حضرت مصلح موعود ؓ

قیام امن مومن کا فرض ہے (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۳۰؍ جون ۱۹۲۲ء) (قسط اوّل)

۱۹۲۲ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔اس میں آپؓ نے قیام امن کے فلسفہ پر روشنی ڈالی ہے۔قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

تشہدو تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

دنیا میں اﷲ تعالیٰ نے امن اور عدل کے قائم رکھنے کے لیے کچھ قواعد مقرر فرمائے ہیں۔ وہ قوانین اس قسم کے ہیں کہ اُن کو نظرانداز کرنے اور اُن سے لاپرواہی کرنے سے نہ تو کوئی خود امن سے رہ سکتا ہے نہ دوسرے رہ سکتے ہیں۔

تم یہ بات ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ بِلاامن کے بھی کوئی آرام میسر ہو سکتا ہے۔

دنیا میں جتنی بےچینیاں ہیں وہ سب بےامنی کا نتیجہ ہیں بلکہ بےاطمینانی نام ہی بےامنی کا ہے۔ غور کرو جس شخص کی آنکھ، ناک، کان، زبان، انتڑی، معدہ، پھیپھڑا، جگر، دل، تلی وغیرہ سب امن میں ہوں کیا وہ بےآرام ہوا کرتا ہے، انسان کب بےآرام ہوتا ہے؟ تبھی جب اُس کے جسم میں امن نہیں رہتا۔ اُس کے جسم کے کسی حصہ میں جنگ شروع ہوتی ہے وہ تمام بےچینیاں جو جسم سے متعلق ہیں تب ہی ہوتی ہیں جب جسم کے کسی حصہ میں بےامنی ہو۔ یہی حالت جذبات اور خیالات میں بےچینی کی ہے۔

دل کی بےچینی کو اگر دیکھو تو وہ بھی بےسبب نہیں ہوتی۔

کوئی چیز ہوتی ہے جو اُس پر حملہ کرتی ہے اور دل کی پیاری چیز کو دکھ پہنچاتی ہے۔ تب دل میں بےچینی پیدا ہو جاتی ہے۔ رشتہ داروں یا جذبات میں، دین کے معاملات میں، تمدنی یا سیاسی حالات میں بےامنی ہی کا نتیجہ بےاطمینانی ہوتی ہے۔ کیا وہ ملک بھی غیرمطمئن ہوتے ہیں جن کو کسی دشمن کا خوف نہیں ہوتا اور ان پر کوئی حملہ نہیں کرتا؟

غرض یہ بےچینی اور بےآرامی فقدانِ امن ہی کا نام ہے۔ جب امن اٹھ جائے یا اٹھ جانے کا اندیشہ ہو تب بےآرامی ہوتی ہے۔

پس کوئی نہیں کہہ سکتا کہ امن کی ضرورت نہیں یا ہمیں چین اور اطمینان کی ضرورت نہیں۔ ہر ایک شخص کے مدّنظر آرام اور اطمینان ہوتا ہے۔ اگر ایک بیوقوف اور جاہل سے بھی پوچھا جائے کہ تم آرام و اطمینان چاہتے ہو یا بےآرامی اور بےاطمینانی؟ تو وہ یہی کہے گا کہ مجھے آرام اور اطمینان کی ضرورت ہے۔

انسانی زندگی کی ساری کی ساری کوششیں صرف ہی اطمینان اور آرام کے لیے ہوتی ہیں۔

انسان کھانا کیوں کھاتا ہے؟ کپڑا کیوں پہنتا ہے؟ مکان کیوں بناتا ہے؟ علم کیوں پڑھتا اور محنت اور مشقت کیوں برداشت کرتا ہے؟ اس لیے کہ اُس کو آرام ملے، دنیا کے سب کے سب کام آرام اور خوشی کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ خوشی بغیر امن کے نہیں میسر آ سکتی۔ کیونکہ

ہر قسم کی بےچینی امن ہی کے اُٹھ جانے کا نام ہے۔ اس لیے انسانی کوششوں کو وہ شخص لغو قرار دیتا ہے جو کہتا ہے کہ امن کی ضرورت نہیں۔

جب تک جسم امن میں نہ ہو، روح امن میں نہ ہو، متعلقین امن میں نہ ہوں، انسان امن میں نہیں ہوتا۔ کسی حصہ میں بےامنی ہو تو انسان بےامنی کی حالت میں ہوتا ہے۔

پس امن کا قائم رکھنا ضروری ہے۔ اسی کے قیام سے انسان کی زندگی خوش اور مطمئن زندگی ہوتی ہے۔

کئی دفعہ لوگ دھوکا کھاتے ہیں جبکہ وہ اس قسم کے واقعات کو دیکھتے ہیں کہ ایک جنگ کر کے بھی امن قائم کیا گیا۔ وہ کہہ دیتے ہیں کہ امن تو جنگ کے ذریعہ قائم ہوتا ہے۔ اصل میں وہ اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں۔

اصل یہ ہے کہ خدا کا قانون جاری ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی کے لیے قُربان کیا جاتا ہے۔ دیکھو! انسان بیمار ہوتا ہے اور حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صدقے سے بیماریاں اور عذاب دور ہو جاتے ہیں۔(کنز العمال الجزء السادس صفحہ۳۴۶،۳۴۵مطبوعہ دمشق ۱۴۳۳ھ)

چنانچہ

لوگ جانور ذبح کرتے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ خونریزی کا نتیجہ امن ہے بلکہ امن نام ہے بڑی بےچینی کے دُور کرنے کا۔

اور وہ چھوٹی بےچینی یا خونریزی کے ذریعہ دور ہوتی ہے۔ ایک ملک جو دوسرے کے مقابلہ میں اس لیے اُٹھتا ہے کہ اُس پر قبضہ کرے اور اُس کو اپنے پیروں تلے رَوند ڈالے اور وہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنائے۔

اب ظاہر ہے کہ غلامی ایک بڑی مصیبت ہے کیونکہ اس میں روح اور جسم دونوں پامال ہوتے ہیں۔

جو قوم بغیر کسی عُذرِظاہری کے اپنے ملک کی توسیع کے لیے بڑھے وہ کبھی مفتوح قوم کے فوائد کو مدّنظر نہیں رکھے گی۔ بلکہ ہر ایک حالت میں اُس کو اپنے ہی فوائد مدّنظر ہوں گے۔ ایسے حالات میں اگر چھوٹا ملک لڑے تو وہ حق بجانب ہو گا اور اس جنگ میں اُس کو خونریزی کرنی پڑے گی جس سے اُس پر سے ایک بلا دُور ہو جائے گی۔

اس پر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ امن نتیجہ ہے فساد کا اور خونریزی کا۔ بلکہ یہ خونریزی اور فساد ایک اَور بڑی خونریزی اور فساد سے بچانے کے لیے کی گئی۔

یا مثلاً ایک شخص کی آنکھ دکھتی ہے۔ ڈاکٹر اس میں کاسٹک یا کوئی اَور تیزاب وغیرہ لگاتا ہے جس سے وہ گندا مواد خارج ہو جاتا ہے یا جسم کے کسی حصہ میں پیپ پڑ جاتی ہے اِس پر پلٹِس[پُلٹِس/پولٹِس:لیپ۔ ضماد۔ لُپڑی۔ پھوڑا پکانے کی دوا جو پکاکر لگائی جاتی ہے۔]باندھی جاتی ہیں یا وہاں نشتر لگائی جاتی ہے۔ اس کاسٹک یا نشتر یا پلٹِس کا نتیجہ صحت نہیں بلکہ ان کے ذریعہ جسم میں ایک خراش پیدا کی گئی ہے جس نے جسم کو مرض کے شدید حملوں سے محفوظ کر دیا ہے۔ مگر لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے۔ شاید وہ امن کو ضروری چیز نہیں سمجھتے۔

جنگ وہیں کی جاتی ہے جہاں جنگ نہ کرنے کی صورت میں ایک بڑی جنگ سر پر پہنچ جائے۔

رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف مکہ والوں نے منصوبہ کیا کہ آپ سے ایک مذہبی جنگ کریں اور چاہا کہ ایک خدا کے بندوں کو اُس کی عبادت اور بندگی سے ہٹا کر بتوں اور مُردوں کے آگے ڈال دیں۔ اب وہ شخص جو بعث بعد الموت پر ایمان لاتا ہے اور جو یقین رکھتا ہے کہ روح مرتی نہیں بلکہ ہمیشہ زندہ رہے گی اور یہ زندگی اُس آنے والی زندگی کے مقابلہ میں بہت مختصر ہے وہ کب گوارا کر سکتا ہے کہ یہاں خدا پرستی چھوڑ کر بُت پرستی اختیار کرے۔ اُس کی نظر میں اِس دنیا کی کچھ بھی وقعت نہیں ہو گی۔ وہ خدا کے تعلق کے مقابلہ میں ہر ایک تعلق کو موت خیال کرے گا۔ پس

چونکہ وہ جسم کے ساتھ روح کو بھی پامال کرنا چاہتے تھے اس لیے اُن کی تلوار کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی گئی کہ ان کے روحانی حملے کو دفع کریں۔

اور یہ جنگ اس لیے کی گئی کہ اس چھوٹی جنگ کے ذریعہ بڑی جنگ اور بڑی آفت سے مقابلہ نہ کرنا پڑے۔ آنکھ میں کاسٹک لگانا صحت نہیں بلکہ اس کے ذریعہ جو مادہ خارج ہوتا ہے اُس سے صحت ہوتی ہے۔ پلٹِس یا نشتر سے صحت نہیں ہوتی بلکہ اندرونی فساد کے مقابلہ میں ایک چھوٹی خراش پیدا کی جاتی ہے جس کے ذریعہ فاسد مادہ خارج ہو کر صحت ہو جاتی ہے۔ پس یاد رکھو کہ

بعض دفعہ چھوٹی جنگیں بڑی جنگ سے بچنے کے لیے کی جاتی ہیں۔

اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ فساد بھی امن کا ذریعہ ہے یا امن ہی ضروری چیز نہیں۔

(باقی آئندہ جمعرات۔ ان شاء اللہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button