میں بھیجا گیا ہوں تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے
مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلائوں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ حضرت مسیح نے اِسی حالت میں یہود کو پایا تھا اور جیسا کہ ضعف ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے۔ سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کازمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین سے نزدیک ہو گا بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا۔ سو مَیں ان ہی باتوں کا مجدّد ہوں اور یہی کام ہیں جن کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۹۱تا۲۹۴ حاشیہ)
اسی میں میرا سرور اور اسی میں میرے دل کی ٹھنڈک ہے کہ جو کچھ علوم اور معارف سےمیرے دل میں ڈالا گیا ہے مَیں خدا کے بندوں کے دلوں میں ڈالوں۔ دُور رہنے والے کیا جانتے ہیں مگر جو ہمیشہ آتے جاتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کیونکر مَیں دن رات تالیفات میں مستغرق ہوں اور کس قدر میں اپنے وقت اور جان کے آرام کو اس راہ میں فدا کر رہا ہوں۔میں ہر دم اس خدمت میں لگا ہوا ہوں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۱۶۱، ایڈیشن۱۹۸۹ء)