وسعتِ کائنات
آخری زمانہ کی پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی یہ بھی تھی کہ آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی،(التکویر:۱۲) یعنی اس کے اسرار سے پردہ اٹھایا جائے گا۔ آئیے! آج کے اس مضمون میں اس پہلو کو دیکھتے ہیں کہ آسمان کیا ہے اور ہماری حیثیت اس ساری کائنات کے مقابل پر کتنی ہے۔ نیز ہم قرآن کریم اور احادیث نبویہؐ سے بھی استفادہ کریں گے اور قارئین کو ان دونوں کی صداقت کا عملی ثبوت دیں گے۔ وماتوفیقی الّاباللہ
قرآن کریم میں 129؍ جگہ پر السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی 129؍ جگہ زمین کے ذکر کے ساتھ آسمانوں کا ذکر کیا اور ہر جگہ جمع کا صیغہ استعمال کیا۔ ہر جگہ بتا دیا کہ آسمان صرف وہی نہیں جو انسان کو نظر آ رہا ہے۔
آئیے! پہلے سائنسی اعتبار سے آسمانوں کی وسعت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر آیات اور احادیث سے اس پر بحث کریں گے۔
یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں اس کا قطر خط استوا پر بارہ ہزار742؍ کلومیٹر ہے۔ بظاہر دیکھنے میں یہ بہت وسیع رقبہ ہے۔ مگر اس کی وسعت کی حیثیت انسانوں کے لیے ہے۔ یہ زمین اپنے پیدا کرنے والے کے نزدیک ایک ذرّہ کے برابر بھی وسعت نہیں رکھتی۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ کیسے۔
خلا میں روشنی کی رفتار 299,792؍ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے، موازنہ کرنے کے لیے یوں سمجھیں کہ روشنی ایک سیکنڈ میں زمین کے گرد 7،5 بار گھوم سکتی ہے۔ اب تک انسان کی بنائی گئی سب سے تیز مشین پارکر سولر پروب ہے ( جو ایک خلائی سیٹلائٹ تھی، جسے سورج پر تحقیق کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا) اس کی رفتار ۶۸.6؍ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جیسا کہ گنیز ورلڈ ریکارڈز میں درج ہے، جو کہ اب تک کی تیز ترین انسانی ساختہ چیز ہے کیونکہ یہ روشنی کی رفتار کا تقریباً ۰.۰۰۰۲واں حصہ ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ رفتار بھی اس کے انجن نے حاصل نہیں کی بلکہ سورج کی کشش ثقل نے اس کو اپنے گرد اتنا تیز گھمایا ہے۔ اب چاند کو دیکھتے ہیں یہ ہمارے اتنا قریب ہے کہ ہمیں یہ ننگی آنکھ سے نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔اس کا قطر 3,474.8 کلومیٹرز ہے۔ یہ زمین سے 384,400 کلومیٹرز کے فاصلے پر مدار میں پایا جا تا ہے۔ روشنی کو زمین سے چاند تک پہنچنے میں تقریباً 1.3 سیکنڈ لگتے ہیں۔ انسان یہ سفر ایک سیدھی سڑک کی طرح طے نہیں کر سکتا، ہر خلائی جہاز کو پہلے زمین کی کشش ثقل سے باہر نکلنا پڑتا ہے اور پھر چاند کی کشش ثقل میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ 2023ء میں انڈیا نے اپنا خلائی مشن چاند پر بھیجا جس کو چالیس دن لگے (یہ وہی فاصلہ ہے جسے خدا کی بنائی ہوئی روشنی نے 1.3؍ سیکنڈ میں عبور کر لیا تھا)۔ آئیے! اب سورج کو دیکھتے ہیں۔سورج ہمارے شمسی نظام کے مرکز میں ستارہ ہے۔ ہمارا سیارہ زمین اور باقی آٹھ سیارے اپنے درجنوں چاندوں اور لاکھوں سیارچے ( ایسٹروائیڈز) کے ساتھ اس کے گرد مدار میں گردش کر رہے ہیں، جس سے ایک شمسی نظام بنتا ہے۔ زمین کا سورج سے اندازاً فاصلہ 149,597,870 کلومیٹرہے۔ سورج سے زمین تک روشنی کو پہنچنے میں اوسطاً آٹھ منٹ اور 20 سیکنڈ لگتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب بھی ہم اپنے سورج کو دیکھتے ہیں، ہم اس کا آٹھ منٹ 20 سیکنڈ ماضی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پلوٹو ہمارے شمسی نظام کا آخری سیارہ ہے۔ پلوٹو زمین سے 7.5؍ بلین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ خود روشنی کو زمین سے پلوٹو تک پہنچنے میں 4.6؍ گھنٹے لگتے ہیں۔ جب بھی انسان خلا کی بات کرے گا تو 1977ء کا ناسا کا خلائی پروگرام کبھی نہیں بھول سکتا۔ وائجر-1 ایک خلائی جہاز تھا جو ناسا نے 5؍ ستمبر 1977ء کو لانچ کیا تھا۔ وائجر پروگرام کے تحت بیرونی شمسی نظام کا مطالعہ کرنے کے لیے، وائجر-1 کو اس کے جڑواں وائجر-۲ کے 16 دن بعد لانچ کیا گیا تھا۔ 1977ء کے لانچ کے بعد سے اپنے 40 سال سے زیادہ کے سفر پر، وائجر-1 اس وقت زمین سے 22؍ بلین کلومیٹر دُور ہے (زمین سے آخری سیارہ پلوٹو سے 4؍ گنا زیادہ دُور) اور وائجر-۲ زمین سے 18.2؍ بلین کلومیٹر دور ہے۔ وائجر-1 کی رفتار 17 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جبکہ وائجر 2 خلا میں 15 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ وائجر-1 (Voyger 1) اگست 2012ء میں نظام شمسی سے باہر نکلا تھا اور دو ستاروں کے درمیان کی خلا میں داخل ہوا تھا۔ گویا اس کو 34 سال اور 11 ماہ لگے صرف اس نظام شمسی سے باہر جانے میں (جس کو خدا کی بنائی ہوئی روشنی صرف 5 گھنٹے میں عبور کر لیتی ہے )۔ہمارے سورج سے قریب ترین ستارہ ایلفا سنٹوری (Alpha Centauri) ہے۔ یہ زمین سے 4،3 نوری سال کے فاصلہ پر ہے۔ نوری سال کیا ہوتا ہے؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’نور کی رفتار فی سیکنڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل ہے ایک لاکھ چھیاسی ہزار کو ساٹھ سے ضرب دیں گے تو ایک منٹ کی رفتار نکل آئے گی پھر اُسے چوبیس سے ضرب دیں تو ایک دن کی رفتار نکل آئے گی اور پھر اُسے تین سو ساٹھ سے ضرب دیں تو ایک سال کی رفتار نکل آئے گی۔ اس بنیاد پر جب وہ ایک ستارے کا دوسرے ستارے سے فاصلہ بتانا چاہیں تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ ستارہ اتنے میل دُور ہے بلکہ کہیں گے کہ وہ بیس سالِ نوری کے فاصلہ پر ہے یا ایک ہزار سالِ نوری کے فاصلہ پر ہے مطلب یہ کہ ایک سالِ نوری کا جس قدر فاصلہ بنتا ہے اُسے اُتنے سالوں سے ضرب دے لو اور پھر خود ہی اندازہ لگا لو کہ ان میں کتنا فاصلہ ہے۔‘‘(تفسیر کبیر)۔ اس وقت وائجر 1 کی رفتار 17 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ اس کو قریب ترین کسی دوسرے ستارے تک پہنچنے کے لیے 70 ہزار سال لگیں گے۔ یہ تو تھا ہمارے قریب ترین ستارے کا فاصلہ اب ہم دیکھتے ہیں کہ جس کہکشاں میں ہم رہتے ہیں جس کا نام ملکی وے (Milky Way Galaxy) ہے وہ کتنی بڑی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق اس میں 300 بلین ستارے ہیں۔ (دس لاکھ کا ایک ملین ہوتا ہے۔ اور ایک ہزار ملین کا ایک بلین ہوتا ہے)۔ یہ تمام ستارے اپنے محور کے گرد 220 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش کر رہے ہیں۔ ہماری کہکشاں سے قریب ترین کہکشاں Andromeda Galaxy ہے۔ یہ ہماری کہکشاں سے 2 ملین(یعنی 20 لاکھ ) نوری سال کے فاصلہ پر ہے۔ پس ملکی وے اور اس جیسی 50 کہکشائیں مل کر ایک گروپ تشکیل دیتی ہیں جس کا نام سائنسدانوں نے Local Group رکھا ہے۔ یہ سب کہکشائیں 10 ملین (ایک کروڑ) نوری سال پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس گروپ سے اوپر کی تقسیم کو جھرمٹ (cluster)کہتے ہیں۔ جس جھرمٹ میں ہمارا گروپ ہے اس کو ورگو سپر کلسٹر (Virgo Super Cluster) کہتے ہیں۔ اس میں بشمول ہمارے گروپ کے 100 گروپ ہیں۔ اور اس کا کل فاصلہ 110 ملین نوری سال ہے۔ اور یہ 100 جھرمٹوں میں سے ایک جھرمٹ ہے جس کو سائنسدان دوربین سے اب تک مشاہدہ کر چکے ہیں۔ پس اگر خلاصةً ذکر کیا جائے تو انسان اب تک 2 ٹرلین (2000 ملین ) کہکشاؤں کو دوربین سے دیکھ چکا ہے اور اس کائنات کا اندازہ 100 بلین (دس کروڑ) نوری سال لگا چکا ہے۔ اب ہم یہ سب کچھ تو جان چکے، صرف ایک سوال باقی ہے کہ کیا جتنی کہکشائیں بننی تھیں وہ سب بن چکیں؟؟ ایسا ہرگز نہیں۔ سائنسدان اس بات کو مانتے ہیں کہ کہکشائیں لگاتار بن رہی ہیں۔ یہ دو طرح سے بن رہی ہیں، ایک تو یوں کہ مختلف کہکشائیں آپس میں ٹکرا کر نئی کہکشائوں کو جنم دیتی ہیں اور دوسری طرح یوں بھی کہ وہ مادہ جس سے سیارے اور ستارے بنتے ہیں وہ خلا میں کثرت سے موجود ہے۔ اس مادہ کو warm-hot intergalactic medium – WHIM کہا جاتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 40 سے 50 فیصد مادہ ابھی تک کہکشاں کی صورت میں تبدیل نہیں ہوا اور خلا میں موجود ہے۔
سفیدی مائل نیلا نقطہ
14؍فروری 1990ء کو جب وائجر-1 (Voyger 1) زمین سے 6بلین کلومیٹر دُور جا چکی تھی تو آخری بار اس کو زمین سے ہدایات بھیجی گئیں کہ اپنے کیمرے کا رخ زمین کی طرف کر کے آخری بار زمین کی ایک تصویر لے اور اسے زمین پر بھیجے۔ تو اس نے یہ تصویر بھیجی، جس میں سفیدی مائل نیلا نقطہ دراصل ہماری زمین ہے۔ سائنسدان کارل سیگن (Carl sagan) نے اسی پر 1994ء میں کورنیل یونیورسٹی ( Cornell University ) نیو یارک میں اپنی تقریر کی A Pale blue dot (ایک سفیدی مائل نیلا نقطہ)۔ اس میں وہ کہتے ہیں: ’’ہم نے اس تصویر کو لینے میں کامیابی حاصل کی، اور اگر آپ اسے دیکھیں، تو آپ کو ایک نقطہ نظر آئے گا۔ دوبارہ اس نقطے کو دیکھیں۔ وہ ہمارا گھر ہے۔ وہ ہم ہیں۔ اس پر آپ کا ہر وہ شخص جسے آپ پیار کرتے ہیں، ہر وہ شخص جسے آپ جانتے ہیں، ہر وہ شخص جس کے بارے میں آپ نے سنا ہے، ہر انسان جو کبھی تھا، انہوں نے اپنی زندگی یہاں گزاری۔ ہماری خوشیوں اور تکالیف کا مجموعہ، ہزاروں پُر اعتماد مذاہب، نظریات، اور معاشی اصول، ہر شکاری اور خوراک جمع کرنے والا، ہر ہیرو اور بزدل، ہر تہذیب کا خالق اور تباہ کنندہ، ہر بادشاہ اور کسان، ہر نوجوان جوڑے کا پیار، ہر ماں اور باپ، پر امید بچہ، موجد اور محقق، ہر اخلاقیات کا استاد، ہر بدعنوان سیاستدان، ہر سپر اسٹار، ہر اعلیٰ راہنما، ہر مقدس اور گنہگار انسانیت کی تاریخ میں، سب وہاں رہتے تھے…ایک دھول کے ذرہ پر جو ایک دھوپ کی کرن میں معلق ہے۔زمین ایک وسیع کائناتی میدان میں ایک بہت چھوٹا اسٹیج ہے۔ ان تمام جرنیلوں اور شہنشاہوں کے بہائے گئے خون کی ندیوں کے بارے میں سوچیں تاکہ جلال اور فتح میں، وہ ایک نقطے کے ایک حصے کے عارضی مالک بن سکیں۔ اس نقطہ کے ایک کونے کے باشندوں کی دوسرے مشکل سے پہچانے جانے والے کونے کے باشندوں پر کیے گئے بے انتہا ظلم کے بارے میں سوچیں، ان کی غلط فہمیوں کی کتنی کثرت ہے، ایک دوسرے کو مارنے کی کتنی شدت ہے، ان کی نفرتیں کتنی شدید ہیں۔ہماری نمائش، ہماری خیالی خود اہمیت، یہ فریب کہ ہم کائنات میں کسی خصوصی مقام پر ہیں، یہ مدھم روشنی کا نقطہ اس خیال کو چیلنج کر رہا ہے۔ ہمارا عظیم سیارہ محیط کائناتی اندھیرے میں ایک تنہا ذرے کی مانند ہے۔ اس عظمت میں، اس وسعت میں، کوئی اشارہ نہیں ہے کہ ہمیں بچانے کے لیے کہیں سے مدد آئے گی۔کہا جاتا ہے کہ فلکیات ایک عاجزی پیدا کرنے والا اور کردار ساز تجربہ ہے۔ شاید انسانوں کے فخر کی بے وقوفی کی اس سے بہتر کوئی مثال نہیں ہے جتنا یہ دُور کی تصویر ہماری چھوٹی سی دنیا کی ہے۔ میرے نزدیک، یہ ہماری ذمہ داری کو اجاگر کرتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں، اور اس مدھم نیلے نقطے کو محفوظ رکھیں، جو کہ ہمارا واحد گھر ہے جو ہم نے کبھی جانا ہے۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک، یہ ہماری ذمہ داری کو اجاگر کرتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں، اور اس مدھم نیلے نقطے کو محفوظ رکھیں اور اس کی قدر کریں، جو ہمارا واحد گھر ہے جو ہم نے کبھی جانا ہے۔‘‘
یہ تو تھی سائنسی تحقیق اور سائنسی لحاظ سے کائنات کی وسعت کا ایک اندازہ۔ اب دیکھتے ہیں قرآن کریم کیا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں 129؍ جگہ فرماتا ہے کہ السماوات والارض (آسمانوں اور زمین )۔ یعنی 129؍ مرتبہ آسمان کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کر کے فرمایا کہ آسمان بکثرت ہیں۔پھر 29؍ جگہ پر فرمایا کہ خَلْق السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یعنی زمین اور آسمانوں کی پیدائش کا محاورہ استعمال ہوا ہے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ ان جگہوں پر اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔
اللہ فرماتا ہے: إِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ۔(آل عمران:۱۹۱) ( ىقىناً آسمانوں اور زمىن کى پىدائش مىں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے مىں صاحبِ عقل لوگوں کے لیے نشانىاں ہىں )
1: اس کی وضاحت میں فرمایا: الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُورٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيْرٌ (الملك:۴-۵) (وہى جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پىدا کىا تُو رحمان کى تخلىق مىں کوئى تضاد نہىں دىکھتا پس نظر دوڑا۔ کىا تُو کوئى رخنہ دىکھ سکتا ہے نظر پھر دوسرى مرتبہ دوڑا، تىرى طرف نظر ناکام لوٹ آئے گى اور وہ تھکى ہارى ہوگى)۔ بتا دیا کہ میں ایک ہی اس کو بنانے والا ہوں۔ اس کو بنانے والے متفرق ہوتے تو اس میں رخنے ہوتے مگر دیکھو کہ ہر ایک چیز اپنی جگہ پر قائم دائم ہے۔ کوئی رخنہ نہیں ہے۔ اے انسان تم تھک جاؤ گے مگر خدا کی تخلیق میں رخنہ نہ ڈھونڈ پاؤ گے۔اور فرمایا کہ اگر ایک بار میں تمہیں کچھ نہ ملے تو بے شک دوبارہ تحقیق کر لو مگر پھر بھی تم ہی ناکام و نامراد ہو گے اور خدا کی تخلیق میں رخنہ نہ ڈھونڈ سکو گے۔ اب دیکھیں کہ لاکھوں کروڑوں سیارے اور ستارے اپنے محور میں گردش کر رہے ہیں اور پورا نظام خوبصورتی سے چل رہا ہے۔ کیا یہ سب اتفاقی ہو گیا ؟ ہر گز نہیں۔ مشہور سائنسدان لوئیس پاسچر (Louis Pasteur) کہتے ہیں کہ
“ Little Science takes you away from God. but, more of it takes you to him.”
(سائنس کا تھوڑا علم انسان کو خدا سے دور لے جاتا ہے، مگر جون جوں اس کی گہرائی میں جائیں تو یہ سائنس انسان کو خدا کے قریب لے جاتی ہے۔)
2: پھر بتا دیا کہ جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ إِنْ يَّشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ (ابراهيم:20) (کىا تُو نہىں جانتا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمىن کو حق کے ساتھ پىدا کىا ہے اگر وہ چاہے تو (اے انسانو!) تمہىں لے جائے اور نئى مخلوق لے آئے ) کہ وہ خدا جس نے 2000 ملین کہکشائیں بنا دیں اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ تمہیں مٹا دے اور ایک نئی مخلوق لے آئے۔ جو اتنا وسیع نظام بغیر رخنہ کے پیدا کر سکتا ہے اس کے لیے ایک معمولی انسان کی تخلیق کون سا مشکل کام ہے۔
3: پھر فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ (الأنعام:2) (تمام حمد اللہ ہى کى ہے جس نے آسمانوں اور زمىن کو پىدا کىا اور اندھىرے اور نور بنائے پھر بھى وہ لوگ جنہوں نے کفر کىا اپنے ربّ کا شرىک ٹھہراتے ہىں ) یعنی لوگ انبیاء کی بات کا انکار کر دیتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں یا ستاروں کی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔ ان کو بتایا کہ تم کس طرح سورج یا چاند یا ستاروں کو خدا گردانتے ہو؟آسمانوں اور زمین اور نور اور اندھیرے کو دیکھو اور عقل کرو کہ ان کو بنانے والا ہی اصل خالق ہے اور اصل معبود ہے۔ وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔
4: پھر فرمایا: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَأَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (العنكبوت:62) (اور اگر تُو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمىن کو پىدا کىا اور سورج اور چاند کو مسخر کردىا تو وہ ضرور کہىں گے: اللہ نے تو پھر (وہ) کس طرف اُلٹے پھرائے جاتے ہىں) یہاں بتا دیا کہ یہ جو تم سورج کو روزانہ طلوع ہوتا دیکھ رہے ہو اور چاند سے تاریخوں کا حساب لگاتے ہو، یہ یوں ہی اتفاقی طور پر نہیں ہے، بلکہ یہ خدا کے بتائے ہوئے محور میں گردش کر رہے ہیں۔ اور آج کی سائنسی تحقیق ثابت کر چکی ہے کہ ہر چیز محو گردش ہے۔ زمین اپنے مدار میں اور سورج اپنے مدار میں، اور کہکشاں اپنے مدار میں۔
5: پھر فرمایا: إِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيْمِ خَالِدِيْنَ فِيْهَا وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَأَلْقٰى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ هٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَأَرُوْنِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖ بَلِ الظَّالِمُوْنَ فِيْ ضَلَالٍ مُبِيْنٍ (لقمان:9-12) (ىقىناً وہ لوگ جو اىمان لائے اور نىک عمل بجا لائے ان کے لیے نعمت والى جنتىں ہىں وہ ہمىشہ ان مىں رہىں گے (ىہ) اللہ کا سچا وعدہ ہے اور وہ کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔ اس نے آسمانوں کو بغىر اىسے ستونوں کے بناىا جنہىں تم دىکھ سکو اور زمىن مىں پہاڑ بنائے تاکہ تمہىں خوراک مہىا کرىں اور اس مىں ہر قسم کے چلنے والے جاندار پىدا کیے اور آسمان سے ہم نے پانى اتارا اور اِس (زمىن) مىں ہر قسم کے عمدہ جوڑے اُ گائے۔ ىہ ہے اللہ کى تخلىق پس مجھے دکھاؤ کہ وہ ہے کىا جو اُس کے سوا دوسروں نے پىد اکىا ہے حقىقت ىہ ہے کہ ظلم کرنے والے کھلى کھلى گمراہى مىں ہىں۔ ) یہاں واضح طور پر دو باتیں بتا دیں۔پہلے تو فرما دیا کہ میں اپنے ایمان لانے والوں کو جنتوں سے نوازوں گا۔ اس کی وضاحت جامع ترمذی کی ایک روایت سے کرتے ہیں۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا موسیٰؑ نے اپنے رب سے پوچھا اور عرض کیا اے میرے رب! اہل جنت میں سے کون سب سے کمتر درجے کا ہے۔ اس نے کہا ایک آدمی، وہ آئے گا بعد اس کے کہ جنت والے جنت میں داخل ہو چکے ہوں گے۔ اس سے کہا جائے گا تم جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ کہے گا میں جنت میں کیسے داخل ہوں جب کہ لوگ اپنی منزلوں پر اتر چکے ہیں اور وہ اپنی جگہیں لے چکے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا اس سے کہا جائے گا کیا تم خوش ہوتے ہوکہ تمہارے لیے ہو جو دنیا کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کے لیے ہوتا ہے۔ وہ کہے گا ہاں اے میرے رب! میں خوش ہوں گا اگر وہ سب مل جائے۔ تو اس سے کہا جائے گا تمہارے لیے وہ سب ہے اور اس جیسا اور بھی، اور اس جیسا اور بھی، اور اس جیسا اور بھی۔ تو وہ کہے گااے میرے رب! میں خوش ہو گیا۔پھر اس سے کہا جائے گا تمہارے لیے یہ سب کچھ ہے اور اس سے دس گنا اور بھی۔ وہ کہے گا اے میرے رب! میں خوش ہو گیا۔ تو اس سے کہا جائے گاتمہارے لیے اس کےساتھ وہ سب کچھ بھی ہے جو تمہارے نفس نے پسند کیا اور جس سے تمہاری آنکھ نے لذت پائی۔ (جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب من سورة السجدة )۔
اب کوئی کہہ سکتا تھا کہ دنیا کے ہر انسان کو اتنا دیا جائے تو یقیناً دینے والے کا خزانہ اس قدر ہی وسیع ہونا چاہیے۔ تب ہی تو فرمایا کہ آسمانوں کو دیکھو میری حکومت کس قدر وسیع ہے۔
6: پھر فرمایا: أَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلٰٓى أَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلٰى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيْمُ (يٰس:82) ( کىا وہ جس نے آسمانوں اور زمىن کو پىدا کىا ہے اس بات پر قادر نہىں کہ ان جىسے پىدا کر دے کىوں نہىں جبکہ وہ تو بہت عظىم خالق (اور) دائمى علم رکھنے والا ہے )۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہماری کائنات لگاتار وسیع ہورہی ہے۔ جو تعداد بیان کی جاتی ہے وہ ایک اندازہ سے بڑھ کر کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔
7: پھر فرمایا کہ دوام صرف خدا کی ذات کو ہے۔ یہ کائنات اور اس کے سیارے اور ستارے اپنی میعاد تک کے لیے اپنے محور میں گھوم رہے ہیں۔ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَّجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ (الزمر:6) (اس نے آسمانوں اور زمىن کو حق کے ساتھ پىدا کىا وہ دن پر رات کا خول چڑھا دىتا ہے اور رات پر دن کا خول چڑھا دىتا ہےاور اُسى نے سورج اور چاند کو مسخر کىا ہر اىک اپنى مقررہ مىعاد کى طرف متحرک ہے خبردار وہى کامل غلبہ والا (اور) بہت بخشنے والا ہے ) اور اب سائنس اس کو مانتی ہے کہ مختلف کہکشائیں آپس میں ٹکرا کر نئی کہکشاؤں کو جنم دیتی ہیں، اس دوران کئی نئے سورج اور کئی نئے ستارے جنم لیتے ہیں اور کئی تباہ ہو جاتے ہیں۔ ہماری کہکشاں (milky way) بھی اپنی قریبی کہکشاں سے ٹکراؤ کے راستے پر گامزن ہے اور ایک محتاط اندازہ کے مطابق Andromeda Galaxy سے 5 ملین سالوں میں ٹکرا جائے گی۔
8: پھر فرمایا: إِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِي اٰيَاتِ اللّٰهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِيْهِ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ إِنَّهٗ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (المؤمن:57-58) (ىقىناً وہ لوگ جو اللہ کى آىات کے بارہ مىں اىسى کسى قطعى دلىل کے بغىر جھگڑتے ہىں جو اُن کے پاس آئى ہو، اُن کے دلوں مىں اىسى بڑائى کے سوا کچھ نہىں جسے وہ کبھى بھى پا نہىں سکىں گے پس اللہ کى پناہ مانگ ىقىناً وہى بہت سننے والا (اور) گہرى نظر رکھنے والا ہے۔ ىقىناً آسمانوں اور زمىن کى تخلىق انسانوں کى تخلىق سے بہت بڑھ کر ہے لىکن اکثر لوگ جانتے نہىں ) اب یہاں منکرین کو انذار فرمایا کہ وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق کر دیا تو اس کے لیے منکرین کو تباہ کر کے نئی مخلوق لانا کونسا مشکل امر ہے۔ گویا انسان کو خوف دلایا کہ اپنی تباہی سے بچیں، آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کریں اور اس ایک واحد خدا کے فرماں بردار بنیں۔
9: پھر فرمایا: أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلٰٓى أَنْ يُّحْيِيَ الْمَوْتىٰ بَلىٰ إِنَّهٗ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (الأحقاف:34)(اور کىا انہوں نے نہىں دىکھا کہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمىن کو پىدا کىا اور وہ ان کى تخلىق سے تھکا نہىں، اس بات پر قادر ہے کہ مُردوں کو زندہ کرے کىوں نہىں! ىقىناً وہ ہر چىز پر جسے وہ چاہے دائمى قدرت رکھتا ہے )۔ یعنی بعث بعد الموت جسے دوسرے لفظوں میں قیامت یا یوم حشر بھی کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں فرمایا کہ وہ قادر خدا جس نے بے انتہا ستاروں اور سیاروں کو پیدا کر دیا اور ان کی تخلیق سے وہ ہرگز تھک نہیں گیا، اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کونسا مشکل کام ہے۔
10:پھر فرمایا: يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ وَاللّٰهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ ذٰلِكَ بِأَنَّهُ كَانَتْ تَأْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالُوْٓا أَبَشَرٌ يَهْدُوْنَنَا فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ (التغابن: 5-7)(وہ جانتا ہے جو آسمانوں اور زمىن مىں ہے اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور اللہ سىنوں کى باتوں کو ہمىشہ جانتا ہے۔کىا تم تک ان لوگوں کى خبر نہىں پہنچى جنہوں نے پہلے کفر کىا تھا پس انہوں نے اپنے فىصلے کا وبال چکھ لىا اور ان کےلیے بہت دردناک عذاب (مقدر) ہے۔ىہ اس لیے ہے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے نشانوں کے ساتھ آىا کرتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ کىا ہمىں بشر ہداىت دىں گے پس انہوں نے انکار کىا اور منہ پھىر لىا اور اللہ بھى بے نىاز ہوگىا اور اللہ غنى (اور) صاحبِ حمد ہے) یہاں بھی بتا دیا کہ آسمان اور زمین کی تخلیق پر غور کرو۔ میں نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور میں نے ہی اپنا نبی تم میں بھیجا ہے۔ تم اس کی بات نہ مان کر میرے منکر ہوتے ہو۔ اور چاہے تم اظہار نہ بھی کرو تب بھی میں جاننے والا ہو جو تم سینوں میں چھپاتے ہو۔ پس فرمایا کہ اللہ تو پوری کائنات کو جاننے والا ہے اس کے لیے ایک حقیر انسان اور اس کے نفس کے خیالات کو جاننا تو انتہائی سے ابھی انتہائی آسان ا مر ہے۔ یہ آخری آیت تو اس زمانہ کے لوگوں کے لیے بھی نشان ہے کہ وہ کیوں حضرت مسیح موعود ؑکا انکار کرتے ہیں اور اللہ کی نشانیوں کو نہیں دیکھتے۔
احادیث مبارکہ
اب چند احادیث مبارکہ بھی پیش خدمت ہیں۔
1: حضرت ابو ذرؓ نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتا ہے اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو۔ … اگر تمہارے پہلے اورتمہارے آخری اورتمہارے زندہ اورتمہارے فوت شدہ اور تمہارے تازہ اور تمہارے خشک اکٹھے ہو جائیں ایک میدان میں اور تم میں سے ہر انسان مانگے جس حد تک اس کی تمنا پہنچتی ہے تو میں تم میں سے ہر مانگنے والے کو دوں تو یہ میری بادشاہت میں کمی نہیں کرے گا سوائے جس طرح تم میں سے کوئی ایک سمندر سے گزرے اور اس میں سوئی ڈبوئے پھر وہ اسے اپنی طرف اٹھائے کیونکہ میں سب سے زیادہ سخی، غنی ہوں اور بزرگی والا ہوں میں کرتا ہوں جو میں ارادہ کرتا ہوں۔ (جامع ترمذی کتاب صفة القیامة )
اب خود دیکھیں صرف سورج ہی ہماری زمین سے 109 گنا بڑا ہے۔ NASA کے مطابق صرف ہماری کہکشاں میں 200 ملین اس جیسے ستارے ہیں۔ کہاں صرف یہ کہکشاں اور کہاں لاکھوں کروڑوں اور کہکشائیں۔
2: آنحضرت ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؐ نے متفرق مواقع پر آخرت اور جنت کی نعماءکو اپنے لیے پسند کیا اور دنیاوی نعماءکو بے حیثیت قرار دیا۔ اور اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کو جو آخرت کی نعماءدکھا چکا تھا اس کے سامنے یہ دنیا حقیر تھی۔ آپؐ نے فرمایا کیا تم خوش نہیں ہوتے کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب تبتغی مرضاة ازواجک)۔
اور یہی وجہ تھی کہ آپ مال کو یوں خرچ کرتے تھے کہ جیسے آپ کے لیے وہ بے حیثیت ہو۔ پھر ایک موقع پر ایک بادیہ نشین آیا اور اس نے مال کی درخواست کی تو آپؐ نے بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ اس کو عطا فرما دیا۔ اس نے واپس جا کر اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! محمد ؐپر ایمان لے آؤ کیونکہ وہ ایسے خرچ کرتے ہیں جیسے انہیں فقر کا خوف ہی نہ ہو۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول اللہﷺ …)
پس ان چند مثالوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب انبیاء جو خدا کے مقرب وجود ہوتے ہیں، وہ خدا کی قدرت کو جان لیتے ہیں تو یہ دنیا اور اس کی نعماءان کے لیے بے حیثیت ہو جاتی ہیں۔ وہ کیوں اپنی قوم کے ایمان نہ لانے پر دکھ کا شکار ہوتے ہیں ؟ اسی لیے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی قوم بھی ان دنیا کی عارضی نعماءکو چھوڑ کر اس خدا کی دائمی نعماءکو حاصل کریں جو اس دنیا سے کہیں زیادہ تسکین والی ہیں۔
3: خدا کا علم کامل ہے۔ اور وسعت کائنات کا ہم صرف ایک اندازہ لگا سکتے ہیں۔ خدا کے علم کے مقابل پر ہمارے علم کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ حضرت خضر نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا تھا جب ایک پرندہ نے سمندر سے اپنی چونچ میں پانی لیا کہ ’’اللہ کی قسم ! میرا اور تمہارا علم بمقابل علم الٰہی اتنا ہی ہے جتنا کہ اس پرندے نے سمندر سے اپنی چونچ میں لیا ہے۔‘‘(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب فلما بلغا مجمع ……)
پس موجودہ زمانہ میں دنیا دھوکا، ایذاء، لالچ اور حرص میں بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خدا کے بھیجے گئے مرسل کے انکار میں بڑھ رہی ہے۔ اور نہیں جانتی کہ مرسل کے انکار کی وجہ سے قومیں تباہ کر دی جاتی ہیں۔ وہ زمین و آسمان پر غور نہیں کرتے تا سبق حاصل کریں اور سمجھیں کہ جس قادر خدا کا فرمان ہم نہیں مان رہے وہ کس قدر قدرت کا حامل ہے۔ شاید کہ انہیں ادراک ہو اور شاید کہ وہ اس ذات کے غضب سے خوف کھائیں اور امام زمان کو مان کر گذشتہ تمام انبیاء کی صداقت کو ماننے والے ہوں۔ آمین
(مزید تحقیق کے لیے درج ذیل ویب سائٹس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے)
www.Nasa.org
www.en.m.wikipedia.org
www.theplanets.org
www.voyager.jpl.nasa.gov
www.planetary.org
www.blogs.nasa.gov