بشارت مبین کی یاد میں۔ میری پیاری جیون ساتھی میری رفیقۂ حیات
خاکسار کی اہلیہ مکرمہ بشارت مبین کے والد محترم کیپٹن چودھری محمد شفیع صاحب کا تعلق چک برنا لہ 103-ر ب ضلع فیصل آباد سے تھا جو کہ علاقہ میں سفید پوش ہونے کے ساتھ بااثر اور غریب پرور مشہور تھے۔ کیپٹن صاحب کے چچا زاد چودھری احسان الحق صاحب ایک لمبا عرصہ MNA بھی رہے۔ کیپٹن صاحب بچپن سے ہی علم و ادب میں دل چسپی رکھتے تھے۔ قریب ہی کے گاؤں ’’قاضی والا‘‘ کے ایک احمدی خاندان کے توسّط سے احمدیت سے متعارف ہوئے اور قبولِ حق کی توفیق پائی۔ گھر والوں کی شدید مخالفت کے باوجود اللہ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر قائم رہے۔ اور پھر حق نے ایسا اثر کیا کہ اب ماشاءاللہ ان کے خاندان میں تقریباً ۱۵۰؍ سے زائد افراد احمدی ہیں۔ الحمدللہ۔ آپ کی شادی بھی احمدی خاندان میں ہوئی۔
فوجی اعزاز اور بچی کی پیدائش
۱۶؍ستمبر ۱۹۵۸ء کو آپ کو ترقی ملی اور جس لمحہ آپ کو تمغۂ اعزاز سے نوازا جا رہا تھا گھر سے اطلاع ملی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا ہے۔ اس وقت آپ کی ایبٹ آباد کینٹ میں پوسٹنگ تھی۔ آپ نے اس بیٹی کا نام بشارت مبین رکھا۔ کہتے تھے فوج میں دورانِ ڈیوٹی مجھ پر ایک غلط الزام لگا تھا اور میری ترقی بھی روک دی گئی۔ اس دن بعد از انکوائری مجھے با عزت بری کیا گیا بلکہ مزید ترقی کے ساتھ ایک بڑے فوجی فنکشن میں ایک اعلیٰ فوجی اعزاز سے نوازا گیا۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ ترقی اور اعزاز اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ایک انعامِ خداوندی تھا۔ اسی مناسبت سے اس بیٹی کا نام بشارت مبین رکھا گیا جس کا مطلب کھلی خوشخبری ہے۔
والدین سے محبت
بشارت مبین کو اپنے والدین سے غیر معمولی محبت اور پیار تھا۔ اس نے والدین کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ ان کے والد صاحب اکثر کہا کرتے کہ یہ بیٹی نہیں بلکہ بہادر بیٹے کی مانند ہے۔ اس بیٹی پر بہت ناز کرتے تھے۔ اکثر کہتے میرے سب بچے مجھے بہت پیارے ہیں مگر یہ بھاگوں والی ہے۔ جب یہ گھر آتی ہے تو غیر معمولی رونق ہوجاتی ہے اور برکت بھی آ جاتی ہے۔ کیپٹن صاحب نہایت دعا گو اور ایک مخلص سچے احمدی ہونے کے ساتھ بہت ہی اچھے باپ بلکہ اپنی اولاد کے دوست بھی تھے۔
نکاح، شادی اور اولاد
بشارت مبین کا نکاح خاکسار کے ساتھ مورخہ ۱۴؍نومبر ۱۹۷۷ء کو ہوا جبکہ رخصتانہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۷۸ء کو عمل میں آیا۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں۔ خاکسار کو یقین ہے ہمارا جوڑا واقعۃً آسمان پر بنا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے میری اہلیہ کی صورت میں ایک خوبصورت تحفہ عطا فرمایا۔ الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے محض اپنے خاص فضل سے بشارت کے بطن سے مجھے ایک بیٹی سارہ سحر،کینیڈا اور چار بیٹوں چودھری محمد زکریا طارق، لندن۔ چودھری خالد داؤد احمد، کینیڈا۔چودھری ناصر محمود،بیلجیم اور ڈاکٹر حافظ محمدسجیل احمد،یوکے سے نوازا۔
خاکسار کے والدین اور بہنوں سے وفا
بشارت مبین نے میرے والدین اور میری چھوٹی بہنوں کے ساتھ ایک مثالی تعلق نبھایا۔ میرے والد صاحب کی نظر کمزور تھی اُن کا ہر لمحہ مثالی خیال رکھتی اور بہنوں کے ساتھ تو ایسا سلوک رہا کہ وہ آج بھی انہیں یاد کرتی ہیں۔ ان کی شادیاں کیں اور ان کی اولاد کو، اولاد کی طرح پیار دیا۔ بیماری کے دوران بہنوں نے بھی خوب حق نبھایا۔ کیا کیا اس کی خوبیاں بیان کروں۔میرے خاندان میں بھی اپنے اخلاق اور کردار سے اعلیٰ مقام پایا۔ ہر پروگرام میں مرکزی کردار ادا کرتی۔ اپنی فیملی میں بلکہ خاندان میں بھی اس کے بغیر کوئی پروگرام پایہ تکمیل تک نہ پہنچتا تھا۔
بچوں کی تعلیم و تربیت
ہر ماں اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتی ہے۔ مگر بشارت نے بچوں کی صحت، تعلیم اور اچھی تربیت کے لیے جنون کی حد تک کوشش کی۔ابھی بچے پیدا نہیں ہوئے تھے کہ ایک دفعہ فیصل آباد گرائمر سکول کے قریب سے گزر ہوا تو بے اختیار کہنے لگی اللہ تعالیٰ نے بچے دیے تو میری خواہش ہے کہ اسی سکول میں پڑھائیں گے۔انشاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ جب ہمارے بچے سکول جانے کے قابل ہوئے تو خاکسار کی لاہور سے فیصل آباد ٹرانسفر ہو گئی اور فروری ۱۹۸۴ء میں ہم پیپلز کالونی فیصل آباد رہائش پذیر ہو گئے اور تمام بچے اسی سکول میں داخل ہوئے۔ سارہ بیٹی تو سکول میں تلاوت، تقریر اور دیگر تمام مقابلہ جات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتی چلی گئی اور بیٹے محمد زکریا طارق نے پورے سکول سےمیٹرک میں پہلی پوزیشن حاصل کی جبکہ دوسرے بچے بھی نمایاں پوزیشن حاصل کرتے رہے۔ سکول کی طرف سے بشارت ’’سال کی بہترین ماں‘‘ (Mother of year) بنتی رہی۔ اُس وقت وہ سکول فیصل آباد کے سکولوں میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ خاکسار کا وقت اپنے کام کی وجہ سے اکثر دورہ جات یا فیلڈ میں گزرتا اور دوپہر کے بعد رات دیر تک باہر رہنا ہوتا تھا اِس لیے تمام بچوں کی دیکھ بھال، ہوم ورک اور سکول کی تیاری بشارت ہی کرتی تھی۔ ہمارا گھر بتیس سال تک حلقہ کا نماز سینٹر رہا۔ والد صاحب امام الصلوٰۃ تھے۔ حلقہ کی کثیر تعداد نماز پر آتی۔ نمازیوں کی خدمت میں والدین، بہنوں اور اہلیہ سمیت سب اہلِ خانہ پیش پیش تھے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور اعلیٰ مقام اور کامیابیوں کے پیچھے والدین کی دعائیں تو تھیں ہی۔ تاہم بشارت نے اس کے لیے بہت محنت کی۔ اللہ تعالیٰ میرے والدین اور میری بشارت پر اپنا خاص فضل فرماتا چلا جائے۔ آمین
بیٹی خاکسار کے عزیزوں میں شادی ہو کر کینیڈا چلی گئی اور بیٹا خالد داؤد احمد بھی بہن کی شادی کے معًا بعد کینیڈا چلا گیا۔ اِس وجہ سے بشارت بہت اداس رہتی مگر کسی کو محسوس نہ ہونے دیتی۔ بچوں کی خوشگوار زندگی کے لیے خاموشی سے نمازِ عشاء کے بعد کمرہ بند کر کے دعائیں اور ذکر الٰہی کرتی رہتی۔ حضور کی خدمت میں خطوط لکھتی اور اپنی سہیلیوں اور خاندان کے بزرگ احباب کو دعا کی درخواست کرتی۔ جب کسی بچے کا امتحان ہوتا تو گھر سے جانے سے پہلے دعاؤں کے ساتھ گیٹ پر جا کر رخصت کرنا بھی بشارت کا معمول تھا۔ ایک دفعہ گھر میں آئے کسی مہمان نے ان سے پوچھا آپ کو کونسا بچہ زیادہ اچھا لگتا ہے۔ ایک دم بے اختیار کہنے لگیں میرے تمام بچے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ اسی طرح کینیڈا سے آئی سارہ بیٹی کی جاننے والی نے کہا کہ آنٹی! ہم صرف آپ کو ملنے اور دیکھنے آئے ہیں کہ کون ہے جو ’’سارہ‘‘ کی ماں ہے جس نے اپنی بیٹی کی ایسی اچھی تربیت کی ہے۔
بچوں کی طرف سے خدمت
بچوں نے بھی اطاعت اور خدمت میں حق ادا کر دیا۔ انہوں نے ماں کی پوری زندگی میں انتہا کی خدمت تو کی ہی تھی مگر دورانِ بیماری پانچوں بچوں نے ماں کی خدمت کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ہسپتال میں ماں کی خدمت کے ساتھ ساتھ وارڈ کے دوسرے مریضوں کا بھی خیال رکھتے۔ وہ کہتے یہ مریضہ بہت خوش قسمت ہےجس کے بچے اپنی ماں کی “ملکہ” کی طرح خدمت کرتے ہیں۔
دورانِ بیماری ہسپتال میں خدمت کرنے والوں میں ان کی چھوٹی بہن بشریٰ متین، اِن کی بہوئیں فائزہ معین اور ڈاکٹر آصفہ سجیل اور خاکسار کی دونوں بہنیں شامل ہیں۔ میری بہنیں کہتیں یہ ہماری بھابھی نہیں بلکہ ماں ہیں۔ دورانِ بیماری ان کے اکلوتے بھائی احمد رفیع نے جرمنی سے آ کر بھی خدمت کی۔ فجزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
میری بشارت کو اللہ تعالیٰ نے نرم دل اور پیار کرنے والا وجود بنایا تھا کہ ہر ایک ہی یہ کہتا وہ اُن کے ساتھ زیادہ پیار کرتی ہیں۔ اُن کی طبیعت میں مزاح بھی بہت پایا جاتا تھا۔ خوش شکل، خوش لباس ہونے کے علاوہ ایسا وجود تھا کہ جب کسی پروگرام یا کسی کے گھر جاتیں تو محفل کو کشتِ زعفران بنا دیتیں۔
ذکر الٰہی کا شغف
گھر میں چلتے پھرتے درود شریف اور نظموں کے اشعار پڑھتے رہنا ان کا معمول تھا۔ گھر کے قریب سیر کے لیے بڑا پلاٹ تھا۔ روزانہ سیر کی عادت تھی جس کے دوران ایک ٹارگٹ رکھ کر دعاؤں اور درود شریف کا ورد کرتی رہتی۔
مہمان نوازی
اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خاکسار کا گھر حلقہ پیپلز کالونی مسلم پارک کا نماز سینٹر ہونے کی برکت سے اکثر اجلاسات گھر ہی میں ہوتے، مہمانوں کی تواضع کا انتظام بھی ہمیں کرنے کی توفیق ملتی۔ نہایت شوق اور جذبہ سے انتظام کرتی۔ خاکسار کو محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ صدر جماعت حلقہ، سیکرٹری دعوت اِلی اللہ، قائد مجلس خدام الاحمديہ ضلع و علاقه اور ناظم ضلع مجلس انصار اللہ کی حیثیت سے خدمت کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ مرکزی اور ضلعی مہمانوں کا اکثر آنا ہو تا تھا۔ خاتون خانہ بڑے ہی اہتمام اور عزت سے تواضع کی کوشش کرتی۔
خاکسار جب بھی اپنے ننہیال کے گاؤں “چودھری والا” جاتا یا قریب سے گزرتا تو ماموں چودھری احمد علی صاحب کو اکثر اپنے گھر کے باہر ایک تھڑے پر کرسیاں اور چارپائیوں پر بیٹھے دیکھتا۔اکثر لوگ ساتھ ہوتے۔ محفل سجی ہوتی۔ کچھ نہ کچھ چائے پانی، کھانا چلتا رہتا۔ کچھ عرصہ پہلے جب ممانی جان کی وفات ہوئی تو مَیں نے باہر چارپائیاں نہ دیکھیں مگر بیٹھک کادروازہ کھلا تھا۔ اندر دیکھا تو ماموں جان اور ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ مَیں نے باہر نہ بیٹھنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے۔ امجد! تیری ممانی باہر تھڑے پر آنے والے مہمانوں کی خاطر مدارت کر دیتی تھی۔ کبھی چائے،پانی، لسی یا روٹی بڑے وقار سے پیش کر دیتی۔ جب سے وہ فوت ہوئی ہے مہمان نوازی پوری طرح نہ کر سکنے کے ڈر سے اندر آگیا ہوں کہ عزت رہ جائے۔ کہا کرتے تھے کہ مہمانوں کو سنبھالنا اور مالک کی عزت گھر کی مالکہ، خاتونِ خانہ سے ہی ہوتی ہے۔ اِسی طرح سے ملتی جلتی کیفیت خاکسار کی تھی۔ خاکسار کی عزت اور وقار کا سارا کریڈٹ میری اس ’’بھاگ بھری‘‘ اہلیہ کو ہی جاتا رہا۔ مہمانوں کی آمد پر وافر مقدار میں کھانا پکاتی جو کہ اردگرد غیراحمدی ہمسایوں میں بھی تقسیم کیا جاتا۔
ہمسایوں سے حسنِ سلوک
ہمیں پیپلز کالونی میں ایک لمبا عرصہ رہنے کی توفیق ملی۔ قریبی ہمسایوں سے خصوصاًاور دیگر گھرانوں سے عموماً اس طرح کے تعلقات تھے کہ پتا ہی نہیں چلتا تھا غیر ہیں یا رشتےدار؟ ایک ہمسا یہ فیملی نے بیعت کی توفیق بھی پائی اور ان کے بچوں کی شادیاں بھی احمدی گھرانوں میں کرائیں۔ گھر میں عورتوں کے ساتھ سوال و جواب دوستانہ ماحول میں ہوتے رہتے۔ اگر خطبہ کا وقت ہو گیا تو ایک علیحدہ لجنه ہال تھا وہاں سب مل کر MTA دیکھتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پاکستان میں قیام کے آخری چند سالوں کے دوران ایک اَور کالونی میں نسبتاً بہتر گھر بنانے کی توفیق دی۔ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۰ء تک وہاں رہے۔ وہاں بھی غیر معمولی طور پر متعارف ہوئی، ہمسائے کی اکثرعورتیں گھر آتی رہتیں۔ جماعت کا تعارف بڑے وقار عزت اور بڑی شان سے کرواتی۔ ہمسائے میں اگر کوئی خوشی غمی ہوتی تو بلا تکلف اُن کے مہمانوں کے لیے گھر کے کمرے، اور گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے گیراج وقف کر دیتی یا جس چیز کی ضرورت ہوتی نہایت خوشی اور جذبے سے پیش کرتی۔
جماعتی خدمات
اہلیہ مرحومہ نے شہری مجالس اور ضلعی عاملہ میں تقریباً ۳۰/۳۲ سال مختلف ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق پائی۔ الحمدللہ۔ سیکرٹری ناصرات شہر و ضلع۔ تعلیم، تربیت، جنرل سیکرٹری ضلع اور نائبہ صدر لجنہ اماءالله ضلع کی خدمات کا موقع ملتا رہا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے تقریر لکھنے اور تقریر کرنے کا خاص ملکہ عطا کر رکھا تھا۔ تحریر بھی نہایت خوش خط تھی۔ دیہاتی مجالس کے دورہ جات میں تقریباً ہفتہ میں ۴/۵ روز وفد کے ساتھ جاتی۔ طبیعت میں ایسا مزاح تھا کہ اکثر ممبرز لجنہ کہتیں۔ باجی! اگر آپ میٹنگ یا دورے پر نہیں ہوتیں تو مزا نہیں آتا،بےرونقی ہو تی ہے۔ کسی ضرورت مند عورت یا فیملی کا پتا چل جاتا تو بلا امتیاز احمدی یا غیر احمدی خاموشی سے فوری ضرورت پوری کرتی یا کرواتی۔ اِدھر لندن آکر بھی حلقہ میں غیر معمولی طور پر متعارف ہوئی بلکہ آتے ہی تقاریر اور دست کاری میں انعامات اور اسناد حاصل کیں۔ اپنی بہوؤں، بیٹی اور فیملی کی عورتوں کو خود شوق سے کپڑے بنواکر دیتی۔ خوش لباسی اور خوش مزاجی کے ساتھ ساتھ ہر جگہ محفل لگانے کا ایک خاص ملکہ رکھتی تھی۔ خواتین کی روزی بڑھانے کے نئے نئے طریقے بتاتی رہتی۔ بشارت شاعرہ بھی تھی اور اپنی نجی محفلوں میں اپنے کہے ہوئے اشعار بھی پڑھا کرتی تھی۔ہر ایک کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر دُور کرنا اُس کا شیوہ تھا۔ بچیوں کے رشتے کرانا، کوشش کرنا اور ہر قسم کی مدد کرنے میں خوشی اور سکون محسوس کرتی۔
دعا کی قبولیت کے واقعات
بشارت کی قبولیتِ دعا کے واقعات تو بے شمار ہیں۔ ایک دو کا ذکر تحدیثِ نعمت کے طور پر کر دیتا ہوں۔
٭…خاکسار کی تنخواہ اور لائف انشورنس بزنس میں اِنکم کے باوجود بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور گھریلو اخراجات کے لیے بعض اوقات زیادہ ضرور ت رہتی۔ اِن ضروریات کی وجہ سے اہلیہ نے چپکے سے اللہ تعالیٰ کو خط لکھ کر کچھ رقم کی التجا کی۔ کاغذات ڈھونڈتے ہوئےان میں ایک خط ملا جس کے بارے میں مَیں بھی خاموش ر ہا اور اُس کو پتا نہیں چلنے دیا۔ چند دنوں بعد خود ہی مجھے کہنے لگی آپ کو ضرورت تھی نا ںکسی بچے کی فیس دینے کے لیے، میرے پاس کافی رقم ہے مَیں وہ آپ کو دیتی ہوں۔ میرے پوچھنے پہ بتانے لگی مَیں نے اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی وہ مجھے اللہ تعالیٰ نے دے دی۔ کہنے لگی بیٹی سارہ کا کینیڈا سے مجھے فون آیا کہ مَیں نے جو چیز پاکستان سے لینی تھی ابھی اُس کی ضرورت نہیں اور جو رقم اُس کے لیے بھجوائی تھی اُسے آپ استعمال کر لیں۔ الله تعالیٰ نے یوں وہ ضرورت پوری کر دی۔
٭…بیٹے محمد زکریا طارق نے UET لاہور سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری پاس کرنے کے بعد ہائرایجو کیشن کے لیے یوکے جانا تھا۔ اس کی ماں یعنی بشارت مبین نے بھی جانے کی خواہش کی اور شدت سے دعائیں کرنی اور پیارے حضور کی خدمت میں خطوط لکھنے شروع کر دیے۔ مجھ سے نہایت عاجزی اور اضطراری حالت میں اجازت لینے لگی مگر حالت یہ تھی کہ اُس وقت اسلام آباد جانے کا کرایہ اور ویزا فیس کے لیے انتظام نہیں تھا۔ خاکسار کو غیر معمولی طور پر احساس ہوا۔لیکن ایک جذبے کے ساتھ بس کی ٹکٹ خرید کر رات ایک بجے اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گیا۔ اسلام آباد پہنچ کر خاکسار نے ویزا کے کاغذات جمع کروانے کے لیے ایک ٹریول ایجنسی کے مالک محمد رفیع صاحب سے رابطہ کیا۔ صبح ناشتہ کے لیے کوئی مناسب پیسے بھی نہ تھے۔ ابھی ان کے دفتر پہنچا ہی تھا کہ وہ بے اختیار کہنے لگے اچھا ہوا آپ آگئے آپ کی بہن جو بیلجیم گئی ہیں اُن کی ٹکٹ کا ون سائیڈ کا claimکیا ہوا ہے۔ اگر تو پورا claim لینا ہے تو کچھ دن لگیں گے۔ اگر فوری رقم درکار ہے تو کچھ کی کٹوتی ہو گی۔ مَیں نے کہا آپ خود ہی معاملات دیکھ لیں مجھے جتنی رقم فوری مل سکتی ہے دے دیں۔ وہ رقم لے کر دفتر سے باہر کینٹین میں ناشتہ کیا اور اہلیہ کے یوکے ویزا کے لیے کاغذات جمع کرا دیے۔ ٹھیک تیسرے دن فون آیا کہ بشارت مبین کاپاسپورٹ اسلام آباد سے لے لیا جائے۔ اہلیہ اس وقت نماز پڑ ھ رہی تھی اور فون پر یہ سب سُن چکی تھی۔ نماز سے فارغ ہو کر کہنے لگی کہ ویزا نہیں لگا؟ ہم دونوں دوسرے دن اسلام آباد چلے گئے۔ وہ جب پاسپورٹ لینے گئی تو خوف کے مارے پاسپورٹ چیک کیے بغیر ہی میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ پاسپورٹ کھولاتو چھ ماہ کا ویزا لگا ہوا تھا۔ ابھی راستے میں فیصل آباد کے لیے جا رہے تھے کہ میری چھوٹی بہن کا لندن سے فون آیا کہ بھا بھی! ٹکٹ میری طرف سے۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہوئی تھی کہ ویزا لگے تو اپنی بھابھی کو ٹکٹ مَیں نے لے کر دینی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماں اور بیٹا چند دنوں بعد لندن کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ویزے پہ ویزے جاری کر دیے۔ تقریباً ہر سال لندن جاتی رہی۔ پیارے آقا سے ملاقاتیں کرتی چلی گئی اور پھر آخری آرامگاہ بھی ا ن کی اِدھربرطانیہ ایشنگ لین میں ہی بن گئی۔
مختلف روپ
اللہ تعالیٰ کے فضل سے بشارت میں ایسا منفرد انداز اور خصوصیات تھیں کہ بیٹی، بہن،بیوی، ماں،بہو یا اپنی سہیلیوں میں جہاں بھی ہوتی ایک باغیرت،وفادار،ذمہ دار ایک پاکیزہ ہستی شمار ہوتی۔ سب رشتوں کے ساتھ ایسی مثال قائم کردی کہ تمام عزت و احترام سے یاد کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ جاتے جاتے ایک خوبصورت پیغام بھی دے گئی کہ ہر انسان نے فوت ہونا ہے، دنیا سے چلے جانا ہے مگر اچھا اخلاق، اچھا کردار کبھی نہیں مرتا۔ جیون ساتھی کے طور پر ایسی باوفا، ہمت بڑھانے والی، خدمت کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑنے والی ہستی تھی۔ جب کبھی آپس میں اعلیٰ زندگی گزارنے یا خدمت خلق پہ بات ہوتی تو کہتی کہ انسان کو اپنی ذمہ داری احسن طریق سے ادا کرنی چاہیے۔ لوگوں کی تکالیف اور درد دُور کرنے میں اکثر ٹارگٹ بناتی۔ زندگی میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنے کا اس میں ایک عجیب فن تھا۔ خاکسار بھی کھلے دل سے اقرارکرتا ہے کہ میری اچھی عادات بنانے اور زندگی کو کامیا ب کرنے اور خاص کر بچوں کی تعلیم و تربیت اور اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابیاں دلانے میں اللہ تعالیٰ کی مدد کے ساتھ اُس کو بھی بہت زیادہ کریڈٹ جاتا ہے۔ انسان کمزور ہے، کبھی کبھی اخراجات سے یا ویسے بھی دیگر معاملات سے گھبرا جاتا مگر ایسے حوصلہ بڑھاتی کہ حالات کا سامنا کرنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا۔ میرا ایک مضبوط بازو تھا۔ ایسا با برکت وجود تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی برکت سے گھر بھر دیا اور محض اپنے فضل اور رحم سےاتنا دیا کہ ہر لحاظ سے ہر طرف برکت ہی برکت نظر آتی۔ الحمدللہ
ہماری زندگی کا ساتھ ۴۵؍ سال،ایک ماہ اور پانچ دن رہا جس کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا۔ خاکسار کی والدہ محترمہ مجھے بچپن سے چاند کہتی تھیں وہ بھی مجھے ساری عمر چاند ہی پکارتی رہی۔ خاکسار کی والدہ محترمہ نے جب تک بہنوں کی شادی نہیں ہوئی تھی بشارت کو گھر کا کام کرنے ہی نہیں دیا۔ میری پیاری بہنوں کی جب شادیاں ہوئیں پھر تھوڑا تھوڑا والدہ محترمہ کے ساتھ کام کرتی اور کھا نا پکانے کی تربیت حاصل کرتی۔ جب پیاری امی جان اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں تو پھر گھر کا کام خاص کر کھانے پکانے میں ایسی ماہر ہو گئی کہ ایک مثال قائم کردی۔ وہ خود بھی جماعتی کاموں میں مصروف ہوتی گئی اور خاکسار کی مجلس عاملہ کے اراکین جب گھر آتے تو اکثر کھانا خود تیار کر تی۔ کھانا ڈشوں میں ڈالنے سے پہلے اکثر ایک فقرہ بے اختیار زبان سے نکلتا کہ اللہ تعالیٰ! تُو نے ہی برکت اور عزت رکھنی ہے۔ خاکسار دفتر یا جماعتی کام کی وجہ سے لیٹ ہوتا تومسلسل رابطہ رکھتی۔ بار بار آنے کا پوچھتی۔ گھر آنے پر ہمیشہ کھانا تازہ اور گرم گرم پیش کرتی۔ جیون ساتھی کا رشتہ والدین کے بعد اللہ تعالیٰ نے نہایت اہمیت اور محبت و پیار والابنایا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کے گھروں کو آباد اور شادباد رکھے آمین۔
چند دن علالت کے
ماہ ستمبر ۲۰۲۲ءمیں پیٹ میں درد کی وجہ سے اس کا آپریشن کرانا پڑا اور چند دنوں بعد بالکل ٹھیک بھی ہو گئی۔
یکم دسمبر ۲۰۲۲ء کو بیٹی کینیڈا سے آگئی اور ان کی ماماں بہت خوش ہوئی۔ اسی دن رات کو پھر اُسے تکلیف کی وجہ سے ہسپتال لے جاناپڑا۔ ڈاکٹرنے چیک کرنے کے بعد فکر مندی کا اظہار کیا بلکہ ایک قسم کا جواب ہی دے دیا۔ڈاکٹرز کہنے لگے۔ میڈم! آپ گھر جانا پسند کریں گی یا اِدھررہنا۔ نیز یہ بھی بتایا کہ وہ صرف چوبیس گھنٹے کی مہمان ہے۔ میری اہلیہ ایک دم کہنےلگی۔ ڈاکٹر صاحب! انشاء اللہ اِدھر ہی رہوں گی اور ڈاکٹر صاحب ابھی کچھ نہیں ہونا میری بیٹی دُور سے بڑی دیر بعد آئی ہے۔ ہم سب کے لیے ایک قیامت تھی کہ یہ ڈاکٹرز کیا کہہ رہے ہیں۔ بیٹی کو پیارے حضور کی خدمت میں ملاقات کے لیے اجازت مل گئی تو بیٹی پیارے حضور کو دیکھتے ہی کچھ زیادہ جذباتی ہو گئی اور کچھ بات نہ کر سکی۔ آخر ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنی والدہ کی کیفیت بیان کی تو پیار ےحضور نے دلاسا دیا اور عجیب تسلی، یقین اور سکون کے ساتھ واپس لوٹی۔ حضور کی ہدایت پر ہومیوپیتھی نسخہ لے کر آئی۔ بیٹی نے جب سارا ماجرا اپنی امی کو سنایا تو میری بشارت بڑی دلیری سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کہتی جاتی اب مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ مَیں حضرت صاحب کی دوائی سے ٹھیک ہو جاؤں گی۔ ابھی دو بچے جن کے سفری کاغذات نامکمل تھے اور اُن کے آنے کی کوئی امید نہ تھی یعنی بیٹا خالد داؤد احمد کینیڈا سے اور بیٹا ناصر محمود بیلجیم سے اپنی اہلیہ نرگس کے ہمراہ جن کی ابھی میری اہلیہ سے ملاقات نہ ہوئی تھی دونوں چند دن کے اندر معجزانہ طور پر آ گئے اور ساتھ بیلجیم والی میری بہن بھی پہنچ گئی۔
خاکسار حضور کی خدمت میں مسلسل دعا کی درخواست اور طبیعت کے بارے میں اپڈیٹ کرتا رہا۔ صدقات بھی دیے۔ پیارے حضور، بزرگان اور پاکستان و لندن سے ممبراتِ لجنہ اور مستورات کے فونز اور ہسپتال میں غیر معمولی طور پر آنا جانا شروع ہو گیا۔ بہت عجیب محبت و پیار اور احساس کے نظارے دیکھنے کو مل رہے تھے۔ شاید یہی وجہ بن رہی تھی کہ میری بشارت دن بدن ٹھیک ہوتی گئی اور اٹھ کر خود کھا ناکھانا شروع کر دیا۔
چھوٹے بیٹے ڈاکٹر سجیل احمد کے ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے ہسپتال کے ڈاکٹرز کا کافی تعاون رہا۔ بچوں بالخصوص بیٹی سارہ کو حوصلہ دلاتی رہی۔
یکم دسمبر کو ڈاکٹرز نے صرف چوبیس گھنٹے کی خبر دے کر گھر جانے یا ہسپتال رہنے کا پوچھا تھا مگر میری بشارت نے نہایت یقین اور مسکرا کر کہا تھا کہ مجھے کچھ نہیں ہوتا جب تک مَیں اپنے بچوں کو نہ مل لوں چنانچہ چوبیس گھنٹوں کو اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ دنوں میں بدل دیا اور سارے بچوں سے مل کر اِن کو دعائیں دیتی اِس دنیا سے رخصت ہوئی اوریوں سارے بچوں اور ان کی فیملیز کو ملنے اور اُن کو خدمت کا موقع مل گیا، سب بچوں کو اپنی ماں سے دعائیں لینے کا موقع میسّر آ گیا، ماماں سے قیمتی مشورے کرنے کا موقع مل گیا، بچوں کو خاص کر خاکسار کو ذہنی طور پر تیار کرکے اور صبر کی تلقین کر کے گئی اور پا کستان سے وصیت کے تمام کا غذات پر تمام کارروائی مکمل کروانے کا موقع بھی میسّر آیا۔
خاکسار اپنے بچوں کے ساتھ اپنے پیارے اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعائیں اور درود شریف پڑھتے ہوئے اُس کمرہ کو معطر کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اسی شعر کا ورد کرتا رہتا
ہو فضل تیرا یا رب! یا کوئی ابتلا ہو
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو
آخر وہ وقت قریب آرہا تھا جو تقدیرِ اٹل ہوتی ہے۔ ۱۹؍دسمبر ۲۰۲۲ء بروز سوموار علی الصبح بارہ بج کر سترہ منٹ پر ہر دلعزیز پیارا اور سب کے دلوں میں راج کرنے والا، سب کو حوصلہ دینے والا، بچوں کو نہایت پیار کرنے والا اور مجھے چاند کہنے والا پیارا وجوداس دنیا سے ہمیشہ کےلیے اپنے پیارے حقیقی مالک اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون
جاؤ میری جان! اللہ تعالیٰ کے حوالے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی خاص رحمتوں کے سایہ میں رکھتے ہوئے دائمی طور پر اعلیٰ سے اعلیٰ مقام دیتے ہوئے جنت الفردوس میں ہمیشہ درجات بلند کرتا چلا جائے۔ آمین
اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہمارے پانچوں بچے صاحب اولاد ہیں۔ مرحومہ نے اپنے پیچھے خاکسار،ایک بیٹی،چار بیٹے اورآٹھ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں یادگار چھوڑے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے
ادھر برطانیہ میں عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کی وفات کے بعد مختلف محکمانہ کارروائی کی وجہ سے دس سےبارہ دن لگ جاتے ہیں۔ الله تعالیٰ کی عجیب شان دیکھی کہ تیسرے دن ہی میت کی تیاری کے بعد نماز جنازہ حاضر کے لیے لنڈن سے ’’اسلام آبادUK‘‘ نہایت عزت،وقار سے پہنچایا گیا۔ جہاں ۲۲؍دسمبر بروز جمعرات پیارے حضور نے نماز جنازہ پڑھائی۔ خا کسار اور بچوں کے ساتھ تعزیت کرتے ہوئے نہایت خوبصورت محبت بھرے انداز میں دعادی کہ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک کرے۔ آمین۔ دفنانے کا پروگرام اور بچوں کی تفصیل بھی پوچھی۔ کثیر تعداد نے نماز جنازہ پڑھی۔
تعزیت اور دعاؤں کے ساتھ محبت کا نظارہ
خاکسار اور اہلیہ کو لندن آئے ابھی دو سال ہی ہوئے تھےمگر جنازہ اور تدفین کے وقت ایک کثیر تعداد میں احباب نے شرکت کی۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء
آخری آرام گاه قطعه موصیان
بعد نماز جنازہ مسجد مبارک اسلام آباد برطانیہ سے گیارہ منٹ کی ڈرائیو پر Eashing قبرستان میں جماعتی قطعہ موصیان میں میت کو لایا گیا۔ نہایت اعلیٰ انتظام کے تحت مستورات کی ایک کثیر تعداد نے آخری دیدار کیا۔ سب بچوں کے بہت پیار، محبت اور جدائی کا احساس ان کے چہروں سے محسوس ہو رہا تھاجو کہ نہایت صبر اور ہمت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اور پھر تدفین کے لیے میت کو لے جایا گیا۔ تدفین کے بعد مکرم حنیف احمدمحمود صاحب نے دعا کروائی جو اُس وقت ایڈیٹر روزنامہ الفضل آن لائن لندن تھے۔ آپ خاکسار سے تعزیت کرتے ہوئے کہنے لگے آپ کے گھر فیصل آباد جب بھی جماعتی دوروں پر آنے کا اتفاق ہوا۔ آپ کی اہلیہ مرحومہ کی طرف سے غیر معمولی تواضع کی گئی۔ سب بچوں کو کہنے لگے کہ دروازے کے دو پٹ ہوتے ہیں جن سے تازہ ہوا آتی ہے اور روشنی بھی۔ ماں باپ بھی اِس دروازے کی طرح ہیں اُن سے دعائیں لینے کے لیے دروازہ کا ایک پٹ بند ہوا ہے اور دوسرا باپ کی صورت میں کھلا ہے جس سے حتی المقدور دعائیں لے لیں۔
لے او یار حوالے رب دے، میلے چار دناں دے
اوس دن عید مبارک ہو سی جس دن فیر ملاں گے
٭…٭…٭