بدظنی سے رشتوں میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں
ایک برائی بدگمانی ہے، بدظنی ہے، خود ہی کسی کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ فلاں دو آدمی فلاں جگہ بیٹھے تھے اس لئے وہ ضرور کسی سازش کی پلاننگ کر رہے ہوں گے یا کسی برائی میں مبتلا ہوں گے۔ اور پھر اس پر ایک ایسی کہانی گھڑ لی جاتی ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اور پھر اس سے رشتوں میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں۔ دوستوں کے تعلقات میں بھی دراڑیں پڑتی ہیں۔ معاشرے میں بھی فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس برائی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوۡا (الحجرات:13) کہ اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور تجسس سے کام نہ لیا کرو۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اسی سے ذاتی تعلقات میں بہتری کی بنیاد قائم رہے گی اور اسی سے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو گا۔ بعض لوگ بعض کے بارے میں بدظنیاں صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ذلیل کیا جائے اور دوسروں کی نظروں سے گرایاجائے اور اگر کسی جماعتی عہدیدار سے یا خلیفہ ٔوقت سے اس کا خاص تعلق ہے تو اس تعلق میں دُوری پیدا کی جائے اور اکثر پیچھے ذاتی عناد ہوتا ہے۔ جب بدظنیاں شروع ہوتی ہیں تو پھر تجسس بھی بڑھتا ہے اور پھر ہر وقت یہ بدظنیاں کرنے والے اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسرے کے نقائص پکڑیں اور اس کی بدنامی کریں۔ ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک بادشاہ محمود غزنوی کا ایک خاص جرنیل تھا۔ بڑا قریبی آدمی تھا۔ اس کا نام ایاز تھا۔ انتہائی و فادار تھا اور اپنی اوقات بھی یاد رکھنے والا تھا۔ اس کو پتہ تھا کہ مَیں کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کرنے والا تھا اور بادشاہ کے احسانوں کو بھی یاد رکھنے والا تھا۔ ایک دفعہ ایک معرکے سے واپسی پر جب بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ جا رہا تھا تو اس نے ایک جگہ پڑاؤ کے بعد دیکھا کہ ایاز اپنے دستے کے ساتھ غائب ہے۔ تو اس نے باقی جرنیلوں سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے تو ارد گرد کے جود وسرے لوگ خوشامد پسند تھے اور ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اس کوبادشاہ کی نظروں سے گرایا جائے اور ایاز کے عیب تلاش کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا کہ بادشاہ کو اس سے بدظن کریں۔ اپنی بدظنی کے گناہ میں بادشاہ کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے فوراً ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جس سے بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا ہو۔ بادشاہ کو بہرحال اپنے وفادار خادم کا پتہ تھا۔ بدظن نہیں ہوا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تھوڑی دیر دیکھتے ہیں۔ آ جائے گا تو پھر پوچھ لیں گے کہ کہاں گیا تھا۔ اتنے میں دیکھا تو وہ کمانڈر اپنے دستے کے ساتھ واپس آ رہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قیدی بھی ہے۔ تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ مَیں نے دیکھا کہ آپ کی نظر بار بار سامنے والے پہاڑ کی طرف اٹھ رہی تھی تو مجھے خیال آیا ضرور کوئی بات ہو گی مجھے چیک کر لینا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے، تو جب مَیں گیا تو مَیں نے دیکھا کہ یہ شخص جس کو میں قیدی بنا کر لایا ہوں ایک پتھر کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں تیرکمان تھی تاکہ جب بادشاہ کا وہاں سے گزر ہو تو وہ تیر کا وار آپ پر چلائے۔ تو جو سب باقی سردار وہاں بیٹھے تھے جو بدظنیاں کر رہے تھے اور بادشاہ کے دل میں بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب اس بات پر شرمندہ ہوئے۔ (خطبہ جمعہ ۲۶؍مئی ۲۰۰۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍جون ۲۰۰۶ء)