق کو یہ علم ہو کہ جنگ بند کرنے کے بعد اس پر سختی اور ظلم کیا جائے گا تو وہ جنگ کیوں روکے گا؟ عراق کی مثال دیکھ لیں۔ پہلی جنگ کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ عراق نے کویت پر حملہ کیا ہے۔ لیکن جب عراق نے کویت سے فوجیں نکال لیں اور جنگ بند ہو گئی تب بھی پابندیاں جاری رکھی گئیں بلکہ ان میں اضافہ ہوا۔ سالہا سال تک عراقی عوام پر ظلم ہوتا رہا، طبی امداد تک روک لی گئی اور عراقیوں کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جنگ بند کروانے والوں کے پیش نظر اپنے مالی یا دیگر مفادات نہ ہوں بلکہ محض امن کا قیام پیش نظر ہو۔
nor should their underlying intention ever be to line one‘s pockets or to exploit the conflict to advance vested interests پیس سمپوزیم ۲۰۲۳ء )۔)
پانچویں وجہ یہ بیان فرمائی کہ نفرت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ جبکہ قیام امن کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی اور مقدسات دین کا احترام ضروری ہے۔
we should seek mutual understanding, respect the beliefs of others and try to find common ground، پیس سمپوزیم ۲۰۱۷ء)۔)
آزادی رائے کے نام پر کسی مذہب کی مقدس کتاب کو جلانے یا اس کے بانی یا دیگر بزرگوں پر غلیظ حملے کرنے کا نتیجہ معاشرہ میں پھوٹ اور بد امنی ہی ہو سکتا ہے۔ تمام مذاہب کے مقدسات کو احترام حاصل ہونا چاہیے۔ چنانچہ اسلام نے غیر مذاہب کی عبادت گاہوں اور راہب خانوں اور مذہبی راہنماؤں کو تحفظ فراہم کیا ہے بلکہ مسلمانوں کو ان کا تحفظ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح خاص طور پر نشانہ بنا کر اسلامی پردہ یا مساجد پر پابندی کے قوانین بنائے جاتے ہیں تو ان کا نتیجہ بھی غلط ہی ہو گا۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے سے ہی امن قائم ہو سکتا ہے
respect the feelings of others so that the peace can be restored پیس سمپوزیم) ۲۰۱۰ء۔)
چھٹی وجہ یہ بیان فرمائی کہ خانہ جنگی اور دہشتگردی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ جہاں مسائل ہوں وہاں مقامی حکومت کے ساتھ تعلق استوار کر کے ان کو حل کرنا چاہیے نہ یہ کہ باغیوں کو اسلحہ فراہم کر کے جنگ لڑنے کی تربیت دی جائے۔
it would be far more effective for the major powers to support the local governments, by taking them into confidence and seeking to build a relationship of mutual trust… This will surely prove more effective than opposing the local governments by giving military training and weapons to the local rebels پیس سمپوزیم ۲۰۱۵ء )۔)
اس کی ایک مثال شام ہے جہاں باغیوں کو مدد دے کر حکومت وقت کے خلاف کھڑا کیا گیا اور اس کے نتیجہ میں جوبدامنی پھیلی اس میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور کروڑوں بےگھر ہوئے۔ اس کے نتیجہ میں یورپ کو مائیگریشن کا مسئلہ لاحق ہو گیا۔ یہی کچھ لیبیا، عراق وغیرہ میں کیا گیا۔ انتہا درجہ کی دہشتگرد، سفاک اور ظالمانہ تنظیم، داعش، کو لمبا عرصہ تک اسلحہ اور مال مل رہا تھا مگر ان کی ترسیل نہیں روکی گئی۔
ساتویں وجہ یہ بیان فرمائی کہ امن کی خاطر اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا حالانکہ اپنے حقوق پر ضرورت سے زیادہ سختی کے ساتھ اصرار کے نتیجہ میں دوسروں کے حقوق پر ضرب پڑتی اور اس کا نتیجہ بدامنی ہوتا ہے۔
if we seek to pursue our own interests at all costs, the rights of others will be usurped and this can only lead to conflict, wars and misery، پیس سمپوزیم ۲۰۱۷ء)۔)
سچ یہ ہے کہ اپنے حقوق چھوڑنا تو درکنار، اکثر اوقات تو اپنے حق سے بھی زیادہ پر اصرار ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ اپنی ذمہ داریوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا صرف حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ یوکرین کی حالیہ جنگ میں کہا جا رہا ہے کہ ہر ملک آزاد ہے وہ جس عسکری تنظیم کا چاہے ممبر بنے۔ بظاہر تو یہ بات معقول لگتی ہے لیکن درحقیقت غلط ہے۔ نہ صرف یہ کہ روس کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ نیٹو مشرق میں نہیں بڑھے گی، بلکہ موجودہ عالمی صورتحال میں روس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ براہ راست اپنی سرحد پر نیٹو کی افواج کو قبول کرے۔ چنانچہ دو سال سے جنگ جاری ہے جس میں بعض اندازوں کے مطابق دس لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں اور تعمیر نو کے لیے سینکڑوں ارب کی مزید ضرورت پڑے گی۔
آٹھویں وجہ یہ بیان فرمائی کہ دنیا کی موجودہ معاشی صورتحال تنگ ہو رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں بے چینی پھیل رہی ہے
one of the biggest causes of today‘s lack of peace is the current financial circumstances of the world, which have become extremely strained پیس سمپوزیم ۲۰۱۳ء )۔ )
جب بھی دنیا کی مالی صورتحال مشکلات کا شکار ہو، تو عوام حکومت کو قصوروار ٹھہراتی ہے کہ انہوں نے ٹھیک کام نہیں کیا اس لیے حالت خراب ہے۔ اس لیے حکومتیں، خواہ وہ بےقصور بھی ہوں، کوشش کرتی ہیں کہ خواہ کچھ ہو کسی طرح عوام کو راضی رکھا جا سکے۔ اس کے لیے خواہ مہنگے ناقابل واپسی قرضے لینے پڑیں، دوسروں کا استحصال کرنا پڑے یا عوام کی توجہ کسی اور جذباتی بات کی طرف موڑنی پڑے، ہر قسم کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ بدامنی پیدا کرنے کا تیر بہدف نسخہ ہے۔
حل کیا ہے؟
اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ یہ بات تو ظاہر ہے کہ جب بدامنی کی بنیاد ناانصافی اور دوہرے معیار پر ہے تو سب سے اول اور دیرپا حل تو انصاف کا قیام ہے۔ اور ایسا ہر سطح پر اور سب کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ خواہ کوئی ملک ہو، کوئی مذہبی گروہ ہو، اپنی عوام ہو یا غیر ملکی، بہر صورت مکمل انصاف کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ نے پیس سمپوزیم کے اکثر خطابات میں کامل انصاف (absolute justice) کی طرف توجہ دلائی ہے۔
دوسرا، اور زیادہ اہم، سوال یہ ہے کہ یہ کامل انصاف کیسے قائم ہو گا؟ کہنے کو تو سب طاقتیں یہی کہتی ہیں کہ ہم انصاف پر قائم ہیں۔ روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو کہا نیٹو نے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے اور یوکرائن میں روسی النسل لوگوں پر حملہ کیا ہے، اس لیے ہم جوابی کارروائی کے طور پر یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو کہا کہ یہ عین انصاف ہے کیونکہ پہلے حماس نے حملہ کیا تھا ہم تو جوابی کارروائی کے طور پر دہشتگردوں پر حملے کر رہے ہیں۔
اس ناانصافی اور دوہرے معیار کی وجہ یہ ہے کہ ان طاقتو ں اور ان کے ارباب حل و عقد کو خدا پر ایمان نہیں۔ یعنی حقیقی ایمان نہیں۔ کہنے کو بے شک کہتے رہیں کہ خدا ہے، بلکہ اب تو اکثر یہ کہنے کا تکلف بھی نہیں کرتے، حقیقت مگر یہی ہے کہ ان کو خدا پر ایمان نہیں۔ اس لیے نہ خدا کے سامنے جوابدہی کا خوف ہے، نہ بنی نوع انسان سے حقیقی ہمدردی ہے، نہ اپنے وسائل پر قانع ہیں، نہ سچ پر قائم ہیں، نہ دھوکا دینے سے چوکتے ہیں، نہ دوسروں کے حقوق کا خیال ہے۔ جب خدا پر ایمان ہی نہیں اور جوابدہی کا خیال ہی نہیں تو پھر یہی ہونا ہے جو ہو رہا ہے۔ اور اس کا وہی نتیجہ نکلنا ہے جو نظر آ رہا ہے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا کہ دنیا کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور اس کے حقوق ادا کرے۔
the world is in desperate need that it should adopt this attitude at every level, of recognising its Creator and fulfilling the rights due to His Creation پیس سمپوزیم ۲۰۱۱ء)۔)
نیز فرمایا کہ جب تک دنیا اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتی اور تسلیم نہیں کرتی کہ وہ تمام انسانوں کا رب ہے، انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔
unless the world comes to recognise its Creator and accepts Him as the Sustainer of mankind, true justice cannot prevail، پیس سمپوزیم) ۲۰۱۵ء۔)
اس کے بعد متعدد معین امور ضروری ہیں۔ اول یہ کہ کسی ادارہ پر سب کو اعتماد ہو، تب ہی مسائل کا منصفانہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کوئی ادارہ ہو گا تب ہی اس کا تجویز کردہ حل قبول کیا جائے گا۔ اس کے لیے کامل مساوات پر مبنی اعتماد قائم ہونا ضروری ہے۔
It is necessary to establish trust and build confidence and for this absolute equality must prevail. پیس سمپوزیم ۲۰۱۰ء )۔)
دوم یہ کہ ویٹو کا حق ختم ہونا ضروری ہے۔
All forms of veto powers should be removed پیس سمپوزیم ۲۰۱۰ء )۔)
جب تک ویٹو کی طاقت باقی رہے گی اور بعض ممالک دیگر پر فوقیت رکھتے ہوں گے، تو وہ اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہیں گے اور یوں مسائل کے منصفانہ حل کی راہ میں حائل ہوتے رہیں گے۔
سوم یہ کہ امیر و غریب کے درمیان تفریق کو ختم کیا جائے۔
Differences between the rich and developed and poor and developing countries must be eliminated (پیس سمپوزیم ۲۰۱۰ء۔)
جب تک امیر و غریب کے درمیان یہ فرق رہے گا یعنی ایک حد سے زیادہ رہے گا، اس وقت تک مائیگریشن، دوسروں کے وسائل پر قبضہ کی خواہش، ناجائز طریق پر ترقی کی کوشش وغیرہ امور بھی باقی رہیں گے اور ان کے ساتھ جڑے مسائل بھی۔
چہارم یہ کہ معاہدوں کا پاس کیا جائے۔ صرف معاہدوں کے الفاظ ہی کا نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی طور پر جو معاہدہ کی غرض تھی اور جو اس کے مقاصد تھے ان کو پیش نظر رکھ کر ان پر مکمل عمل کیا جائے۔
We need to be loyal to our covenants, our obligations and our status, and this loyalty can only occur when it is followed to the letter and spirit of the law پیس سمپوزیم ۲۰۱۰ء )۔ )
معاہدوں کا پاس نہ کرنا بدامنی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اوپر یوکرائن جنگ کا ذکر ہو چکا ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ نیٹو ممالک نے ان معاہدوں کا پاس نہیں کیا جو روس کے ساتھ کیے گئے تھے مختلف بہانے ڈھونڈ لیے جاتے ہیں کہ فلاں معاہدہ میں فلاں شق نہیں تھی، وہ صرف اضافی پروٹوکول میں درج ہے۔ فلاں بات صرف زبانی ہوئی تھی۔ وغیرہ۔ بات زبانی تھی یا تحریری، معاہدے کے متن میں تھی یا اضافی پروٹوکول میں، جب یہ طے پایا تھا کہ نیٹو مشرق کی طرف مزید نہیں بڑھے گی تو پھر ایسا کرنا معاہدوں کی خلاف ورزی ہی کہلائے گا۔ جب تک روس کمزور تھا نیٹو نے جو چاہا کیا، اب روس اپنے قدموں پر واپس کھڑا ہو چکا ہے تو وہی ہو رہا ہے جو ہونا تھا۔ اسی بات کو ایک اور جگہ پر یوں بیان فرمایا کہ امن کی بنیاد دیانتداری، بلند اخلاق اور انصاف پر ہی ہوتی ہے۔
peace can only be built upon the solid foundations of honesty, integrity and justice. These are the keys to peace پیس سمپوزیم ۲۰۱۵ء)۔ )
قانونی حیلوں بہانوں اور سفارتی زبان کی چالاکیوں سے دیانتداری اور بلند اخلاق کا کیا لینا دینا؟
پنجم یہ کہ حکومتوں کو ان معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے جہاں کسی کے حقوق تلف نہ ہو رہے ہوں۔
The governments should not interfere where rights are not being violated. No laws should be proscribed regarding those matters that do not endanger the peace of the nation. پیس سمپوزیم ۲۰۱۰ء )۔ )
یہ اصول کسی ملک کی حکومت کے لیے بھی ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے بھی۔ جب تک کسی دوسرے شہری کے حقوق متاثر نہیں ہو رہے، اس وقت تک حکومت کو کسی شخص کے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ اس کے مذہبی، سیاسی، معاشی، یا دیگر خیالات میں اسے مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ پابندیاں وہاں لگنی چاہئیں جہاں کسی دوسرے کے حقوق پر زد پڑتی ہو۔ اسی طرح کسی ملک کو دوسرے ملک کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے سوائے اس کے کہ وہاں کے عوام کے حقوق سلب ہو رہے ہوں۔ اگر کوئی حکومت اپنے ہی عوام پر ظلم کرے، تو بہرحال بین الاقوامی اداروں کو دخل دے کر اس ظلم کو روکنا چاہیے۔ لیکن ایسا صرف انصاف پر مبنی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ہی ہو، جس کے لیے پھر ایک قابل اعتماد ادارہ کا ہونا ضروری ہے۔
ششم یہ کہ جس حد تک ممکن ہو اتحاد قائم کیا جائے۔
peace can best be achieved through unity پیس سمپوزیم ۲۰۱۹ء )۔)
اس میں ہر طرح کا اتحاد شامل ہے خواہ وہ کرنسی کا اتحاد ہو، کاروبار کا اتحاد ہو، ویزہ کا اتحاد ہو یا کچھ اور
In terms of currency, the world should be united…In terms of free business and trade, the world should be united and in terms of freedom of movement and immigration, cohesive and practical policies should be developed, so that the world can become united. پیس سمپوزیم ۲۰۱۹ء)۔)
انصاف کون کر سکتا ہے؟
اگلا سوال یہ ہے کہ انصاف کون کرے گا؟ مندرجہ بالا باتوں سے ظاہر ہے کہ منصفانہ ترین فیصلے وہی ہو سکتے ہیں جو کسی قسم کی جانب داری کے بغیر کیے جائیں۔ دنیا کے کم و بیش تمام ممالک کے اپنے مفادات ہیں۔ اگر کسی ملک کے سربراہ نیک و انصاف پسند ہوں تب بھی اس بات کا امکان ہے کہ ان کے فیصلوں میں ملکی مفاد غیرارادی طور پر در آئے۔ پس درحقیقت انصاف وہی کر سکتے ہیں جو شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ (النور:۳۶) سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے، جو امن بخشنے والا، ہر قسم کے شرق و غرب سے بالا اور بنی نوع انسان کی حقیقی بھلائی چاہنے والا اور ان کا خالق اور رب ہے۔ جو فرد بھی جس حد تک اس کامل انصاف کرنے والے کے قریب ہوگا اتنا ہی اس نور سے حصہ لے گا جو نہ شرقی ہے نہ غربی اور اسی حد تک اس کے فیصلے تعصبات سے پاک اور اتنا ہی زیادہ مبنی برانصاف اور اتنا ہی زیادہ امن قائم کرنے والے ہوں گے۔
ہماری ذمہ داری
دنیا کی موجودہ صورت حال میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ فرمایا ہمیں مایوس ہو کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے بلکہ مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے کہ حکومت کو توجہ دلاتے رہیں اور مختلف گروہوں کو بھی کہ وہ کامل انصاف سے کام لیں۔
all of this does not mean that we should simply become frustrated, and give up and abandon all our efforts. Instead, it should be our objective, whilst remaining within the laws of the land, to continue to remind the government of the needs of the time. We must also properly advise those groups who have vested interests, so that at a global level, justice can prevail پیس سمپوزیم ۲۰۱۲ء)۔)
پس مسلسل اس بات کی طرف توجہ دلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ گو اس وقت ہماری بات سننے والا شاید ہی کوئی ہو۔ اور ہماری حیثیت اور عالمی تناظر میں ہماری اہمیت نہ ہونے کے برابر ہو، لیکن ہم نے بہرحال اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ پھر فرمایا کہ ہمیں ہار نہیں ماننی چاہیے۔ اگر ہم خاموش ہو گئے تو ہم ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کی کوئی اخلاقی اقدار ہی نہیں۔ خواہ کوئی سنے یا نہ سنے ہمیں امن کی طرف بلاتے چلے جانا چاہیے
we cannot and must not give up our efforts. If we stop raising our voices against cruelty and injustice, then we will become amongst those who have no moral values or standards whatsoever. Whether or not our voices are likely to be heard or have influence is irrelevant. We must continue to counsel others towards peace پیس سمپوزیم ۲۰۱۲ء)۔)
فرمایا: اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب انسانی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں تب خدائی تقدیر چلنا شروع ہو جاتی ہے
We must remember that when human efforts fail, then God Almighty issues His Decree to determine the fate of mankind، (پیس سمپوزیم ۲۰۱۲ء۔ )
اور جب خدا باوجود رحمان و رحیم ہونے کے، اور باوجود انسانوں کی بھلائی چاہنے اور ان کو ہدایت کی راہ دکھانے کے، کوئی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائے تو پھر وہ ایسی سخت سزا دیتا ہے جس کا نتیجہ خوفناک اور بھیانک ہوتا ہے۔
when God Almighty is forced to take action, then His Wrath seizes mankind in a truly severe and terrifying manner پیس سمپوزیم ۲۰۱۲ء)۔)
پس بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ان کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔