بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۸۰)
٭…کیا نماز سے قبل امام کا تکبیر کے لیے کہنا ضروری ہے؟
٭…سورۃ المومن کی ایک آیت کی وضاحت
٭…شرطی طلاق کے بارے میں راہنمائی
٭…کیا خواتین قبرستان میں موجود جنازہ گاہ میں نماز جنازہ ادا کر سکتی ہیں
٭…حضرت محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ کے بارے میں راہنمائی
٭…قرآنی سورتوں کے مختلف اسماء کے بارے میں وضاحت
سوال: فرانس سے ایک دوست نے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اس سوال پر مشتمل عریضہ تحریر کیا کہ نماز پڑھانے سے قبل امام کو مصلّے پر کھڑے ہو کر یہ کہنا چاہیے کہ اب اقامت کہی جائے، کیونکہ بعض جگہوں پر جب تک امام کھڑا ہو کر یہ نہ کہے کہ تکبیر کہی جائے، تکبیر نہیں بولی جاتی۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 17؍فروری 2023ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: قرآن و حدیث میں ایسی کوئی ہدایت نہیں ملتی کہ امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصلے پر کھڑے ہو کر تکبیر کہنے کے لیے کہے تو تکبیر کہی جائے۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ موقع اور محل کے مطابق ان کاموں کو کیا جاتا ہے۔ نمازباجماعت بھی ایسی چیزہے جس میں امام کی اقتدا لازمی امر ہے۔ اسی لیے حضورﷺ نے صحابہ ؓکو ہدایت فرمائی کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو جب تک میں نماز کے لیے اپنی جگہ پر نہ پہنچ جاؤں تم کھڑے نہ ہوا کرو۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان بَاب مَتَى يَقُومُ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْإِمَامَ عِنْدَ الْإِقَامَةِ)
یہاں پر حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جب تک میں یہ نہ کہوں کہ تکبیر کہو، تکبیر نہ کہی جائے۔
باقی اگر کسی موقع پر بوقت ضرورت امام مؤذن کواقامت کہنے کی طرف توجہ دلانے کے لیے اقامت کہنے کے لیے کہہ دے یا حسب حالات نمازوں کے جمع ہونے کی صورت میں یا کسی اور وجہ سے مقتدیوں کو نماز کا بتانے کی غرض سے یاصفیں درست کرنے کے لیے نماز کا اعلان کر دے تو اس میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں۔
سوال: ناروے سے ایک دوست نے سورۃ المومن کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اس سورت میں آیا ہے کہ’’وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر لوتھڑے سے، پھر تمہیں بچہ کی صورت میں باہر نکالتا ہے۔‘‘سوال یہ ہے کہ اس آیت میں روح کے بچہ میں داخل ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کی کیا حکمت ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 28؍فروری 2023ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: قرآن کریم کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کی آسانی کے لیے اپنے مضامین کو بار بار اور الگ الگ پیرایوں میں بیان کرتا ہے تا کہ وہ اس کلام کو سمجھ کر اس سے نصیحت حاصل کر سکیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ھٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِیَذَّکَّرُوۡا۔ (بنی اسرائیل:42)یعنی ہم نے اس قرآن میں (ہر ایک بات کو) اس لیے بار بار بیان کیا ہے کہ وہ (اس سے) نصیحت حاصل کریں۔اسی طرح فرمایا: وَلَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ھٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ۔ (الکہف:55) یعنی ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے یقیناً ہر ایک (ضروری) بات کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔
انسانی تخلیق کا مضمون بھی چونکہ ایک اہم مضمون ہے اور اس کا انسان کے روحانی مدارج کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی تصانیف میں قرآن کریم کے حوالہ سے انسان کے جسمانی اور روحانی مدارج نیز علم الابدان اور علم الادیان کے تعلق کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 186تا 244۔اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 322،321۔چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 102، 103)
پس اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کے مضمون کو قرآن کریم میں مختلف جگہوں اور مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ موت کے بعد دوبارے اٹھائے جانے کے متعلق پیدا ہونے والے شبہ کے ازالہ کے لیے سورۃ الحج کی آیت نمبر6 میں انسانی تخلیق کی مٹی کے ذریعہ پیدائش سے لے کر اس کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کی ایسی انتہائی عمر تک پہنچنے کے مضمون کو بیان فرمایا ہے جس میں ایک علم رکھنے والا شخص بھی علم سے بالکل کورا ہو جاتا ہے۔پھر سورۃ المومنون کی آیت 13 تا 17 میں اس مضمون کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَکے الفاظ میں جسم میں روح کے نمودار ہونے کے مضمون کو بیان فرمایا ہے۔ اور سورۃ المومن جس کا آپ نے بھی اپنے خط میں ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کے مختلف قسم کے ارضی و سماوی ثبوتوں کے ساتھ انسانی تخلیق کو بھی اپنی ہستی کے ثبوت کے طور پر بیان فرمایا اور اس میں انسان کے مٹی سے پیدا ہونے اور نطفہ اور علقہ کے مراحل سے گزرنے کے بعد بچہ کی صورت میں پیدا ہونے اور پھر عام بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ یہ بیان فرمایا کہ کچھ لوگ اپنی عمر کی آخری حد تک پہنچتے ہیں اور کچھ پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا قرآن کریم نے اس مضمون کو جو مختلف جگہوں پر مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے، ہر جگہ اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ اس لیے کسی جگہ اس کی تفصیل بیان فرما دی ہے اور کسی جگہ اسے اجمالاً بیان فرمایاہے۔ لیکن چونکہ قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی تفسیر بھی کرتا ہے، اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کریم نے جو مضامین بیان فرمائے ہیں ان میں کوئی تشنگی ہے۔ قرآن کریم میں بیان ہونے والے مضامین بحیثیت مجموعی مکمل صورت میں بیان ہوئے ہیں۔
سوال: لبنان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ اگر تم بیٹی کے گھر گئی تو تمہیں طلاق ہوگی۔ پھر بچوں نے بتایا کہ میری بیوی بیٹی کے گھر گئی ہے، گو وہ اس سے انکار کرتی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ گئی ہے۔ کیاایسی صورت میں طلاق واقع ہو جائے گی؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۶؍مارچ 2023ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب: شرعی لحاظ سےشرطی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’اگرشرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اور وہ بات ہوجائے تو پھر واقعی طلاق ہو جاتی ہے۔‘‘(اخبار بدر نمبر21، جلد 2، مورخہ 12 جون 1903ء صفحہ 160)
آپ نے بھی اپنی طلاق کو بیوی کے بیٹی کے گھر جانے کے ساتھ مشروط کیا تھا۔ پس اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ آپ کی بیوی بیٹی کے گھر گئی ہے تو آپ کی طرف سے آپ کی بیوی کو ایک طلاق ہو جائے گی۔
لیکن چونکہ یہ پہلی طلاق ہے اس لیے اگر آپ چاہیں تو عدت کے دوران رجوع کر سکتے ہیں۔ اس رجوع کے لیے کسی قسم کے نکاح کی ضرورت نہیں۔
سوال: محترم امیر صاحب بیلجیم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ بیلجیم میں جگہ کم ہونے کی وجہ سے عموماً قبرستان میں ہی ایک طرف تدفین سے قبل نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ کیا ایسی صورت میں خواتین قبرستان میں موجود جنازہ گاہ میں نماز جنازہ ادا کر سکتی ہیں بشرطیکہ وہ نماز جنازہ پڑھ کر باہر چلی جائیں اور تدفین میں شامل نہ ہوں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۶؍مارچ 2023ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب: عام حالات میں عورتوں کا جنازہ کے ساتھ جانا پسند نہیں کیا گیا، لیکن اسے حرام بھی قرار نہیں دیا گیا۔ چنانچہ حضرت ام عطیہ ؓکہتی ہیں کہ ہم عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے سے منع کیا جاتا تھا لیکن اس معاملہ میں ہم پر سختی نہیں کی جاتی تھی۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الْجَنَائِزَ)
نیز کسی مجبوری کے تحت جنازہ کے ساتھ آنے والی کسی عورت کو اگر حضور ﷺ نے دیکھا تو آپؐ نے اس سے درگذر فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ)
زمانہ جاہلیت میں میت پر نوحہ کا بہت زیادہ رواج تھا اور زیادہ تر نوحہ عورتیں ہی کیا کرتی تھی۔ اسلام نے نوحہ کو حرام قرار دیا(صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب لَيْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الْجُيُوبَ) اور عورتوں کو عموماً میت کے ساتھ قبرستان جانے سے منع کر دیا تا کہ ان میں سے کوئی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے تدفین کے وقت واویلے کی صورت پیدا نہ کردے۔علماء سلف اور فقہاء نے بھی خواتین کے جنازہ کے ساتھ جانے کو عام حالات میں ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک اور آپ کے بعد خلفائے احمدیت کے زمانہ میں عموماً یہی طریق رہا ہے کہ اگر جمعہ یا کسی نماز کے موقعہ پر عورتیں موجود ہوں اور وہاں نماز جنازہ ہو رہی ہو تو ایسی صورت میں عورتوں کو الگ انتظام کے ساتھ نماز جنازہ میں تو شامل ہونے دیا جاتا ہے لیکن تدفین کے وقت عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے کی عام اجازت نہیں دی جاتی۔ اور نہ ہی عورتوں کو تدفین کے عمل میں شامل کیا جاتا ہے۔
پس ان ہدایات کے تابع عام حالات میں تو عورتیں جنازہ کے ساتھ نہیں جاتیں۔ لیکن بعض اوقات کچھ لوگ جو سیدھے قبرستان آ رہے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ عورتیں بھی ہوتی ہیں اور وہ ایسے قریبی عزیز ہوتے ہیں کہ انہیں میت کا چہرہ دیکھنے کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ اسی طرح مغربی ممالک میں جہاں اکثر اوقات ایسی صورت ہوتی ہے کہ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی مساجد میں نمازوغیرہ کے لیے آئی ہوتی ہیں، وہاں اگر جنازہ بھی ہو تو مردوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ عورتوں کو گھر چھوڑ کر پھر تدفین میں شامل ہوں۔ یا جیسے آپ نے اپنے خط میں تحریر کیا ہے کہ بعض اوقات نماز جنازہ کا انتظام قبرستان میں ہی ہوتا ہے اور وہاں بعض مردوں کے ساتھ خواتین بھی مجبوراً آ جاتی ہیں تو ایسی مجبوری کی صورت میں اگر عورتیں الگ انتظام کے تحت مردوں کے پیچھے کچھ فاصلہ پر اپنی صف بنا کر نماز جنازہ پڑھ لیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ تدفین کے کسی عمل میں شامل نہیں ہوں گی بلکہ تدفین کے وقت الگ رہیں گی اور تدفین مکمل ہونے پر دعا میں شامل ہو سکتی ہیں۔
سوال: یوکے سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے محمد بن عبدالوہاب نجدیؒ کو بزرگ کیوں کہا ہے، جس کا ایک جماعتی کتاب میں مجدد کے لفظ سے ترجمہ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور دیگر خلفاء نے اس شخص کے بارے میں ایسا کچھ نہیں فرمایا۔ نیز میرے نزدیک یہ شخص مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے والا تھا اور لوگوں کے کفر کے فتوے عام جاری کر دیتا تھا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 6؍مارچ 2023ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اصل بات یہ ہے کہ حضرت محمد بن عبدالوہاب نجدیؒ کے بارے میں آپ کی معلومات درست نہیں ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بندوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں دین اسلام کی تجدید اور مسلمانوں کی ہدایت کے لیے منتخب فرمایا۔ یہ درست ہے کہ ان کے مخالفین نے ان پر طرح طرح کےغلط الزامات لگائے ہیں جو پوری طرح سچائی پر مبنی نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ ان کے بعد ان کے پیروکاروں نے ان کی دی ہوئی تعلیم میں شدت پسندی کو شامل کر دیا جس میں حضرت محمد بن عبدالوہاب نجدیؒ کا کوئی قصور نہیں، کیونکہ انہوں نے تو اپنے پیروکاروں کو قرآن کریم اور آنحضور ﷺ کی دی ہوئی تعلیم پر ہی عمل پیرا ہونے کی تلقین کی تھی۔
باقی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد بن عبدالوہاب نجدیؒ کے لیے صرف بزرگ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ حضورؒ نے ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ’’حضرت امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے موحد بزرگ گزرے ہیں، مسلمانان حجاز کی بھاری اکثریت ان کوبارھویں صدی کا مجدد تسلیم کرتی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ مورخہ 17؍مئی 1985ء، خطبات طاہر جلد 4 صفحہ 461)
پھر آپ نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کسی اور خلیفہ نے امام محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں ایسا کچھ نہیں لکھا، تو آپ کی یہ بات بھی درست نہیں۔ کیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان کی بہت تعریف بیان فرمائی ہے اور انہیں حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے ہم مرتبہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضور ؓ فرماتے ہیں:
1115ھ مطابق 1691ء کو ایک بچہ نجد کے شہر عیانہ میں پیدا ہوا۔جس کا نام محمد رکھا گیا۔ خدا تعالیٰ نے اس بچہ کی قسمت میں عرب کے اندر سینکڑوں سال کی موت کے بعد ہیجان پیدا کرنے کا کام مقرر فرمایا تھا۔یہ زمانہ وہ تھا کہ اسلام پر شرک کی گھٹائیں چھا رہی تھیں اور رسوم اور بدعات کا کوئی ٹھکانا نہ رہا تھا۔خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑک رہی تھی اور تمام اسلامی ممالک میں اسلامی محبت سے پُردل،فکر و اندوہ کا شکار ہو رہے تھے۔ تب خدا تعالیٰ کی غیرت نے مختلف ممالک میں مختلف لوگ مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے پیدا کئے۔ہندوستان میں شاہ ولی اللہ صاحب پیدا ہوئے۔عرب میں خدا تعالیٰ نے محمد بن عبدالوہاب کو چنا۔آپ اپنی جوانی کی عمر میں ہی علم کے شوق میں اپنے وطن کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ اور پہلے عراق کے شہروں میں تعلیم پاتے رہے، بعد میں دمشق اور مدینہ منورہ میں تکمیل تعلیم کے لیے چلے گئے۔ وہاں انہوں نے اس وقت کے مشہور علماء سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اپنے وطن نجد کو واپس آئے۔ نجد کی مذہبی حالت اس وقت ناگفتہ بہ تھی۔ لوگ دین سے بالکل بے بہرہ تھے۔ شرک اس قدر عام تھا کہ پتھروں کی پوجا تک شروع ہوگئی تھی انہوں نے وطن پہنچتے ہی توحید کا وعظ کرناشروع کر دیا۔اور اپنی زندگی کو بدعات اور رسوم کے مٹانے کے لیے وقف کر دیا۔جیسا کہ قاعدہ ہے ان کی مخالفت ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے محمد ابن سعود کو جو دراعید کے رئیس تھے۔ان کی تعلیم کے قبول کرنے کے لیے شرح صدر دے دیا۔ انہوں نے اس طریق کو قبول کرتے ہی اس کی اشاعت پر اس جوش سے زور دینا شروع کیا کہ تھوڑے ہی دنوں میں محمد بن عبدالوہاب کا طریقہ اس علاقہ میں پھیل گیا۔ (حج بیت اللہ اور فتنہ حجاز، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 73،72)
پس حضرت محمد بن عبدالوہاب نجدیؒ اپنے وقت کے ایک سچے اور موحد بزرگ تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصرت کے لیے چنا تھا، ان کے مخالفین نے ان پر جو غلط الزام لگائے یا ان کے متبعین نے ان کی دی ہوئی تعلیمات میں اگر شدت پسندی کو داخل کر دیا ہے تو اس میں اس نیک بزرگ کا کوئی قصور نہیں۔
سوال: کینیڈا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ قرآن کریم کے بعض نسخوں میں سورۃ الدھر کا نام الانسان اور سورۃ اللہب کا نام المسد لکھا دیکھا جس کی وجہ سے بہت پریشانی ہوئی کہ ہم تو قرآن کریم کی کوئی زیر زبر بھی تبدیل نہیں کر سکتے تو یہ نام کس طرح تبدیل ہو گئے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 06؍مارچ 2023ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم کی بعض سورتوں کے ایک سے زائد نام احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ چنانچہ سورۃ الفاتحہ کے لیےام القرآن،السبع المثانی، القرآن العظیم (صحیح بخاری کتاب التفسیر بَاب قَوْلِهِ وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمْ، فاتحۃ الکتاب (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا بَاب فَضْلِ الْفَاتِحَةِ وَخَوَاتِيمِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ)اورامّ الکتاب (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ بَاب فَاتِحَةِ الْكِتَابِ) وغیرہ نام احادیث میں مروی ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی تفسیر کبیر میں احادیث کے حوالہ سے سورۃ الفاتحہ کے متعدد نام بیان فرمائے ہیں، جن میں سورۃ الصّلوٰۃ، سورۃ الحمد، امّ القرآن، القرآن العظیم، السبع المثانی،امّ الکتاب، الشفاء، الرقیہ اورسورۃ الکنز شامل ہیں۔(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 4،3۔مطبوعہ 2023ء یوکے)
نیز حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قرآنی سورتوں کے ناموں کے متعلق ایک اصولی بات یہ بھی فرمائی کہ ’’سورتوں کے نام بھی رسول کریم ﷺ کے رکھے ہوئے ہیں اور جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعض ناموں سے ثابت ہے۔ آپؐ نے بھی وہ نام الہاماً اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر رکھے ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 5۔ مطبوعہ 2023ء یوکے)
پس جس طرح سورۃ فاتحہ کے مختلف نام ہیں اسی طرح قرآن کریم کی بعض دوسری سورتوں کے بھی ایک سے زائد نام ہیں جیسا کہ سورۃ الاخلاص کے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مختلف تفسیروں کے حوالہ سے انیس نام تفسیر کبیر میں درج فرمائے ہیں۔(تفسیر کبیر جلد نمبر 15، صفحہ 370 تا 373۔مطبوعہ 2023ء یوکے)
قرآنی سورتوں کے ناموں کے بارے میں اکثر علماء بھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ نام نبی کریم ﷺ سے ثابت ہیں۔ چنانچہ مشہور مفسر علامہ ابن جریر طبریؒ کہتے ہیں کہ’’قرآن کریم کی سورتوں کے جو نام ہیں وہ رسول کریم ﷺ نے رکھے ہیں۔‘‘(تفسیر طبری، مقدمات، القول في تأويل أسماء القرآن وسُوَره وآيهِ)
اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی ؒ لکھتے ہیں کہ’’تمام سورتوں کے ناموں کی توثیق احادیث اور آثار سے ثابت ہے، اگر طوالت کا خدشہ نہ ہوتا تو میں اسے تفصیل سے بیان کرتا۔‘‘اس کے بعد علامہ سیوطی ؒنے اپنی کتاب کی اس فصل میں مختلف صحابہ کے حوالہ سے سورتوں کے نام درج کیے ہیں اور کئی سورتوں کے ایک سے زائد نام بھی لکھے ہیں۔ مثلاً سورۃ الاسراء کا نام سورۃ بنی اسرائیل، سورۃ التوبہ کا نام سورۃ براءۃ، سورۃ المومن کا نام سورۃ غافر، سورۃ اللہب کا نام سورۃ تبت اور سورۃ المسد وغیرہ۔(کتاب الاتقان فی علوم القرآن، النوع السابع عشر فی معرفۃ اسمائہ و اسماء سورہ۔ فصل فی اسماء السور۔ جلد 1 صفحہ 186)
پس خلاصہ کلام یہ کہ احادیث اور تفاسیر کی کتب میں بعض قرآنی سورتوں کے ایک سے زائد نام بیان ہوئے ہیں، جو آنحضورﷺ کے زمانہ سے ہی ثابت ہیں۔ لہٰذا اگر قرآن کریم کے کسی نسخہ میں ان ناموں میں سے کوئی نام کسی سورت کے لیے لکھا ہوا ہے تو اس میں پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے، وہ نام بھی درست ہے اور حضورﷺ کے عہد مبارک سے ہی مروی ہے۔